عوام سے عوام کے تعلقات

مریکہ اور بھارت کے درمیان عوام سے عوام کے مابین مضبوط رابطے کی تاریخ۲۰۰ برس سے زیادہ عرصہ قبل یعنی امریکہ کے ابتدائی دنوں اور بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔

January 2021

عوام سے عوام کے تعلقات

فرسٹ لیڈی میلانیا ٹرمپ(۲۰۲۰)اور فرسٹ لیڈی مشیل اوباما(۲۰۱۰)بھارتی نوجوانوں کے ساتھ بالترتیب نئی دہلی اور ممبئی میں وقت گزارتے ہوئے۔ سرکاری وہائٹ ہاؤس تصویر از اینڈریا ہینکس(بائیں)، سرکاری وہائٹ ہاؤس تصویر از پیٹ سوزا(دائیں)

ہند۔ بحر الکاہل خطے کے مخالف سروں پر ہونے کے باوجود امریکہ اور بھارت کے لوگ ذاتی رابطے اور باہمی وابستگی کے بڑھتے جذبے کی بدولت ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں دوملکوں کے درمیان ایسے رشتے بہت کم ہوں گے جہاں عوام سے عوام کے مابین رابطے اتنے مضبوط اور مثبت ہیں۔ یہ رابطے ہمارے دونوں ملکوں کو کئی طرح کے راست فوائد پہنچانے کا کام کرتے ہیں جن میں تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ، مختلف شعبوں میں بہترین طریقوں کا تبادلہ، ثقافتوں اور مذہبوں کا اشتراک اور مطالعہ اور تحقیق کے مواقع شامل ہیں۔

 عوام سے عوام کے مابین رابطے کی ایک طویل اور متنوع تاریخ

امریکہ اور بھارت کے درمیان عوام سے عوام کے مابین مضبوط رابطے کی تاریخ۲۰۰  برس سے زیادہ عرصہ قبل یعنی امریکہ کے ابتدائی دنوں اور بھارت کی آزادی سے بہت پہلے کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ امریکیوں اور بھارتی شہریوں کے درمیان ابتدائی رابطے کا آغاز تجارت کے ذریعے اس وقت ہوا تھا جب کپتان تھامس بیل نے دسمبر ۱۷۸۴  ءمیں پڈوچیری اورچنئی کا دورہ اپنے موزوں نام والے جہاز یونائیٹیڈ اسٹیٹس سے کیا تھا۔ تمباکو، ورجینیا جِنسِنگ اور مختلف قسم کے ہارڈ ویئر لے کر اپنے جہاز میں آنے والے کپتان بیل کا آرکوٹ کے نواب نے پرتپاک استقبال کیا تھا۔ آرکوٹ کو آج تمل ناڈو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ دورہ اتنا اچھا رہا کہ جہاز کے عملے کے اراکین میں سے ایک ولیم مور نے بھارت میں ہی رہنے اور پڈوچیری میں ایک گودام کا انتظام سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔

۱۹ویں صدی میں امریکیوں نے خاص طور سے کاروباری مقاصد کے لیے بھارت کا دورہ کیا ۔ لیکن اس کی توسیع مذہبی، علمی اور طبی مقاصد کے لیے بھی ہوئی۔ صدی کے آخر میں بھارتی باشندوں نے اعلیٰ تعلیم، معاشی مواقع کی تلاش اوردیگر اسباب کے علاوہ روایتی بھارتی ادویات کی فروخت کے لیے بھی امریکہ کا دورہ شروع کیا۔ سنہ۱۸۹۳ء  میں شکاگو میں دنیا کی مذہبی پارلیمنٹ میں ہندو مذہب کے بارے میں سوامی وویکانند کی تقریر نے امریکہ اور دنیا کے لوگوں کو بھارت کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کیا۔ اپنے دو بار کے امریکہ دورے کے دوران سوامی وویکانند نے امریکہ میں دو سال سے زیادہ بسر کیے۔ اس دوران انہوں نے ویدانت کے فلسفے کے مراکز قائم کرنےاور امریکیوں کو یوگ سے روشناس کرانے کے لیےملک کے مختلف ساحلوں کا دورہ کیا۔

امریکہ جانے والے بھارتی تارکین وطن کا پہلا اہم معاملہ ۱۹ ویں صدی کے آخر اور ۲۰ ویں صدی کے اوائل میں پیش آیا۔ زراعت کے شعبے میں کام کرنے کے لیے بہت سارے لوگوں نے پنجاب سے کیلیفورنیا کا سفر کیا۔ تارکین ِوطن کا دوسرا قافلہ کاروبار کرنے والے بنگالی مسلمانوں پر مشتمل تھا جو ہجرت کرکے نیویارک اور نیو اورلینس جیسے شہروں تک جا پہنچے۔ بہت سے بھارتی شہریوں نے معاشرتی بندشوں کو توڑتے ہوئے امریکہ میں شہری حقوق کے حصول میں کردار اداکیا۔ بھگت سنگھ تھِنڈ ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے جو ۱۹۱۳ ء میں برکلے میں واقع یونیوسٹی آف کیلیفورنیا میں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور ملازمت کے دوران پگڑی پہننے کی اجازت حاصل کی۔ پھر انہوں نےپی ایچ ڈی کی ڈگری کی اور مافوق الطبیعیات اور مذاہب کے لیکچرر بن گئے۔

۱۹ویں صدی کے آخر میں اور۲۰  ویں صدی کے اوائل میں بہت سارے وجوہات کی بنا پر امریکی بھارت پہنچے جن میں کاروباری مواقع تلاش کرنا، مشنریوں کی حیثیت سے خدمات انجام دینا، بھارت کی ثقافت اور مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا اور صحت اور دیگر امور پر کام کرنا شامل ہیں۔متعدد بھارتی شہریوں کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران پہلی بارامریکیوں سے اس وقت ملاقات ہوئی جب قریب قریب ۴ لاکھ امریکی فوجی کولکاتہ اور بھارت کے شمال مشرقی حصے میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

بھارت نے جب آزادی حاصل کر لی اور امریکہ نے بھی مہاجرت سے متعلق قوانین میں نرمی کی تو عوام سے عوام کے مابین رابطے میں کافی وسعت آئی۔ تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کے ساتھ ساتھ خاندانی تعلقات کی بدولت بڑی تعداد میں بھارتی شہری امریکہ منتقل ہوگئے۔ ہند نژاد امریکی رفتہ رفتہ طب، سائنس، کاروبار اور سرکاری ملازمت میں نمایاں کردار ادا کرنے لگے۔ کیلیفورنیا کےدَلیپ سنگھ سَوند۱۹۵۶ء  میں امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہونے والے پہلے ہند نژاد امریکی تھے۔ اسی اثنا میں بڑی تعداد میں امریکیوں نے بھی تجارت، سیاحت اور خاندانی رابطوں کی وجہ سے بھارت کا دورہ کیا۔

امریکی اور بھارتی حکومتوں نے عوام سے عوام کے مابین ان رابطوں کو فروغ دیا۔ دونوں حکومتوں نے سنہ۱۹۵۰ء  میں تعلیمی تبادلے کے سلسلے میں ایک ہند۔امریکی باہمی معاہدہ متعارف کیا۔ وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور امریکی سفیر لوائے ہینڈرسن کے دستخط کردہ اس معاہدے نے بھارت میں فل برائٹ پروگرام کا آغاز کیا۔ نجی امریکی یونیورسٹیوں اور فورڈ اور راک فیلر فاؤنڈیشنس جیسے غیر منافع بخش اداروں نے بھارت میں تعلیمی اداروں کے قیام میں مدد پہنچائی اور دیگر امریکی ہم منصبوں کے ساتھ تعاون میں بھی حمایت کی۔۱۹۹۰ سے ۲۰۰۰ کی دہائی میں جب بھارت کی معیشت نے دوسروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے اور عالمگیریت نے سفر اور رابطے میں آسانی پیدا کردی تو عوام سے عوام کے مابین رابطے میں مزید بہتری آئی۔

سفر اور دیگر ذرائع سے عوام سے عوام کے مابین رابطے میں حالیہ توسیع

گذشتہ کئی برسوں میں بہت سارے شعبوں میں عوام سے عوام کے مابین رابطے میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ اور بھارت کے درمیان سیاحت اور سفر میں اضافے نے دونوں ملکوں کے لوگوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کے راست رابطے میں لانے کا کام کیا ہے۔ سنہ۲۰۱۹ ءمیں۱ اعشاریہ۵ ملین بھارتی سیاحوں نے امریکہ کا سفر کیااور امریکی معیشت میں ۱۴  بلین ڈالر کا تعاون کیا۔ اسی طرح۲۰۱۹ ء  میں بھارت آنے والے۱ اعشاریہ ۴۶ ملین سیاحوں کے ساتھ امریکی شہری (بنگلہ دیش کے بعد) بھارت کا دورہ کرنے والے غیر ملکی شہریوں کا دوسرا سب سے بڑا گروپ ہیں۔ اپنے اہل خانہ سے ملنے، سیاحت، تعلیمی تحقیق، یوگ اور علاج سمیت بہت سارے مقاصد کے لیے امریکی اب بھارت کا دورہ کرتے ہیں۔ دونوں حکومتوں نے نئے قونصل خانے کھول کر اور عملے کو شامل کرکے  اس سفر کو مزید آسان بنانے کی کوشش کی ہے۔

نئی دہلی میں سفارتخانے کے علاوہ امریکہ کے قونصل خانےفی الحال چنئی، حیدرآباد، کولکاتہ اور ممبئی میں کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ ۱۰برسوں میں امریکی سفارت خانہ اور قونصل خانوں نے۲لاکھ۵۰ ہزار سے زیادہ مہاجر ویزے اور ۷ لاکھ سے زائد غیر مہاجر ویزے جاری کیے ہیں جن میں ۵لاکھ غیر مہاجر طلبہ ویزے بھی شامل ہیں۔ گذشتہ۷ برسوں میں بھارت کے امریکی مشن نے اضافی اہلکاروں کی خدمات حاصل کی ہیں اوربھارتی شہریوں کی جانب سے ویزا درخواست میں۴۵  فی صد اضافے کی تکمیل کے لیےویزا کے عمل میں بہتری لانے کا کام کیا ہے۔ اسی طرح واشنگٹن، ڈی سی میں سفارتخانے کے علاوہ بھارت کے قونصل خانے امریکہ میں اٹلانٹا، شکاگو، ہیوسٹن، نیو یارک اور سان فرانسسکو میں کام کررہے ہیں۔

امریکہ اور بھارت کے مابین پیشہ وروں کے ذریعہ کیے جانے والے سفر کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس میں وہ کاروباری افراد شامل ہیں جو میٹنگ اور گفت و شنید کے لیے کارپوریٹ دفاتر کا دورہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کانفرنسوں کے لیے سفر کرنے والے سائنسداں اور ڈاکٹر، مقابلوں اور فنکارانہ صلاحیتوں کے مظاہرے میں بالترتیب شامل ہونے والے کھلاڑیوں اور فنکاروں اور بندرگاہوں پر سامان یا سیاحتی جہاز وں پر سفر کرنے والا عملہ شامل ہیں۔ ہوائی جہازوں اور ہوٹلوں پر خرچ کیے جانے والے ڈالر اور روپیوں کے علاوہ یہ دورے ہمارے ممالک کے مابین نظریات کے تبادلے، جدت طرازی کے فروغ، علم کی وسعت اور ہماری زندگیوں کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی اور بھارتی یونیورسٹیاں بھی مشترکہ تحقیق کے لیے تیزی سے مل کر کام کر رہی ہیں۔ دیگر حصولیابیوں کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون نے امریکہ میں طبی اخراجات کو کم کرنے میں مدد کی ہے اور بھارت میں فضائی اورآبی آلودگی کی نگرانی کو بہتر بنایا ہے۔

امریکہ کی ہند نژاد برادری: دو ثقافتوں کا امتزاج  

ہند نژاد امریکی برادری امریکہ اور بھارت کے عوام سے عوام کے مابین رابطے کا متحرک دل ہے جو ہند۔ بحر الکاہل خطے میں ایک دوسرے کو جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ بھارت کے تمام حصوں سے تعلق رکھنے والی اور پورے امریکہ میں پھیلی ہوئی اس برادری کے ارکان دونوں ممالک کے لیے سفیر کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اپنی وسیع صلاحیتوں اور توانائی کا استعمال کرتے ہوئے وہ نظریات، ثقافت،  طورطریقے، سرمایہ کاری اور پر خلوص دوستی کا اشتراک کرتے ہیں۔ یہ امریکہ۔ ہند مجموعی شراکت داری کی خوبصورتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد حکومت کی ہدایات پر نہیں بلکہ عوام کی شراکت پرقائم ہے۔

ہند۔امریکی برادری کی آبادی اور حصولیابیوں میں حالیہ اضافے کاگہرا اثر دو طرفہ تعلقات پرپڑا ہے۔ ۲۰۱۰ ء سے ۲۰۲۰ کے درمیان امریکہ میں بھارتی شہریوں اور ہند نژاد امریکیوں کی تعداد میں قریب قریب ۴۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے جو اب ایک اندازے کے مطابق ۴ ملین افراد تک پہنچ گئی ہے۔ ہند نژاد امریکیوں نے تعلیمی میدان سے لے کر طب، قانون سے کاروبار اور فنون لطیفہ سے سرکاری ملازمت تک امریکی زندگی کےقریب قریب ہر شعبے میں پھلنے پھولنے اور کامیابی حاصل کرنے کی قابل ذکر صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

ایک گروپ کے طور پر ہندنژاد امریکی اکثر امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے،تعلیم یافتہ اور اعلیٰ آمدنی والےافراد سمجھے جاتے ہیں۔ در حقیقت امریکہ میں تارکین وطن کے ذریعہ شروع کیے جانے و الے اسٹارٹ اپس میں۳۳ فی صد کا تعلق بھارت سے ہے اور یہ تعداد دوسرے کسی بھی مہاجر گروپ سے بہت زیادہ ہے۔ بہت سے کامیاب ہند نژاد امریکی اپنی کمپنیاں شروع کرنے اور بھارتی اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنے، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور علم کو وسعت دینے کے لیے بھارت واپس آچکے ہیں۔انہوں نے بھارتی  یونیورسٹیوں کے ساتھ تحقیقی شراکت داری اور طلبہ کے تبادلے کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔

ہندنژاد امریکیوں نے مقامی انتظامیہ، گائوں کی کونسل یا پنچایت جیسی بھارتی روایات اور آریہ سماج جیسی تحریکوں پر چلتے ہوئے اور مقامی انتظامیہ میں لوگوں کی شراکت کی امریکی روایات پر عمل کرتے ہوئے امریکی سول سوسائٹی میں اجتماعی طور پر منظم ہونے اور تعاون فراہم کرنے میں ایک غیر معمولی رجحان اور فطری میلان کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہندنژاد امریکی آبادی نے ریاست پر مبنی گروہوں جیسے نارتھ امیریکن پنجابی ایسوسی ایشن، پیشہ ورانہ انجمنوں جیسے ایشین امیریکن ہوٹل اونرس ایسوسی ایشن اور سیاسی جماعتوں جیسے یونائیٹیڈ اسٹیٹس انڈیا پولیٹیکل ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ہندنژاد مریکیوں نے دونوں ممالک میں سخت محنت اور خیراتی خدمات کی اقدار کی عکاسی کرتے ہوئے بھارت کو بڑی مقدار میں مادی امدادبھیجی ہیں ۔ اس میںسے زیادہ ترانفرادی ترسیلات زر ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی دوسرے ذرائع ہیں جن سے مدد کی جاتی ہے جن میں بھارتی اسٹارٹ اپس کو شروع کرنے کے لیے سرمایہ کی فراہمی اور امیریکن انڈیا فاؤنڈیشن جیسے خیراتی گروپوں کی حمایت کے لیے وسائل شامل ہیں۔۲۰۱۷  ء  میں امریکہ سے بھارت کو ملنے والی ترسیلات زر۱۱   اعشاریہ۷ بلین ڈالرسے زیادہ تھیں۔

تعلیمی تعلقات میں وسعت 

امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلیمی روابط میں حالیہ برسوں میں قابل ذکر پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ، مشترکہ وظائف، ادارہ جاتی تعاون اور تعلیم سے متعلق حکومتی مذاکرات شامل ہیں۔ ان روابط نے ہماری معیشتوں کو تقویت بخشی ہے، مختلف شعبوں میں معلومات کا اضافہ کیا ہے، ایک دوسرے کے بارے میں ہماری تفہیم کو بہترکیا ہے اور ہمارے معاشروں کو مالا مال بنایا ہے۔

امریکی اعلیٰ تعلیم کی بات کی جائے تواس میں بھارت کی شرکت خاص طور سے بہت توانا رہی ہے۔ بہت سارے امریکی پہلی بار کسی امریکی کالج کے کسی کیمپس میں بھارتی شہریوں سے ملتے ہیں اور بہت سے ہندامریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ واٹس ایپ کال کے ذریعے امریکہ کے بارے میں واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی طلبہ کی سب سے بڑی تعداد کو راغب کرتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ بھارتی طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کا دوسرا سب سے بڑا گروپ تشکیل دیتے ہیں۔

سنہ۲۰۱۰ ء کے بعد سے امریکہ میں بھارتی طلبہ کی تعدادقریب قریب دوگنی ہوگئی ہے۔ تعلیمی سال۱۹۔۲۰۱۸ میں یہ تعداد پہلی بار۲ لاکھ سےمتجاوزکر گئی۔ فی الحال امریکہ میں ۵ بین الاقوامی طلبہ میں سے ایک سے زیادہ کا تعلق بھارت سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی طلبہ کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد دیگر مضامین کے علاوہ بھارتی یونیورسٹیوں میں زبان، تاریخ، ثقافت، صحت عامہ اور معاشیات کے مطالعہ کے لیے داخلہ لے رہی ہے۔

اعلیٰ تعلیم میں تعاون کی وسعت طلبہ کے اندراج تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ اس سے بھی بعید ہے۔ تعلیم سے متعلق ادارہ جاتی تعاون اور سرکاری مذاکرات ہند۔امریکی شراکت داری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ بھارتی شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد امریکی یونیورسٹیوں میں یاتو تدریسی خدمات انجام دے رہی ہے یا قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر پردیپ کھوسلہ سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چانسلر کی خدمات انجام دے رہے ہیں تو ڈاکٹرنتن نوہریہ ہارورڈ بزنس اسکول میں ڈین کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ بھارتی کمپنیاں، فائونڈیشنز اور سرکاری ایجنسیاں بھی امریکی یونیورسٹیوں میں تدریسی اور تحقیقی مواقع کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

یہی چیز بھارت میں بھی ہو رہی ہے۔ بہت سارے امریکی بھارت میں نجی یونیورسٹیوں میں پروفیسر یا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کرِیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سندر راماسوامی ہیں تو اشوکا یونیورسٹی میں گلوبل ایجوکیشن اینڈ اسٹر یٹیجک پروگرامس کی ڈین کی ذمہ داری ڈاکٹر ونیتا شاستری سنبھال رہی ہیں۔ امریکہ میں انڈیا یا سائوتھ ایشیا اسٹڈیز کے متعدد پروگرام قائم کیے گئے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں امیریکن اسٹڈیز کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ بہت ساری امریکی اور بھارتی یونیورسٹیوں نے اساتذہ، طلبہ، نصاب اور بہترین طریقوں کے تبادلے کے لیے براہ راست شراکت داری یا انجمنیں قائم کی ہیں۔

سنہ۲۰۱۲ ء کے بعد سے یونیورسٹی آف آئیووا کے طلبہ نے بھارتی یونیورسٹیوں میں اپنے ساتھیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے ہر موسم سرما میں تین ہفتوں کے لیے بھارت کا دورہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر۲۰۱۸ء   میں آئیووا کے شرکا نے آبی پائیداری سے متعلق مشترکہ تحقیقی منصوبوں کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی کے ساتھ شراکت کی۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا اسکول آف پبلک ہیلتھ کے طلبہ کولکاتہ کے جَن سیوا اسکول اورمنگلورو میں این آئی ٹی ٹی ای(ڈیمڈ یونیورسٹی) کے ڈویژن آف پبلک ہیلتھ کے ساتھ شراکت میں عالمی صحت کے موضوعات کی تحقیق کے لیے مغربی بنگال اور کرناٹک کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ تعلقات گرچہ کافی اہم ہیں لیکن خاص طور سے بھارت میں امریکی یونیورسٹیوں کی موجودگی کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔

تبادلہ پروگراموں نے امریکی اور بھارتی پالیسی سازوں، اسکالروں، طالب علموں اور ماہروں کے مابین براہ راست تعامل کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کامیاب تبادلہ پروگراموں کو دونوں حکومتوں کا تعاون حاصل ہے۔ سب سے زیادہ معروف پروگرام شاید فل برائٹ ۔ نہرو پروگرام ہے جو اب اپنے ۷۰ ویں سال میں داخل ہوچکاہے۔ اس پروگرام کو دونوں حکومتوں نے سنہ۲۰۰۸ ء سے مشترکہ طور پر مالی اعانت فراہم کی ہے۔ دونوں حکومتیں ہر سال سیکڑوں اسکالرز کے دو طرفہ سفر کی حمایت بھی کرتی ہیں جس سے ذاتی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع مہیا ہوتے ہیں۔ فل برائٹ۔ نہرو پروگرام کے سابق طلبہ زراعت، کاروبار، ماحولیات، فنون لطیفہ، تعلیم، علم و ادب، معاشرتی علوم، صحت عامہ، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے بہت سارے شعبوں میں رہنما کا کردارادا کرتے ہیں۔

امریکی حکومت کئی دیگر سالانہ تبادلہ پروگرام کو مالی اعانت فراہم کرتی ہے جس میں انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام (آئی وی ایل پی)بھی شامل ہے جو سیکڑوں بھارتی رہنماؤں کو ہر سال مختصر مطالعاتی دوروں کے لیے امریکہ جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بھارتی حکومت نے بھی حالیہ برسوں میں امریکی شہریوں کے لیے تبادلہ پروگراموں میں توسیع کی ہے جس میں منتخب عہدیداروں، اسکالروں، سفارتکاروں اور ہند۔امریکی برادری کے ارکان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غیر منافع بخش گروپس جیسے امیریکن انڈیا فاؤنڈیشن اور روٹری انٹرنیشنل بھی تبادلہ پروگرام کومالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔

گذشتہ ۵برسوں میں بھارت میں امریکی مشن نے ایجوکیشن یو ایس اے کے مشاورتی مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ نئی دہلی، حیدرآباد، چنئی، کولکاتہ، بینگالورو، احمد آباد اور ممبئی سمیت پورے بھارت میں اس کے۷ مراکز واقع ہیں۔ اس کے علاوہ۲۰۲۱ء  کے اوائل میں حیدرآباد میں دوسرا ایجوکیشن یو ایس اے مرکز کام کرنا شروع کردے گا۔ یہ مراکز بھارتی شہریوں کوامریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کے بارے میں درست اور جامع معلومات فراہم کرتے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے حال ہی میں اوماہا شہر میں واقع یونیورسٹی آف نیبراسکا کے ساتھ شراکت داری ۲۰۲۰ پہل کا آغاز کیا ہے۔ اس پہل سے بھارتی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون کو وسعت ملتی ہے اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے اس میں اعلیٰ تعلیم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک معاہدہ جنوبی کیرولائنا کی کلیفلِن یونیورسٹی اور مغربی بنگال میں وشوبھارتی یونیورسٹی کے درمیان ہوا ہے جو چھوٹے کاروباری اداروں کا انتظام و انصرام دیکھنے والی خاتون کاروباری پیشہ وروں کی انتظامی صلاحیت میں اضافے کا کام کرتا ہے۔

رابطہ قائم کرنے والی ثقافت، کھانے اور کھیل 

ایک دوسرے کی ثقافت، کھانے اور کھیلوں سے واقفیت نے ہمارے ممالک کو ایک دوسرے کے مزید قریب کیاہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ میں یوگ کی مشق میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ وہاں ہر تین میں سے ایک امریکی نےیوگ پر تبع آزائی ہے۔ امریکی شہری بھارتی کھانے کے بھی بہت شوقین ہیں۔ واشنگٹن، ڈی سی میں رسیکا، نیویارک میں ٹمیرِنڈ ٹرائی بیکا جیسے اعلیٰ درجے کے ریستوراں اور باورچی بریانی جیسے سستے ریستوراں میں لوگ کھانے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انڈین ایکسینٹ سمیت متعدد بھارتی ریستورانوں نے امریکہ میں اپنی شاخیں کھول رکھی ہیں۔ پدما لکشمی اور فلوئیڈ کارڈوز جیسے ہند نژاد امریکی شیف(طباخ) تو اب قومی سطح پر معروف شخصیات بن چکے ہیں جنہوں نے امریکیوں کو بھارتی کھانوں سے واقف کرایا ہے۔

اروندھتی رائے اور چیتن بھگت جیسے مصنفین اور دنگل جیسی فلموں سے بھی امریکی واقف ہیں۔ بھارتی اداکار بھی وہاں مقبول ہیں۔ پرینکا چوپڑا نے ہالی ووڈ میں اپنی ایک شناخت قائم کی ہے اور مِنڈی کلنگ اور کال پین جیسے ہند نژاد امریکیوں نے بھارت میں خوب مقبولیت پائی ہے۔ بھارتی حکومت امریکیوں کوکارنیٹک موسیقی اور کتھک رقص جیسی بھارتی فنون لطیفہ کی کلاسیکی قسموں سے روبرو کرانے کے لیے مختلف قسم کے پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے۔

امریکہ میں کرکٹ اور کبڈی جیسے کھیل کی مقبولیت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ سنہ۲۰۱۶ء  میں امریکہ نے گجرات میں منعقد کبڈی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے اپنی ایک ٹیم روانہ کی تھی۔ ۲۰۱۷ ء  میں یو ایس نیشنل باسکٹ بال ایسو سی ایشن نے قومی راجدھانی خطے میں این بی اے اکیڈمی انڈیا قائم کی تاکہ کھیل میں بھارت کی صلاحیتوں اور دلچسپی کو فروغ دیا جاسکے۔ بھارت میں این بی اے کھیلوں کی پہلی سیریز کا انعقاد ممبئی میں ۲۰۱۹ ء  میں کیا گیا تھا جس میں ٹیم کے مالکان میں ہند نژاد امریکی برادری کا اہم کردار رہا۔

اسٹریمنگ میڈیا کی ترقی نے امریکی ٹی وی اور فلموں کولاکھوں بھارتی گھروں تک پہنچایا ہے۔ نیٹ فلکس، امیزون، یوٹیوب اور ڈزنی پلس ہاٹ اسٹار صارفین کو نئے متبادل فراہم کرتے ہیں جو معروف و مقبول ہالی ووڈ فلموں کو بھارتی گھروں تک پہنچاتے ہیں ۔ امریکی سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ نے بھارتی شہریوں کو ایک دوسرے سے اور امریکہ میں دوستوں اور کنبہ کے ارکان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ امریکی حکومت نے بلیو گراس موسیقی، جدید رقص، بیٹ باکسنگ، ہپ ہاپ میوزک اور اسٹینڈ اپ کامیڈی جیسے امریکی ثقافت کے دوسرے پہلوؤں کو بھارت میں لانے میں مدد کی ہے۔

امریکی سفارت خانے نےایمبسڈر فنڈ برائے ثقافتی تحفظ (اے ایف سی پی)کے ذریعہ بھارت کے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں تعاون فراہم کیا ہے۔ اے ایف سی پی کے ذریعہ امریکی سفارت خانے نے بھارت کی بعض اہم ترین تاریخی عمارتوں کے تحفظ اور بحالی کی کوششوں میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ شراکت کی ہے۔ ان میں نئی دہلی میں واقع سندر والا برج اور بتاشے والا مغل مقبرہ احاطہ اور وارانسی میں۱۸ ویں صدی میں تعمیر کیا گیا بالاجی گھاٹ جیسے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے شامل ہیں۔ اے ایف سی پی نے ان منصوبوں کی بھی حمایت کی ہے جو مغربی راجستھان اور مغربی بنگال کی لوک موسیقی روایات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں اور بینگالورو میں کھجور کے پتوں کے مخطوطات اور نایاب کتابوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ سنہ ۲۰۰۰ء  کے بعد سے اے ایف سی پی پروجیکٹس کے فنڈ میں اضافہ کیا گیا ہے جو اب پورے بھارت کے لیے پانچ ہزار ڈالر سے بڑھ کر ایک اعشاریہ چھ ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

امریکہ اور بھارت کو متحد کرنے والی زبانیں 

انگریزی زبان سے واقفیت نے بھارتی شہریوں کوامریکہ اور باقی دنیا کے ساتھ اپنے رابطوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس نے  لاس اینجلس میں واقع امریکی کمپنیوں کو حیدرآباد میں بھارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبارسے متعلق معاہدہ کرنے، سائنسدانوں کو ویکسین کی تحقیق پر مل کر کام کرنے، امریکی اور بھارتی افواج کو مشترکہ مشقوں میں شامل ہونے اور دیگر بہت سارے کام کرنے کی سہولت فراہم کی  ہے۔ سنہ۲۰۱۵ء  کے بعد سے امریکی سفارت خانے نے بھارت میں انگریزی زبان کے پروگراموں کے لیے اپنی حمایت میں۵ گنا اضافہ کیا ہے جن کا اہتمام اکثر بھارت کی وفاقی (مرکزی)اور ریاستی حکومتوں یا تعلیمی اداروں کے اشتراک سے کیا جاتا ہے۔

اسی طرح امریکی شہری انڈین انگلش اور ہندی اور تمل جیسی بھارتی زبانوں سے تیزی سے واقف ہو چکے ہیں۔ امریکیوں کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ یوگ کے ذریعہ آسن جیسے بھارتی زبان کے الفاظ سے واقف ہورہے ہیں یا بھارتی کھانوں کے ذریعہ دیگر الفاظ جیسے ڈوسا اور رائتا سیکھ رہے ہیں۔ لیکن شاید انہیں بہت سے الفاظ کے بارے میں معلوم نہ ہو جو بھارتی زبانوں سے جدید انگریزی میں شامل ہو چکے ہیں جن میں گرو، پاجاما، چِٹ، جگرناٹ، پنڈت اور پریّیااور دیگر الفاظ شامل ہیں۔

بے شمارافراد کی زندگیوں کو معنی عطا کرنے والے مذاہب 

بیداری اور مشترکہ مذاہب پر عمل نے امریکہ اور بھارت کو قریب تر لا دیا ہے۔ امریکہ اور بھارت سیکولر ممالک ہیں اور متعدد مذاہب پر عمل نے ہمیں ممتاز مقام عطا کیا ہے۔ جب امریکی تارکین وطن کی بدولت بھارتی ثقافت سے روشناس ہوئے تو انہوں نے جانا کہ ہندو، بودھ، جین اور سکھ جیسے اہم مذاہب کی جائے پیدائش ہونے کے بارے میں جانا ۔ انہوں نے یہ بھی جانا کہ بھارت طویل عرصے سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی قابل فخر برادریوں کا مسکن رہا ہے۔ ہند نژاد امریکیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ہند۔ بحر الکاہل خطے میں مذہبی روابط میں بھی وسعت آئی ہے۔ بہت ساری مذہبی تنظیمیں مذہبی تربیت، فنڈ اکٹھا کرنے کے عمل اور مذہبی زندگی کے دیگر پہلوؤں میں ہم آہنگی پیدا کرکے دونوں ممالک میں کام کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر ہندو جماعت بوچاسنواسی شری اکشر پُرشوتم سوامی نارائن سنستھا (بی اے پی ایس) نے حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں میں خوبصورت مندر تعمیر کیے ہیں جس میں نیو جرسی میں سنہ ۲۰۱۴  ء میں تعمیر کیا جانے والا اکشردھام مندر بھی شامل ہے۔ ستمبر۲۰۱۸ ء میں شکاگو میں منعقدہ دوسری عالمی ہندو کانفرنس میں دنیا بھر سے ہزاروں ہندو اکٹھاہوئے۔ یونائیٹیڈ سکھ موومنٹ نے نومبر ۲۰۱۹ ء  میں کیلیفورنیا کے برکلےمیں سکھ اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے لیے اپنی پانچویں کانفرنس کا اہتمام کیا۔ سنہ۱۹۰۴ء   میں امریکہ میں پہلا جین مندر میسوری کے سینٹ لوئی میں مخصوص کیا گیا تھا۔ اب تو کیلیفورنیا، نیو یارک، ایریزونا، الینوائے اور کولورَیڈو سمیت پورے ملک میں جین مراکز قائم ہو چکے  ہیں۔ بھارت  میں بہت سے کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور غیر منطقی گرجا گھروں کے امریکی عیسائی جماعتوں سے روابط ہیں۔ امریکی مذہبی زیارتوں کے لیے بھارت آنا بھی خوب پسند کرتے ہیں۔

اہلیانِ دانش، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں

حالیہ برسوں میں امریکی اور بھارتی اہلیانِ دانش(تھنک ٹینک)، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی گروپوں کے مابین تعاون کو تقویت ملی ہے۔ اَیسپین، بروکنگز اور کارنیگی سمیت ممتاز امریکی تھنک ٹینکس نے بھارت میں دفاتر یا رابطے قائم کیے ہیں۔ بہت سے دوسرے امریکی تھنک ٹینکس نے سائوتھ ایشیا پروگرام تیار کیے ہیں یا بھارت کے امور سے متعلق ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں۔ امریکہ میں واقع سینٹر فور نیول انالائیزیز اور بھارت میں واقع نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن جیسے بعض تھنک ٹینک باقاعدگی سے تحقیق سے متعلق کام اور کانفرنسوں میں تعاون کرتے ہیں۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن جیسے بھارتی تھنک ٹینکوں نے امریکہ میں بھی اپنے دفاتر کھولنا شروع کردیےہیں۔

دونوں ممالک میں آزاد میڈیا کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہوئے امریکی اور بھارتی صحافیوں اور میڈیا گروپوں کے مابین شراکت میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر وال اسٹریٹ جرنل کے سابق مدیر راجو ناری سیٹّی نے بھارت میں روزنامہ دی مِنٹ شروع کیا۔ دونوں ممالک میں غیر سرکاری تنظیموں کا ایک وسیع سلسلہ بھی کام کر رہا ہے۔ ان میں تجارتی گروپ جیسے بھارت میں امیریکن چیمبر آف کامرس، یو ایس۔ انڈیا بزنس کونسل، یو ایس۔انڈیا اسٹریٹجک پارٹنرشپ فورم، فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے علاوہ پرتھم اور بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن جیسی خیراتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

باہمی تعلقات کے لیے مضبوط عوامی حمایت

عوام سے عوام کے مابین ان مضبوط رابطوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے ملک کے لیے امریکہ اور بھارت میں عوامی جذبات بہت مثبت ہیں۔ رائے عامہ کےجائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ملک کے شہری دوسرے ملک کی طرف مثبت نظریے سے دیکھتے ہیں۔ بھارت کے بارے میں امریکیوں کی آراسے متعلق گیلپ پول میں سنہ۲۰۰۰ ء  کے بعد سے ہی بھارت کے تئیں مثبت نظریے میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔۲۰۱۸ء   میں امریکہ میں لوگوں نے بھارت کو اپنے سر فہرست۸ انتہائی پسندیدہ غیر ممالک میں شامل کیا۔

صدر ڈونالڈ جے ٹرمپ کے سنہ۲۰۲۰ ءکے دورۂ ہند سے قبل شائع ہونے والی پیو ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق تقریبا ۷۵ فی صد بالغ بھارتی شہریوں نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو بہت ہی اہمیت کا حامل سمجھا اور کہا کہ مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے موجودہ رشتے اور اقتصادی تعلقات بہتر ہیں۔ سنہ۲۰۱۹ء  کے شکاگو کونسل آن فارن رلیشنس کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ۶۳ فی صد امریکیوں کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات نے امریکی قومی سلامتی کو مستحکم کیا ہے جوکسی بھی ملک کے لیے اعلیٰ ترین نتائج میں سے ایک ہے۔ بروکنگس انڈیا کے سنہ ۲۰۱۹  ء میں کیے گئے بھارتی قومی سلامتی کے منتخب طبقہ کے سروے میں بھی اسی طرح کے نتائج برآمد ہوئے تھے جس میں ۷۵ فی صد لوگوں نے بتایا کہ امریکہ، بھارت کا سب سے اہم عالمی شراکت دار ہے۔

مستقبل پر نگاہیں 

عوام سے عوام کے مابین رابطے میں گذشتہ کچھ برسوں سے لگاتاروسعت آتی جارہی ہے۔ یہ رابطے دونوں معاشروں کو خوشحال بناتے ہیں، امریکہ اور بھارت کی جامع عالمی عسکری شراکت داری کو ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں اور دنیا کو ہر معاملے میں تعاون فراہم کرتے ہیں۔ یہ ہمیں مستقبل کی امید فراہم کرتے ہیں اور اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ یہ۲۱ صدی کے لیے ایک نتیجہ خیز شراکت داری ثابت ہوگی۔

شہری سفارت کاری

سنہ۱۹۴۰ء  میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ممتاز امریکی سیاستداں اور تاجر نیلسن راک فیلر کو انٹر۔ امیریکن افیئرس کا رابطہ کار مقررکیا۔ اپنی اس حیثیت میں راک فیلر نے مغربی نصف کرہ کے ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے حصول کے مقصد سے لاطینی امریکہ کے ساتھ تبادلے کے پروگرام کا آغاز کیا اور۱۳۰  لاطینی امریکی صحافیوں کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔۶۰  برس سے بھی زیادہ پہلے شروع کیا گیا ان کا یہ پروگرام اب انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی ) میں تبدیل ہوچکا ہے جو امریکی محکمۂ خارجہ کے زیر انتظام ہے۔ فی الحال مختلف شعبوں اور مختلف ملکوں کے تقریبا ً ۵ ہزار ابھرتے ہوئے رہنما آئی وی ایل پی کے شرکا کی حیثیت سے باہمی افہام و تفہیم اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ہر سال امریکہ کا دورہ کرتے ہیں۔ آئی وی ایل پی نے امریکی محکمۂ خارجہ کے تعاون سے دیگر تعلیمی، ثقافتی اور پیشہ ورانہ تبادلے کے پروگراموں کی راہ ہموار کی ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک کے ایک ملین شہریوں کو ایک دوسرے کے رابطے میں لانے کا کام کیا ہے۔

بھارت میں بین الاقوامی تبادلہ پروگرام۱۹۶۰ کی دہائی میں شروع کیے گئے تھے جو دونوں ممالک کے مابین مضبوط تاریخی تعلقات کی مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ پروگرام آئی وی ایل پی، فورچیون/یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ گلوبل ویمنس مینٹرنگ پارٹنرشپ اور پروفیشنل فیلوز پروگرام جیسے پیشہ ورانہ پروگرام سے لے کر امیریکن کونسل آف ینگ پالیٹیکل لیڈرس اور نیشنل کونسل فار اسٹیٹ لیجسلیٹرس جیسے سیاسی پروگرام تک کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان پروگراموں میں فل برائٹ۔ نہرو فیلو شپ ، ہیوبرٹ ایچ ہمفری فیلوشپ، امریکی اداروں کا مطالعہ، قریب مشرق اور جنوبی ایشیا انڈرگریجویٹ ایکسچینج پروگرام اور تبتی اسکالرشپ پروگرام جیسے تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کالج انیشی ایٹو پروگرام اور کینیڈی۔لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی جیسے نوجوانوں پر مرکوز پروگرام بھی اس کا حصہ ہیں۔ کئی برسوں کے دوران ان پروگراموں نے بھارت کے تمام شعبوں اور معاشرے کے طبقات سے تعلق رکھنے والے بھارتی شرکاء کو عام طور پر پہلی بار میزبان خاندانوں کے ساتھ امریکی ثقافت کا تجربہ کرنے، پیشہ ورانہ نیٹ ورک قائم کرنے، بہترین طریقوں کا اشتراک کرنے اور ان کی دلچسپی کے شعبوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکہ کا دورہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

تحقیقی تعاون

شراکت داری۲۰۲۰ نے اس یقین کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا کہ امریکی اور بھارتی یونیورسٹیاں ایک ساتھ کام کرکے دونوں ممالک میں ٹھوس اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کامقصد یہ تھا کہ ایک ایسا پروگرام تیار کیا جائے جو صحت، پانی کے بندوبست، قابل تجدید توانائی، پائیدار زراعت، مصنوعی ذہانت اور کاروباری پیشہ وری سمیت ۱۰ اہم شعبوں میں مل کر کی جانے والی تحقیق کو مالی اعانت فراہم کرے۔

سنہ۲۰۱۹ ء  میں اس منصوبے کے آغاز کے بعد سے اس نے ان اہم شعبوں میں باہمی تعاون کے ذریعہ۲۶ امریکی اور بھارتی یونیورسٹیوں کو مالی اعانت فراہم کی ہے۔ مثال کے طور پریونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس اور اتر پردیش کی شیو نادر یونیورسٹی کی ایک ٹیم بایوامپلانٹس میں استعمال کے لیے مواد تیار کررہی ہے جو طبی استعمال میں آنے والے بایو سنتھیٹک مواد ہیں۔ اس کا مقصد اس قسم کا جدید ترین مواد تیار کرنا ہے جو انسانی جسم میں کام کرنے والے ہوں اور دیگر موجودہ مصنوعات کے مقابلے ان کے گَل جانے یا رفتہ رفتہ خراب ہوجانے کا امکان کم ہو۔ اس منصوبے کا مقصد ان مریضوں کی صحت کا دورانیہ بڑھانا اور درازیٔ عمر میں اضافہ کرنا ہے جنہیں اسٹینٹ جیسے بایو امپلانٹس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یہ پروگرام نجی شعبے کو شراکت داری میں شامل کرکے معاشی مواقع پیدا کرنے میں کوشاں ہے۔ بہت ساری شکلوں میں اس تعاون کا استعمال کیا جا سکتا ہے جن میں مقامی کمپنیوں کے ذریعہ نمونوں (پروٹو ٹائپس) کی جانچ اورکسی پروڈکٹ کے صنعتی طور پر استعمال کیے جانے کے لیے اس کی تیاری کے اندازے سے لے کر کاروباری پیشہ وری کے ذریعہ خواتین کو معاشی طورپر بااختیار بنانے کی سہولت فراہم کرنے تک چیزیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تغذیہ کی کمی کی تکمیل کے لیے نئی قسم کے فوڈ سپلیمنٹس تیار کرنے اور تپ دق کے خطرے کو کم کرنے کے طریقے وضع کرنا بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ شراکت داری ۲۰۲۰ کو امریکی محکمہ ٔخارجہ اور نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے سے مالی تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔ اسے اوماہا شہر میں واقع یونیورسٹی آف نیبراسکا اورمشاورتی کردار ادا کرنے والے واشنگٹن، ڈی سی میں واقع سینٹرفار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے تعاون سے نافذ کیا گیا ہے۔

عوام سے عوام کے مابین رابطے سائنس کی حدود کو بھی عبور کرتے ہیں 

امریکہ اور بھارت اپنے ممالک میں سائنسی صلاحیتوں کی دولت کی قدر کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ جب ان کے لوگ مل کر کام کریں گے تو بڑی چیزیں واقع ہوں گی۔ یوایس۔انڈیا سائنس اینڈ  ٹیکنالوجی انڈائومنٹ فنڈ (یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف) کی حیثیت اس سلسلے میں ایک اہم ذریعہ کی ہے۔

سنہ۲۰۰۹ء  میں قائم یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف ان اختراعی ٹیکنالوجیزکے تجارتی استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو دونوں ممالک کے شراکت داروں کے ذریعہ مشترکہ طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی اہم کامیابیوں میں ری موشن نی یعنی گھٹنے تک عضو بریدہ شخص کے لیے اعلیٰ کارکردگی کا سستا اضافی گھٹنے کا جوڑشامل ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مثال اسمارٹ سی موٹ بھی ہے جو ہاتھ سے پکڑا جانے والا، آسانی سے اٹھایا جانے والا اور بیٹری سے چلنے والا آلہ ہے جو پھیپھڑوں کی بیماری کی تشخیص کو بہتر بناتا ہے اورمختلف مریضوں کے درمیان بیماری کی منتقلی کے خطرے کو بھی کم کرتا ہے۔ اس میں روایتی ڈیزائن کی بہ نسبت خرچ بھی ۹۰ فی صد کم آتا ہے۔ دونوں حکومتوں نے کووِڈ۔۱۹ کا مقابلہ کرنے کی خاطر جدید کوششوں کی حمایت کے لیے یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف کا استعمال کیاہے۔ یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف نے دنیا کو کووِڈ۔۱۹ کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے ۴۰۰ سے زیادہ تجاویز میں سے منتخب۱۱امید افزا ٹیکنالوجیز کو ابتدائی مالی اعانت فراہم کی ہے۔ ان منصوبوں میں کووِڈ۔۱۹ کی جانچ کے لیے تیز اور سستے کِٹ تیار کرنے سے لے کے ناگوار نہ گزرنے والے نیزل وینٹیلیشن ڈیوائس کی تیاری تک شامل ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے