معدوم ہوتے فنون لطیفہ کا تحفظ

اے ایف سی پی کی مالی امداد کی بدولت مغربی راجستھان کے دو طبقات کے فنون لطیفہ اور زبانی روایت کا تحفظ عمل میں آرہا ہے۔

کریتیکا شرما

August 2024

معدوم ہوتے فنون لطیفہ کا تحفظ 

منگنیار موسیقار جیسلمیر کے ڈبری گاؤں میں روایتی ’گاتھا کتھا‘ پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ مغربی راجستھان کے معدوم ہوتی موسیقی کی روایات کی دستاویزات سازی/فیس بُک )

لوک موسیقی محض خوب صورت آلاتِ موسیقی پر نغمہ سنجی سے عبارت نہیں بلکہ اس سے بعید بھی بہت کچھ ہے۔ مغربی راجستھان کے چند طبقات کے لیے تو یہ سازِ حیات کی مانند ہے۔ اصل میں یہ طبقات موسیقی کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور زبانی تاریخ کو نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ ان کی روایات تاریخ میں کہیں گُم ہو جائیں ۔

امریکی ادارہ برائے مطالعات ہند (اے آئی آئی ایس)کو امریکی سفیر فنڈ برائے ثقافتی تحفظ (اے ایف سی پی ) کی مالی اعانت حاصل ہے جس کا خاص مقصد لانگا اور منگنیار طبقات کے دو معدوم ہوتے مخصوص فنون لطیفہ یعنی منظوم قصہ گوئی اور رزمیہ نظم کا تحفظ ،نیز ان کی بحالی ہے۔ اے ایف سی پی کے زیر اہتمام امریکی حکومت تاریخی اور یادگار عمارتوں، آثار قدیمہ کے مقامات، عجائب گھروں کے مجموعوں، نسلی تنوع والی اشیاء، پینٹنگز، مخطوطات اور مقامی زبانوں اور روایتی ثقافت کے اظہار کی دیگر صورتوں کے تحفظ کے لیے مالی امداد فراہم کرتا ہے۔اے ایف سی پی کے توسط سےگذشتہ دو عشروں کے دوران امریکہ نے اب تک ہندوستان میں تقریباً دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس کی بدولت ہندوستان کے ۲۰ اہم تاریخی مقامات اور غیر مرئی ورثہ کی دستاویز سازی ، تحفظ اور بحالی ممکن ہوسکی ہے۔

اے ایف سی پی کے پروجیکٹ ’’ مغربی راجستھان میں معدوم ہوتی موسیقی روایات کی دستاویز سازی ‘‘ کے تحت اے آئی آئی ایس نے نوجوان موسیقاروں کی تربیت سازی کی تاکہ وہ اپنے اپنے طبقات سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق موسیقاروں کو تلاش کرکے ان کا انٹرویو کریں اور ان کی کارکردگی کو ریکارڈ بھی کریں ۔ علاوہ ازیں اس پروجیکٹ میں یہ بھی شامل تھا کہ ۶ سینئر موسیقار وں کو بھی تربیت دی جائے۔ گو کہ یہ پروجیکٹ دسمبر ۲۰۲۲ءمیں اختتام پزیر ہوا۔ تاہم اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ معدوم ہوتی موسیقی کی یہ روایت بہر کیف ابھی زندہ ہے ۔

خطرے سے دوچار ایک روایت

منظوم قصہ گوئی، رزمیہ نظم اور رسمی بیانیہ جیسی زبانی روایات ہندوستان کی غیر مرئی ثقافتی میراث کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ تاہم بدقسمتی سے ان میں استعمال ہونے والی ناقابل فہم زبان کے سبب بعض اوقات ان کی تفہیم خود ان کے طبقات میں مشکل ہوجاتی ہے۔ مزید برآں ، رزمیہ نظم اور منظوم قصہ گوئی در اصل ’’صنفِ سست‘‘کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ان کی ادائیگی کئی کئی گھنٹوں بلکہ دنوں تک جاری رہتی ہے۔ جس کے سبب یہ جدید طرز حیات یا کام کے شیڈول میں موزوں نہیں بیٹھتے۔

اے آئی آئی ایس نے لوک کہانی تحقیقی مرکز روپائن سنستھان کے اشتراک سے اے ایف سی پی پروجیکٹ کی سربراہی کی اورمغربی راجستھان سے تعلق رکھنے والی موروثی موسیقاروں کے دو پسماندہ طبقات منگانیار اور لانگا میں منظوم قصہ گوئی کی روایت پر توجہ مرکوز کی۔ یہ دونوں طبقات دو الگ الگ قسم کی منظوم قصہ گوئی سے وابستہ ہیں — گاتھا، کتھا اور وارتا یا بات۔

اے آئی آئی ایس میں پرو جیکٹ ڈائریکٹر شُبھا چودھری انکشاف کرتی ہیں کہ عام ناظرین کے سامنے ان فنون کی پیش کش دشوار گزار ہوتی ہے۔ ’’ پیشکش کرنے والوں کو ناظرین کے سامنے اس فن کو پیش کرتے وقت دشواریاں درپیش ہوتی ہیں ۔ اصل میں یہ فن مکالمہ پر مبنی ہوتا ہے اور صرف ان ہی طبقات کے افراد کی جانکاری میں ہوتا ہے کہ کس طرح جواب دینا ہے ۔بعض مقامات پر ان کے پاس ’ہُنکار‘ یعنی للکارنے کی روایت بھی موجود ہے۔‘‘

چودھری مزیدکہتی ہیں کہ ناظرین کے تعاون کے بغیر مانگنیار اور لانگا طبقات اپنے اس فن کو ا پنے طبقے سے باہر لے جانے میں کافی پریشانیاں محسوس کرتی ہیں۔ چوں کہ ان فنون کی سرپرستی دن بدن کم ہوتی جارہی ہے، لہٰذا شہروں میں بھی ان کی مقبولیت میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ معدوم ہونے کے دہانے پر کھڑے نہ ہوتے ۔

فنون میں دوبارہ جان ڈالنا

حالا ں کہ لانگا اور مانگانیارطبقات کے قصے کہانیوں کے ذخیرے بہت مختلف ہیں تاہم ان دونوں طبقات میں کچھ نہ کچھ تو یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے قصے کہانیوں کے مضامین کافی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ یہ دونوں طبقات زیادہ تر باڑمیڑ، جیسلمیر اور جودھپور میں پائے جاتے ہیں جو کہ مارواڑخطہ کا ثقافتی مرکز ہے۔

منظوم قصہ گوئی ،جو ان دونوں طبقات میں قدر مشترک ہے ، میں دوہے ہوتے ہیں جن میں عشق و محبت کی داستانیں، شجاعت و بہادری کے واقعات اور دیوی دیوتاؤں کے بھجن ہوتے ہیں۔ یہ منظوم قصے زیادہ تر مارواڑی زبان میں ہوتے ہیں۔

چودھری وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ زبانی قصہ گوئی کی روایت کی دستاویز سازی کے ساتھ ساتھ پروجیکٹ نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ چھ تربیت یافتہ فنکار کم از کم ایک ایک شاگرد کو یہ فن سکھائے تاکہ یہ روایت زندہ رہے۔ ’’اس پروجیکٹ کی بدولت ہم اس بھولی ہوئی صنف کی جانب توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔ محض اس کو اسٹیج پر پیش کرنے اور اس کے بارے میں بیداری پیدا کرنے سے ہی لوگوں میں اس صنف میں کافی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے ۔‘‘


اسپَین نیوزلیٹر کو مفت میں اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے