مونگے کی چٹانوں کا مطالعہ

فلبرائٹ ۔ کلام کلائمیٹ فیلو آفرین حسین انتہائی خطرے سے دوچار مونگے کی چٹانوں کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں مدد کے لیے ان چٹانوں پر موسمیاتی تبدیلی اور انسانی مداخلت کے اثرات کا اندازہ لگاتی ہیں۔

نتاشا مِلاس

January 2021

مونگے کی چٹانوں کا مطالعہ

آفرین حسین ہوائی میں اپنی فلبرائٹ۔کلام فیلو شپ کے دوران مونگے کی چٹانوں کی نرسری سے نمونے یکجا کرتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ آفرین حسین

مونگے کی چٹانیں پھلنے پھولنے کا ماحول اور غذا فراہم کر کے بحری زندگی کے قریب۲۵ فی صد حصے کی اعانت کرتی ہیں۔ کرہ ارض میں حیاتیاتی لحاظ سے سب سے زیادہ زرخیز اور متنوع ماحولیاتی نظام میں مونگے کی چٹانوں کو بہت سے خطوں میں بلیچنگ (رنگ اڑانے یا سفید کرنے کا عمل) نامی عمل سے نقصان پہنچا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ممکنہ طور پر اس کی سب سے بڑی وجہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہم زیستانہ طور پر مونگوں کی چٹانوں پر زندگی بسر کرنے والی بحری کائی کے لیے گرم سمندر اسے خیر باد کہنے کا باعث بنتے ہیں۔ بحری کائی مونگوں کو غذا کے ساتھ ہی رنگ بھی مہیا کرتی ہے۔ اس کے نہ ہونے سے مونگے کا رنگ اڑ جاتا ہے۔ امریکی قومی سمندری ماحولیاتی انتظامیہ کے مطابق مونگے سفیدی کے عمل سے گزرنے کے بعد زندہ رہ تو سکتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ دباؤ میں ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے ختم ہوجانے کا خطرہ برقرار رہتا ہے ۔

مونگے کی چٹانیں مقامی برادری کے لیے بہت سارے فوائد کی حامل ہیں ۔ یہ مقامی جانداروں کو غذا فراہم کرتی ہیں، ادویات میں استعمال ہونے والے مرکبات دیتی ہیں جن میں بعض کا استعمال تو سرطان کے علاج میں ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ سمندری طوفان، طوفانی آندھی اور دیگر آندھیوں کے خلاف قدرتی رکاوٹوں کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

مونگے کے ماحولیاتی نظام کی ماہر آفرین حسین انتہائی خطرے سے دوچار مونگوں کی چٹانوں کے لیے ایک پائیدار بندوبست اور تحفظ کی راہ تلاش کرنے کی خاطر ان پر موسمیاتی تبدیلی اور انسانی مداخلت کے اثرات کا اندازہ لگاتی ہیں۔ گوا میں واقع سائنسی اور صنعتی تحقیق کاؤنسل (سی ایس آئی آر )۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی سے مرین سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والی حسین بھارت کے مغربی ساحل میں مونگے کی چٹانوں کا مطالعہ کر تی ہیں۔ ۲۰۱۹ءمیں وہ ہوائی میں واقع یونائیٹیڈ اسٹیٹس جیو لوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) نیشنل وائلڈ لائف ہیلتھ سینٹر میں فلبرائٹ۔ کلام کلائمیٹ فیلو رہ چکی ہیں۔ پیش خدمت ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات ۔

آپ آبی حیاتیات، خاص طور پر مونگے کی چٹانوں کی بیماری کا مطالعہ کرتی ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتاسکتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے مونگے کی چٹانوں کو کس قسم کے مسائل کا سامناہے؟

مونگے کی چٹانیں سمندری ماحولیاتی نظام میں سب سے زیادہ متنوع، مخلوط اور انفرادیت کی حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ "سمندر کے برساتی جنگل” کے نام سے مشہور ہیں۔ اگرچہ مونگے کی چٹانیں سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے ماحول کے 1 فی صد سے بھی کم حصے پر قابض ہیں لیکن یہ قریب ۲۵فی صد سمندری زندگی کی اعانت کرتی ہیں جن میں مچھلی کی چار ہزار سے زیادہ اقسام شامل ہیں۔ عالمی سطح پر یہ چٹانیں لاکھوں لوگوں کو اہم ماحولیاتی، معاشی اور معاشرتی فوائد پہنچاتی ہیں۔ ان کے مالی فوائد کا اندازہ لگایا جائے تو ان کی قیمت ہر سال قریب ۹اعشاریہ ۸ ٹریلین ڈالر ہوتی ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران مونگے کی چٹانیں قدرت اور انسان کے ذریعہ پیدا شدہ مشترکہ کیفیات کی وجہ سے یا انسان کے ذریعہ انجام دیے جانے والے کاموں، علاقائی اور عالمی پیمانے پر دباؤ پیدا کرنے والوں، بنیادی طور پر عالمی آب و ہوا کی تبدیلی،کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھتی ہوئی سطح، ماہی گیری کے غیر مستحکم طریقوں، مونگے کی بیماریوں اور زمین پر مبنی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑے خطرے سے دو چار ہیں۔ ورلڈ ریسورسیز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ریفس اَیٹ رِسک رِوِزیٹیڈ کے مطابق موجودہ وقت میں عالمی اور مقامی سطح پر تناؤ پیدا کرنے والوں (مشکلات پیدا کرنے والوں) کی وجہ سے پوری دنیا میں ۷۵فی صد مونگے کی چٹانیں خطرے سے دو چار ہیں۔ تناؤ پیدا کرنے والے ان عوامل کو اگر باز نہیں رکھا گیا تو ۲۰۳۰ءتک خطرے سے دو چار مونگے کی چٹانوں کی شرح بڑھ کر ۹۰فی صد ہوجائے گی۔

مونگا سفیدی کا عمل کیا ہے اور اس کے طویل مدتی اثرات کیا ہیں؟

گذشتہ چند دہائیوں کے دوران سمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا بھر میں مونگے کی چٹانوں کے رنگ غیر معمولی طور پر اڑتے جارہے ہیں ۔ مونگے کی صحت کا انحصار ان کے میزبان اور ساتھ زندگی گزارنے والے انٹرا سیلولر فوٹوسنتھیٹک الجی، جنہیں زوزینتھیلے کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو مونگوں کی غذائیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، کے مابین نازک تعلقات پر ہوتا ہے۔ گرمی میں اضافہ، اعلیٰ الٹرا وایولیٹ یا سمندری تیزابیت جیسے ماحولیاتی دباؤ کے دوران ساتھ زندگی گزارنے والے زوزینتھیلے اپنے میزبان کو چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے مونگوں کو سفیدی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے یعنی وہ سفید ہو جاتے ہیں۔ سفید ہو چکے مونگوں میں اس سے غذائیت کی کمی ہو جاتی ہے اور بالآخر اس سے ان کی موت ہو جاتی ہے ۔ سفیدی زدہ مونگوں میں بیماریوں اور درانداز ی کرنے والی کائی کی وجہ سے اس کے متاثر ہونے کا بھی خطرہ برقرار رہتا ہے ۔ سفیدی کے واقعے کے بعد مونگوں میں ہونے والی کمی کے طویل مدتی ماحولیاتی، معاشی اور معاشرتی اثرات ہوتے ہیں ۔ اس سے مقامی ماہی گیر متاثر ہوتے ہیں، سیاحت کی صنعت متاثرہوتی ہے اور تہہ باشی نامیات کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ لہٰذا ان کی اہمیت اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر مونگوں کی سفیدی کے طریقہ کار کو سمجھنا اور یہ اندازہ لگانا کافی اہم ہے کہ مونگے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق خود کو کیسے ڈھالیں گے اور آیا یہ اس کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔

آپ کا کام یہ سمجھنے میں کس طرح مدد کرتا ہے کہ موسم کےتبدیل شدہ حالات کی وجہ سے مونگوں کی چٹانوں کو مسائل کا سامنا ہے؟

اپنی پی ایچ ڈی کے لیے کام کرتے ہوئے میں نے بھارت کے مغربی ساحل پر مونگے کی سفیدی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا اور مونگے کی ان قسموں کی نشاندہی کی جو سفیدی کے تعلق سے زیادہ حساس ہیں۔ میں نے سمندری سطح کے درجہ حرارت کے اعداد و شمار پر مبنی مونگوں کی سفیدی کی نگرانی کے لیے پیش گوئی کے ایک ماڈل پر بھی کام کیا ۔ یہ معلومات پالیسی سازوں اور چٹانوں کا بندو بست دیکھنے والوں کے لیے گرمی کے دباؤ کے دوران چٹانوں پر انسانی دباؤ کو کم کرکے مستقبل میں پیش آنے والے سفیدی کے واقعات کے لیے تیار رہنے کے نقطہ نظر سے نہایت اہم ہیں۔ اس میں سیاحت اور ماہی گیری کی سرگرمیوں میں کمی شامل ہوگی تاکہ مونگوں کو سفیدی کے عمل سے ٹھیک ہونے کے لیے ایک سازگار ماحول مل سکے۔

دوسرے مقاصد میں مونگے کی بیماریوں کے پھیلاؤ کی شناخت اور اس کا اندازہ لگانا اور چٹانوں میں مرض پیدا کرنے والے ان کے ممکنہ وسیلوں کی شناخت کرنا شامل ہیں۔ یہ مرض پیدا کرنے والے ممکنہ وسیلوں کی درجہ بندی کرنے اور مونگوں کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے گندے پانی کی صفائی جیسی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔

دیگر اہم مسائل میں چٖٹانوں پر انسانی اثرات شامل ہیں جو بنیادی طور پر چٹانوں پربغیر نگرانی کے غوطہ خوری، آبدوزوں کو ہوا پہنچانے کے عمل اور چٹانوں پر کشتی کی لنگر اندازی سے معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ کشتی کی لنگر اندازی یا چٹانوں پرسیاحوں کے چلنے پھرنے کے عمل کی وجہ سے مونگوں کے حساس ٹھکانوں کو ہونے والے طبعی نقصان سے اتھلی چٹانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ میں نے چٹانوں میں بعض ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہےجنہیں بعض مخصوص مونگوں (پلیٹ نما یا شاخ والے مونگے) کے غلبے کی وجہ سے طبعی نقصان کا زیادہ خطرہ رہتا ہے اور ایسے خطرے سے دو چار مقامات میں جانے سے اجتناب کرکے پائیدار ماحولیاتی سیاحت میں مدد کی جا سکتی ہے ۔

ہوائی میں فلبرائٹ ۔ کلام کلائمیٹ فیلو شپ کے دوران حاصل ہونے والے تجربات کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں۔

یوایس جی ایس نیشنل وائلڈ لائف ہیلتھ سینٹر میں فل برائٹ۔ کلام کلائمیٹ فیلو شپ کے دوران مجھے اپنی تحقیق کے تحت نمونے کے ایک مونگے ایپٹیشیا میں گرمی کےدباؤ میں ہیٹ شاک پروٹینزکے کردار کی تحقیقات کرنا تھی۔ مونگے اور ان کے ساتھ رہنے والے جانداروں کے درمیان تعلقات کے شعبے میں بڑھتی تحقیق کے باوجود بلیچنگ کے عمل کے خلیوی اور سالماتی میکانزم کو کم ہی سمجھا گیا ہے۔ لہٰذا مطالعہ کا مقصد گرمی کے دباؤ میں ایپٹیشیا پُلچیلہ میں نسیجوں کی بافت اور خلیے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا تھا ۔ اس مطالعے سے حاصل کردہ نتائج مونگوں کی بلیچنگ کی سیلولر اور ہسٹولوجیکل بنیاد کے بارے میں مزید بصیرت فراہم کریں گے اور مونگوں میں ہیٹ شاک پروٹینز کے ذریعہ دی جانے والی گرمی کو برداشت کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں مزید تحقیق کی بنیاد بنائیں گے۔

فلبرائٹ۔ کلام کلائمیٹ فیلوشپ میری پیشہ ورانہ اور ذاتی ترقی، دونوں کے لیے ہی ایک بہت بڑا موقع ثابت ہوئی ہے۔ یہ فکری طور پر ایک محرک تجربہ رہا ہے اور اس نے میری سائنسی تحقیق کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کی ہے جسے میں نے اپنے مضامین کے ماہرین سے سیکھا ہے۔

میں نے امریکہ میں اپنے وقت کا استعمال خود کو ایک محقق کی حیثیت سے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں جاننے میں کیا ۔ فِلاڈیلفیا میں منعقد ہونے والا فلبرائٹ اورئینٹیشن سیمینار پوری دنیا کے فلبرائٹ فیلو شپ یافتگان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب میں نے فلبرائٹ فیلو شپ یافتہ ہونے کی میراث اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری قبول کی۔

بہت ہی خوبصورت اور دوستانہ ریاست ہوائی میں قیام کے لیے میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں جہاں میں حیرت انگیز لوگوں سے ملی اور جہاں مجھے سمندری زندگی سے اپنی محبت کا ادراک ہوا ۔ خوبصورت چٹانوں سے گھری اس جگہ میں مجھے مانتا رے اور سمندری کچھووں کے ساتھ غوطہ خوری کے اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا بھی موقع ملا ۔ مختصر طور پرمیں یہ کہہ سکتی ہوں کہ فلبرائٹ نے مجھے زندگی میں نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے پنکھ عطا کیے اور زندگی بھر رابطے میں رہنے میں میری مدد کی ۔

نتاشا مِلاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے