امریکہ میں حصول تعلیم: تب اور اب

اوشا ہیلویگ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے ابتدائی برسوں میں امریکی کیمپس کی نئی دنیا کو پرجوش اور اکثر چونکا دینے والے انداز میں یاد کرتی ہیں جیسا کہ انہوں نے اور دیگر بھارتی طلبہ نے تب پایا تھا ۔ دو دہائیوں بعد سمرن سنگھ اور ان کے نوجوان ہم عصرامریکہ کے علمی اور سماجی مواقع کے بارے میں یکساں طور پر پرجوش نظر آتے ہیں۔

تحریر:اوشا ہیلویگ اور سمرن سنگھ

August 1982

امریکہ میں حصول تعلیم: تب اور اب

اوشا ہیلویگ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے ابتدائی برسوں میں امریکی کیمپس کی نئی دنیا کو پرجوش اور اکثر چونکادینے والے انداز میں یاد کرتی ہیں جیسا کہ انہوں نے اور دیگر بھارتی طلبہ نے تب پایاتھا ۔ دو دہائیوں بعد سمرن سنگھ اور ان کے نوجوان ہم عصرامریکہ کے علمی اور سماجی مواقع کے بارے میں یکساں طور پر پرجوش نظر آتے ہیں۔ تصاویر بشکریہ اوشا ہیلویگ اور سمرن سنگھ۔

کورنیل، ۱۹۶۰ء

تحریر: اوشا ہیلویگ

یکم مئی ۱۹۶۰ء کو موصول ہوئے ٹیلی گرام میں لکھا تھا’’نتائج آنے تک روانگی ملتوی کردو،ڈھیر سارا پیار، ڈیڈی۔‘‘

میں نے دہلی یونیورسٹی میں بی اے کا امتحان ختم کیا تھا۔ اور مجھے لندن اپنے والدین کے پاس جانا تھا ۔ پھر وہاں سے امریکہ کے لیے روانہ ہونا تھا  جہاں میں اپنی گریجویشن کی تعلیم شروع کرنے والی تھی۔ میرے والد امولک رام مہتا،

جانس ہاپکنس اور یو سی ایل اے میڈیکل اسکولس میں فلبرائٹ اور راک فیلر اسکالر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے بیرون ملک مواقع کے بارے میں بتایا تھا اور مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں نےاچھی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ثابت کیا تو وہ میرے لیے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام کردیں گے۔

میرے والد خطرہ مول لینے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے کنبے کی رائے کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے  بینائی سے محروم میرے بھائی وید مہتا کو صرف ۱۴سال کی عمر میں ’ آرکنساس اسکول فار دی بلائنڈ ‘بھیجا تھا۔

اس وقت  بہت سارے لوگوں نے یہ دلیل دی تھی ’’معذور بچے پر پیسہ کیوں ضائع کیا جائے؟‘‘ یہ اور بات ہے کہ وید نے میرے والد کے فیصلے کو درست ثابت کیا تھا۔ انہوں نے فی بیٹا کپا کی (علمی حصول کی ایک علامت) اپنے نام کرنے میں کامیابی حاصل کی۔اپنی سوانح عمری لکھی۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی اور ایک بہترین مصنف کے طور پر شہرت حاصل کی۔ اگرچہ میں ایک لڑکی تھی اور سات بچوں میں چھٹے نمبر پرتھی ۔لیکن میرے والد سماجی اصولوں کو ایک بار پھر توڑنے اور اپنی سرمایہ کاری کو صرف اپنے بیٹوں تک ہی محدود نہ رکھنے کے لیے  تیار تھے ۔ وہ میری شادی کرنے کی بجائے مجھے معیاری تعلیم دینے کے آرزومند تھے۔ میں نے ان کی پیشکش کو قبول کرنے کے لیے  کئی برسوں تک سخت محنت کی۔ ہوسکتا ہے کہ  انہوں نے اپنی اس پیشکش کے بارے میں از سر نو غور کیا ہو ،لیکن میں پراعتماد تھی اور میں اس انعام کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی جس کے تعلق سے میں نے محسوس کیا تھا کہ اسے میں نے حاصل کیا ہے۔ میں نے ٹیلی گرام کا جواب دیا’’یقینی طور پر میں کامیاب ہوں گی ۔ ۱۷ مئی آنے دیں۔ آپ کے لیے ڈھیر سارا پیار۔ اوشا۔‘‘  نتائج سے قطع نظرمجھے امریکہ جانا ہی تھا۔

صدی کے آغاز سے ہی امریکہ کے کیمپسوں میں  عام طور پر بھارتی نمائندگی کم رہی ہے۔ آزادی سے پہلے کے دور میں تعلیم کے لیے امیر بھارتیوں کے لیے انگلستان پسندیدہ مقام تھا۔ فنون لطیفہ پر زور اوران کے خطوط نے محبان وطن کو اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے ضروری فلسفیانہ اور قانونی مہارت فراہم کی۔ تحریک آزادی میں شامل بھارت کے بہت سے عظیم رہنماؤں (بشمول نہرو اور گاندھی) نے برطانوی یونیورسٹیوں سے ہی تعلیم حاصل کی تھی ۔ شاہی خاندان آکسفورڈ اور کیمبرج کو دنیا کی کسی بھی دوسری یونیورسٹی سے زیادہ باوقار سمجھتے تھے جیسا کہ نوآبادیاتی دور میں سول سروسز کے لیے امیدواروں کا انتخاب کرنے والے عہدیداروں کا خیال تھا۔ امریکہ جانے والے چند بھارتی طلبہ نے بھارت کی آزادی کے مقصد کی حمایت کی اور بہت سے ممتازامریکیوں کو بھارت کی تحریک آزادی کی حمایت کرنے کی ترغیب دی۔

آزادی کے بعد بھارتی طلبہ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں  امریکہ کا رخ کرنا شروع کیا ۔ امریکہ جانے کی کشش اس موقع میں تھی جو امریکہ نے تکنیکی اور کاروباری شعبوں میں زیادہ اہلیت والوں کے لیے پیش کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جس میں تبادلے کے پروگراموں کا آغاز ہوا اور مالی امداد کی دستیابی کی سہولت ملی۔ ایک تبادلہ پروگرام جس نے ہند ۔ امریکی فکری تعامل کو فروغ دیا وہ فلبرائٹ ۔ ہیز پروگرام تھا ۔ اسی کی بدولت یونائیٹیڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فاونڈیشن ان انڈیا (یو ایس ای ایف آئی )  کا قیام عمل میں آیا۔  ۱۹۵۰ء میں اس کے نفاذ کے بعد ۲۵ برس کی مدت میں ۵۰۰۰ سے زائد بھارتی اور امریکی اسکالروں کا ایک دوسرے کے ملکوں میں منصب معلمی اور تحقیقی منصوبوں کے لیے تبادلہ ہوا۔ فورڈ فاؤنڈیشن، راک فیلر فاؤنڈیشن، ہیزین فاؤنڈیشن، روٹری انٹرنیشنل، کارنیگی کارپوریشن اور دیگر نے بھی ہند ۔ امریکی علمی تبادلے کی حمایت کی۔

ایک سابق طالب علم نے یونیورسٹی میں اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا’’میرے خیال میں عملی طور پر امریکہ میں ہر بھارتی طالب علم کو اس دوران قریب قریب مکمل ٹیوشن اور فیس کے علاوہ رہنے کے لیے وظیفہ بھی ملا کرتا تھا۔ ان کا کہنا شاید درست تھا کیونکہ امریکی تعلیمی ادارے اس زمانے میں تیزرفتار ی کے ساتھ ترقی کر رہے تھے اورپیسہ آسانی سے دستیاب تھا۔ اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کے عوام کی مدد کرنے کا جذبہ بھی امریکیوں میں خوب پایا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے فیاضانہ وظائف کی پیشکش کی گئی۔ اس طرح ۱۹۵۸ء میں امریکہ میں ۴۳۳۹۱ غیر ملکی طلبہ میں سے ۲۵۸۵ بھارتی تھے۔ ۱۹۷۲ء میں ۱۲۵۲۳طلبہ کا بھارتی دستہ غیر ملکی طلبہ میں سب سے بڑا تھا۔ اور ۱۹۷۸ء  تک امریکہ کی غیر ملکی طلبہ کی  ۲۳۵۵۰۹  کی آبادی میں ۹۰۸۰ طلبہ کے ساتھ بھارت ساتویں نمبر پر تھا۔

ان میں سے بعض طلبہ کے پاس بھارت میں ملازمتیں تھیں اور وہ تربیت حاصل کرنے کی غرض سے تعطیل پر امریکہ میں مقیم تھےتاکہ بھارت میں  ان کی عملی زندگی رواں دواں ہو سکے۔ دیگر افراد بھارت میں رہنے والے امریکی اساتذہ کی حمایت سے امریکہ پہنچے تھے جن کی انہوں نے تحقیقی منصوبوں میں مدد کی تھی۔ ہونہار طلبہ کو مزید تعلیم کے لیے امریکہ جانے کا مشورہ ان کے اساتذہ نے دیا تھا اور اس کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اور بعض اوقات تو مالی امداد حاصل کرنے میں بھی ان کی مدد کی۔

میں نے ۱۹۶۰ءمیں امریکہ میں جس بھارتی طلبہ برادری میں شمولیت اختیار کی تھی وہ مادر وطن کے لیے حب الوطنی اور خدمت کے جذبے سے سرشار تھی۔ بھارت کے مستقبل کے بارے میں پرامید طلبہ جانتے تھے کہ وہ واپس آکر اچھی ملازمتیں پا سکتے ہیں اور بھارت کی ترقی میں گراں قدر تعاون کرسکتے ہیں۔ میں نے پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کی کیونکہ میں واپسی پر ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار بننے کی خواہش مند تھی ۔ دیگرمقبول کورسیز معاشیات، زراعت، شہری ترقی، کاروباری انتظامیہ اور سائنس تھے۔

اس دوران اپنی مالی حالت کو بھی مجھے ذہن میں رکھنا تھا۔ کورنیل یونیورسٹی میں پہلے دن نے ہی مجھے اس مسئلے سے روبرو کرا دیا ۔ میں ۱۹۶۰ء کے موسم خزاں میں کورنیل پہنچی تھی۔ میری بس ایک دو گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی ،لہٰذا اس وقت شام کے پانچ سے زیادہ بج چکے تھے جب میں ایک کار کے ذریعہ کیمپس پہنچی۔ دفاتر بند ہوچکے تھے۔ اب سوا ل یہ تھا کہ میں رات کہاں گزاروں؟ میرے ساتھ ٹیکسی میں سفر کر نے والی ایک امریکی طالبہ نے مشورہ دیا کہ میں وِلارڈ اسٹریٹ ہال جاؤں جواسٹوڈنٹ یونین کے زیرانتظام کام کرتا ہے۔ میں جب وہاں گئی تو مجھے پتہ چلا کہ وِلارڈ اسٹریٹ میں ایک رات کے قیام کے لیے مجھے آٹھ ڈالر خرچ کرنے ہوں گے۔ میرے ذہن میں ۴۰ روپے کا خیال آگیا جو ایک رات کے لیے بھارتی معیار کے مطابق ایک بہت بڑی رقم تھی اورجس کی میں عادی نہیں تھی۔ خرچ کی اس شکل نے مجھے پریشان کردیا ۔ اور رات میں نے آنکھوں آنکھوں میں کاٹ دی۔ ’’میں نے خود سے پوچھا  اتنے مہنگے ملک میں کیسے گزارہ کر پاؤں گی؟‘‘اپنے پیسوں کو محفوظ  رکھنے کے لیے میں نے اس رات نہیں کھانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ انگور اور ایک سیب جو میرے والد نے مجھے دیے تھے، اسی سے میں نے اپنی بھوک مٹائی۔

امریکہ میں بھارتی طلبہ کے لیے پیسہ اس وقت بھی تشویش کا باعث تھا اور اب بھی ہے کیونکہ تمام قیمتیں روپے کے لحاظ سے دیکھی جاتی ہیں۔ میں نے خود بخود اپنے آپ کو ہر ڈالر کے اعداد و شمار کو پانچ سے ضرب دیتے ہوئے پایا۔ میں ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ حساب لگاتی تھی کہ یہ روپے میں کتنے بنے۔ کورنیل جانے کا میرا جوش بھی مجھے اس خوف پر قابو پانے میں مدد نہیں کر پایا کہ میں یہاں ایک غریب بھارتی غیر ملکی طالب علم ہوں گی۔ میں امیر امریکیوں کے بارے میں پڑھ چکی تھی کہ وہ ’’ڈالروں میں کھاتے پیتے اور سوتے ہیں‘‘ اور پھر نئی دہلی میں ایک امریکی دوست نے کیمپس کی زندگی کے تعلق سے مجھے کچھ سلائیڈس دکھائی تھیں۔ سلائیڈس کو دیکھ کر مجھے  وہاں کی ساری چیزیں ’’مہنگی‘‘لگیں۔ تاہم جب میں نے کاسکیڈیلا ہال میں آخر کار قیام کیا تو مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے زیادہ تر ہم عصر گریجویٹ طلبہ میری ہی معاشی سطح کے تھے جو اسکول کے ذریعے ہی وہاں رہنے کی راہیں نکال رہے تھے۔ بعض وہاں معاون کا کام انجام دے رہے تھے تو بعض فیلوشپ، جزوی وظائف یا جزوقتی ملازمتوں پر تھے تاکہ اپنے اخراجات کی ادائیگی کر سکیں۔ ہر کوئی وہاں دوست کی طرح تھا اور کسی نے بھی مجھے یا کسی اور گریجویٹ طالب علم کو حقیر نگاہوں سے نہیں دیکھا کیوں کہ سب کے ساتھ وہاں بجٹ کا مسئلہ درپیش تھا۔

میں نے یہ بھی سوچا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ساتھ رہنے والی ڈورمیٹری میں میرے رہنے پر میرے والدین کا رد عمل کیا ہوگا۔ اگرچہ لڑکوں اور لڑکیوں کے رہنے کی جگہیں الگ الگ تھیں لیکن میرے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔میرے والدین نے مجھے صرف لڑکیوں والے ایک قدامت پسند کانونٹ اسکول اور کالج میں بھیجا تھا جہاں کی انسٹرکٹر بھی خواتین ہی تھیں۔ اپنے بھائیوں اور مرد کزن کے علاوہ میں صرف خواتین کے آس پاس رہی تھی ۔ یہاں میں نہ صرف مخلوط تعلیمی کلاسوں میں شرکت کر رہی تھی بلکہ ایک مخلوط تعلیمی ڈورمیٹری میں بھی رہ رہی تھی۔ پہلے تو میں خوفزدہ تھی لیکن مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ میرے امریکی اور دیگرساتھی گریجویٹ طلبہ  اپنی تعلیم کے لیے اتنے ہی وقف تھے جتنا میں تھی اور میں نے ایسا بھی نہیں پایا کہ تمام شہوت پرست لڑکے میری طرف دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔

بھارتی مرد طلبہ فوری طور پر مجھے ’’بہن‘‘ کی طرح ماننے لگے۔ دیگر کیمپسوں کی طرح کورنیل میں بھی کسی بھارتی طالب علم کو خود بخود انڈین اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے رول پر ڈال دیا جاتا تھا جو ساتھی بھارتیوں کے وِنگ میں آجاتا تھا۔ انہوں نے مجھے اس کے بارے میں بتایا کہ کہاں کھانا ہے، سردیوں میں کیا پہننا ہے اورضرورت کی چیزیں کہاں سے خریدنی ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نےبتایا کہ امریکی لڑکوں سے خبردار رہنا ہے۔ میں ایک مہذب گھرانے کی  انتہائی اخلاق پسند ہندو لڑکی تھی، لہٰذا انہوں نے محسوس کیا کہ میرا طرز عمل میرے پس منظر کا عکاس ہونا چاہیے۔ پہلے تو ان کی تشویش بہت تسلی بخش تھی کیونکہ میں طلبہ کے وسیع سمندر میں خود کو  کہیں کھویا ہوا محسوس کرتی تھی۔

میرے والد نے مجھے مشورہ دیا تھا’’جس ملک میں ہو، وہاں کے لوگوں کی ہی طرح رہو۔ میں نہیں چاہتا کہ تم دیوار پر ٹنگے پھول کی طرح بنو۔ ساتھی امریکی طلبہ کے ساتھ ملو جلو۔ ڈنرپرباہرجاؤ اوراگر تمہیں کسی سے محبت ہوجائے اور اس سے شادی کرنا چاہو تو تمہیں اپنی ماں اور میری دعائیں ہی حاصل ہوں گی۔  تاہم اپنی اخلاقیات فراموش مت کرنا۔ میں تمہاری شادی صرف اس لیے نہیں کرانا چاہتا کہ آخر کارتمہیں شادی کرنی ہے یا اس لیے کہ تم نہیں جانتی کہ تم کیا کر رہی ہو۔بہرحال اگر خود کو کسی مشکل میں پاؤ تو یاد رکھنا کہ  ہم لوگ تمہیں اس پریشانی سے باہر نکال لیں گے۔‘‘

میری بھارتی برادری کے خیالات (کہ مجھے کس طرح برتاؤ کرنا چاہئے)اس کے تعلق سے مختلف تھے۔ بعض نے محسوس کیا کہ مجھے شرمیلی اور اجنبی  کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے جبکہ دوسروں نے محسوس کیا کہ مجھے سب سے مل جل کر رہنا چاہیے۔ میں پہلے سمسٹر میں اتنا اچھا نہیں کر پائی کیونکہ صورتحال کا جائزہ، ڈورمیٹری کی زندگی اور میری کلاسوں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مجھے وقت لگا۔ مجھے اس وقت خوشی ہوئی جب گریجویشن کے امریکی طلبہ نے مجھے ایک جمعہ کو رات کے گیارہ بجے لائبریری بند ہونے کے بعد ’’مشروب‘‘کی دعوت دی۔ ہر کسی نے کاکٹیل یا بیئر کا آرڈر دیا تھا لیکن میں نے کوکا کولا منگوایا۔یوں بھی  میں اس کے علاوہ کسی دوسرےمشروب سے واقف نہیں تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی شراب دیکھی ہی نہیں تھی۔ الکحل والے مشروبات کے بارے میں مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ اس سے ایسا نشہ ہوتا ہے جو کسی شخص کو ناپسندیدہ بنا دیتا ہے۔ میں اپنے کوک سے مطمئن تھی اور کسی نے میرے لیے کوئی دوسری چیز تجویز بھی نہیں کی ۔ میرے دل میں کہیں یہ خدشہ تھا کہ شراب نوشی کے بعد میرے امریکی دوست میرے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کریں گے۔ میں نے بھارت میں امریکی ’’بداخلاقی‘‘ کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ تاہم مشروبات کے درمیان مشیروں، پروفیسروں، محکموں اورملک کی سیاست پر بات چیت کے بعد ہم سب پرسکون اوراپنے ساتھیوں کی صحبت سے خوش ہوکراپنے اپنے ٹھکانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس طرح کے تجربے نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ اپنے ساتھی گریجویٹ طلبہ کی طرح میں بھی پورے ہفتے سخت محنت کیا کرتی اور اختتام ِ ہفتہ بھارتی اور امریکی طلبہ کے ساتھ بات چیت کی منتظر رہا کرتی ۔ ہفتے کا دن عام طور پر کپڑوں کی دھلائی  اور خریداری جیسے کاموں کے لیے مخصوص ہوتا ۔ شام کو ہم سات یا آٹھ طلبہ کے گروپوں میں فلم دیکھنے جایا کرتے اور دوستوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا کرتے۔ بھارتی اور امریکی کنبے اکثر مجھے رات کے کھانے پر مدعو کرتے اور کبھی کبھار مجھے تھیٹر یا اوپیرا بھی  لے جایا کرتے ۔

ہم وہاں نہ صرف طلبہ بلکہ بھارت کے نمائندے بھی خیال کیے جاتے ۔ میں نے وہاں ریڈیواور ٹیلی ویژن پروگراموں میں حصہ لیا اور روٹری گروپوں، لائنس کلبوں اور دیگر شہری تنظیموں کے ساتھ اپنے وطن کے تعلق سے بات کی۔ مجھے ٹومپکنز اور آس پاس کے اضلاع میں بھارت کا’’سفیر‘‘ بننا پسند تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میں ’’انوکھی‘‘ہوں، جس کی بڑی وجہ میری ساڑیاں اور پنجابی پوشاک تھی ۔ ہم بھارتی طلبہ نے ہمارے دورمیں اپنے ملک کے بارے میں امریکیوں کے منفی دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو دور کرنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ مجھے فخر ہے کہ آج زیادہ تر امریکی شہری بھارت کے تئیں عزت و احترام کا جو نظریہ رکھتے ہیں، اس کے لیے ہم لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان ابتدائی برسوں کے دوران امریکی کیمپس میں جوبھی چند بھارتی خواتین تھیں، وہ بنیادی طور پربھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تھیں یا گریجویٹ طلبہ کی بیویاں تھیں۔ وہ عام طور پر بھارتی یا امریکی نوجوانوں کے ہجوم کے ساتھ زیادہ گھلتی ملتی نہیں تھیں۔زیادہ قدامت پسند بھارتی طلبہ خواہ وہ مرد ہویا خواتین، امریکیوں سے الگ تھلگ رہا کرتے جبکہ دیگر طلبہ ایک دوسرے سے مل جل کر رہا کرتے ۔ اس طرح انہوں نے کیمپس میں اپنے قیام کو خوبصورت بنا لیا تھا ۔

ہوٹل مینجمنٹ کے طلبہ شاید سب سے زیادہ ملنسار تھے ۔ عام طور پراپنے گھروں سے مالی طور پربہتران طلبہ کوکورنیل کے اسٹیٹلر اِن جیسے اداروں میں عملی تربیت کے دوران بھی تنخواہ دی جاتی تھی۔ یہ وہ طلبہ تھے جنہوں نے ہمارے قدامت پسندہم وطنوں کی ناراضگی میں اضافہ کرتے ہوئے مجھے مختلف شرابوں میں فرق کرنا اور گوشت یا مچھلی کے اچھے پارچے کی تعریف کرنا سکھایا۔ انہوں نے اسٹیٹلر میں موسم گرما میں میزبان کی ملازمت حاصل کرنے میں میری مدد کی۔ وہ مجھے پارٹیوں میں لے گئے اور میری حفاظت بھی کی۔

مجموعی طور پر تعلیمی لحاظ سے بھی بھارتی طلبہ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۶۰ کی دہائی اور۷۰کی دہائی کے اوائل میں طلبہ کو انگریزی زبان پر بہترین عبور حاصل تھا۔ برطانوی نظام تعلیم جس کے تحت ان میں سے زیادہ تر طلبہ نے تعلیم حاصل کی تھی، سے انہیں گرامر اور کمپوزیشن سیکھنے کا موقع ملا تھا۔ شروع میں انہیں غیر معروف معروضی قسم کے امتحانات میں پریشانی تھی لیکن رٹا لگا کر سیکھنے کی مشق کی وجہ سے وہ اس میں بھی مہارت حاصل کرنے لگے۔ وہ جزوی طور پر خاندانی عزت یا احترام سے تحریک پاتے تھے جس کا بہت زیادہ انحصار اس بات پر تھا کہ کوئی طالب علم کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو بھی مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے جنہوں نے ان پر سرمایہ کاری کی تھی۔

میں نے اپنے کچھ گریجویشن کے ساتھی طلبہ سے ملاقات کی جو اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائزہیں اور بھارت کی ترقی میں تعاون کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی کہانیاں سن کر میں خود کو اس بیچ سے الگ محسوس کرتی ہوں کیونکہ میں ان بہت کم طلبہ میں شامل تھی جنہوں نے امریکہ میں ہی رہنے کا انتخاب کیا تھا۔

اوشا ہیلویگ جزوقتی انسٹرکٹر اور ویسٹرن مشی گن یونیورسٹی میں ریسرچ ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر آرتھر ہیلویگ بھارت پر ہجرت کے اثرات کے متعلق تحقیق کے سلسلے میں حال ہی میں اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن گرانٹ پر بھارت تشریف لائے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹینفورڈ ۱۹۸۰ء
تحریر: سمرن سنگھ

مجھے ایک رات پہلے بہت زیادہ حسّاس ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

میں امریکہ کے معزز ترین اداروں میں سے ایک، اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنا پہلا امتحان دے رہی تھی ۔ مجھے میرے پروفیسر نے ذرا مسکراتے ہوئے جب پیپر دیا تو میں پرسکون محسوس کررہی تھی ۔ انہوں نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ آپ ان سوالات کے جوابات دینے میں اتنا ہی وقت صرف کریں گی جتنا میں نے ان کے بارے میں غور و فکر کرنے میں کیا ہے۔ خدا کرے آپ کا امتحان بہتر ہو۔ میں جمعہ کو آپ سے ملوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے۔

میں اس اعتماد سے حیران تھی جو اسٹینفورڈ اپنے طلبہ پر کرتی ہے۔ بغیر کسی نگرانی کے وہاں کے طلبہ جہاں چاہیں،بیٹھ کر امتحان دے سکتے ہیں۔وہ اپنی کلاس میں کوک اور فرنچ فرائز کا پیک لا سکتے ہیں، اپنے پاؤں میز پر پھیلا کر اپنا امتحان دے سکتے ہیں۔ یا وہ اسے گھر یا کافی ہاؤس یا یہاں تک کہ لائبریری میں لے جا سکتے ہیں اور تین گھنٹے بعد اسے واپس لا سکتے ہیں۔

طلبہ نقل بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی نگرانی کے لیے ارد گرد کوئی نہیں ہوتا لیکن ’آنر کوڈ‘  جس پر اسٹینفورڈ کے تمام طلبہ کو دستخط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اخلاقی طور پرآپ کو نقل نہیں کرنے کا پابند بناتا ہے۔

’’اپنے میں ایماندار‘‘والی پالیسی کی وجہ سے یونیورسٹی اپنے طلبہ پر مکمل اعتماد رکھتی ہے۔ یہ یونیورسٹی کی غیر معمولی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ یہ طلبہ ہیں جو سہ ماہی کے آخر میں اساتذہ کے لیکچرس، وضاحت، دلچسپی پیدا کرنے کی صلاحیت اور ان تک رسائی کا جائزہ لیتے ہیں۔

وہاں کلاسیں بھی  بھارت کی کلاسوں سے مختلف تھیں جن کی میں عادی تھی۔ مرکزی طور پر گرمی حاصل کرنے والے بڑے کمروں میں پروفیسرکھلی گردن والی ٹی شرٹ میں آرام دہ لباس پہنے ہوتے ہیں۔ وہ آرام سے میز پربیٹھ کر لیکچردیتے ہیں۔ وہ اصرارکرتے ہیں کہ ان کے طلبہ انہیں ان کے پہلے نام سے پکاریں۔ میں نے اپنے شعبوں میں کچھ معروف ماہرین کے ساتھ اتنا آرام دہ ہونے کوحوصلہ افزا پایا۔

اسٹینفورڈ  کے اساتذہ جن میں ۱۳ نوبل انعام یافتگان اور ۴ پولٹزر انعام یافتگان شامل ہیں، اپنی ذمہ داری کو کافی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ وہ طلبہ کے ساتھ کلاس میں دوپہر کا کھانا کھا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سخت الفاظ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے اساتذہ ٹرم پیپرس آنے سے پہلے رات بھر آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ پروفیسر اور مصنفین بہت ہی مہنگے تعلیمی میناروں میں نہیں بیٹھتے بلکہ اپنے ٹائپ رائٹرس پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور آپ کے استقبال کے لیے اپنے دفتر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ اپنے فون نمبروغیرہ دینےمیں نہیں ہچکچاتے ۔ وہ کسی بھی مشورے یا بیئر کی دعوت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

دوست بن چکے پروفیسر آپ کے سب سے بڑے ناقدین ہیں۔ وہ آپ کے ٹرم پیپر کا تجزیہ کرنے میں قریب قریب اتنا ہی وقت صرف کرتے ہیں جتنا آپ نے اسے لکھنے میں لگایا ہے۔  آپ کو ملنے والے تبصروں میں ’’آپ اسے نہیں کر پائیں گے‘‘سے لے کر ’’ہاں، آپ نے وہ کردیا ہے جس کی یہاں ضرورت تھی‘‘  تک شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا پیپر بالکل ہی کسی مطلب کا نہیں ہے تو آپ کو کلاس میں یہ کبھی دکھایا نہیں جاتا ہے خواہ  آپ کتنے ہی بے خبر کیوں نہ معلوم ہوتے ہوں۔

ہمیں بتایا گیا کہ’’ خراب سوال ایسا سوال ہوتا ہے جسے پوچھا نہیں جاتا ۔‘‘طلبہ اپنے مشیر سے کسی بھی چیز کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں خواہ وہ کریئر کے تعلق سے ہو، طلبہ کی ذاتی زندگی کے تعلق سے، ان کے مالی معاملات یا ان کی کمی سے متعلق ہو۔ وہ انتہائی عجیب سوالات کے جواب کا بھی ان سے مطالبہ کرسکتے ہیں۔

ایک عام سوال جزوقتی ملازمتوں سے متعلق ہے۔ بہت سے طلبہ کو اپنی تعلیم کے دوران پیسے کمانے پڑتے یا ہوتے ہیں۔وہ  اکثر تدریسی یا تحقیقی معاون، ان کے مشیر جو بھی ان کے لیے تفویض کرتے ہیں، کے طور پروہ اپنی روزی روٹی (اور بیئر اور ڈاک ٹکٹ) کما سکتے ہیں۔ اسٹینفورڈ بجٹ کا پہلا حکم یہ ہے کہ ایک بار یونیورسٹی میں داخل ہونے والے طالب علم کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے نااہل قرارنہیں دیا جائے گا۔ مہارت کے لحاظ سے کسی طالب علم کو جونیئر کلاس یا گریڈ پیپرزکو پڑھانے یا تحقیقی کام کرنے کے لیے تفویض کیا جاسکتا ہے۔ جزوقتی ملازمتیں عام طور پر کتب خانوں، کمپیوٹر مراکز اور کیفے ٹیریا میں دستیاب ہوتی ہیں۔

کسی بھی صورت میں اپنی کفالت کرنا یہاں ناقابل یقین حد تک آسان ہے کیونکہ ملازمت کے مواقع بہت سارےہیں اور اوسط تنخواہ قریب قریب چار ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ آپ ۱۰ ڈالر میں ایک استعمال شدہ ٹی وی، ۲۵ ڈالر میں ایک استعمال شدہ موٹر سائیکل اور ۲۵۰ ڈالرس میں ایک استعمال شدہ کار خرید سکتے ہیں۔

انڈر گریجویٹ سطح پر مطلوبہ کورسیزکا حصہ کسی طالب علم کے پروگرام کے نصف سے بھی کم ہوتا ہے۔ وہ باقی کا انتخاب کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ فلمی جمالیات، صوتیات اور فزیوتھیراپی جیسے متنوع کورسیز کے ساتھ اپنے میجر مضامین کے لیے کوئی بھی طالب علم بعد میں اس مضمون میں مہارت حاصل کر سکتا ہے جسے  وہ اپنی اصل دلچسپی کے طور پر دریافت کرتا ہے۔ پیرس میں فرانسیسی تاریخ یا نیروبی میں تیسری دنیا کے مسائل کا مطالعہ کرنے کے انتخاب کی بھی انہیں سہولت ہوتی ہے ۔ اسٹینفورڈ کے دنیا کے مختلف حصوں میں کیمپس ہیں جہاں طلبہ یونیورسٹی کی تمام سہولیات کے ساتھ ایک سال گزارسکتے ہیں۔

زیادہ تر مطلوبہ کورسیز میں طلبہ کوان ہی حالات میں کام کرنا ہوتا ہے جن کا وہ گریجویشن کے بعد تجربہ کرتے ہیں۔ وہ آزادانہ فیصلے کرنے اور ان ذمہ داریوں کے ساتھ رہنے پر مجبورکیے جاتے ہیں جو انہوں نے قبول کی ہیں۔ مثال کے طور پر صحافت کے طلبہ کو کیمپس سے باہر مختلف شعبوں کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔ اس کا تعلق صحت، تعلیم، پناہ گزین یا جرم سے ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب اصل میں وہاں موجود ہونا اور لائبریری میں گزارے جانے والے وقت کی طرح اسپتال یا پولیس اسٹیشن میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ہے۔ اس کا مقصد خبروں کی تلاش کے لیے خود کوتیار کرنا اورہر جانب خبروں کی مہک سونگھناہے جب تک کہ آپ کو وہاں سے آپ کی اسٹوری نہ مل جائے۔ اس میں خیال یہ ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کی آسان زندگی سے نکال کر آپ کو منتخب کردہ کریئر کا عادی بنا دیا جائے تاکہ آپ وہاں کے جوش اور تناؤ کو قبول کرنے والے اور اس سےلطف اندوزہونے والے بن جائیں۔

تربیت کے لیے صحافت اور بزنس اسکول کے طلبہ اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر صحافت کے طلبہ بزنس کے طلبہ کا انٹرویو کرتے ہیں۔ ویڈیو ٹیپ پرانٹرویوکو ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر تجزیہ کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے ویڈیو ٹیپ کو دوبارہ  چلایا جاتا ہے۔

ایک بھارتی طالب علم شاید ایک امریکی طالب علم کے مقابلے میں اسٹینفورڈ سے بہت زیادہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ عمومیت کے سبب چیزوں کوخاطر میں نہیں لاتے۔ بہت سے غیر تعلیمی کورسیز چونکہ ہمیشہ امریکیوں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اس لیے وہ بعض اوقات انہیں نظر اندازبھی کر دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر غیر ملکی طلبہ جوش و خروش سے جاز ڈانس،فن شمشیر زنی، کار میکانیات، ایروبکس، جسمانی مالش یا مارشل آرٹ کی پانچ مختلف اقسام سیکھتے ہیں۔

اسٹینفورڈ  کے کتب خانے جادوئی ہیں ۔ زیادہ تر شعبوں میں چھوٹی لائبریریوں کے علاوہ ۲۰  سے زیادہ تحقیقی لائبریریاں ہیں۔ پیٹر سی ایلن’’اسٹینفورڈ: فروم دی فٹ ہلز ٹو دی بے‘‘میں لکھتے ہیں کہ صرف میئر انڈر گریجویٹ اور گرین گریجویٹ کی لائبریریاں ’’۶۸ میل طاقوں کی جگہ  فراہم کرتی ہیں جو۲ اعشاریہ ۸  ملین سے زیادہ جلدوں اور ۱۷۰۰قارئین کے بیٹھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘  طلبہ کو کتابوں تک مزید رسائی دینے کے لیے گٹنبرگ ایکسپریس روزانہ شٹل سروس کے ذریعے اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور برکلے میں واقع  یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کیمپس  کو جوڑتی ہے۔

آپ لائبریریوں کے جلد ہی عادی ہو جاتے ہیں ۔ آپ وہاں گملے میں لگے کسی بھی اچھے  پودے کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پڑھائی میں گھنٹوں گزار سکتے ہیں ۔ آپ مائیکرو فلم سیکشن میں انڈین ایمرجنسی کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ آپ ٹائمس آف انڈیا یا انڈیا ٹوڈے کو پڑھنے کے لیے گرین لائبریری میں جا سکتے ہیں یا ہوور انسٹی ٹیوشن لائبریری میں جا کر مطالعہ کر سکتے ہیں جہاں ایک بار الیگزینڈر سولزینٹسائن نے اپنی یادداشتیں لکھی تھیں۔ سنجیدہ تحقیق میں شامل طلبہ لائبریری کے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔ وہ کسی ایک ڈیٹا بیس سے کسی موضوع پر شائع شدہ تمام مواد کا پرنٹ آؤٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض طلبہ کے اپنے کمروں میں ویڈیو ڈسپلے ٹرمینلز ہوتے ہیں جو کیمپس کے مرکزی کمپیوٹر سے جڑے ہوتے ہیں۔

آپ صحیح کوڈ کا انتخاب کریں اور آپ کا کمپیوٹر آپ کو دن بھر کی خبریں فراہم کر دے گا۔ یہ آپ کو ایم آئی ٹی میں کسی دوست کی طرف سے میل بھی پہنچا دے  گا۔ یہاں تک کہ آپ اس سے کوئی گندہ مزاح بھی سن سکتے ہیں۔  کچھ طلبہ کمپیوٹر کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور اسٹینفورڈ کے سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ میں ہی سو جاتے ہیں جہاں لاٹس یعنی لو اوور ہیڈ ٹائم شیئرنگ سسٹم رکھا ہوا ہے جو ۲۴گھنٹے کھلا رہتا ہے۔

بہت سے پروفیسر سنجیدہ طلبہ کو اپنی نجی لائبریریوں تک مفت رسائی دیتے ہیں۔ محکمے عام طور پر اپنی تحقیق کے لیے کسی بھی قسم کے مواد کا انتظام کرسکتے ہیں یا کسی ماہر سے اپنے موضوع پر بات کرنے کا انتظام کرسکتے ہیں۔ طلبہ کو اپنی تحقیق کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جتنا ضروری ہو فنڈنگ کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر، ایلن کہتے ہیں’’اسٹینفورڈ میں انجینئرنگ کی تحقیق میں اب قریب ۲۵ملین ڈالر سالانہ لگتے ہیں جس میں قریب قریب ۲۰۰ مالی اعانتیں اور معاہدے شامل ہیں۔ یہ حد آفاقی ہے جو خوردبینی مربوط سرکٹوں سے لے کر تمام بیرونی خلا تک کا احاطہ کرتا ہے۔‘‘

امریکہ میں امتحان بھارت کے کسی طالب علم کے لیے کوئی غیر معمولی تجربہ نہیں ہے۔ چونکہ آپ کو سال بھر کلاس میں ہر ایک گھنٹے کے لیے  گھر میں تین گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، لہٰذا آپ کو امتحانات سے پہلے اپنی راتوں کو خراب کرتے ہوئے گزارنے اور گھڑی کو ٹک ٹک کرتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کسی بھی صورت میں آپ کا آخری امتحان آپ کے گریڈ کا صرف ۲۰ فی صد ہی شمار کیا جاتا ہے ۔ باقی کا انحصار کلاس میں شرکت، ٹرم پیپرز اور سال بھرکی آپ کی مستقل پیش رفت پر ہے۔ اگرامتحان کے دوران طبیعت اچھی نہیں ہے یا آپ کسی اور کورس میں مصروف ہیں ،تو بعد میں بھی امتحان دینے کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اسٹینفورڈ کی پالیسی کا مطلب یہ دیکھنا ہے کہ کوئی طالب علم کورس سے کتنا حاصل کر سکتا ہے، یہ نہیں کہ وہ تین گھنٹوں میں کاغذ کے ٹکڑے پرکتنا لکھتا ہے۔ اسٹینفورڈ کا ماحول اور دستیاب سہولتیں آپ کو مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور تعلیم کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہتی ہیں نہ کہ صرف امتحان دینے کی خاطر۔

اسٹینفورڈ کی ڈگری بھی آپ کے کریئر کے امکانات کو تقویت دیتی ہے۔ پیٹر ایلن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’تعلیمی معیار کی درجہ بندی بہترین طور پر ایک ناقص سائنس ہے۔ لیکن ملک بھر میں اساتذہ کے درمیان کیے گئے حالیہ جائزے، اسٹینفورڈ کے پروفیسروں کے امتیاز کے بارے میں ثبوتوں کی بالادستی پیش کرتے ہیں۔ وہ تعلیم اور کاروبار کے اسکولوں کو  ملک میں پہلے، انجینئرنگ اور طب کو دوسرے اور قانون کو تیسرے نمبر پر رکھتے ہیں اور وہ یونیورسٹی کے۱۷ محکموں کو اپنے شعبوں میں سرفہرست ۵ میں شامل کرتے ہیں۔‘‘

زیادہ تر فارغ التحصیل طلبہ یونیورسٹی چھوڑنے سے پہلے ہی اپنی ملازمتوں کو یقینی بنا لیتے ہیں۔ بھارتی گریجویٹس کا تعلق زیادہ تر انجینئرنگ شعبے سے ہوتا ہے ۔اور زیادہ تر طلبہ سلی کون ویلی میں ہی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں جس کے مرکز میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی واقع ہے۔

کیمپس میں سال میں ایک بار ایک دلچسپ منظر نامہ دیکھنے کے لیے ملتا ہے اور یہ اس کاجاب فیئر ہے جہاں لاک ہیڈ، ہیولیٹ پیکارڈ، فیئرچائلڈ اور دیگر اعلیٰ کمپنیاں اسٹینفورڈ کے طلبہ کو بھرتی کرنے کے لیے اپنےایکزیکٹو بھیجتی ہیں۔ تھری پیس کے بہت خوبصورت سوٹ میں یہ ایکزیکٹو طلبہ کو اپنے کیٹلاگ اور بروشر دیتے ہیں اور پرکشش ملازمت کی پیشکش کرتے ہیں۔ ٹی شرٹس، جینز اور چپل پہنے یہ طلبہ ان کیٹلاگ کو اپنے تھیلوں میں رکھ لیتے ہیں تاکہ وہ ان پر بعد میں غور و فکر کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کلاس روم کے باہر کی زندگی معمولی لیکن محنت طلب اور حیرت واستعجاب سے بھری ہوتی ہے۔

کیمپس میں رہنے والے گریجویٹ طلبہ کو اونچی عمارتوں یا کم اونچے دو بیڈروم والے اپارٹمنٹس کے انتخاب کی آزادی ہوتی ہے ۔ دونوں قسم کی عمارتوں کو طلبہ کے استعمال کے حساب سے تیارکیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں آپ کو ایک روم میٹ کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا جوضرورت کے وقت مدد کرنے والا بن سکتا ہے ۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا آپ کے دوست، فون کالز یا ساری رات ہونے والی ٹائپنگ ان کے اعصاب پرکیا اثر ڈالتی ہے۔

اسٹینفورڈ کا کیمپس ایسا ہے جہاں آپ بائیک سے آنا جانا کرسکتے ہیں ۔ اس کی بہت سی گلیاں موٹر کار کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ ٹین اسپیڈزسائیکلوں پربڑی تیزرفتار سے گزرنے والے یہاں کے طلبہ کے ساتھ اسٹینفورڈ کے آٹھویں صدر ڈونالڈ کینیڈی بھی ہوتے ہیں جنہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے تین ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ہر صبح نرم گفتار صدر ڈونالڈ کینیڈی ۱۰ کلومیٹر دوڑ لگاتے ہیں ۔ وہ کسی بھی طالب علم کو مدعو کرتے ہیں جو ان کے ساتھ دوڑ میں شامل ہونا چاہتا ہو۔

بہت سے شرمیلے غیر ملکی طلبہ کے لیے۳۵۶۰ ہیکٹر کیمپس والا بیکٹیل انٹرنیشنل سینٹر ایک اچھی جگہ ثابت ہو سکتا ہے جہاں وہ اپنے قدم جمانے اور اپنے دوستوں کی تلاش کا آغاز کر سکتے ہیں۔ بہت ہی خوبصورت بیل سے ڈھکے آئی سینٹر میں غیر ملکی طلبہ اور ان کے شریک حیات اورزبان کی کلاسوں کے طلبہ کے لیے ہفتہ وار کافی کا پروگرام ہوتا ہے ۔ یہاں لوک رقص اور بین الاقوامی کھانا تیار کرنے جیسے پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔یہاں ایک دیو قامت ٹی وی پر آپ پروگرام دیکھ سکتے ہیں اور ایک بہت ہی دوستانہ فطرت کے عملے کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں بہت سے عراقی اور ایرانی طلبہ دوست بن جاتے ہیں اگرچہ ان کے ملک ایک دوسرے سے جنگ میں نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔

ایک بار جب آپ اپنے دوست بنا لیتے ہیں تو کیمپس کی زندگی آپ کی اپنی زندگی کے بہترین تجربات میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ کیمپس کی زندگی کے تعلق سے ایک عام سا پرجوش احساس یہ ہوتا ہے کہ’’اس سے بہتر دن اور رات مجھے کہیں نہیں مل سکتے ۔‘‘  ایلن ایک طالب علم کا حوالہ دیتے ہیں جس نے کہا تھا ’’آپ کو اسٹینفورڈ میں اکتاہٹ کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی کیونکہ آپ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ کو یہاں کلب، ٹیم، تنظیم یا دوست مل سکتے ہیں۔‘‘

قریب قریب ہر روز یہاں ڈرامے، ٹاکس، گانے بجانے کی محفلیں، رات بھرجاری رہنے والے لوک رقص کے پروگرام اور پارٹیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے نزدیک رہنے والے  جوان بیز  گاہ گاہ اپنی آواز سے سب کو مسحور کرنے کے لیے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں طلبہ کو ہفتے میں کم از کم ۱۰ مختلف فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ فلموں کی اقسام عصری مشہور فلموں سے لے کر فرانسیسی اور اطالوی کلاسیکی فلموں اور تاریخ ساز فلموں تک کا احاطہ کرتی ہیں۔

سال کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک اسٹینفورڈ اور برکلے (ایک یونیورسٹی جسے اسٹینفورڈ کے طلبہ ذلت آمیز طور پر ’’کیلیفورنیا میں دوسری بہترین یونیورسٹی‘‘کہتے ہیں) کے درمیان سالانہ فٹبال ٹورنامنٹ ہے ۔ بڑے میچوں کے ٹکٹ مہینوں پہلے فروخت ہو جاتے ہیں اور جیسے جیسے اس میچ کے کھیلے جانے کا وقت نزدیک آتا ہے تو ٹکٹ کے لیے کالا بازاری شروع ہو جاتی ہے۔ کیمپس کے مرکز میں ایک کافی ہاؤس واقع ہے جو طلبہ کے لیے ایک آرام دہ چھوٹا سا ٹھکانہ ہے۔ یہاں بیٹھنے کے لیے لکڑی کے سخت بینچ ہیں جہاں آپ کو بہترین کافی پیش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ طلبہ جن کے پاس وقت نہیں ہوتا وہ بھی یہاں آنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ آپ یہاں آئیں اور اپنے لیے کم از کم ایک دو گھنٹے کی تفریح کو یقینی بنائیں۔ باصلاحیت طلبہ یہاں مفت میں گاتے ہیں، رقص کرتے ہیں اور ڈرامے پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ شور شرابے اور موسیقی اور رقص کرنے والے طالب علم میزبان کے درمیان اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ یہاں اپنا مقالہ لکھ سکتے ہیں یا ابجد کے کھیل (اسکریبل گیم) میں شامل ہو سکتے ہیں۔

اسٹینفورڈ میں اپنی پہلی سہ ماہی کے آغاز کے دوران، کافی ہاؤس کی میز پر اپنی کتاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ  ۲۰ مردوں اور خواتین پر مشتمل ایک شور مچانے والا گروپ بیڈ شیٹس میں لپٹا ہوا داخل ہوا ۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی چادروں کے نیچے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ ’’ٹوگا پارٹی‘‘سے یہ میرا تعارف تھا جو عام طور پر سہ ماہی کے آغاز میں فریشرز کے لیے منعقد کیا جاتا تھا۔

کافی ہاؤس رات ۱۱ بجے بند ہوتا ہے لیکن اگر آپ اب بھی تفریح کا ارادہ رکھتے ہیں تو اب آپ کو دی اوایسِس کا رخ کرنا پڑے گا جو امریکہ میں ان ۱۰  مقامات میں سے ایک ہے جہاں طلبہ سب سے زیادہ آتے ہیں۔ یہاں آپ بیئر کا ایک دیو قامت گھڑا اورچھلی ہوئی مونگ پھلی (مونگ پھلی کے چھلکے آپ آسانی سے فرش پر پھینک دیتے ہیں) کا ایک تھیلا  حاصل کر سکتے ہیں جو صبح ۳ بجے تک شغل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ ڈینیز جا سکتے ہیں جو ۲۴ گھنٹے کھلا رہنے والے کافی شاپس میں سے ایک ہے۔

یقینی طور پر بیئر پینے کی محفلوں کا اہتمام ہفتے کے آخری دنوں میں ہی ہوتا ہے۔ ہفتے کے دنوں میں آپ کو کام، کام اور سخت کام کرنا ہوتا ہے۔ اسٹینفورڈ میں ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ قریب قریب ہر دوسرا طالب علم اپنے موضوع کے بارے میں اچھی معلومات رکھتا ہے۔ ہر سطح پر بات چیت آپ کو اپنے موضوع کا پتہ دیتی ہے۔ آپ کے جس شعبے کے دوست ہوں گے اسی طرح آپ بایو کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس یا دل کی پیوند کاری کے بارے میں کافی اچھی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

سال کے دوران کسی دن طلبہ کا ایک گروپ تیسری دنیا کی غذائی قلت کے جواب کے لیے بھوکے رہنے کا پروگرام بناتا ہے جس میں وہ اسٹینفورڈ کے تمام طلبہ کوشرکت کی دعوت دیتا ہے۔ ایک دن بھوکے رہنے کا مقصد یہ ہے کہ اچھی طرح سے کھاتی پیتی پہلی دنیا والوں کواحساس ہو کہ بھوک کیا چیز ہے اوربھوک لگنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ بہت سی ڈورمیٹریز اور ہاؤسیز تیسری دنیا کے مسائل کے بارے میں بیداری میں اضافے کے لیے کورسیز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہیمرشولڈ ہاؤس تیسری دنیا کے واقعات کو کس طرح مغربی پریس مسخ کرتا ہے، کے موضوع پر ایک کورس کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے تعلق سے مباحثے اکثر رات گئے تک شدید بحث پر منتج ہوتے ہیں۔

اسٹینفورڈ کے ساتویں صدر رچرڈ لائیمن نے کہا تھا ’’ایک آرام دہ یونیورسٹی ان معنوں میں ایک تضاد ہے کہ ہم مردوں اور خواتین کے ذہنوں کو پریشان اور فعال کرنے کے لیے وجود رکھتے ہیں۔‘‘

امریکہ میں بھارتی طلبہ کے لیے بہت سی اقدار تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح تاثرات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ زیادہ تر بھارتی طلبہ کا خیال ہوتا ہے کہ تمام امریکی بچے منشیات کے عادی ہوں گے اور تمام امریکی خواتین آسانی سے آپ کے پاس آجاتی ہوں گی۔ اور ہاں کیمپس میں جنسی تعلقات کا وجود  امریکہ کے کسی بھی دوسرے کیمپس کی طرح ہی ہے۔ اور اس سلسلے میں انکار یا رازداری کا رویہ بھی اپنایا نہیں جاتا ۔ اس کی بجائے مرد اور خواتین طلبہ علی الاعلان ایک ساتھ رہتے ہیں۔ مانع حمل  تدابیر کی مشاورت مفت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرستوں کے اپنے اپنے کلب بھی یہاں موجود ہیں ۔

اس دلکش کیمپس میں بھی جرائم اپنا وجود رکھتے ہیں۔ سائیکل چوری اسٹینفورڈ میں ایک فنی مہارت ہے۔ آپ کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے کہ تین سال میں کم از کم ایک بار ضرورآپ کی بائیک چوری ہو جائے گی ۔ کیمپس کے مختلف حصوں میں چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی کے ساتھ عصمت دری جیسے سنگین جرائم کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو عصمت دری سے بچنے کا طریقہ اوراگر ایسا ہوجائے تو اس سے کیسے نمٹا جائے، یہ سکھانے کے لیے مختلف ڈورمیٹریز میں عصمت دری کے تئیں بیداری کے پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

یونیورسٹی رات ۸ بجے کے بعد خصوصی خدمات فراہم کرتی ہے جس کے تحت خواتین کو بحفاظت کیمپس لانے کے لیے کیمپس سے ایک کلومیٹر دور تک پہرے دار بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن پالوآلٹو جیسے چھوٹے سے شہر میں ہونے کی وجہ سے اسٹینفورڈ کافی محفوظ کیمپس ہے۔ یہ ایک ایسا کیمپس ہے جس سے آپ رفتہ رفتہ مستفید ہونے کے عادی بنتے ہیں۔  اس کی سردیاں مشرقی ساحل کے چشموں کی طرح نرم ہوتی ہیں۔ پہاڑیوں اور خلیج کے درمیان واقع یہ یونیورسٹی آپ کو پہاڑوں اور ساحلوں دونوں ہی قسم کی تفریح کا مزہ دیتی ہے۔ یونیورسٹی کا ہسپانوی فن تعمیر آپ کے دل کوچھولیتا ہے۔ یونیورسٹی کے عظیم سبز بیضوی شکل کی عمارتوں کے درمیان محو حیرت سے کھڑا کوئی نیا طالب علم بہت ہی خوبصورتی سے تراشے ہوئے ستونوں، صاف نیلے آسمان اور سنہری  پہاڑیوں کے ساتھ اس کی خوبصورت عمارتوں کو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس کے بہت خوشگوار ماحول کی وجہ سے آرکیٹیکٹ فرینک لائیڈ رائٹ نے اسے امریکہ کے خوبصورت ترین کیمپسوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

اپریل میں جب موسم سرما میں استعمال کی جانے والی چیزیں سمیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں تودروازے اور کھڑکیاں کھلی چھوڑ دی جاتی ہیں تاکہ تازہ ہوا اور نرم گھاس کی بو اندر آسکے ۔ اپنے منفرد انداز میں موسم بہار کو منانے کے لیے اسٹینفورڈ کسی ایک دن کو محفوظ رکھ لیتا ہے۔ اس دن شام سے لے کر صبح تک ایک پوری سڑک گاڑیوں کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔ میلوں تک آپ ایک سپر پاور بینڈ کو اسٹینفورڈ  کی پسندیدہ دھنیں بجاتے سن سکتے ہیں جبکہ ہزاروں  طلبہ رات بھر ایک دوسرے کے ساتھ رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ اس موسم بہار کی رات میں خوب بیئرپی جاتی ہے اورپاپ کارن کھائے جاتے ہیں۔ یہ وہ رات بھی ہے جب گریجویشن کی پوری کلاس یونیورسٹی کو الوداع کہہ رہی ہوتی ہے۔

مگریہ الوداع ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا ۔ اسٹینفورڈ المنائی  ایسوسی ایشن کے ۵۰۰۰۰ سے زائد اراکین ہیں جو نیوز لیٹرز، کانفرنس اور موسم گرما کے پروگراموں کے ذریعے اپنے اسکول سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بائیں کونے پر یونیورسٹی کی مہر کے ساتھ خاکی لفافے برسہا برس سے مختلف ممالک کے پوسٹ باکس میں اپنی موجودگی درج کراتے رہتے ہیں۔

 

سِمرن سنگھ حال ہی میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر ڈگری حاصل کرکے امریکہ سے واپس آئی ہیں۔ اپنے کورس کے دوران انہوں نے اسٹینفورڈ ڈیلی کے لیے رپورٹنگ کی ۔ وہ دی المنائی ایلمینک کی کاپی ایڈیٹربھی رہ چکی ہیں۔

 

اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل اگست ۱۹۸۲ء میں ہوئی تھی۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے