ٹیکہ سے جان کی حفاظت

متعددی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بنائی گئ ویکسین سے لاکھوں جانیں بچتی ہیں۔ اس مضمون میں پڑھیں کہ امریکی اختراع کاروں کی کاوشوں کے نتیجے میں کووِڈ۔۱۹ اور دیگر بیمایوں کی روک تھام میں مدد ملی ہے۔

شیئر امیریکہ

September 2021

ٹیکہ سے جان کی حفاظت

یہاں نظر آ رہی ہر شیشی میں کووِڈ۔۱۹ ٹیکہ ہے جسے میری لینڈ کے راک وِل میں نووا وَیکس کمپنی نے تیار کیا ۔ © اینڈریو کبالیرو۔ رینالڈس /اے ایف پی  /گیٹی امیجیز

متعدی امراض کے خلاف ٹیکہ سے لاکھوں لوگوں کی جان بچ جاتی۔ کووڈ۔۱۹ اوردیگر امراض کے خلاف عالمی سطح پرحفاظتی تدابیر کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں پر ہم بات کریں گے کہ کس طرح امریکی اختراع پردازان عالمی کوششوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ٹیکوں کی بدولت ہی ہم نے متعدد مہلک امراض کے پھیلنے پر قابو پایا ہے اورچیچک کو پوری طرح ختم کرسکے ہیں۔امریکہ، جرمنی، یونائیٹڈ کنگڈم اور دیگر ممالک کے اختراع پردازوں نے کووڈ۔۱۹ کے خلاف محفوظ اور متاثر ٹیکہ بنایا ہے جو اس عالمی وباء کے خلاف جنگ میں کافی کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔

امریکی دوا سازفرم موڈرنا اور جرمنی میں واقع بایواین ٹیک دونوں نے امریکی فرم فائزر کے ساتھ اشتراک سے دنیا کا پہلا میسنجر آراین اے ٹیکہ تیار کیا ہے جو کہ کووڈ۔۱۹ سے حفاظت میں کافی کار گر ثابت ہو رہا ہے۔مصنوعات بنانے والی امریکہ کی کمپنی جونسن اینڈ جونسن نے یک خوراکی ٹیکہ تیار کیا ہے جس سے عالمی سطح پر کووڈ۔۱۹ کے معاملات پر قابو پانے میں کافی مدد ملی ہے۔

امریکہ کم اور اوسط درجہ کی آمدنی والے ممالک اور معیشتوں کو  ٹیکہ کی ۶۱۰ ملین خوراک مفت فراہم کر رہا ہے۔ان میں اکثر عطیات کو وَیکس سہولت کے ذریعہ ہیں جس سے یہ ٹیکہ سب میں برابربرابر تقسیم ہوتا ہے۔ امریکہ نے گاوی (جو کہ وَیکسین الائنس ہے) کو کو وَیکس امداد کی بطور چاربلین ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

بقول صدر بائڈن امریکہ دنیا کے لیے ”ٹیکہ کاذخیرہ“ ہے۔لہذا امریکہ کو چاہیے کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرے تاکہ بایو میڈیکل تحقیق کے میدان میں امریکی سرمایہ کاری اور اختراع پردازوں کی کئی دہائیوں پر محیط کوششوں کا  فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی سطح پر ان متعدی امراض پر نہ صرف قابو پایا جا سکے بلکہ انہیں جڑسے ہی ختم کیا جا سکے۔

پولیوکی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے معذور ہو جاتے تھے۔ امریکی طبیب، طبی محقق اورماہر سمیات جوناس سالک نے ۱۹۵۵ میں پولیو کا ٹیکہ ایجاد کیا۔۸۸ ۱۹اور ۲۰۱۳ کے درمیان پولیو کے خلاف شدید مہم چلائی گئی۔امریکی مرکز برائے  امراض کنڑول اور روک تھام کے مطابق اس مہم کے نتیجہ میں پولیو کے معاملات میں ۹۹ فی صد تک تخفیف درج کی گئی۔اگر ٹیکہ لگانے کی مہم اسی طرح جاری رہی تو توقع ہے کہ بہت جلد پولیو کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے گا۔

خسرہ سے ہر سال اندازاً ۲.۶ ملین افرادجاں بحق ہو جاتے تھے۔ نوبل انعام یافتہ امریکی بایو میڈیکل محقق جان اینڈرس نے ۱۹۶۳میں خسرہ کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا۔آج اس کے انتہائی کم معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں۔سی ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق ء ۲۰۱۸ میں عالمی سطح پر خسرہ سے محض ۱لاکھ ۴۲ ہزار اموات واقع ہوئی تھیں۔ امریکی محققین دیگر امراض کے لیے بھی ٹیکہ بنانے میں مسلسل مصروف ہیں۔

ایم ای آر ایس

سائنس دانوں نے ڈرومیڈری اونٹوں میں مَرس وائرس کے ضدِ جراثیم کی پہچان کی ہے جو ٹیکہ بنانے کی جانب ایک اہم قدم تصور کیا جاتا ہے۔ © ہیرو کوما /اے پی امیجیز

ایم ای آر ایس ۲۰۱۴ء میں امریکہ میں پھیلا۔ اس سے پہلے ۲۰۱۲ء میں یہ جزیرہ نما عرب میں پھیل چکا تھا۔ سائنسدانوں نے سیکھ لیا ہے کہ کیسے اس وائرس سے بیماری پھیلتی ہے اور انہوں نے ممکنہ ٹیکہ سازی کا کام شروع بھی کردیا ہے۔

الرجی اور متعددی بیماریوں کے لیے قائم قومی انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ کووِڈ۔۱۹ کے لیے ممکنہ ایک ٹیکے کو تیزی کے ساتھ بنانے کی خاطر اسے آزمائشی سطح تک تیزی کے ساتھ پہنچایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ایم ای آر ایس سے حفاظت کے لیے تیار کیے جانے والے ایک ٹیکے کی طرز پر ہی تیار کیا گیا تھا۔

ایبولا

جمہوریہ کونگو کے گیما میں نومبر ۲۰۲۰ میں ایک طبی کارکن ڈاکٹر جین جَیک میومبی ٹام فم کو ایبولا سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکہ لگاتے ہوئے۔ ©پامیلا تولیزو /اے ایف پی /گیٹی امیجیز

ایبولا وائرس سے بخار آتا ہے، جسم میں اندرہی اندر خون بہتا ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔جب انسان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو جسم میں موجود سیال مادّہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔یہ وبا بنیادی طور پر افریقہ میں پھوٹی تھی بلکہ جمہوریہ کانگو اور گینیا میں تو اس کا ظہور۲۰۲۱ء میں ہی ہوا ہے۔

امریکی اور یورپی نگراں اداروں نے ابھی حال ہی میں امریکی فرم مَرک کے ٹیکہ کو منظوری دی ہے جو اس مرض کے زائر اسٹرین کے خلاف موثر ثابت ہوا ہے۔جن ممالک میں ایبولا کی وباپھوٹ پڑی ہے ان میں قومی سطح پر تیاریوں اور اس وبا کے خلاف سرگرمیوں کے لیے عطیہ دینے والا امریکہ دنیا کا واحدسب سے بڑا ملک ہے۔

زیکا

اس ایڈس ایجپٹی مچھڑ کو زیکا ، چکن گنیا ، ڈینگو بخار اور دوسری شدید قسم کی بیماریوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ © جیمس گتھانی /سی ڈی سی/ اے پی امیجیز

زیکا وائرس بنیادی طور پر مچھروں کے ذریعہ سے پھیلتا ہے۔اس بیماری کے سبب ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۶ءمیں مغربی نصف کرہ ارض میں ہزاروں بچے پیدائشی طورپیدا معذور ہوگئے۔

امریکی وزارت دفاع کے تحت والٹر ریڈ آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ نے زیکا وائرس کے ٹیکہ بنانے کی جانب کافی سرعت سے پیش قدمی کی اور ۲۰۱۶ء سے کے اواخر تک اس ٹیکہ کے مطبی تجربات شروع ہو گئے تھے۔

این آئی اے آئی ڈی کے سائنسدانوں نے ایک تجرباتی ٹیکہ تیار کیا اور اس کے مطبی تجربات مارچ ۲۰۱۷ء میں شر وع  ہو گئے تھے۔

ملیریا

ستمبر ۲۰۱۹ء میں کینیا کی ہوما بے کاؤنٹی میں ایک طبی کارکن ایک بچے کو ٹیکہ لگاتے ہوئے۔© جوزف اوڈور /اے پی امیجیز

مچھروں کے ذریعہ پھیلنے والی ایک اور بیماری ملیریا ہے جس سے دنیا کی کُل آبادی کا نصف حصہ یعنی ۳.۴ ملین افراد کو خطرہ لاحق ہے۔اس بیماری سے افریقہ میں سالانہ ۷لاکھ افراد جاں بحق ہو رہے تھے۔ مگر پھر صدر جارج ڈبلیو بُش نے ۲۰۰۵ ءمیں امریکی صدر کی ملیریا پہل کا آغاز کیا۔ وسیع پیمانہ پر علاج معالجہ اور حفاظتی ا قدامات مثلاً مچھر دانیوں کی تقسیم کی بدولت ۲۰۱۷ ءتک ملیریا سے اموات کی شرح تقریباً  نصف ہو گئی تھی یعنی محض ۳لاکھ سالانہ اموات ۔

امریکی محققین ملیریا کا ٹیکہ بنانے والی اس بین الاقوامی کاوش کا بھی حصہ ہیں جو ۵سے ۱۷ماہ کے بچوں کو ملیریا سے محفوظ رکھنے میں ۷۷ فی صد تک موثر ہے۔

تپ دق

ایک نئے ٹیکہ کے لیے تحقیق کرتے ہوئے سائنس دانوں نے ٹی بی اور پولیو کے ٹیکوں کی دوبارہ جانچ کی تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ان سے کووِڈ۔۱۹ کی روک تھام میں کوئی مدد مل سکتی ہے۔

بیکٹیریا جب پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے تو تپ دق کی بیماری ہوتی ہے۔جب تب دق سے متاثر مریض چھینکتا  یا کھانستا ہے تو ہوا کے ذریعہ سے جراثیم سامنے والے شخص میں منتقل ہوجاتے ہیں۔اس مرض سے ہر سال ۱.۵ ملین افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔تپ دق اتنا مہلک مرض ہے کہ اس کی توشرح اموات نے ایڈس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

موجودہ ٹیکہ کی افا دیت محدود ہے۔اسی لیے تو این آئی اے آئی ڈی ٹیکہ تیار کرنے اور علاج و معالجہ کی تحقیق کے لیے فنڈ دے رہی ہے۔متعدد ممکنہ ٹیکے جانوروں پرمطالعات میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے مطبی تجربات جاری ہیں۔

تشکر برائے متن شیئر امیریکہ


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے