بطور تارک وطن رینا بنرجی فن کے اظہار کے لیے اپنی نجی زندگی کی جانب متوجہ کرتی ہیں جس کا محور نسل، ترک وطن اور مہجری تاریخیں ہیں۔
October 2021
پوری دنیا سے حاصل شدہ سامان ،اپنی ڈرائنگ اور پینٹنگس کی مدد سے رینا بنرجی عالمی ثقافت کے مختلف عناصر کو یکجا کرتی ہیں تاکہ ان پر گفتگو کی جا سکے۔ تصویر بشکریہ رینا بنرجی
رینا بنرجی کے فن پاروں کی نمائش کی دید سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا آپ ایک رنگوں بھری مجازی جنت میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ہر ایک کونا آپ کو غور و فکر اور خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔
بنرجی کولکاتہ میں پیدا ہوئیں مگرایک طویل عرصے سے نیو یارک میں مقیم ہیں۔ ان کی پینٹنگس ، فن پارے اور دنیا بھر سے مختلف انواع و اقسام کے نوادرات عالمی ثقافتوں کے عناصر کو یکجا کرتے ہیں جن پر بحث و مباحثہ ہوتاہے۔
وہ بتاتی ہیں’’ ثقافت اور طبقات کے گھلنے ملنے میں میری گہری دلچسپی ہے۔ اسی مقام پر غالباً تارکین وطن بہت اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں جن سے ہم شناختی سیاست، قومی سرحدیں، تارکیت ، افلاس، سماجی انصاف اور صنفی مساوات جیسے موضوعات پر گفتگو کرسکتے ہیں۔‘‘
لیکن بنرجی اپنے کام کے ساتھ ارادتاً کوئی اظہار نہیں کرتیں۔وہ بتاتی ہیں’’مجھے یقین ہے کہ جب میں نے آغاز کیا تھا اس وقت نہ تو میں خود کو جانتی تھی اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم تھا۔لہذا میرے اندر جاننے کی جستجو پیدا ہوئی۔وہ مزید کہتی ہیں کہ وہ لمحہ بیک وقت کافور صفت اور محظوظ کرنے والا تھا۔میں خود کو اپنے سے جڑا ہوا محسوس کرتی ہوں۔ اور اسی لیے میرے اندرجذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں دنیا سے بھی جڑی رہوں، اس کے حقیقی وجود اوراس کی عارضی کشیدگی کا احساس کرسکوں۔‘‘
ان کا ایک مجسمہ فلک بوس عمارت تاج محل کا ہے مگراس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پلاسٹک کی لال رنگ کی شیٹ سے تیار کیا گیا ہے جس سے غیر ملکی ہونے اور صارفیت کا احساس ایک ساتھ ہوتا ہے۔۱۸فٹ بلند ’’عمارت‘‘ چھت سے لٹکی ہوئی ہے جس میں لوگ اندر داخل ہو سکتے ہیں۔ جن مضبوط اشیاء سے یہ بنی اس کی فہرست میں: ’’پلاسٹک، قدیم اینگلو انڈین بمبئی کالی لکڑی کی کرسی، اسٹیل اور تانبے کا ڈھانچہ، پھولوں کی پتّیاں، کوڑیاں، لحاف کی پنیں، رنگین کائی، قدیم گول پتھر، شیشہ، مصنوعی فائبر، شیل اور نقلی پرندے‘‘ شامل ہیں۔
بنرجی کی نجی پہلی گشتی نمائش کا نام تھا ’’رینا بنرجی: میک می اے سمری آف دی ورلڈ۔‘‘۔ یہ نمائش فلا ڈیلفیا میں واقع پینسلوانیا اکیڈمی برائے فائن آرٹس میں ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء میں منعقد کی گئی تھی۔بعد ازاں یہ نمائش کیلیفورنیا اور ٹینیسی میں منعقد کی گئی۔اور آخر میں یہ شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونی ورسٹی کے ناشر میوزیم آف آرٹ میں جولائی۲۰۲۱ء تک منعقد کی گئی۔
اس نمائش میں بنرجی کے درجنوں مجسمے اور کاغذ پر بنائی گئی پینٹنگس ایک ساتھ دکھائے جاتے ہیں جن سے متن، ذیلی متن اور ان کے مضمرات اجاگر ہوتے ہیں۔ ان فن پاروں کے عنوانات کافی طویل ہوتے ہیں جن سے ناظرین کے ذہن میں ثقافت، استعماریت اور تانیثیت کے متعلق مسائل ابھر کر آتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں ’’ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی کے ’حال‘کو جاننے کے لیے ایک عمیق معرفت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سے مجھے بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر میں اپنے آرٹ کو خود تک اور لوگوں تک پہنچانے اورمتعارف کرانے میں ناکام رہی تو میرے اندر خلا رہ جائےگا۔ ‘‘
بنرجی کے گھر والوں کےکولکاتہ کو خیرآباد کہنے بعد ان کی پرورش انگلینڈ میں ہوئی ۔پھر وہ نیو یارک سٹی میں کوینس میں رہائش پذیر ہوگئیں۔ انہوں نے کیس ویسٹرن یونیورسٹی سے پالیمر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور پالیمر کیمسٹری کے میدان میں اپنی خدمات بھی انجام دیں۔ مگر پھر انہوں نے سائنس کو الوداع کہہ کرییل یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ماسٹر کیا اور اب اپنے خواب کو بُن رہی ہیں۔ گذشتہ برس انہوں نے ییل یونیورسٹی میں بطورناقدِ فن تدریس شروع کی۔
بنرجی کی تخلیقات کی نمائش دنیا بھرمیں منعقد ہوئی ہے۔ ان میں اسمتھ سونین کے علاوہ وینس دوسالہ، یوکوہاما سہ سالہ اور کوچی۔موزیریز دو سالہ شامل ہیں۔ ان کےفن پاروں کی نمائش کئی مجموعوں میں بھی لگ چکی ہے جن میں اہم نام وھایئٹنی میوزیم برائے امریکی آرٹ، سان فرانسسکو میوزیم آف ماڈرن آرٹ، پین سلوانیا اکیڈمی آف ماڈرن آرٹ، نئی دہلی میں واقع کرن نادر اکیڈمی آف آرٹ اور نیو یارک سٹی میں واقع بروکلین میوزیم شامل ہیں۔
بنرجی اس تصور کو مسترد کرتی ہیں کہ لوگ فن کار بننے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بلکہ وہ زور دے کر کہتی ہیں’’آرٹ ہی آرٹسٹ اور آرٹ کے شائقین کے لیے اضطراری فعل ہے۔ اور اسکی لا محدود خصوصیت ہی مجھے محنت کرنے اوراس محبت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میں یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ لوگ ہمیں کبھی ناکام نہیں کرتے۔ یہ ہمارا جمود، سخت اور ایک ہی جگہ اڑے رہنے کا خبط ہے جو لوگوں کو ناکام کرتا ہے۔ اور یہیں ہجرت و قومیت مطالعات، ما بعد استعماریت و ثقافتی مطالعات اور صنف مخصوص سے متعلق مطالعات ہمیں بیدار کیے رکھتے ہیں اور ہمیں آگے بڑھنے دیتے جیسا کہ ہمیں کرنا چاہیے۔
کینڈس یاکونوجنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔
تبصرہ