امریکہ اور بھارت کے مابین تجارت نے نئی فرموں اور مصنوعات کی حوصلہ افزائی کی ہے،ہند۔بحرالکاہل خطے میں جاری وساری خدمات اور معلومات کے ساتھ دونوں ممالک میں کام کرنے والی کمپنیوں کو تقویت دی ہے اور۲۱ویں صدی میں ہمارے دونوں ممالک کوٹیکنالوجی میں قائدبننے کی راہ پر گامزن کیا ہے
January 2021
مدھیہ پردیش کی جان ڈیئرٹریکٹر فیکٹری۔ تصویرامریکی قونصل جنرل، ممبئی
تجارت اور سرمایہ کاری طویل عرصے سے امریکہ۔بھارت تعلقات کے مرکز ی عناصر رہے ہیں۔ ۲۰۰برس سے زیادہ عرصہ سے امریکی اور بھارتی عوام نے سامان و خدمات کے تبادلے ، مشترکہ کاروباری اداروں میں تعاون اورجدت کی افزائش کے لیے ہند- بحر الکاہل خطے میں ایک غیر معمولی کاروباری جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ باہمی خیرسگالی ، ہمارے متعلقہ بازاروں کے ہجم ، منفرد مصنوعات،تقابلی فوائد اور ہمارے لوگوں کی تخلیقی اور پیداواری صلاحیتوں کے ذریعہ ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہوئے۔
یہ تجارت وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پذیر رہی ہے کیوں کہ سفرآسان ہوا ہے اور ٹیکنالوجی میں بہتری آئی ہے۔ ہماری حکومتوں کی کوششوں نے ان تبادلوں کی حمایت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ۲۰۰سے زیادہ برسوں سے ہند۔امریکہ تجارت نے ہماری معیشتوں اور معاشروں پر وسیع اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہمارے قدیم تعلقات تاریخی عمارتوں میں بھی نظر آتے ہیں جوامریکہ۔ بھارت کے برسوں پرانے تجارتی تعلقات کے گواہ رہے ہیں ۔ یہ اثرات ہماری روز مرہ کی زندگی میں کام آنے والی ضروری اشیاء اور خدمات کے علاوہ ہمارے عوام کی زندگیوں سے بھی مترشح ہوتے ہیں جو دونوں ممالک کی شکل سازی کرتے ہیں۔
معاشی تعاون نے امریکہ اور بھارت میں معیار زندگی کو بلند کیا ہے، اعلیٰ معیار اور کم قیمت والے سامان اور خدمات تک رسائی میں توسیع کی ہے اور دنیا کو وسیع تر فوائد پہنچائے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے مابین تجارت نے نئی فرموں اور مصنوعات کی حوصلہ افزائی کی ہے،ہند۔بحرالکاہل خطے میں جاری وساری خدمات اور معلومات کے ساتھ دونوں ممالک میں کام کرنے والی کمپنیوں کو تقویت دی ہے اور۲۱ویں صدی میں ہمارے دونوں ممالک کوٹیکنالوجی میں قائدبننے کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی نمومیں شراکت کی ایک طویل تاریخ
تجارت ہی نے امریکیوں اور بھارتیوں کے مابین ابتدائی رابطے کی بنیاد ڈالی۔ اس کا آغاز یونائیٹیڈ اسٹیٹس نامی ایک تجارتی جہاز سے ہوا جو امریکی سامانوں سے لد کر دسمبر ۱۷۸۴ء میں پُڈّوچیری میں لنگر انداز ہوا۔ جہاز اور اس کا امریکی عملہ فروری۱۷۸۵ء میں بھارتی مصالحے، چائے اور شال لے کرامریکہ میں فروخت کے لیے روانہ ہوا۔
شاید یہ تجارت ہی تھی جس نے صدر جارج واشنگٹن کو۱۷۹۲ءمیں بنجمن جوائے کو بھارت کا پہلا امریکی قونصل نامزد کرنےکی ترغیب دی۔ چوں کہ ۱۹ ویں صدی کے اوائل میں دوطرفہ تجارت میں زیادہ باقاعدگی آ گئی ، اس لیے اس کے بعد مقامی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ بھارتی تاجروں نے نیو یارک جیسے مقامات پر اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے گوداموں اور دکانوں کی تعمیر کی۔ امریکی تاجروں نے بھارت میں بھی ایسا ہی کیا۔ ایسی ہی ایک عمارت آج بھی کھڑی ہے۔۱۸۴۲ء میں چنئی کے ساحل سمندر پر امریکی تاجر فریڈرک ٹیوڈر کے ذریعہ ایک آئس ہاوس کی تعمیر کی گئی تاکہ نیو انگلینڈ سے درآمدکی جانے والی برف کوبھارت میں فروخت کےلیےیہاں رکھا جاسکے۔ سوامی ویویکانند نےامریکہ کے تاریخی سفر کے چار سال بعد۱۸۹۷ء میں اس عمارت کا دورہ کیا جب انہوں نے وید اور یوگ کےبھارتی فلسفے کا تعارف کروایا۔ اب اس عمارت میں ان کی زندگی سے متعلق نمائش لگائی گئی ہے۔
۱۹ویں صدی کے اخیر تک بھارتی باشندے بڑی تعداد میں اقتصادی مواقع کی تلاش میں امریکہ آنے لگے۔ ان میں سے بہت سوں کا تعلق پنجاب سے تھا جو پیشے سے کسان تھے اور وسطی کیلیفورنیا میں آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی صلاحیتوں اور جانکاری کو اس خطے کے ایک اہم زرعی پیداوار ی خطہ بننے میں مدد کے لیے استعمال کیا۔
۲۰ویں صدی کے نصفِ اوّل میں انفرادی کاروباریوں اور بڑے کارپوریشنوں کے تعاون سے تجارت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ امریکہ کی جنرل الیکٹرک (جی ای) نے کرناٹک میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ ۱۹۰۲ء میں شروع کیا جس سے آنے والی کئی دہائیوں تک جنوبی ہند میں معاشی نمو پیدا کرنے میں مدد ملی۔۱۹۲۵ء تک فورڈ موٹر کمپنی بیرون ملک بھیجنے سے پہلے ڈیٹرایٹ میں انتظامی کورسز کے لیے ایک سال میں۱۰۰ سے زیادہ بھارتی سروس ایکزیکٹوس کوامریکہ لا رہی تھی۔ مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ایم آئی ٹی)میں ۱۸۸۲ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان ڈگری حاصل کرنے وا لے ۱۰۰ بھارتیوں میں سے بیشتر بھارتی کاروباری اداروں میں انجینئرنگ کی مہارت کو استعمال کرنے کے لیے بھارت واپس آئے۔
بھارتی تارکین وطن نے بھی وطن سے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے امریکی معیشت کی بہتری میں اپنا تعاون پیش کیا۔
۱۹۲۰ء کی دہائی میں سکھرام گنیش پنڈت کیلیفورنیا میں ایک کامیاب وکیل بن گئے جنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے مقدمات کی بحث کی۔ ۱۹۳۰ ء کی دہائی میں جے جے سنگھ بھارت سے نیو یارک کپڑے درآمد کرنے والے خوشحال تاجربن گئے اور انہوں نے امریکہ میں انڈین چیمبر آف کامرس قائم کیا۔ امریکہ میں ہجرت بڑھنے کے بعد ، بھارتی تارکین وطن نے متعدد امریکی صنعتوں میں تیزی سے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا ، جن میں طب ، انجینئرنگ ، میزبانی اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی کے بعد تجارت اور سرمایہ کاری میں توسیع ہوئی ۔۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھارت کی معیشت میں کھلے پن کے بعد اس میں مزیدتیزی آئی۔ مثالیں بہت ساری ہیں۔ طبی آلات بنانے والی کمپنی میڈ ٹرونک نے ۱۹۷۹ ء میں بھارت میں کام شروع کیا۔ ۲۰۲۰ ء تک کمپنی کے ملک کےاندر تحقیق اور ترقی سے متعلق شعبوں میں ۱۱۰۰ سے زیادہ ملازمین ہو گئے۔ وہرلپول ۱۹۸۰ ء کے اواخر میں ایک مشترکہ منصوبے کے ذریعے بھارت میں داخل ہوئی۔ برسوں کی مستقل توسیع کے بعد گھریلو آلات کےبازار میں یہاں اس کی حیثیت قائد کی ہو گئی ۔ آج وہرلپول فریدآباد ، پڈوچیری اور پونے میں واقع اپنی فیکٹریوں میں جدید مشینیں تیار کرتی ہے۔ اسی طرح زرعی آلات تیار کرنے والی کمپنی جان ڈیئر نے ۱۹۹۸ء میں بھارتی بازار میں داخل ہونے کے بعد اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔
امریکی حکومت نے طویل عرصے سے بھارت کی معاشی نمو کی حمایت کی ہے۔ بھارت کے ترقیاتی شراکت داروں میں سے ایک کی حیثیت سے امریکہ کے کردار کی اس پہل کے ذریعہ نشاندہی کی جاسکتی ہے جس کی بنیاد امریکی وزیر خارجہ ڈین اچیسن اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے۱۹۵۰ء کی دہائی کے اوائل میں رکھی تھی ۔ اس پروگرام کے تحت ، امریکہ نے گندم اور ہند میں معاشی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی اعانت فراہم کی۔ آئندہ برسوں میں ، تعلیم ، توانائی ، صحت ، بنیادی ڈھانچے اور دیگر اہم شعبوں کو شامل کرکےاسے وسعت دی گئی۔ آج ، امریکہ اور بھارت اپنی سرحدوں سے باہر دیکھ رہے ہیں اور افریقہ اور ایشیاء میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
امریکہ – ہند اقتصادی تعلقات میں حالیہ پیش رفت
۱۹۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں جب بھارت نے اپنے بازار کھولنا شروع کیے تو معاشی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ پچھلے کچھ برسوں میں دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری وسیع اور گہری ہوئی ہے۔ ایسا ہماری دونوں بڑی معیشتوں اور صنعتوں میں ہوا ہے۔ چھوٹی، درمیانے اور بڑی سائز کی فرموں نے اہم کردار ادا کیے ہیں کیوں کہ ان میں بے شمارافراد ہیں جنہوں نے نئی مصنوعات یا خدمات کی تیاری میں حصہ لیا ، سرمایہ کاری کے فیصلے کیے ، یا ہند بحر۔الکاہل خطے میں رابطے بنائے۔
پچھلی دو دہائیوں میں ، سامان اور خدمات میں دوطرفہ تجارت ۲۰۰۱ء میں ۲۰ اعشاریہ ۷ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۲۰۱۹ء میں ۱۴۶اعشاریہ ۱ بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ اس سے امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور بھارت امریکہ کا ۹واں بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا ۔
۲۰۱۹ء میں سامان میں دو طرفہ تجارت کی مالیت۹۲ بلین ڈالر تھی جب کہ خدمات میں تجارت کی مالیت ۵۴ اعشاریہ ۱ بلین ڈالر تھی۔ در حقیقت بھارت کی کل برآمدات کا قریب قریب ۱۶ فی صد اب امریکہ کو جاتا ہے۔ امریکہ کو جو چیزیں سب سے زیادہ بھارت سے برآمد کی جاتی ہیں ان میں قیمتی دھاتیں اور پتھر، دوائیں، مشینیں، معدنیاتی ایندھن اور نامیاتی کیمیا شامل ہیں۔ امریکہ سے بھارت کو ہونے والی درآمدات میں قیمتی دھاتیں اور پتھر، معدنیاتی ایندھن اور نامیاتی کیمیاوی مادّوں کے علاوہ ہوائی جہاز اور ہوائی جہاز کے پرزے اور مشینیں جیسے بوائلر اور ری ایکٹر شامل ہیں۔
امریکہ سے سامان اور خدمات کی برآمد میں اضافہ ہوا ہے ، جن میں جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی، صارفین کی وسیع تر پسند کی چیزیں اور بھارتی کمپنیوں کی پیداوار کے لیے درمیانے درجے کے کل پرزے شامل ہیں جس سے بھارت کو عالمی سطح پر سپلائی چین کا حصہ بننے اور بھارتی فرموں کی مسابقت کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔
امریکہ میں مقیم بھارتیوں کی ترسیلات ِ زر میں اضافہ ہوا ہے جو ۲۰۱۷ ء میں مجموعی طور پر۱۱اعشاریہ ۷ بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس سے بھارتی معیشت کو بھی تقویت ملی ہے۔ دوسری جانب امریکی شہریوں کے بھارت کے نجی دوروں نے بھارت میں ملازمتوں کو بڑھانے اور ترقیات کو رفتار دینے کا کام بھی کیا ہے کیوں کہ وہ اکثر بھارت میں سیاحت کے لیے جانے والے غیر ملکی سیاحوں کے سب سے بڑے گروپ میں سے ایک رہے ہیں۔ ۲۰۱۹ ء میں ایک اندازے کے مطابق ۱ اعشاریہ ۵ ملین امریکیوں نے بھارت کا دورہ کیا۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی امریکی سرمایہ کاری
حالیہ برسوں میں بہت ساری امریکی فرموں نےبھارت میں سرمایہ کاری کی ہے یا اس میں خاطر خواہ توسیع کی ہے۔ یوں امریکی کمپنیاں بھارت میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہیں۔ امریکی بیورو برائے معاشی تجزیہ کے مطابق ۲۰۱۹ ء سے امریکہ سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ۴۶ بلین ڈالر تک پہنچ گئی حالانکہ اصل رقم اس سے بھی زیادہ ہےکیوں کہ یہ اعداد و شمار صرف امریکہ سے آنے والی سرمایہ کاری کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور اس میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی ہر طرح کی سرمایہ کاری شامل نہیں ہے۔
امریکی کمپنیوں نے بھارت کی تاریخ میں کچھ سب سے بڑی سرمایہ کاری کی ہے ، جیسے کہ والمارٹ نے ۲۰۱۸ ء میں فلپ کارٹ کے حصول کے لیے ۱۶ بلین ڈالر لگائے ۔ ۲۰۲۰ء میں مختلف امریکی کمپنیوں نے ۱۶ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ریلائنس جیو میں کی۔ اس کے علاوہ بھارت میں امیزون کی دلچسپی مستقل طور پر بڑھ رہی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں امریکی ای کامرس کمپنیوں نے ۵ اعشاریہ ۵ بلین ڈالرسرمایہ کاری کی اور جنوری ۲۰۲۰ء میں اضافی ۱ بلین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ امیزون ویب سروسز نے حال ہی میں بھارت میں کمپنی کے دوسرے ڈیٹا سینٹر میں ایک اہم سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ ماسٹرکارڈ بھارت میں ایک متحرک ڈیجیٹل ادائیگی پر مبنی نظام بنانے کے لیے پرعزم ہے اور اس نے۲۰۱۹۔۲۰۱۴ء کے درمیان ۱ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ مستقبل قریب میں بھی۱ بلین اضافی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد ملک میں اپنی استطاعت میں اضافہ اور اختراع کی ترویج و ترقی ہے۔۲۰۲۰ ء میں ماسٹر کارڈ نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی مدد کے لیے ۳۳ ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ جان ڈیئر نے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری میں مستقل اضافہ کیا ہے ۔ اب بھارت میں اس کی ۸ پیداواری اکائیاں اور خدمات چل رہی ہیں جن کی وجہ سے ۴ ہزار افراد کو ر وزگار ملا ہے۔۲۰۲۰ ء میڈ ٹرونک نے حیدرآباد میں اپنے انجینئرنگ اور ایجاد مرکز میں ۱۶۰ ملین ڈالر کی توسیع کا اعلان کیا جو امریکہ کے باہر اس کا سب سے بڑا تحقیقی و ترقیاتی مرکز ہے۔ یہاں ملازمین کی توجہ اب روبوٹ کی مدد سے کی جانے والی جرّاحی جیسی جدید چیزوں پر ہے۔ جی ای نے بھارت میں اپنی ایک صدی کی موجودگی کے دوران اپنی سرگرpمیوں میں بہت توسیع کی ہے، جس میںبھارت کے پہلے جوہری بجلی گھر، امریکہ۔ہندکا مشترکہ گیس ٹربائن پروجیکٹ اوربھارت کے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پہلی سرکاری نجی شراکت داری پر کام کرنا شامل ہے۔ مؤخر الذکر کا۲ اعشاریہ۵ بلین ڈالر کا منصوبہ ہے جس سے بھارتی ریلوے کو ۱۰۰۰ کم ایندھن کی کھپت کرنے والے ڈیزل انجن فراہم ہوں گے۔
دیگر متعدد امریکی کمپنیاں پورے بھارت میں شراکت داروں اور سپلائرز کے ساتھ مل کراس کی معیشت میں گہرائی سے سرایت کر چکی ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنی کمنس ملک میں وسیع پیمانے پر سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ اس کی۲۱فیکٹریوں میں۱۰ ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں جن میں سے بہت سے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے سبز پیداواری تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ بوئنگ نے پچھلے ۷۵سالوں کے دوران بھارت میں اپنے رابطوں اور کاروباری سرگرمیوں میں مستقل اضافہ کیا ہے ، اورآج وہ۲۰۰ سے زیادہ بھارتی سپلائرز کے ساتھ کام کررہی ہے۔ کمپنی نے پچھلے۵ سالوں میں بھارت سے سورسنگ میں چار گنا اضافہ کیا ہےجن میں ۷۸۷ ڈریم لائنر طیارے کے ڈھانچے میں کام آنے والے پرزے شامل ہیں۔ بوئنگ نے براہ راست بھارت میں۳۵ سو سے زیادہ افراد کو ملازمت دی ہےجن میں سے ۷ ہزار سے زیادہ ملامتیں اپنے بھارتی شراکت داروں کے ذریعہ فراہم کی ہیں۔ بوئنگ بھارتی یونیورسٹیوں، لیبارٹریوں اور بھارتی وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے تحقیق کاکام بھی کرتی ہے۔
امریکہ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری
بھارتی کمپنیوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے اسی طرح امریکہ کو تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ایک خوشگوار مقام پایاہے۔ امریکی محکمہ تجارت کے سلیکٹ یو ایس اے اعدادوشمار کے مطابق۲۰۱۹ء تک امریکہ میں بھارتی سرمایہ کاری ۱۶ اعشاریہ ۷ بلین ڈالر تھی جو ۲۰۱۸ء کے مقابلے ۲۰ فی صد زیادہ ہے۔ اس سرمایہ کاری سے ۶۷ ہزار روزگار پیدا ہوئے۔
شکاگو میں ٹاٹا اسٹیل کا ایک بڑا دفتر ہے اور وہ درجنوں صنعتوں کے لیے اسٹیل کی مصنوعات تیار کرکے ہزاروں امریکی ملازمت میں مدد کرتا ہے۔ آدتیہ برلا گروپ کی دھاتوں کی کمپنی ہنڈالکو نے امریکہ کی ایلومینیم پیداوار والی کمپنی ناویلِس اور الیرِس کوخریدنے کے لیے ۸ اعشاریہ ۸بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ مہندرا بھاری صنعت میں متحرک ہے ، جو امریکہ میں ۵ اسمبلی پلانٹ چلارہی ہے جو امریکہ بھر کےکسانوں کے استعمال کے لیے ٹریکٹر اور دیگر مشینیں تیار کرتی ہے۔ لوزیانا اور نیویارک میں جدید ترین تحقیق اور پیداواری سہولت کے ساتھ ڈاکٹر ریڈیز لیبارٹریز سستی جینیریک دوائیں تیار کرتی ہے۔ بھارت فورج نے ۲۰۱۹ء میں شمالی کیرولائنا میں واقع ایلومینیم کارخانے میں ۱۷۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ ڈیکسٹر ٹولز اور پولی ہوز سمیت متعدد دیگر بھارتی کمپنیوں نے حال ہی میں امریکہ میں اپنے کام کاج میں توسیع کی ہے۔
امریکہ میں بھارت سے سامان اور خدمات کی درآمدات میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہواہے جو۲۰۱۹ ءمیں۸۷اعشاریہ ۴ بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ان میں صنعتوں کو سامانوں کی فراہمی ، صارفین سے متعلق اشیاء اور خدمات جیسےٹرانسپورٹ ، اطلاعات اور مواصلات کی ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ، حالیہ برسوں میں بھارتی سیاحوں اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، جسسے صرف ۲۰۱۹ء میں ہی امریکی معیشت میں ۱۶ اعشاریہ ۴ بلین ڈالر کا تعاون ملا ہے۔
حکومت کی شرکت معاشی نموکے فروغ کا باعث
امریکی اوربھارتی حکومتوں نے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ مذاکرات اور اعلیٰ سطحی مشاورت کو بڑھایا ہے۔ ہمارے رہنمائوں نے تجارت میں حالیہ اضافہ کی فعال طور پر حوصلہ افزائی اور حمایت کی ہے۔ امریکی صدربارک اوباما اور ڈونالڈ جے ٹرمپ دونوں نے بھارت کے اپنے اپنے دوروں کے دوران کاروباری برادری کے سینئر اراکین سے ملاقات کی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دوروں کے دوران امریکہ کے کاروباری رہنمائوں سے باقاعدہ ملاقات کی۔
امریکی وزیر تجارت اور ان کے بھارتی ہم منصب کی سربراہی میں امریکہ۔ ہند تجارتی مذاکرات سنہ ۲۰۰۰ء میں شروع کیے گئے تھے تاکہ دونوں ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جاسکے۔ توسیع شدہ امریکہ۔ہند عسکری اور تجارتی مذاکرات ۲۰۱۵ ء اور ۲۰۱۶ء میں ہوئے تھےجن میں امریکی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ نے شرکت کی تھی۔ بعد از اں آزادانہ تجارتی مذاکرات ایک بار پھر ۲۰۱۷ء اور ۲۰۱۹ء میں منعقد ہوئے۔
دوسرے اعلیٰ عہدیداروں نے امریکہ۔ ہند تجارت اور سرمایہ کاری کے بارے میں باقاعدہ بات چیت کی ہے۔ امریکی وزیر خزانہ اور بھارتی وزیر خزانہ نے۲۰۱۵ء، ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۹ء میں امریکہ۔ ہند تجارتی پالیسی فورم کے اجلاسوں کی سربراہی کی۔ امریکی تجارتی نمائندے اوربھارتی وزیر برائے تجارت و صنعت نے امریکہ۔ ہند تجارتی پالیسی فورم کے اجلاسوں کی ۲۰۱۵ء ، ۲۰۱۶ ء اور ۲۰۱۷ ء میں سربراہی کی۔ اس کے علاوہ امریکی اور بھارتی حکومتوں نے ۲۰۱۵ء، ۲۰۱۶ء، ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۰ء میں امریکہ۔بھارت کے کے سی ای او فورم کے اجلاس طلب کیے تاکہ ہر ملک میں معاشی مواقع کو بہتر بنانے کے طریقوں پر صنعت کے لیڈروں سے خیالات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ اس فورم نے امریکہ اور بھارتی حکومتوں کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کے طریقوں کے بارے میں سفارشات تیار کیں ، جس میں بھارت کے مفلسی اور دیوالیہ پن قانون کے حوالے سے سفارشات بھی شامل ہیں ۔ یہ قانون بالآخر ۲۰۱۶ء میں وضع کیا گیا۔
ہماری دونوں حکومتوں، نیز نئی دہلی اور واشنگٹن ڈی سی میں موجود متعلقہ سفیروں نے صنعت سے متعلق میٹنگیں کیں اور تجارتی وفود کی قیادت بھی کی۔ اگست۲۰۱۸ء میں بھارت میں امریکی سفیر کینتھ آئی جسٹر اور بھارتی وزیر ریل اور کوئلہ پیوش گوئل نے۱۵ امریکی کمپنیوں کے ساتھ ریلوے کی گول میز کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس نے متعدد فریقوں کو بازار تک رسائی کے معاملات پر تبادلۂ خیال اور اس کے حل میں مدد دی اور امریکی کمپنیوں کو بھارتی ریل کے معاہدوں پر بولی لگانے کی ضروریات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کی۔
مئی۲۰۱۹ء میں امریکی وزیر تجارت وِلبر راس ایک کاروباری وفد کے ساتھ تجارتی شراکت کی تلاش میں بھارت آئے۔ وفد میں ۳۲ امریکی ریاستوں سے ۱۳۰ سے زیادہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری نمائندے شامل تھے۔ نئی دہلی میں ابتدائی کانفرنس کے بعد کمپنیوں کے نمائندے بھارتی کاروباری رہنماؤں اور سرکاری عہدے داروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتوں کے لیے احمد آباد، بینگالورو ، چنئی ، حیدر آباد ، کولکاتہ اور ممبئی گئے۔
امریکہ اور بھارت کے مخصوص شعبوں سے متعلق مذاکرات سے حکومتی پالیسی اور تجارتی تعلقات کو آگے بڑھانے میں بھی مدد ملی ہے۔ حالیہ برسوں میں ا مریکہ۔ہند انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنزٹیکنالوجی ورکنگ گروپ نے تیز رفتار ۵ جی نیٹ ورکس پر تعاو ن کی حمایت کرنے کے مشترکہ اصولوں پر اتفاق کیا ہے جو سلامتی اور ترقی کا
ایک فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گروپ نے سائبر اسپیس کے لیے مشترکہ نقطۂ نظر فراہم کرنے کی غرض سے مشترکہ مفادات اور جمہوری اصولوں کی جانب توجہ دلانے کے لیے متعدد حکومتی اور تکنیکی ماہرین کو اکٹھا کیا ہے۔
بھارتی تاجروں اور علاقائی تجارت کے لیے امریکی حکومت کا تعاون
امریکی حکومت نےبھارت میں چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کی ترقی کی حمایت کی ہےجو ترقی، نوکری کے مواقع پیدا کرنے اورایجاد کا انجن سمجھی جاتی ہیں۔ ۲۰۱۷ ء میں امریکہ اور بھارت نے حیدر آباد میں عالمی کاروباری پیشہ وری چوٹی اجلاس(جی ای ایس)کی مشترکہ میزبانی کی۔ اس پروگرام نے کاروباری افراد کو سرمایہ کاروں اور بین الاقوامی ہم منصبوں سے مربوط کیا جس میں خاص طور پر خواتین کاروباریوں کو سرمایہ تک رسائی کو فروغ دینے پر توجہ دی گئی۔ عورتوں کے لیے کاروباری پیشہ وری سے متعلق پلیٹ فارم(ڈبلیو ای پی)
کے لیےاس تقریب میں ایسے تصورات معرضِ وجود میں آئے جن کا خواتین اپنی کمپنیوں کو بڑھانے میں بہتر طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ ڈبلیو ای پی کو باضابطہ طور پر۸ مارچ۲۰۱۸ ء کو عالمی یومِ خواتین کے دن بھارتی حکومت کے تھنک ٹینک نتی آیوگ کے اشتراک سے شروع کیا گیا۔
جی ای ایس کے اہداف کو مزید آگے بڑھانے کے لیے امریکی سفارت خانے نے بعد میں کاروباری پیشہ وروں میں ڈیجیٹل ہنر کو فروغ دینے کے لیے گرانٹ فراہم کیے ، صنفی امور پر ماہرین کے ذریعہ گفتگو کا اہتمام کیا اور خواتین کاروباریوں کے لیے رہنمائی اور نیٹ ورکنگ کے مواقع کا اہتمام کیا گیا۔ امریکی سفارت خانہ کے عالمی وزیٹر لیڈ رشپ پروگرام(آئی وی ایل پی )کے ایک حصے کے طور پربھارتی خواتین لیڈروں نے امریکہ کا دورہ بھی کیا۔
امریکی سفارت خانے نے۲۰۱۷ء میں نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب بنایا جس سے بھارت کی نوخیز کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر کا سرمایہ یکجا کرنے ، خریداروں کی فہرست بڑھانے اور ملکی اور عالمی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری میں مدد ملی ہے۔
چار امریکی قونصل خانوں نے ملک بھر میں پروگراموں کے ذریعہ کاروباری افراد اور خاص طور پر خواتین کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے بھارت میں وہائٹ ہاؤس کے زیرقیادت خواتین کی عالمی ترقی اور خوشحالی کے اقدام کو عملی جامہ پہنانے میں مدد فراہم کی ہے۔ اسے خواتین کو معاشی طور پر باختیار بنانے کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔اس کا مقصد کاروباری پیشہ ور اور قائدین کے طور پر خواتین کی مدد کرنا بھی ہے۔ مثال کے طور پر، یو ایس ایڈ نے پیپسی کو کے ساتھ مل کرمغربی بنگال میں آلوکی کاشتکاری کرنے والی خواتین کو پیشہ ورانہ مدد فراہم کرنے کے لیےکام کیا ہے جو لیز کے آلو چپس سپلائی چین کا حصہ ہیں۔ یو ایس ایڈ نے ٹاٹا پاور کے ساتھ توانائی کے شعبے میں خواتین کےلیے قائدانہ مواقع کو بڑھانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔
امریکی عالمی ترقی اور معاشی کارپوریشن(ڈی ایف سی)نے کئی بڑے منصوبوں کی حمایت کی ہے، جن میں چنئی میں خواتین کی ملکیت والی زرعی کمپنی کو فروغ دینے اور زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے میں مدد کے لیے۵ ملین ڈالر کے پروگرام کی ضمانت دی گئی ہے۔ ڈی ایف سی نے ٹو ایکس ومینس انیشی ایٹو کی بھی حمایت کی ہے جس نے بھارت میں ۱۲۰۰ خواتین کو کفایتی شرح پر گھر کے لیے قرض فراہم کرنے جیسے منصوبوں کے لیے نجی شعبے کی مالی اعانت کی۔
امریکی حکومت نے بھارت کو اپنے پڑوسیوں سے جوڑنے اور علاقائی تجارت کو فروغ دینے میں مدد کے لیے دوسرے منصوبوں کی حمایت کی ہے۔ ۲۰۱۷ ء کے بعد سے امریکہ نے بھارت اور افغانستا ن کی حکومتوں کے ساتھ پیسیج ٹو پراسپیریٹی تجارتی شو کی سرپرستی کی ہے۔ اس کے نتیجے میں افغان اور بھارتی کمپنیوں کے درمیان بنیادی طور پر زرعی سامان میں ہر برس قریب قریب ۳۰ ملین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
سیکٹر اسپاٹ لائٹ: ڈیجیٹل انقلاب میں شراکت دار
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنزٹیکنالوجی(آئی سی ٹی) کا شعبہ امریکہ۔ہند اقتصادی تعلقات کی کامیابی کی ایک بہترین کہانی ہے۔ ہماری مشترکہ کوششوں نے دونوں ملکوں کی معیشتوں اور معاشروں پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ بھارت میں ۱۶۰ بلین ڈالر سے زیادہ کی یہ صنعت ملک کی جی ڈی پی کا قریب ۷ فی صد ہے اور ایک اندازے کے مطابق۳ اعشاریہ ۷ ملین افراد کوبراہ راست روزگاردیتی ہے۔ عملی طور پر ۳۰ سال قبل اس کا وجود نہیں تھاتاہم اس شعبے کی ترقی کو دونوں ممالک کی صلاحیتوں اور سرمایہ کاری کی بدولت فروغ ملا ہے۔ والمارٹ اس طرح کی سرمایہ کاری کرنے والی سب سے بڑی اور نمایاں فرموں میں شامل ہے ۔ خاص طور پر اس نے بینگالورو کی کمپنی فلپ کارٹ کو ۱۶ بلین ڈالر میں خریدا ہے۔ اس لین دین نے بھارت کی تاریخ میں سب سے بڑی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی نمائندگی کی۔ امیزون نے بھارت میں اپنی سرگرمیوں کو مزید وسیع کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ ان دونوں امریکی کمپنیوں نے مل کر بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ای کامرس انڈسٹری میں۲۳ اعشاریہ ۷ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ امریکہ کے ذریعہ فروغ دیے گئے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں نے دونوں ای کامرس کمپنیوں کے ذریعہ برآمد ات میں تیزی سے اضافہ کیا ہےجس میں بھارتی فروخت کنندگان نے امیزون کے عالمی فروخت پروگرام اوربھارتی بازار میں کمپنی کی سرمایہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے بنیادی ڈھانچہ کا استعمال کرتے ہوئے۲ بلین ڈالر سے زیادہ کی اشیا ء فروخت کیں ۔
ای کامرس ٹیکنالوجی کا واحد شعبہ نہیں ہے جو امریکی سرمایہ کاری اور شراکت داری کو راغب کرتا ہے۔ ٹیلی مواصلات ، تعلیمی ٹیکنالوجی، مالیاتی ٹیکنالوجی اور دیگر قائم شدہ کمپنیوں نے عالمی ڈیجیٹل طاقت کے طور پر بھارت کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ ریلائنس جیو نے حال ہی میں امریکہ کی ممتاز کمپنیوں، جس میں فیس بک، گوگل، کوالکم، اور مائیکرو سافٹ شامل ہیں، سے۱۶ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔ دیگر امریکی فرموں نے بھارتی نوخیز کمپنیوں جیسے بائجو، یو این اکیڈمی ، آکاش اور پے ٹی ایم میں سرمایہ کاری کی ہے۔
متعدد بھارتی کمپنیوں نےامریکہ میں بھی سرمایہ کاری کی ہے اور وہاں ڈیجیٹل تبدیلی میں مدد کی ہے۔ امریکہ میں موجودبھارتی کمپنیوں میں ۲۷ فی صد کی توجہ آئی سی ٹی انڈسٹری پر مرکوز ہے،جن میں محض انفوسس،وِپرو، ٹاٹا کنسلٹینسی سروسز اور ایچ سی ایل ٹیکنالوجیز نے ۳۰ ہزار افراد کو ملازمت دی ہے۔اربوں ڈالر کی ان کمپنیوں نے اپنے امریکی گاہکوں کو سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، آئی ٹی مشاورت اور اہلکاروں کی مدد کے ذریعہ مؤثر انداز میں خدمات فراہم کی ہیں تاکہ بدلے ہوئے ماحول میں امریکی مسابقت کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس کے علاوہ موبائل مواصلات میں امریکی اور بھارتی تعاون بہت اہم رہا ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ شعبہ متحرک اور محفوظ رہے۔ اس شعبے میں بھارت کی تین بڑی فرموں –جیو، ایرٹیل، اور ووڈافون نے الٹیوسٹار، سسکو اور ماوینیر جیسی امریکی فرموں کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ اوپن ورچوئلائزڈ ریڈیو ایکسیس نیٹ ورک (اوپن وی آر این) ٹیکنالوجی تیار کی جاسکے جو روایتی سے کہیں زیادہ محفوظ اور سستی ہے۔ جب یہ حل نافذ کیے جائیں گے(خاص طور پر انتہائی تیز رفتار ۵ جی نیٹ ورکس میں) تو بھارتی کیریئر گراہکوں ،کمپنیوں اور حکومتوں کو ڈیجیٹل رابطے کی فراہمی میں عالمی مثال قائم کریں گی جو غیربھروسہ مند تیسرے فریق کی ممکنہ مداخلت سے پاک ہوگا۔
امریکہ اوربھارت کے آئی سی ٹی ورکنگ گروپ نے سلامتی اور ترقی کے لیےایک فریم ورک مہیا کراتے ہوئے اس تعاون کی حمایت پر اتفاق کیا ہے ۔ گروپ نے مشترکہ مفادات اور مشترکہ جمہوری اصولوں کو راغب کرنے کے لیے سائبر اسپیس کے لیے مشترکہ نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے، حکومت اور تکنیکی ماہرین کو جمع کیا ہے۔ امریکی پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے حال ہی میں ان امور پر ریسرچ اورایجاد کی مدد کے لیے بھارت میں ایک اتاشی مقررکیا ہے۔
خوشحالی کی راہ
امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نجی شعبے کی سرمایہ کاری اوربھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ سہ فریقی تعاون افغانستان کی حمایت میں جنوبی ایشیاء کے لیے امریکی حکمت عملی کے حصے کے طور پر متعدد شعبوں میں معاشی اور علاقائی استحکام کے لیے ہے۔
افغان کمپنیاں اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرتی ہیں، لیکن کمپنیوں میں ممکنہ خریداروں کی مانگ اور بھارتی بازارسمیت ممکنہ بازاروں سے روابط کے بارے میں معلومات کا فقدان ہے۔ یو ایس ایڈ بھارت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیاء میں افغانستان کے معاشی اتحاد کوفروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ۲۰۱۷ ء کے بعد سے یو ایس ایڈ نے بھارت اور افغانستان کی حکومتوں کے ساتھ تین سالانہ تجارتی شوز کی منظوری دی ہے جن کو پیسیج ٹو پراسپیرٹی کہا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں ہر سال ۳۰ ملین ڈالرکے اوسط سے زائد کا معاہدہ افغان اور بھارتی کمپنیوں کے مابین ہوتا ہے جس میں بنیادی طور پر زراعت کا سامان ہوتا ہے۔
۲۰۱۹ء میں قریب ۶ ملین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں زیادہ تر زراعت کے معاہدے تھے۔۲۳ اعشاریہ ۳ ملین کے ممکنہ سودوں کے بارے میں تبادلۂ خیال بھی کیا گیا۔ ۲۰۱۹ ء کے پیسیج ٹو پراسپیریٹی تجارتی شو کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ خواتین کی بزنس ٹو بزنس تقریب تھی۔ اس دوران بھارتی اور افغان خواتین کی ملکیت
والی کمپنیوں کے درمیان ۶ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ خواتین کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں نے تجارتی شو کے اختتام پر مجموعی سودوں میں سے ۲۴ فی صد پر دستخط کیے۔
ٹو ایکس ویمن انی شی ایٹو
امریکی عالمی ترقی معاشی کارپوریشن(ڈی ایف سی)ٹو ایکس ویمن انیشی ایٹو کے انوکھے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پر عزم ہے جو خواتین کو عالمی سطح پر درپیش ہیں جن میں ان کے ملٹی ٹریلین ڈالر کے مواقع ہیں ۔ مثال کے طور پر ۳۵۰ ملین بھارتی روپے کی مالی معاونت سے ایوئم(جو بھارت میں خواتین کو دیہی علاقوں میں قرض فراہم کرتی ہے)نے قریب قریب ۱۲۰۰ افراد کو ہوم لون فراہم کیا ہے۔
ایو ئم(دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو قرض دیتی ہے) ۴ہزار ڈالر اوسط لون کے طور پر فراہم کرتی ہے ۔ اس کی خدمات حاصل کرنے والی بہت سی خواتین غیر رسمی معیشت میں ہیں اور ان کی آمدنی غیر دستاویزی ہے۔ یعنی ان کی گھر کے لیے مالی اعانت تک رسائی نہیں ہو پاتی ۔ گھر بنانے کے لیے حاصل ہونے والا سستا قرض خواتین کو گھر بنانے اور کریڈٹ ہسٹری قائم کرنے کا اہل بناتا ہے۔
خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانا ایوئم کی مہم اور اس کے کام کا بنیادی حصہ ہےجس سے ڈی ایف سی کے ٹو ایکس ومین انیشی ایٹو کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ قرض حاصل کرنے میں خواتین کو ہونے والی دشواری کو کم کرنے کےوالی تنظیم ایوئم کی بنیاد ایک خاتون کاروباری پیشہ ور نے رکھی تھی۔ تنظیم کے بورڈ میں خواتین کا دبدبہ ہے۔
کووِڈ۔۱۹ وبا کے دوران حکومت اور نجی شعبے کا مل کر کام کرنا
کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کے دوران امریکہ اوربھارت کے مابین دوطرفہ تعاون اور بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ امریکی اور بھارتی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں مدد کے لیے ایئر لائنز، ہوائی اڈوں اور دیگر خدمات فراہم کنندگان کے ساتھ تعاون کیا۔ امریکی سفارت خانہ کے زیر اہتمام بھارتی حکام اور نجی ایئر لائنز کے اشتراک سے لگ بھگ۶ہزارامریکی شہری اور ان کے کنبہ کے افراد وطن واپسی کے لیے پروازوں میں سوار ہوئے جب کہ بھارتی حکومت نے ہزاروں بھارتی شہریوں کی وطن واپسی میں مدد کی۔ دونوں حکومتوں نے مال بردار اور خصوصی طیاروں میں پی پی کِٹس، دوائیں اور دیگر اہم اشیاء سمیت ضروری سامان اور خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ۔اس کے علاوہ ہم نے دواسازی کی صنعت اور تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کام کیا جس میں کووِڈ۔۱۹ کے علاج اور ویکسین کی تحقیق پر کام کیا گیا۔ یو ایس ایڈ نے بھارت کو ۲۰۰ اعلیٰ معیار کے وینیلیٹر بطور عطیہ دیا ۔ اس کے علاوہ ایک اعانتی پیکج بھی دیا گیا جس میں وارنٹی بھی شامل تھی۔ یو ایس ایڈ نے ان وینٹیلیٹرس کا استعمال کرتے ہوئے صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کی گنجائش بڑھانے، وینٹیلیٹرس کے ابتدائی انتظام کو آسان بنانے اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے لیےکلینکل تربیت مہیا کرانے کی غرض سے بھارتی حکومت کے ساتھ قریبی رابطے میں کام کیا۔
تبصرہ