نفسیات کا شعبہ کافی وسیع اورمتنوع ہے،لہٰذا اس میں روزگار کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔
July 2019
نفسیات میں ڈگری کا استعمال کئی قسم کے پیشوں میں کیا جا سکتا ہے، خاص کر ایسے پیشوں میں جہاں انسانی روئیوں کی کام چلاؤ تفہیم درکار ہو۔ خاکہ کشی از فری پِک ڈاٹ کام۔
کسی امریکی یونیورسٹی سے نفسیات کے شعبے میں گریجویٹ ڈگری کا حاصل کرنا آپ کے لیے ایسی عملی زندگی کے دروازے کھول سکتا ہے جہاں انعام و اکرام کے کئی مواقع موجود ہوں۔ ان میں انسانی تجربے کی پیچیدگیوں کی تحقیق سے لے کر نظریاتی تحقیق کی پیش رفت اور ضرورت مند افراد کی مدد بھی شامل ہے۔یہی سبب ہے کہ نفسیات کا شعبہ کافی تیزی کے ساتھ فروغ پانے والا شعبہ بن کر ابھرا ہے جس میں اچھی آمدنی کے امکانات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مزدوروں سے متعلق اعداد وشمار رکھنے والے امریکی بیورو کے ایک اندازے کے مطابق ماہرین نفسیات کے لیے ۲۰۱۶ءسے ۲۰۲۶ء کے درمیان ملازمتوں میں ۱۴فی صد کا اضافہ ہو جائے گا ۔ خیال رہے کہ مئی ۲۰۱۸ء میں اس شعبے میں درمیانی سالانہ آمدنی ۷۹۰۱۰ ڈالر (تقریباً ۵۴ لاکھ روپے )تھی۔
نفسیات میں ڈگری حاصل کرنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ آئیوی لیگ اداروں سمیت سینکڑوں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سارے ا دارے تو مختلف شکلوں میں مالی امداد بھی فراہم کرتے ہیں ۔
ایک اعلیٰ درجے کا نفسیاتی پروگرام چلانے والی ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی (اے ایس یو) کے نالج انٹر پرائز ڈیولپمنٹ کے ایکزیکٹو وائس پریسیڈنٹ سیتو رمن پنچناتھن کہتے ہیں کہ زیادہ تر ماہر نفسیات گرچہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں، اسکولوں، سرکاری تنظیموں اور اس طرح کے دیگر اداروں میں کام کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ نفسیات کے شعبے میں حاصل کی گئی ڈگری کا استعمال متعدد طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔
پنچناتھن کہتے ہیں ’’اطلاقی یا مطبی نفسیات میں حاصل کی ہوئی تعلیم کا استعمال ایسے بہت سارے پیشوں میں یقینی طور پر کیا جا سکتا ہے جس میں روایتی اطوار سے پرے انسانی رویے کی تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس میں غالباََ تجارت، قانون ، تعلیم ، بازارکاری اور گفت و شنید شامل ہوسکتے ہیں۔‘‘
پنچناتھن کہتے ہیں ’’انسانی دماغ کے کام کرنے کے طریقے کی تفہیم، پیشہ ورانہ ماحول میں ایک اثاثہ ثابت ہوگی جہاں انسان اور مشین کے درمیان ہم زیستانہ تعلق فروغ پاتا رہتا ہے۔ہم جس قدر انسان میں موجود مطابقت پیدا کرنے ،تبدیلی سے نمٹنے اور روزگار کے بدلتے منظرنامے میں پھلنے پھولنے کی صلاحیت کی تفہیم کرتے جائیں گے، اسی قدر مصنوعی ذہانت کے مربوط ہونے کے گواہ بنتے جائیں گے۔‘‘
اے ایس یو کے ایک نمائندہ کے مطابق یہاں درخواست دینے کا منصوبہ بنانے والے بھارتی طلبہ کو چار برس کی بیچلر ڈگری کے مساوی کورس کا انتخاب کرنا چاہیے جو کورس ورک کے آخر ی دو سال میں ۳ اعشاریہ صفر جی پی اے (گریڈ پوائنٹ اوسط )کے مساوی ہو۔
بھارت سے آنے والے بہت سارے طلبہ ۳ سال کی بیچلر ڈگری اور ۲ سال کی ماسٹر ڈگری لے کر آتے ہیں جو امریکہ کے ۴ سال کے بیچلر کورس کے مساوی ہوتی ہے۔ درخواست گزاروں کو گریجویٹ ریکارڈ ایگزامنیشن (جی آر ای) سے بھی گزرنا چاہیے۔اس کے علاوہ ہند سے آنے والے طلبہ کو ٹیسٹ آف انگلش ایز اے فارن لینگویج(ٹی او ای ایف ایل) یا دیگر طریقوں سے انگریزی میں اپنی مہارت کو بھی ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ طلبہ جو اے ایس یو کا ۲ سال کا ماسٹر آف سائنس اِن اپلائڈ بی ہیویر انا لسِس پروگرام مکمل کرتے ہیں انہیں مجموعی طور پر تقریباًایک لاکھ دو ہزار ڈالر (تقریباً۷۰روپے)خرچ کرنے پڑتے ہیں جس میں رہنے سہنے کے اخراجات اور صحت سے متعلق بیمہ شامل ہے۔ جو لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں (جس میں ماسٹر ڈگری بھی شامل ہوتی ہے)ان کے اخراجات کم ہوتے ہیں ۔ تحقیق کا عمل انجام دینے والوں یا معاون اساتذہ کی ذمہ داری نبھانے والوں کو مجموعی طور پر ۵۵ ہزار ڈالر (تقریباً۳۸ لاکھ روپے )خرچ کرنے پڑتے ہیں اگر وہ ۵ برس میں تحقیق کا کام مکمل کر لیں ۔ مگر ان کا خرچ بڑھ کر ۶۶ ہزار ڈالر(تقریباً ۴۵لاکھ روپے )ہو جاتا ہے اگر انہیں تحقیق کے کام میں ۶ برس کا عرصہ لگتا ہے۔ اے ایس یو میں نفسیات کے شعبے میں گریجویٹ ٹریننگ کے ڈائریکٹر لاری چیسِن کہتی ہیں کہ پی ایچ ڈی ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔
چیسِن مزید کہتی ہیں ’’نفسیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے بیشتر طلبہ کو ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی ملازمت مل جاتی ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تحقیق مکمل کرنے سے پہلے ہی کسی طالب علم کو ملازمت نہ ملتی ہو یا پھر پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کی ان کی راہیں ہموار نہ ہوتی ہوں۔ہمارے ڈوکٹورل پروگرام کی تکمیل کرنے والے یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حیثیت سے ملازمت حاصل کرتے ہیں یا پھر کالج میں پڑھاتے ہیں جہاں محققین اور اساتذہ کی حیثیت سے ان کی مہارتیں یکجا ہوتی ہیں ۔ وہ صنعتی اداروں، حکومت سے وابستہ تنظیموں، طبی اسکولوں، صحت کی دیکھ ریکھ سے متعلق اداروں یا دیگر غیر منافع بخش اداروں میں تحقیق سے متعلق ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے مطبی پروگرام سے فراغت یافتہ طلبہ اسپتالوں ، اسکولوں اور ذہنی صحت سے متعلق کمیونٹی سینٹروں میں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں اور طبّی خدمات فراہم کرسکتے ہیں یا پھر ان ہی اداروں اور تنظیموں میں سپر وائزر یا پروگرا م کا جائزہ لینے والوں کے طور پر ملازمت کر سکتے ہیں ۔‘‘
کیلیفورنیا کے کلیئر مونٹ میں واقع لبرل آرٹس کے اہم ادارے، پومونا کالج میں شعبہ نفسیات کے چیئر مین رچرڈ لوئس کہتے ہیں کہ اس طرح کے اور دیگر اقسام کے پیشوں کا راستہ اکثر انڈر گریجویٹ ڈگری سے ہو کر جاتا ہے۔ لوئس کہتے ہیں ’’تنقیدی فکر و خیال ، اعداد و شمار کا تجزیہ اور اظہار خیال سے متعلق مہارت پر ہمارے پروگرام کا زور طلبہ کو کریئر کے وسیع سلسلے کے لیے تیار کرتا ہے ۔ ہمارے زیادہ تر گریجویٹ آخر میں ایڈوانس ڈگری حاصل کرتے ہیں جب کہ ان میں سے ایک تہائی تعداد ڈاکٹریٹ حاصل کرتی ہے۔‘‘
پومونا کالج میں داخلے کی شرطیں کافی توجہ طلب ہوتی ہیں لیکن ان میں لچک بھی پائی جاتی ہے۔کالج کے شعبہ ٔداخلہ کے ڈائریکٹر اَیڈم سَیپ کہتے ہیں ’’پومونا میں معیاری آزمائش کی کم از کم شرائط نہیں ہیں۔پومونا میں دلچسپی رکھنے والے ہند کے درخواست گزاروں کو قومی نصاب یا پھر بین الاقوامی ہائی اسکول کا نصاب مکمل کرنا چاہیے۔ ہائی اسکول کے تحریری ریکارڈ کے علاوہ پومونا میں ایک مشیر اور دو اساتذہ سے ایک سفارشی مکتوب، معیاری ٹیسٹ اسکور (ایس اے ٹی یا اے سی ٹی )، طالب علم کے تحریر شدہ دو مضامین اور ایک مکمل عام درخواست کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
پومونا چار برس کا کورس فراہم کرنے والا ایک ایساکالج ہے جس میں ۲۰۔۲۰۱۹ کے تعلیمی سال میں پڑھائی کی لاگت مجموعی طور پر۷۶ ہزار ۸۳۶ ڈالر (تقریباً۵۳ لاکھ روپے )ہے جس میں ٹیوشن، فیس، کمرہ اور بورڈ، کتابیں اور ذاتی اخراجات شامل ہیں۔تقریباًتمام بین الاقوامی طلبہ میں سے نصف کو کسی نہ کسی طرح کی مالی امداد حاصل ہوجاتی ہے جس میں طلبہ کو بعض ذمہ داریوں کے عوض رقومات اور عطیہ پر مبنی وظیفے شامل ہیں۔ عطیہ پر مبنی وظیفہ براہ راست پومونا کالج سے ملتا ہے اور اس کی ادائیگی نہیں کرنی ہوتی ہے۔
سَیپ کہتے ہیں ’’ہمارے کیمپس میں انڈیا سے آنے والے طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔ طلبہ کے داخلے کے لیے داخلے کے شعبے سے متعلق ہماری ٹیم ہر برس انڈیا کا دورہ کرتی ہے۔ کالج کے مجموعی طلبہ میں تقریباً ۱۱ سے ۱۳ فی صد بین الاقوامی طلبہ ہوتے ہیں ۔ کالج تقریباً۶۰ ملکوں کے طلبہ کو داخلہ دیتا ہے جس میں مجموعی طور پر بھارت کے طلبہ کی تعداد دوسرے نمبر پر رہتی ہے۔‘‘
اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِ نچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ