انسانی سوداگری کے شکار افراد کو بااختیار بنانا

انسانی سوداگری کی گرفت سے نجات پانے والے افراد انگریزی سیکھ کر اپنے تجربے میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور اس خباثت کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لیے انہیں بنیادی سطح پر بیدار کرتے ہیں۔

میگن میک ڈریو

December 2022

انسانی سوداگری کے شکار افراد کو بااختیار بنانا

انسانی سوداگری کی گرفت سے بچ نکلنے والے افراد نے اپنی طاقت اور یقین کو پختہ کرنے پر کام کیا تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرسکیں اور اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ خواتین اور لڑکیاں ان حالات کا سامنا نہ کریں جس کا وہ شکار ہوئیں۔ (تصویر بشکریہ الفاٹ)

انسانی سوداگری یعنی انسانوں کا طاقت، دھوکہ اور ورغلا کر اپنے فائدے کے لیے استعمال دنیا میں سب سے موذی مسئلوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت کے ماتحت ادارہ قومی بیورو برائے جرائم و ریکارڈ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ ۲۰۱۹ء میں بھارت سرکار نے تعزیراتِ ہند کی دفعات کے تحت انسانی سوداگری کے ۲۰۸۸ غیر قانونی معاملات درج کیے تھے۔

دی انڈین لیڈرشپ فورم اگینسٹ ٹریفکنگ(الفاٹ)بھارت کا ایسا پہلا قومی فورم ہے جوانسانی سوداگری کے خلاف نبرد آزما ہے۔ اس کی بنیاد ان لوگوں نے ،ان افراد کے واسطے ڈالی جن کی سوداگری مزدوری یا جنسی استحصال کے لیے ہوئی۔

یہ بھارت کا پہلا ایسا فورم ہے جس کی قیادت انسانی سوداگری کے شکنجے سے بچ نکلنے والے افراد خود کر رہے ہیں۔

الفاٹ کے ۴۰۰۰سے بھی زائد فعال اراکین ہیں۔ یہ وہی ہیں جوشکنجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ دراصل الفاٹ بھارت کے نو صوبوں …مغربی بنگال، آندھرا پردیش، بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ، تامل ناڈو، راجستھان اورمہاراشٹرمیں موجود انسانی سوداگری کی گرفت سے بچ نکلنے والوں کے ۱۳مجموعوں کا وفاق ہے۔

جنوری ۲۰۲۳ء کو انسدادِ انسانی سوداگری ماہ کے طور پر منایا جانا ہے۔ اسی مناسبت سے الفاٹ نےنئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے انگریزی زبان کے مقامی دفتر(ریلو )کے اشتراک سے انسانی سوداگری سے نجات پانے والے افراد کے لیے انگریزی زبان کی تربیت کا اہتمام کیا ہے۔

انگریزی زبان سیکھنے سے ان افراد کے اندر اپنا کھویا وقار واپس پانے کی صلاحیت اور خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ اس سے ان افراد کے اندر یہ طاقت بھی آئی ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کرسکیں اور انسانی سوداگری کے خلاف بیداری پیدا کر سکیں ، ساتھ ہی گرفت سے نکلنے کے بعد اپنے گھر والوں اور برادریوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے مسائل کا بھی بہادری کے ساتھ سامنا کرسکیں۔ انسانی سوداگری سے بچ نکلنے والے افراد نے وضاحت کی کہ اس تربیت کی بدولت وہ بھارتی پارلیمنٹ کے اراکین سے زیر التوا انسداد ِ انسانی سوداگری سے متعلق دستاویز کے بارے میں بات چیت کرسکے اور ملک کے دیگر علاقوں کے اراکینِ پارلیمان سے بھی اپنا مافی الضمیر انگریزی میں بیان کرسکے۔

آسان شکار

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی خوشی(تبدیل شدہ نام ) ایک خوش حال گھرانے میں اپنے والدین، تین بھائی بہن اور دادا دادی کے ساتھ پُر سکون زندگی گزار رہی تھی۔ نویں جماعت کی تعلیم مکمل ہوتے ہی خوشی کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ اسے بھی خوشی ہی کی طرح گھومنے کا بہت شوق تھا۔ خوشی اپنی دردناک کہانی بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ اسے دو مہینے تک قید میں رکھا گیا ’’ کچھ دنوں بعد ہم مغربی بنگال سے باہر آگئے اور اس لڑکے نے میرا ناطہ میرے گھر والوں سے بالکل ختم کر دیا۔ مجھے اپنے گھر والوں سے بات تک کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مجھے ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رکھا گیا تھا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ مجھے فروخت کردیا گیا ہے۔ ‘‘

تمام بچ نکلنے والے افراد میں ایک مشترکہ قدر ذہنی، جسمانی، جذباتی اور مالیاتی استحصال ہے۔ خوشی اس وقت تک تشدد کا شکار رہی جب تک اسے چھڑا نہیں لیا گیا ۔

ایک اور مشرک قدر جو بچ نکلنے والے افراد کوگھر واپس آنے پرکافی ستاتی ہے وہ ہےشدید ذہنی صدمہ ۔ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ ثقافتی بدنامی کا شکار ہوتے ہیں اور ان سے سماجی مقاطعہ کیا جاتا ہےجس سے ان کے اندر شدید شرمندگی کا احساس جنم لیتا ہے اور وہ روزگار کے بیشتر مواقعوں سے دور ہو تے چلے جاتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کے معاملات خوشی کے ساتھ بھی پیش آئے تھے۔ نہ کوئی اسکول اسے داخلہ دینے کو تیار تھا اور نہ ہی کوئی اس کی داستانِ علم سننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔

خوشی ہی کی طرح مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی تِتھی(تبدیل شدہ نام)کی عمر جب ۱۷برس کی تھی اس وقت ایک شناسا نے اسے ملازمت کا وعدہ کرکے اپنے جال میں پھنسایا ۔ اصل میں تِتھی کے گھروالوں کی مالی حالت خراب تھی۔ لہٰذا، اس نے ملازمت کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ اپنے گھر والوں کی کچھ مالی امداد کرسکے۔اس کے گھرمیں ایک لڑکے کا آنا جانا تھا۔اس نے موقع بھانپ لیا اور ایک کال سینٹر میں نوکری دلانے کے بہانے اسےایک آفس میں لے گیا۔ وہاں تِتھی کو کافی پیش کی گئی جس کو پیتے ہی وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اسے احساس ہوا کہ اسے احمد آباد میں فروخت کردیا گیا ہے۔

پانچ مہینوں کی قید کے دوران تِتھی کو ممبئی، حیدرآباد اور پھر واپس مغربی بنگال میں فروخت کیا گیا۔ اس کونشہ آور دواؤں کے انجکشن کئی بار دیے گئےاور اسے ’’ اسمگلروں اور گاہکوں کے ذریعہ مستقل جسمانی اور نفسیاتی تکالیف دی گئیں۔ ‘‘

پولیس نے اس کواسمگلروں کے شکنجے سے آزاد کرایا۔ لیکن اس آزادی کے بعد تِتھی کو بھی ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کا سامنا خوشی کو کرنا پڑا تھا۔ اس کی اپنی برادری نے اسے ذلیل کیا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔وہ بتاتی ہے’’مجھے اتنا ستایا اور پریشان کیا گیا کہ میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی ۔‘‘

گھروں میں ہونے والی لڑائیاں اور مقامی دشمنیوں کی وجہ سے بھی خواتین کو انتقامی کاروائی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی انیتا(تبدیل شدہ نام ) کے ساتھ ہوا جس کو محض ۱۶ برس کی عمر میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہے’’ میرے والد تاجر تھے جو مچھلیاں بیچا کرتے تھے ۔ جب میری عمر ۱۶ برس تھی تو ان کا وصال ہوگیا ۔ ان کے انتقال کے بعد ہمارے معاشی حالات ابتر ہو گئے تو میں نے نوکری کرنے کے بارے میں غور کیا ۔ ‘‘

انیتا مزید بتاتی ہے ’’میرے والد اپنی برادری میں ایک عزت دار شخصیت کے مالک تھے اوران کے سیاست دانوں اور پولیس سے اچھے مراسم تھے۔ گاؤں والے ان کی عزت اور وقار سے خار کھاتے تھے ۔ ‘‘

انیتا کو مقامی تاجر کے بیٹے نے، جو کہ ان کے والد سے جلتا تھا ،اغوا کر کرکے فروخت کردیا۔انیتا بتاتی ہے کہ اسے صرف ایک ہفتہ کے لیےقید میں رکھا گیا۔ ’’ اسمگلر انہیں اور اس کے ساتھ اس گھر میں رہ رہی تین اور لڑکیوں کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے مگر چوں کہ میرے والد شہر کی نامی گرامی شخصیت تھے ، اس لیے مجھے فروخت کرنے میں پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔‘‘

بعد میں پولیس نے انہیں اسمگلروں کی گرفت سے آزاد کرایا جسے اس کے قید خانے کا علم ہو گیا تھا۔

نیا آغاز

ان تمام نفسیاتی مسائل سے گزرنے کے بعد یہ خواتین اپنے اندر ایک نئی قوت اور ایک نیا احساس پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔یہ خواتین مشترکہ طور پر انسانی سوداگری کے خلاف بیداری پیدا کرنے میں مصروف ہیں تاکہ دیگر لڑکیاں ان تمام تکالیف سے محفوظ رہ سکیں جن سے انہیں گزرنا پڑا ہے۔خوشی الفاٹ کے ساتھ کام کر رہی ہےتاکہ انسانی سوداگری کے بارے میں بیداری پیدا کر سکے۔ ریلو کی انگریزی زبان کی تربیت کی بدولت خوشی ’’سروائورس الائنس کے اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار انگریزی زبان میں بخوبی کر پاتی ہے ، ای میل کا جواب دے پاتی ہے اور ہمارے ملک سے انسانی سوداگری کو ختم کرنے کی جانب گامزن ہے۔‘‘

تِتھی کی تو اب شادی ہو چکی ہے اور وہ گھر میں تیار شدہ فرش صاف کرنے کا کپڑا فروخت کرکے گزر بسر کر رہی ہے ۔ وہ الفاٹ اور بیجوینی سے بھی منسلک ہےجو انسانی سوداگری کا شکار ہونے والوں کا ایک وفاق ہے۔

یہ دونوں تنظیمیں انسانی سوداگری سے نجات پانے افراد پر مشتمل ہیں۔وہ بتاتی ہے ’’ نوجوانوں کو انسانی اسمگلنگ اور کم عمری میں پیسے کمانے کے سماجی دباؤ کے متعلق بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔ اسی کے فقدان سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے ۔ میں نے عزم کیا ہے کہ میں اپنی پوری زندگی انسانی سوداگری کو ختم کرنے کے لیے کمر بستہ رہوں گی۔‘‘

خوشی، تتھی اور انیتا یک زبان ہوکر زور دیتی ہیں کہ بھارت میں انسانی سوداگری کےتئیں عوامی بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انیتا پر جو بیتی اس سے ان کو بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ ’’نوجوان لڑکیاں غلط آدمی پر بھروسہ کر بیٹھتی ہیں جن کا مقصد صرف ان کے جسم سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔‘‘ وہ تاکید کرتی ہے کہ بھارت سرکار کو انسانی سوداگری کے خلاف مزید سخت قوانین وضع کرنے چاہئیں اور اس کے جڑ سے خاتمہ کی جانب اقدام اٹھانے چاہئیں۔

گذشتہ کئی برس کے دوران بھارت سرکار نے انسانی سوداگری کے متعلق بیداری پیدا کرنے اور معاملات درج کرنے کے لیے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ مثلاً ریلوے اسٹیشنوں پر بچوں کی ہیلپ لائن کا اہتمام، انسانی سوداگری سے متعلق بیداری مہمات کا اہتمام، انسانی سوداگری کےلیے آسان شکار برادریوں کے قانونی حقوق کی مہمات کا اہتمام۔ سرکاری محکمے ان تمام سرگرمیوں کے لیے مقامی رہنماؤں اور غیر منفعت بخش تنظیموں کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں تاکہ حفاظتی پالیسیوں کا بہتر طریقہ پر نفاذ ہو سکے۔ خوشی، تِتھی اور انیتا جیسے نجات پانے والے بااختیار افراد کی رہنمائی مقامی برادریوں کے ساتھ رشتے قائم کرنے اوررابطہ قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے انسانی سوداگری کے خطرےمیں کافی تخفیف ہوتی ہے۔

میگن میک ڈریو سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور ہارٹنیل کالج میں سماجیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کے مانٹریرے میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے