طبّاخی میں روشن مستقبل

اس مضمون میں شیف ملیکا آنند ’کلنری انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ ‘میں اپنی تعلیم اور تجربات کا اشتراک کر رہی ہیں۔

میگن میک ڈریو

November 2023

طبّاخی  میں روشن مستقبل

’ کلنری انسٹی ٹیوٹ آف امیریکہ‘ سے فراغت یافتہ ملیکا آنند بھوپال میں ’بیکڈ بائی ملیکا‘ نامی ذاتی پیسٹری کمپنی چلاتی ہیں۔ (تصویر بشکریہ ملیکا آنند)

بھوپال میں مقیم ملیکا آنند کے کھانا پکانے کا سفر  کمسنی میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے اپنی والدہ، دادی اور خالاؤں , پھوپھیوں , چچیوں اور ممانیوں کو باورچی خانے میں لذیذ کھانے بناتے ہوئے دیکھا۔ چونکہ آنند کے ارد گرد سب شاندارطبّاخ  تھے لہٰذا ان کے اندر بھی کھانا پکانے کا شوق فطری طور پر پروان چڑھا اور انہوں نے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

آنند کو اپنے کریئر کے بارے میں یقین تھا کہ وہ فنِ طبّاخی  میں  ہی پیش قدمی کرنا چاہتی ہیں ۔ اس لیے انہوں نے کالج کی تلاش محض نویں جماعت میں شروع کر دی ۔ وہ انکشاف کرتی ہیں ’’ایک دن اچانک مجھے ’کلنری انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ ‘ (سی آئی اے) کی ویب سائٹ نظر آئی۔ اور بس اس پر درج ہر کورس میرے دل کو بھا گیا۔ اسی دن سے میں نے اس انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے کا ہدف بنا لیا تاکہ میں بھی اپنا ایک کامیاب پیسٹری شیف بننے  کا سفر شروع کر سکوں جس میں میرے ہم خیال میرے شریک سفر ہوں۔‘‘

نیو یارک میں واقع سی آئی اے کا  شمار فنِ طبّاخی  کے دنیا کے چند اعلیٰ ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ آنند نے اپنے گھر والوں کے ساتھ سی آئی اے کا دورہ کیا اور ان کو یقین ہو گیا کہ ان کو یہی کورس کرنا ہے حالانکہ انہوں نے بھارت میں پہلے سے ہی فنِ طبّاخی کے ایک کورس میں داخلہ لے رکھا تھا۔

درست سفر کا انتخاب

سی آئی اے میں مختلف النوع پروگرام دستیاب ہیں جو کہ فنِ طبّاخی اور تدریسی کلاسوں پر مبنی ہیں۔ فنِ طبّاخی کی کلاسوں میں بریڈ، کیک اور چاکلیٹ بنانا، نیز ریستوراں خدمات کی بنیادی چیزیں، شراب سازی اور پیئرنگ (مختلف کھانوں کے ساتھ جداگانہ مشروبات خاص کر شراب کی آمیزش) سکھائی جاتی ہے۔ جبکہ تدریسی طور پر کورسس ریاضی، غذائیت اور محفوظ کھانا پیش کرنے میں سرٹیفیکیشن شامل ہیں۔

آنند اکثر علی الصبح چار بجے اٹھ جایا کرتی تھیں تاکہ کیمپس میں سات بجے ناشتہ پروسنے کے لیے تیار رہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’لوگوں کو لگتا ہے کہ اتنا سویرے اٹھنا ایک عجب دیوانگی ہے لیکن حقیقت میں مجھے صبح صبح اٹھ کر سات بجے گاہکوں  کے لیے تیاری کرنے میں بڑا لطف آتا تھا۔‘‘ ماسٹر شیف سے سیکھنے اور اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ تربیت پانے (جن کی فنِ طبّاخی میں دلچسپی تھی) سے آنند کے اندر ایسے ہنر پیدا ہوئےاور  رابطے بھی قائم ہوئے جن کی مدد سے وہ اپنے کریئر کو بلندیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں۔

اس پروگرم کی سب سے خاص بات یہ تھی  کہ اس میں تین ماہ کی ایکسٹرن شپ (کسی دفتر ،کمپنی یا کارخانے کا کوئی  عارضی تربیتی پروگرام، خاص کر ایسا پروگرام جو طلبہ کو ان کے کورس کے حصے کے طور پر کرنا ہوتا ہے )بھی شامل تھی۔ ایکسٹرن شپ کے دوران زیرِ تربیت طلبہ نے طعام اور مشروبات کی صنعت میں عملی طور پر شرکت کی۔ طلبہ کو اجازت تھی کہ وہ پورے امریکہ میں کہیں بھی کام کر سکتے ہیں۔ آنند نے ریاست فلوریڈا کے میامی علاقہ میں واقع ایک سیر گاہ کا انتخاب کیا۔ وہ اسے اپنے تدریسی کریئر کا ایک سب سے زیادہ یادگار تجربہ قرار دیتی ہیں۔

فنِ طباخی کے شوق کو پروان چڑھانا

امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی صرف کلاس روم تک ہی محدود نہیں رہتی ہے بلکہ اس کے باہر بھی طلبہ کو آپس میں ملنے اور اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سی آئی اے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران آنند نے ’ کیری اوکے‘ اور ’بنگو نائٹ ‘ میں بھی شرکت کی اور نیو یارک سٹی تو ان کا اکثر جانا ہوتا تھا۔ آنند بتاتی ہیں ’’کلاس روم یا بیک شاپ تک ہی ہماری پڑھائی محدود نہیں تھی۔ متنوع بین الاقوامی طلبہ سے میں نے ان کی ثقافتوں کے بارے میں بہت  کچھ جانا۔ جبکہ اپنی ثقافت کے بارے میں بتانے سے الگ ہی خوشی ملتی تھی۔‘‘ انہوں نے امریکہ میں بھارت کا مشہور گاجر کا حلوہ بنا کر کھلایاجو سب کو بہت پسند آیا۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے آنند کو سی آئی اے میں کافی اطمینان ملا۔

۲۰۲۰ء میں سی آئی اے سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آنند بھارت واپس آگئیں۔ مگر چونکہ نیو یارک سٹی میں واقع مشیلین ریستوراں میں ان کوملازمت لگ گئی تھی اس لیے ان کا ارادہ فوراً واپس جانے کا تھا۔ پھر  کووِڈ ۔۱۹عالمی وباء نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا۔ لہٰذا انہوں نے نیو یارک سٹی جانے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا اور بھوپال میں اپنی ذاتی  پیسٹری کی کمپنی ’’بیکڈ بائی ملکا‘‘ شروع کر دی۔

اپنی شناخت قائم کرنا

امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ اور خاص طور پر غیر اسٹیم طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہو سکتا ہے۔ آنند کہتی ہیں ’’میں ہر بین الاقوامی طالب علم، جس سے میری گفتگو ہوتی ہے، کو مشورہ دیتی ہوں کہ اگر آپ کے پاس امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جنون اور وسائل ہیں تو آپ ضرور حاصل کریں۔‘‘

آنند کے لیے اپنا ذاتی  پیسٹری اور کیک کا کاروبار چلانا کسی خواب سے کم نہیں ہے اور یہ سب ممکن ہوا امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سبب جہاں ان کا تجربہ ’’کامل سے کم نہیں تھا۔‘‘

میگن میک ڈریو سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور ہارٹنیل کالج میں عمرانیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کے مونٹیرے میں مقیم ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر مفت میں حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں : https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے