بین الاقوامی طلبہ کو امریکہ میں کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ اظہارِ رائے کی آزادی طلبہ کو کلاس میں اور اس کے باہر بڑے بڑے سوالات کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
February 2022
(امریکی وزارتِ خارجہ/ڈی تھومپسن)
امریکہ میں زیر تعلیم دنیا بھر کے طلبہ بعض اوقات اس وقت حیرت میں پڑ جاتے ہیں جب ان کے اساتذہ صرف تقریر کرنے کی بجائے طلبہ کو بحث و مباحثہ کی بھی ترغیب دیتے ہیں۔
دراصل امریکہ کے مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کوامریکی دستور کی اوّلین ترمیم کے تحت تعلیمی آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔
’فائر ‘ سے وابستہ سارا میک لالن بتاتی ہیں ’’امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے طلبہ کو مجھے یہ بتاتے ہوئے اچھا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنی رائے کے اظہار کی پاداش میں کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘
واضح رہے کہ ’فائر ‘ بوسٹن میں واقع تعلیمی آزادی کی وکالت کرنے والا ایک گروپ ہے۔ میک لالن کہتی ہیں کہ جب بین الاقوامی طلبہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو اس سے کلاس روم کے اندر اور باہر دونوں جگہ کافی اچھا تجربہ ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں طلبہ کو اپنی بات رکھنے کی آزادی ضرور ہے مگر صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ کیمپس کی زندگی میں رخنہ نہ ڈالیں، تشدد پر آمادہ نہ ہوں اور دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔ پیش خدمت ہیں چند ایسی مثالیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ نے امریکی کالجوں میں اپنی رائے کا اظہار بے خوف و خطر کیا ۔
سیاسی رائے زنی
۱۹۸۹ءمیں چینی حکومت نے تائنامین اسکوائر پر مظاہرین کا قتلِ عام کیا تھا۔ چینی حکومت کے اس تشدد کی امریکہ میں زیر تعلیم چند چینی طلبہ نے سخت مذمت کی تھی۔ اس کی پاداش میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ان طلبہ کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ چین واپس لوٹے تو ان پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ۱۹۹۲ء میں کانگریس نے چینی طلبہ تحفظ ایکٹ وضع کیا جس کی رو سے چینی طلبہ کو امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگیا تاکہ وہ چینی حکومت کی بدلے کی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔
تخلیقی لائسنس
لبنان کی فلمساز فرح شاعر نے ایک فلم ’’ہیوین وداؤٹ پیپُل‘‘ اس وقت بنائی تھی جب وہ لاس اینجلس میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیامیں گریجویٹ ڈگری کی تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ اس فلم میں ایک ایسے خاندان کی کہانی دکھائی گئی جس کے اراکین تعطیل کے دوران خوردو نوش کرتے ہوئے بعض مشکل موضوعات پر اظہار ِ رائے کررہے ہیں ۔ حالانکہ اس فلم پر لبنان میں پابندی عائد کردی گئی تھی مگر لاس اینجلس فلم فیسٹول میں یہ فلم دکھائی گئی جہاں اسے دنیا کی بہترین فلم کے انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔
غیر نصابی سرگرمیاں
مشی گن کے بین الاقوامی مرکز کی ڈائریکٹر جوڈِتھ پینی ویل نے ۲۰۱۸ءمیں ہوئے کانگریس کے انتخابات میں طلبہ کو بتایا کہ وہ کس طرح سے ان میں شریک ہو سکتے ہیں، حالانکہ ان کو ووٹنگ کا حق حاصل نہیں تھا مگر اس کے باجود پینی ویل نے انہیں کیمپس کی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی ترغیب دی۔
فعالیت
شکاگو میں یونیورسٹی آف ایلی نوائے میں کام کررہے طلبہ وہاں کےکام کاج کے بہترماحول کا سہرا بین الاقوامی طلبہ کے سر باندھتے ہیں۔
ازبیکستان سے تعلق رکھنے والی تاریخ کی طالبہ زخرہ قاسمووا نے اسی قسم کی ایک کاوش کی۔ اپنے تجربہ کے بارے میں ایک آن لائن پوسٹ میں وہ رقم طراز ہیں’’یہ ہم میں سے بیشتر کے لیے زندگی کی پہلی ہڑتال تھی، شاید یہ آخری بھی نہیں ہوگی، کیونکہ ابھی ہمیں عدم مساوات کے خلاف کئی لڑائیاں لڑنی ہیں۔‘‘
تشکر برائے متن ShareAmerica
تبصرہ