مستقبل کی خوراک

’ گڈ فوڈ انسٹی ٹیوٹ انڈیا ‘ طعام کے پائیدار عادات و اطوار کو فروغ دینے کی خاطر پودوں پر مبنی گوشت کے متبادل تیار کرنے کی خاطر جدت پسندوں اور’ مارکیٹ لیڈرس ‘کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

July 2022

مستقبل کی خوراک

 

پودوں پر مبنی ’گُڈ ڈاٹ ‘ کے اسمارٹ پروٹین کھانے (گھڑی کی سوئی کی رفتار کے مطابق اوپر بائیں سے)، ’امیجِن میٹس‘ اور ’جسٹ اگ‘۔ تصاویر بشکریہ ’گُڈ ڈاٹ‘، امیجن میٹس اور جسٹ اگ۔ 

کیا ایسی غذا کی پیداوار کا کوئی مستقبل ہے جس  کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کاربن کا اخراج نہ ہو؟ ’گُڈ فُڈ انسٹی ٹیوٹ انڈیا ( جی ایف آئی ۔ انڈیا ) ‘ کا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ جی ایف آئی۔ انڈیا  اپنے ’اسمارٹ  پروٹین انقلاب ‘ کے توسط سے  گوشت کے متبادل کی جستجو  کو آسان بنانے اور ایک معقول، محفوظ اور پائیدار عالمی نظامِ خوراک کے لیے ایک جگہ بنانے کی غرض سے اختراع کاروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اسمارٹ پروٹین ایسے متبادل ہیں جو گوشت اور دودھ کی مصنوعات  جیسا ذائقہ اور صفت رکھتے ہیں ۔ جی ایف آئی ۔انڈیا کے مینیجنگ ڈائریکٹر ورون دیش پانڈے کے مطابق، دنیا بھر میں اختراع کار  ’’  ایسے ذائقہ دار، غذائیت سے بھرپور گوشت ، انڈے اور خورد بین سے ہی دیکھے جا سکنے والے جرثوموں پر مبنی پروٹین کے مستقبل کی پیداوار کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ‘‘

بڑے  فوڈ کارپوریشنوں نے بھی اس سلسلے میں پیش قدمی کی ہے اور اب وہ سمندری غذا سے لے کر پنیر اور قیمہ شوربہ یا بریانی تک ہر چیز کی پودوں پر مبنی شکل  بنانے کے لیے نئی ٹیکنالوجیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر اُدے پور میں واقع ’گُڈ ڈاٹ‘ کی مصنوعات میں بغیر گوشت والا قیمہ، بغیر بکرے کے گوشت والا ڈھابہ شوربہ،  ’وجیکن‘ (ایک ایسی طرز حیات جس میں جانوروں کے کسی بھی طرح کے استحصال کی کوئی گنجائش موجود نہ ہو خواہ وہ غذا کے لیے ہو، لباس کے لیے ہو یا کسی دوسری شکل میں ہو)وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے مشمولات میں  السی کا بیج، چاول ، چنے کا آٹا ، جو، مٹر کی پروٹین ، سویا بین ، کوئنوا اور گیہوں کا ریشہ شامل ہیں۔

ان چیزوں کو کھاتے وقت ہم اصل گوشت سے ان کے ذائقے میں فرق تو کر سکتے ہیں مگر یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیے کہ ان سے ماحولیات پر کوئی خاص برا اثر نہیں پڑتا ہے۔

اسمارٹ پروٹین انقلاب

دیش پانڈے کا کہنا ہے’ اسمارٹ پروٹین انقلاب‘  ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک اندازے کے مطابق  دنیا کو ۱۰بلین افراد پر مشتمل آبادی کو کھلانے کے ایک بڑے  چیلنج کا سامنا ہے۔اس آبادی کا چھٹا حصہ ۲۰۵۰ء تک بھارت میں مقیم ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں ’’ ہمیں زیادہ محفوظ، پائیدار اورمعقول  نظامِ خوراک درکار ہے  اور  چاق و چوبند پروٹین کا شعبہ یہی کا م کر رہا ہے۔ مگر ترقی پذیر دنیا کے بھارت جیسے ملک میں تو ابھی اس کے سامنے آنے اور رفتار پکڑنے کی شروعات ہی ہوئی  ہے۔‘‘

نومبر ۲۰۲۱ء  میں عالمی سطح پر بھوک، خوراک کی پیداوار اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے  کے لیے منعقدہ  سالانہ اسمارٹ پروٹین سربراہ اجلاس  میں ۱۵۰۰  سے زیادہ بھارتی باشندے مجازی طور پرشامل ہوئے۔ اس تقریب میں شرکت کرنے والے ۷۰سے زیادہ ماہر مقررین (جن میں سائنسداں، سرکاری حکام، محققین، وینچر سرمایہ دار اور   ڈیولپرس  وغیرہ شامل تھے)  نے خوراک کے مستقبل پر  تبادلہ خیال کیا  اور اس بات پر بھی گفت وشنید کی کہ بھارت  کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ا سمارٹ پروٹین صنعت دنیا بھر میں بھوک سے لڑنے میں کس طرح مدد کر سکتی ہے۔

یہ نوزائیدہ صنعت کے لیے ایک تاریخی سال تھاجس میں ۵۰ سے زیادہ بھارتی اسمارٹ پروٹین اسٹارٹ اپ کمپنیاں نئی ٹیکنالوجیوں اور کھانے کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے سخت محنت کر رہی تھیں۔ نصف سے زائد  فرمیں صرف پچھلے دو سالوں میں قائم کی گئیں۔ دیش پانڈے کہتے ہیں  ’’ہم معاون کمپنیوں کی آمد بھی دیکھ رہے ہیں  جن  میں لوازمات فراہم کرنے والے، پیداوار میں شریک  لوگ، تکنیکی مشیر ، ساز و سامان بنانے والے اور دیگر صلاح کار شامل ہیں ۔ یہ لوگ اسمارٹ پروٹین صنعت میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو فروغ

جی ایف آئی ۔انڈیا کے ان ا سٹارٹ اپ کمپنیوں کو فروغ دینے کا  اہم کام، جس میں بڑے کارپوریشنوں کے اندر پودوں پر مبنی کوششیں بھی شامل ہیں، سربراہ اجلاس میں  پوری طرح سے دکھائی دے رہا تھا۔ نیسلے انڈیا لمیٹڈ کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر سریش نارائنن نے افتتاحی کلیدی خطبہ  دیا۔ دیگر مقررین میں برٹانیا  انڈسٹریز لمیٹڈ اور کارگل انڈیا جیسے بڑے کارپوریشنوں کے  رہنما شامل تھے۔

دیش پانڈے کہتے ہیں ’’  پچھلے چند  برسوں میں پودوں پر مبنی اسٹارٹ اپ کمپنیاں  اور بڑے کارپوریشنوں کے ساتھ ہمارے بہت  سارے کام بالآخر  نتیجہ خیز ثابت ہو  رہے ہیں کیونکہ وہ بازار میں داخل ہونے لگے ہیں اور ’امیزون فریش ‘اور سوئی گی کے ’انسٹا مارٹ‘  جیسے پلیٹ فارم کے ساتھ ( جو پودوں پر مبنی مصنوعات عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں ) ایسی غذائی اشیا  ء تک رسائی آسان ہو گئی ہے جو کرہ ارض کو توڑے بغیر جانوروں سے حاصل شدہ گوشت کی پیشکش کرنے والے تمام حسی اور ثقافتی عناصر فراہم کرتے ہیں ۔‘‘

متجسس طلبہ سے لے کر خوراک صنعت کے قدآوروں تک ، اسمارٹ  پروٹین سربراہ اجلاس  میں اپنے تمام شرکاء کے لیے کچھ نہ کچھ تھا۔  تین دنوں کے دوران اسمارٹ پروٹین اختراع  کاروں  نے اپنے کاموں کی نمائش کی ،  ماہرین نے پودوں پر مبنی خوراک لیبل اوراس کے لیے بنیادی ڈھانچے جیسے موضوعات پر گفتگو کی   اور سرمایہ کاری اور مالی اعانت  پر  تبادلہ خیال کیا۔ سربراہ اجلاس میں اسمارٹ پروٹین کے رفتار پکڑنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کاوشوں پر  صنعت کے اثرات کے طور پر کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے تحفظ پر مرکوز بات  چیت بھی شامل تھی ۔

حالاں کہ یہ سربراہ اجلاس  بھارت  کی ا سمارٹ پروٹین صنعت  کو حاصل ہونے والی کامیابی کا صرف ایک اشارہ ہے۔ دیش پانڈے زور دے کر کہتے ہیں  کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کی تکمیل  لیے ابھی بھی  بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں  ’’ ہمیں تمام صلاحیت، تجربہ کار رہنمائی، سرمایہ کاری، سائنسی تحقیق اور حکومتی مدد کی ضرورت ہے جو ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ قابل تجدید توانائی جیسی صنعتیں پچھلی چند دہائیوں میں کس طرح ڈرامائی طور پر بدل گئی ہیں،  ہم سمجھتے ہیں کہ گوشت  کی پیداوار اگلی بڑی چیز ہے۔  اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگنے والا ہے۔ ‘‘

اسمارٹ پروٹین سربراہ اجلاس  امسال اکتوبر میں نئی ​​دہلی میں  منعقد ہو گا ۔ جی ایف آئی  انڈیا  کی خدمات  کے بارے میں مزید معلومات کے لیے  gfi-india.org  پر جائیں۔

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں، وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے