ٹی بی سے جنگ میں تکنیکی آلات کا استعمال

یو ایس ایڈ کی مالی اعانت سے جاری ایک پروجیکٹ تپ دق کو ختم کرنے میں کچھ بڑے مسائل پر قابو پانے کی خاطر بھارت کی مدد کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے۔

برٹن بولاگ

August 2021

ٹی بی سے جنگ میں تکنیکی آلات کا استعمال

عالمی یومِ تپ دق کے موقع پر ٹریس۔ ٹی بی اسٹال۔ اس تقریب کا انعقاد مارچ ۲۰۲۱ میں نئی دہلی میں بھارتی وزارت صحت اور خاندانی بہبود نے کیا ۔ تصویر بشکریہ یوایس ایڈ

تپ دق (ٹی بی) صحت عامہ کے لیےایک عالمی خطرہ بنا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی عالمی تپ دق رپورٹ ۲۰۲۰ء کے مطابق دنیا بھر میں ٹی بی کے ۲۶فی صدمعاملات صرف بھارت میں پائے جاتے ہیں جو بھارت کو ٹی بی کے معاملات میں سب سے بڑا حصہ دارملک بناتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال ٹی بی ۴لاکھ ۳۶ ہزار سے زائد جانیں لے رہاہے جس کی وجہ سے یہ بیماری ملک میں اموات کی ۱۰ وجوہات میں شامل ہے۔

یہ اموات خاص طور پر افسوسناک ہیں کیونکہ اگر صحیح تشخیص ہو اور بروقت علاج کیا جائے تواس کے زیادہ تر معاملات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں ۔ ٹی بی سے نمٹنا بھارت کے لیے ایک دیرینہ ہدف رہا ہے لہذا حکومت نے ۲۰۲۵ء تک ملک میں ٹی بی کے خاتمے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور وادھوانی انسٹی ٹیوٹ فارآرٹی فیشل انٹیلی جنس کے مابین اشتراک ان کوششوں کو فروغ دینے میں مدد دے رہا ہے۔ وادھوانی انسٹی ٹیوٹ ممبئی میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو سماجی فلاح و بہبود کے لیے مصنوعی ذہانت کو فروغ دے رہی ہے ۔

یو ایس ایڈ کی مالی اعانت سے کام کرنے والا یہ منصوبہ ٹی بی سے نمٹنے میں حائل دو سب سے بڑے مسائل پر قابو پانے کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں جانچ کی تشخیص اوراس سے متعلق وضاحت کو خودکار بنانا شامل ہے تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ مریض کو ٹی بی کے تعلق سے کس شدت کی تکلیف ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ مریض کو صحیح علاج ملے اور یہ پیشن گوئی کی جا سکے کہ کن مریضوں کو اپنی روزانہ کی ٹی بی کی دوائی بند کرنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ باقاعدگی سے اور بروقت دواملنا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اس میں علاج عام طور پر۶ ماہ سے دو سال تک جاری رہتا ہے اور جب مریض اپنی دوا لینا بند کر دیتے ہیں تو وہ دوا سے ٹھیک نہ ہونے والی ٹی بی کی شدت سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

اس پروگرام میں یو ایس ایڈ کے سربراہ ڈاکٹر امر این شاہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں اختراعات بھارت میں ٹی بی کے خاتمے میں تیزی لا سکتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اگرصحیح تشخیص ہو اور اچھا علاج ہو تو اس سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے یا پھر اسے صفر پر لایا جا سکتا ہے۔‘‘ انقلابی تحقیق اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ٹی بی کا خاتمہ اور متعدی بیماریوں کے خاتمے کی کوشش(ٹریس ۔ ٹی بی)کے نام سے معروف ۸اعشاریہ ۵ ملین ڈالر کے چار برسوں پر محیط اس اشتراک کا آغاز جون ۲۰۲۰ءمیں ہوا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ بھارت میں سالانہ ۲ اعشاریہ ۶۴ ملین افراد ٹی بی سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا مریضوں کی جانچ کے علاوہ ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے یعنی انہیں ایک مالیکولر ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے جو درست طریقے سے اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ مریض کی تھوک میں کس قسم کی ٹی وی کی شدت پائی جاتی ہے۔ علاج کے لیے انتہائی مؤثر دوا تجویز کرنے میں بیماری کی صحیح شدت کا معلوم ہونا نہایت ضروری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیسٹ کے نتائج کا تجزیہ وقت طلب ہے۔پہلے کاغذ کی ایک تنگ پٹی پر لائنوں کی شکل میں نتیجہ پیش کیا جاتاتھا لیکن اب تو لیب کے تکنیکی ماہرین ۲۴ پٹیوں کے ایک کاغذ پر نتائج کی وضاحت میں قریب قریب ایک گھنٹہ ہی صرف کرتے ہیں۔ نتائج کا جائزہ لینے کے لیے آپٹیکل ریڈر اور کمپیوٹر کے مصنوعی ذہانت کے پروگرام کام کے اوقات کے ہزاروں گھنٹے بچائے گا۔ اس کے علاوہ چونکہ سسٹم تھکتا نہیں ہے اور نہ ہی غلطیاں کرتاہے لہذا اس کے زیادہ درست ہونے کی امید ہے۔

ان مریضوں کے لیے یہ ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے جو اپنی روزمرہ کی دوا لینا بند کردیتے ہیں۔ اسے فالو اپ (کسی معاملے کی مزید تحقیق اور کسی معاملے میں آگے کی کاروائی کرنا)کا نقصان کہا جاتاہے اور یہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والے علاج میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ صحت عامہ کا نظام پہلےسے ہی اس پابندی کوبہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کے تحت مریضوں سے اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ ٹول فری ٹیلی فون نمبر پر کال کریں تاکہ اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ انہوں نے ٹی بی کی دوا لے لی ہے۔ ایسے مریض جن کے پاس موبائل فون نہیں ہیں، صحت کارکنان ان سے مہینے میں دو بار ملنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں دوا لیتے رہنے کی ترغیب دی جا سکے۔ یہ پیشگوئی کرنا کہ کون سے مریض اپنی دوا لینا بند کر سکتے ہیں، اس سے صحت کارکنان متحرک رہیں گے اور اس وقت تک انہیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا جب تک مریض اپنا علاج چھوڑ نہیں دیتے۔ ڈاکٹر شاہ کہتے ہیں’’ہم جلد ہی پتہ لگا سکتے ہیں کہ کون سا مریض اس غلطی کا ارتکاب سکتا ہے تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘‘

لیکن یہ پیشگوئی کرنا کیسے ممکن ہے کہ کون سے مریض اپناعلاج بند کر دیں گے؟ مصنوعی ذہانت کا یہ سسٹم (اے آئی سسٹم) مریضوں کی خصوصیات یا ذاتی حالات جو فالواپ نہ ہونے کے نقصان سے وابستہ ہوتے ہیں، کے متعلق پروفائلز بنانے کے لیے ٹیلی فون کی تصدیق کے پروگرام سے جمع کی گئی معلومات اور گھرکے دوروں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت سے ٹی بی کے خاتمے کے قومی پروگرام میں نکشے کے نام سے ایک الیکڑونک ریکارڈنگ اور رپورٹنگ سسٹم موجود ہے جس میں گذشتہ کئی برس کے ٹی بی کے ۶۰ لاکھ مریضوں کے بارے میں تفصیلی معلومات درج ہیں۔ یہ بہت بڑا ڈیٹا بیس ہے جو مصنوعی ذہانت کی پیشن گوئیوں کو مزید درست بنانے میں مدد کرتا ہے۔

ٹریس ۔ٹی بی پروگرام ’’بھارت میں ٹی بی کے خاتمے کے لیے اے آئی حل کے خاکہ ‘‘ کو تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔ ڈاکٹر شاہ کا کہنا ہے کہ یہ اہم دستاویز صحت کارکنان کے درمیان میڈیکل ڈیٹا کا اشتراک کرتے ہوئے مریضوں کی رازداری کے تحفظ کے تعلق سے رہنما خطوط طے کرے گا اور ساتھ ہی فالواپ نہیں ہونے کے نقصان اور لائن پروب کے خودکار تجزیے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ضروریات بھی طے کرے گا۔

ڈاکٹر شاہ کے مطابق توقع ہے کہ یہ خاکہ رواں سال کے آخر میں شائع کر دیا جائے گا اور ٹی بی کے خلاف جنگ پر اس کا خاطر خواہ اثر پڑے گا ۔ وہ کہتے ہیں’’ایک بار جب ہمیں یہ خاکہ مل جائے گا اورہم لوگ ڈیٹا کے اشتراک کے استعمال کے بارے میں پراعتماد ہو جائیں گےتو مصنوعی ذہانت کے نئے حل پر جلد عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے