ٹینیسی میں واقع نیشنل سول رائٹس میوزیم امریکہ کی شہری حقوق تحریک کی کلیدی قسطوں کو پیش کرنے کے ساتھ عصری عالمی انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا جائزہ بھی لیتا ہے۔
September 2019
’’آئی ایم اے مَین: میمفِس سَینیٹیشن اسٹرائک ۱۹۶۸‘‘ گیلری ہڑتال کی کہانی کی وسعت کو بیان کرتی ہے اور مشہور ہڑتال کرنے والوں کو ’’ ائی ایم اے مَین‘‘ نشان اٹھائے ہوئے دکھاتی ہے۔ تصویر بشکریہ قومی شہری حقوق میوزیم۔
۴اپریل ۱۹۶۸ءکی شام امریکہ کی شہری حقوق تحریک کے رہنما عزت مآب ڈاکٹر مارٹِن لوتھر کِنگ جونیئر نے ریاست ٹینیسی کے شہر میمفِس کے لورین موٹل میں واقع اپنے کمرے کے بالا خانے میں قدم رکھا ۔چند لمحوں کے بعد وہ ایک قاتل کی گولیوں کا شکار ہوکر فرش پر گر گئے۔ وہ ایک دن پہلے ہی شہر آئے تھے تاکہ وہاں کے افریقی امریکی صفائی کارکنوں کی ہڑتال کی حمایت کرسکیں۔انہوں نے اپنے وفد کے ساتھ لورین موٹل میں اس لیے قیام کیا تھا کیوں کہ ایسے میں جب کہ امریکہ کے جنوبی علاقوں میں نسلی امتیاز روا رکھا جا رہاتھا ،یہ قیام گاہ ان چند ہوٹلوں میں سے ایک تھی جہاں افریقی امریکیوں کا استقبال کیا جاتا تھا۔ اس سے پہلے بھی کِنگ متعدد بار اس موٹل میں ٹھہر چکے تھے۔ لورین موٹل رے چارلس ، لیونل ہیمپٹن ، اریتھا فرینکلن اور اوٹِس ریڈنگ سمیت نغمہ نگاروں اور موسیقاروں میں بھی کافی مقبول تھا۔
آج لورین موٹل کا کردار بدل چکا ہے۔ یہاں قومی شہری حقوق میوزیم قائم ہے۔ اس کا مشن اس تحریک کی کہانی سنانا ہے جس کی وجہ سے نسلی تفریق ختم ہوئی۔ لورین موٹل کے بالمقابل واقع جس بورڈنگ سے کنگ کے قاتل جیمس اَرل رے نے گولی چلائی تھی ، اس کو بھی حاصل کرکے اس میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ ٹینیسی ہسٹوریکل کمیشن کے ذریعہ موٹل کو ایک تاریخی مقام نامزدکیے جانے کے بعد ایسا کیا گیا۔
سنہ ۱۹۹۱ ءمیں قائم شدہ یہ میوزیم افریقی امریکیوں کے مساویانہ حقوق کی خاطر جدو جہد کی داستان سنانے کے لیے تعاملی نمائشوں ،پروگراموں، تاریخی دستاویزات ، فلموں اور دیگر نمونوں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ عجائب گھر دنیا بھر میں موجودہ شہری اور انسانی حقوق کے امور کا جائزہ بھی لیتا ہے۔
میوزیم امیریکن الائنس آف میوزیم سے تسلیم شدہ ہے۔ اس کا صدر دفتر واشنگٹن ڈی سی میں ہے ۔میوزیم انٹرنیشنل کوالیشن آف سائٹس آف کونسائنس کا بانی رکن بھی ہے۔ یہ اتحاد پوری دنیاسے تاریخی مقامات ، عجائب گھروں اور یادداشت کے اقدامات کو یکجا کرتا ہے تاکہ ماضی کی جدوجہد کو عصری انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی تحریکوں سے جوڑسکے۔
میوزیم کے صدر ٹیری لی فریمَین کا کہنا ہے ”ہم حقیقت میں میوزیم کو الماریوں میں دھول پھانکتے ہوئے نمونوں کے مجموعے کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔‘‘ اس کے بجائے میوزیم کی مہم کے مطابق ” میوزیم فکر انگیز بحث و مباحثے پر اکساتا ہے اور مثبت معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک آئینہ کا کام کرتا ہے۔‘‘
میوزیم میں مستقل طور پر غور و فکر کرنے والے خطاب کی دعوت دی جاتی ہے ۔ میوزیم کی ہی ایما پر افریقی امریکیوں اور معاشرے کے دوسرے طبقوں کے مابین مستقل معاشی تفاوت جیسے معاملات پر تحقیق شروع کی گئی۔ میوزیم جلد ہی اسکول کے اساتذہ کو ان مسائل کے بارے میں تربیت دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے حال ہی میں۶ ماہ پر مشتمل ایک پروگرام وضع کیا ہے جس کا نام اَن پیکنگ ریسزم فار ایکشن ہے جس میں مختلف نسلوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۳۰ا فراد کے گروپ باقاعدگی سے ملتے ہیں تاکہ ”مضحکہ خیز تعصب اور ساختی نسل پرستی کے امور“ پر تبادلہ خیال کرسکیں۔فریمین کہتے ہیں ” ہم بے چین کردینے والے موضوعات پر بحث کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
میوزیم میں ۲۶۰ نمونے ، ۴۰ سے زائد نئی فلمیں ، زبانی تاریخیں، تفاعلی میڈیا اور آڈیو ریکارڈنگ ہیں جو ۵ صدیو ں کی تاریخ کے ذریعہ شائقین کی راہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں بحر اوقیانوس کے طول و عرض میں غلاموں کی تجارت اور غلامی کے خلاف مزاحمت کی شروعات سے لے کر خانہ جنگی اور تعمیر نو کے ذریعہ جِم کروکے عروج (ریاستی اور مقامی قوانین جن کی روسے نسلی تفریق کا نفاذ عمل میں آیا) اور۲۰ ویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے اہم واقعات،جن میں بڑی تعداد میں لوگ مساوات کے لیے کھڑے ہوئے تھے، شامل ہیں۔
میوزیم کی موجودہ نمائشوں میں رومیئر بیرڈن کا کام (جو ۲۰ویں صدی کے سرکردہ بصری فنکار وں میں سے تھے اور جو نسل پرستی اور نسلی دقیانوسی تصورات کے خلاف معاشرتی عمل کے علمبردار تھے)اور فرگوسن ووائسیز(ریاست مسوری کے فرگوسن میں ۲۰۱۴ ءمیں پولس کے ذریعہ مائیکل براؤن نامی ایک سیاہ فام نوجوان کے قتل کا معاملہ جس کی وجہ سے بلیک لائف میٹرس نامی تحریک شروع ہوئی اور جس نے پوری قوم کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میوزیم کو کئی برسوں سے ٹچ اسکرین پلیٹ فارم پر میزبان تحریک کے عینی شاہدین ، کارکنوں او ر مشہور شخصیات کے ویڈیوز کا مجموعہ ” شہری حقوق کی تحریک کی آواز “ دکھانے کے لیے مستعار لیا گیا ہے۔
برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔
تبصرہ