فصل کی باقیات جلانے سے باز رکھنا

نئی دہلی میں واقع اسٹارٹ اپ کمپنی کِریا لیبس زرعی فضلہ کو ایسے قیمتی وسیلے میں تبدیل کردیتی ہے جس سے کاغذ اور تحلیل ہو سکنے والی مصنوعات بنائی جا سکتی ہیں ۔

مائیکل گیلنٹ

May 2019

فصل کی باقیات جلانے سے باز رکھنا

 

کریا لیبس چاول کی بھوسی کو ایسے کثیر مقصدی تحلیل ہوسکنے والے گودے میں بدل دیتی ہے جس سے ماحولیات موافق رکابیاں اور دوسری مصنوعات بنائی جا سکتی ہیں۔ 

جب انڈیا میں کسان خریف فصل کاٹتے ہیں تو وہ چاول تیار کرتے ہیں تاکہ ملک گیر پیمانے پر لوگ اسے کھا سکیں ۔مگر فصل کاٹے جانے کے بعد کھیتوں میں بے شمار ٹن پھوس باقی رہ جاتی ہے ۔ یہی پھوس جابجا آگ لگنے کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے گھٹن پیدا کرنے والی فضائی آلودگی ہوتی ہے جو ایک ایسا بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔

پراچیر دتہ جب آئی آئی ٹی دہلی کے طالب علم تھے تب انہیں اس مسئلہ کی جانکاری ہوئی۔اپنی تحقیق کے دوران ایک اسکولی تجربہ کی غرض سے جب وہ اور ان کے ساتھی پرانی دہلی کے چاندنی چوک گئے تو انہیں علاقے میں پسری دھند کے سبب سانس لینے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں’’ ہمارے گلے میں پھانس پڑ رہی تھی اور ہماری آنکھیں جل رہی تھیں۔ ہم حیران تھے کہ آخر اس قدر فضائی آلودگی کی وجہ کیا ہے؟‘‘

پراچیر جنہیں اپنے نام کے پہلے حصے سے ہی پکارا جانا پسند ہے کہتے ہیں ’’ ہم نے تحقیق کی تو علم ہوا کہ گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کے علاوہ دہلی کے ہم سایہ صوبوں میں فضلہ کا جلایا جانا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔‘‘

ان کا اندازہ ہے کہ صرف ہریانہ اور پنجاب میں ہر برس ۲۰ ملین ٹن پھوس جلائی جاتی ہے جس کی وجہ سے فضا میں دھواں اور نقصان دہ ذرّات بھر جاتے ہیں ۔

خوش بختی سے پراچیر اور ان کی ٹیم کو اس صورت حال میں جہاں ایک جانب امکانی ماحولیاتی تباہی نظر آئی وہیں دوسری طرف انہیں یہاں ایک موقع بھی نظر آیا ۔انہوں نے اختراع سے یہ مسئلہ حل کرنے کی ٹھانی۔ وہ کہتے ہیں’’اگر ہم چاول کی پھوس کو ایسی مصنوعات میں تبدیل کردیں جن کی بازار میں اچھی قیمت مل سکے تو ہم کسانوں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ اسے جلائیں نہیں۔‘‘

اس صورت حال نے مسئلہ کا حل ڈھونڈھنے کی جو ضرورت بتائی ، نئی دہلی میں واقع اسٹارٹ اپ کمپنی کِریا لیبس  اسی کا نتیجہ ہے۔ کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر کے طور پر کام کرنے والے پراچیر باخبر کرتے ہیں’’ہم پھوس سے سیلولوز والا گودا تیار کرتے ہیں جس کا استعمال کاغذ اور قابلِ تحلیل برتن بنانے میں کیا جاتا ہے۔ ‘‘

کمپنی فی الحال اس گودے کی فروخت ان کاریگروں کو کرنے پر توجہ دے رہی ہے جو ماحول دوست پلیٹ بناتے ہیں ۔ گودے سے بنے کھانے کے برتن مکمل طور پر تحلیل شدہ ہوتے ہیں ۔ اس قسم کے برتنوں کے استعمال سے صرف ایک بار استعمال ہوسکنے والے پلاسٹک کے برتن سے پیدا ہونے والے فضلہ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔

کمپنی کی کاوشیں اب نظر آنے لگی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ میں بھی ان کی تشہیر ہو رہی ہے۔ اس سے ملک بھر میں لوگ کمپنی کی خدمات کی جانب راغب ہو رہے ہیں ۔ جیسے جیسے تجارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، ویسے ویسے مستقبل کے لیے پراچیر کے منصوبے توانا ہوتے جا رہے ہیں ۔ انہیں امید ہے کہ کچھ مہینوں میں ہی کمپنی اپنا پلانٹ لگا لے گی جس سے مزید پلانٹ کے لگنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ آگے کے منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’ہم پیکیجنگ اور کپڑا بازار میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔‘‘

کمپنی کے تجارتی ماڈل میں مقامی اور دیہی کاریگروں کو شامل کرنا اور انہیں اس لائق بنانا شامل ہے کہ وہ اپنی پیداواری یونٹ قائم کر سکیں ۔ پراچیر بتاتے ہیں کہ انہیں پورے ملک سے اب تک پیداواری یونٹ قائم کرنے کی ۷۰ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں ۔

کمپنی کے شریک بانی انکُر کمار وضاحت کرتے ہیں کہ یہ تکنیک عالمی سطح پر کار آمد ہے ’’ترقی پذیر ممالک کے ذریعہ آلودگی پیدا کرنے میں زرعی فضلہ کا جلانا بہت اہم مسئلہ ہے۔ہم اس طرح کا ماڈل تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ کسان پھوس کو جلانے کی بجائے اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرنے پر دھیان دیں ۔ ‘‘

کمپنی کی کامیابی کا سہرہ ٹیم کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ اس کی تجارت اور ذمہ داری کے اعلیٰ شعور کو بھی جاتا ہے۔پراچیر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہم معاشرتی کاروباری پیشہ ور ہیں ۔ ہم ایسی تجارت کرنے میں یقین رکھتے ہیں جس کا سماج پر مثبت طور پر اثر ہو۔‘‘

کمپنی کے اراکین نے نیکسَس انکیوبیٹر میں مخصوص تربیت حاصل کی ہے۔ پراچیر بتاتے ہیں کہ اس سے کمپنی کو مشکل فیصلہ کرنے اور بہتر اہداف مقرر کرنے کے علاوہ نئی حکمت عملی وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔

نیکسَس کے ڈائریکٹر اِیرِک ایزولائی باخبر کرتے ہیں ’’یہاں ہم زرعی فضلہ کے اتلاف کے مختلف طریقوں کو دیکھتے ہیں ۔ کِریا لیبس میں جو چیز مختلف تھی وہ یہ تھی کہ کمپنی اس مسئلہ کے حل کا تجارتی پہلو لے کر سامنے آئی ۔کمپنی کے اہلکاروں کے ذہن میں مخصوص مصنوعات تھیں ۔ ان پر یہ بھی واضح تھا کہ ان مصنوعات کے صارفین کون ہیں ۔ ہمیں یہاں ایسے ہی اختراعی لوگ چاہئے۔ ‘‘

نئے کاروباری پیشہ وروں کو جو کمپنی کی کامیابی کی مثال کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تاکہ تکنیک اور اختراع کے توسط سے ماحولیاتی مسائل حل کرسکیں ، ایسے لوگوں کو پراچیر کا مشورہ ہے کہ وہ ہدف مقرر کریں ، خطرہ مول لیں اور جوش و جذبے کے ساتھ کام کریں ۔

مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے