یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن کے تعاون سے آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے بتاشے والے مغل مقبرہ کے احاطہ کو بحال کرکے اس کی عظمت رفتہ کو لوٹایا ہے۔
May 2017
’نامعلوم‘ مغل مقبرے کا اندرونی حصہ بحالی کے بعد۔ (تصویر بشکریہ آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت)
نئی دہلی میں واقع سولہویں صدی کا بتاشے والا مغل مقبرے کا احاطہ ایک تعمیراتی شاہکار ہے جو غفلت اوربے توجہی کا شکارہو کر معدوم ہونے کے قریب پہونچ چکا تھا مگر اب تزئین اور بحالی کے بعد اسے کئی نسلوں کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ وہ ایک نجی فلاحی تنظیم آغا خان ٹرسٹ کے یادگاروں کو بحال کرنے کا منصوبہ ہی تھا جس کی وجہ سے اس احاطہ کو ہمایوں کے مقبرے کے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
بھارت میں آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکے چیف ایکزیکٹو افسر، فنِ تعمیر کے ماہر اور ماحولیاتی تحفظ کے حامی رتیش نند اکہتے ہیں ”یہ کسی امید کے عین موافق ہونے والا اہم ترین ثمرہ ہے۔ اس سے پہلے بھارت میں کسی بھی عالمی ثقافتی ورثے کو اس طرح کی وسعت نصیب نہیں ہوئی تھی۔‘‘
اس سہ سالہ اختراعی منصوبے میں استحکام بخشنے کی خاطر فوری مرمت کے وہ اہم تعمیراتی اور تحفظاتی کام شامل تھے جو اس ورثے کی تاریخی اور معماری سالمیت کو بحال کرنے کے لیے ضروری تھے۔ اس کام کے لیے آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کو امریکی وزارتِ خارجہ کے یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن (اے ایف سی پی) نے ۷ لاکھ ۵۰ ہزار ڈالر (قریب ۵ کروڑ روپے ) کی امداد مہیا کروائی تھی ۔ ساتھ ساتھ آغا خان ٹرسٹ فار کلچرنے باغ کو بھی اس کی اصل شکل میں واپس لانے کا کام کیا اور اس سلسلے میں تکنیکی خرچ اور منصوبے کے بندوبست کے اخراجات بھی برداشت کیے ۔
اس احاطہ میں موجود تین تاریخی عمارتوں یعنی بڑا بتاشے والا محل، چھوٹا بتاشے والا محل اور غیر معروف مغل مقبرہ کو ۲۰۱۶ ءمیں یو نیسکو نے عالمی ورثہ کی حیثیت عطا کی تھی۔ توسیعی عالمی ثقافتی ورثے میں سولہویں صدی کے سندر برج کو بھی شامل کیا گیا ہے جسےاے ایف سی پی کی مالی امداد سے آغا خان ٹرسٹ فار کلچرنے ۲۰۱۱ءمیں تحفظ فراہم کیا تھا۔
ہمایوں کے مقبرہ کے شمال میں واقع بتاشے والا احاطہ نئی دہلی کے نظام الدین علاقے میں ہے اور چودہویں صدی کے اوائل ہی سے اپنی موجودگی درج کرا رہا ہے۔ اس کے قریب ہی صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کی معروف درگاہ ہے۔ اس علاقے میں گذشتہ سات صدیوں میں مقبروں کا جال سا بچھ گیا ہے جس کی وجہ سے یہ قومی اہمیت کے ورثے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ نندا وضاحت کرتے ہیں’’ چوں کہ تینوں مقبرے ہمایوں کا مقبرہ کی طرز ِ تعمیر کے حامل باغ والے مقبرے ہی ہیں، اس لیے ان کی نگرانی اور حفاظت مغلیہ دور کے باغ والے مقبروں کے منفرد مجموعے کے طور پر کافی اہم ہے۔ تحفظ فراہم کرنے کی اس کوشش نے خطہ نظام الدین کو توسیعی طور پر سمجھنے میں بھی مدد کی ہے جو سولہویں صدی کے باغ والے مقبروں کے مجموعے پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔‘‘
علمِ ہندسہ کے اصول و قواعد سے تیار پلاسٹر کے کاموں کو از سر نو بحال کیا گیا۔ ماہر کاریگروں نے عہد مغلیہ کے کاریگروں کے ذریعہ استعمال کیے گئے روایتی ساز و سامان اور تکنیک کی مدد سے شکستہ یا غائب نقاشی کو بحال کیا۔(تصویر بشکریہ آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت)
اس منصوبے کا دوسرا اہم پہلو عمارت کی روایتی کاریگری کو فروغ دینا تھا جس کی ضرورت یادگاروں کو بحال کرنے کی پہل کی کوششوں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے محسوس کی جا رہی تھی جس کے تحت سیمنٹ جیسے جدید مادّوں کو استعمال میں لایا گیا تھا ۔ سیمنٹ کے استعمال سے اصل میں عمارتوں کو نقصان ہی پہنچا تھا۔ برسوں تک اسے نظر انداز کیے جانے کا اثریہ ہوا تھا کہ کئی عمارتیں بھی خستہ حال ہو گئی تھیں۔
نندا بتاتے ہیں ” شروع ہی سے یہ بات ہماری سمجھ میں آ گئی تھی کہ راج مستری ، سنگ تراش ، کوزہ گری کے فن کے ماہر اور بڑھئی جیسے روایتی ماہر کاریگروں کے آبا و اجداد کی تخلیقات کی نقل تیار کرنے کے لیے ہمیں انہیں کی ضرورت ہے جو روایتی مادّے ، روایتی اوزار اور تعمیری دستکاری کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہ طریقہ آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکے تاریخی شہروں کے پروگرام کے اصول و ضوابط کے بھی مطابق ہے جس کے تحت ماہر کاریگروں نے ایک لاکھ دن تک کام کیا ۔ نندا بتا تے ہیں کہ آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکا مقصدان درجنوں ممالک میں جہاں یہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، مقامی لوگوں کی زندگی کے معیار میں بہتری لانا ہے اور اس کے لیے تاریخی عمارتوں کے مادّی، سماجی اور اقتصادی احیا ءپر مخصوص اور راست مداخلت کے ذریعہ ثقافتی اثاثوں کو فروغ دینا ہے ۔‘‘
ماہر کاریگرایک کثیر جہتی ٹیم کا حصہ تھے جس میں انجینئر ، تاریخ داں ، تعمیراتی فن اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور دیگر ماہرین شامل تھے۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کے منصوبوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھارتی سیاق و سباق میں نمونے کی خدمات انجام دیں گے اور ملک میں ورثے والی عمارتوں کے دستاویز کے لئے تھری ڈی لیزر اسکیننگ جیسی جدید تکنیک کا استعمال کریں گے ۔
نندا مزید کہتے ہیں ”پائیداردستاویزاتی تحقیقی پروگرام کے بغیر ان منصوبوں کا کامیاب نفاذ ممکن نہیں تھا۔ اس کام کے لیے پوری دنیا سے مختلف ذرائع کا استعمال کرکے سینکڑوں دستاویزی تصویریں حاصل کی گئیں۔ یہ عمارتوں کے انہدام کے نتیجے میں گم ہو جانے والی تفصیلات کی فراہمی اور اسے یقینی بنانے میں کہ کسی بھی تحفظاتی کام کے لیے اس منصوبے کو کسی قیاس آرائی کی ضرورت نہیں ، دونوں ہی کے لیے کافی اہم تھے۔‘‘
نندا بتاتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور روایتی کاریگری کے اختلاط کے علاوہ بتاشے والے منصوبے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحفظ سے متعلق پیچیدہ منصوبے جس میں کثیر جہتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ، نجی اور سرکاری ایجنسیوں کے درمیان شراکت داری سے کیسے مکمل ہو سکتے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی اور قومی تنظیموں اور کارپوریشنوں کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ مالی امداد حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ابھی آغا خان ٹرسٹ فار کلچر وہ واحد ایجنسی ہے جو حکومت ِ ہند کی وزارتِ ثقافت کے تحت کام کرنے والے محکمہ آثار ِ قدیمہ کے زیر حفاظت بھارت کی قومی یادگاروں کے تحفظ کا کام انجام دے رہی ہے۔
نندا اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ”گذ شتہ ایک دہائی میں کیے جانے والے کام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحفظ سے متعلق کام میں کثیر جہتی نقطہ نظر اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس سے کاریگروں کے لیے روزگار کے مواقع، سیاحت کے ذریعہ اضافہ شدہ آمدنی، شہروں میں بہتر جگہ کا حصول اور مقامی لوگوں کے لیے بہتر معیارِ زندگی جیسے حکومت کے اہداف کی تکمیل ہو سکتی ہے ۔ امید ہے کہ آنے والے برسوں میں بھارت میں اس قسم کی مزید سرگرمیاں انجام پائیں گی۔‘‘
اسٹیو فاکس کیلیفورنیاکے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ