موسمیاتی بحران کے تدارک کی راہ میں ایک اہم قدم عجلت میں اس کے گردایک بیانیہ تشکیل دینا ہے۔
موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک اہم قدم اس کی فوری ضرورت کے ارد گرد ایک بیانیہ تیار کرنا ہے۔ جب ۲۰۲۰۔۲۰۱۹میں یو ایس فلبرائٹ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسیلینس اسکالر شیلا ٹیفٹ بھارت پہنچیں تو انہوں نے دریافت کیا کہ بھارت میں گرچہ ماحولیات کی سنگین صورتحال سے انکار کرنے والوں کی تعداد بڑی نہیں ہے لیکن ’’بہت سارے نوجوانوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ضرورہے جو شایدیہ سمجھتی ہے کہ ماحولیاتی خطرات کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
صحافت میں اپنے کام کے اندر ماحولیاتی تبدیلی اور صحت کے اقدامات میں اپنی دلچسپیوں کو یکجا کرنے والی ٹیفٹ نے سائنسی تحریروں اور ملٹی میڈیا صحافت کے ذریعے عوامی بیداری پیدا کرنے کی خاطر طلبہ کے لیے متعدد ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد بھارتی آب و ہوا کے حقائق اورمسائل کے حل کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ ٹیفٹ کہتی ہیں ’’بھارت میں فلبرائٹ کے تعلق سے میرا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں عوام کے ساتھ مزید متعامل اور متحرک بات چیت کی خاطر ملٹی میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے کہانی سنانے کے لیے طلبہ، صحافیوں اور سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
فلبرائٹ۔ نہرو اسکالر شیلا ٹیفٹ نے طلبہ کے لیے بہت سارے ورک شاپ کیے تاکہ ان کے اندر سائنسی تحریر اور ملٹی میڈیا جرنلزم کے حوالے سے بیداری پیدا ہو۔ تصویر بشکریہ شیلا ٹیفٹ
یہی وجہ تھی کہ شیلا ٹیفٹ نے ان کہانیوں پر توجہ مرکوز کی ’’جو پرزور طریقے سے آب و ہوا کے اثرات کو سمجھا سکیں۔‘‘ خاص طور سے انہوں نے صحافت کے اپنے طلبہ سے ان طریقوں کے بارے میں مختصر ذاتی واقعات تحریر کرنے کو کہا جن سے موسمیاتی گرمی کے سبب پیدا ہونے والی لہروں نے ’’ان کے کنبوں کو متاثر کیا تھا اور احمد آباد کو دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک میں تبدیل کر دیا تھا۔
ٹیفٹ کہتی ہیں کہ ابتدائی طور پر طلبہ نے اس موضوع پر غیر متعلق انداز میں لکھا لیکن بالآخر انہوں نے’’والدین اور بھائیوں کے ساتھ کرکٹ میچوں کے پسندیدہ موسم گرما میں تفریح کو ترک کرنے، گرمی سے تباہ ہونے والی فصلوں کی وجہ سے ایک پڑوسی کسان کی معاشی ناکامی اور خودکشی، خوش گوار حالات تلاش کرنے کے لیے تکلیف دہ خاندانی گفتگو جیسے واقعات کے تعلق سے ذاتی بیانات مرتب کرنا شروع کیا۔‘‘یوں یہ تجربات اس موضوع کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات کی وجہ بن گئے۔
صحت پر آب و ہوا کے بحران کے اثرات سے متعلق بات چیت موسمیاتی تبدیلیوں پر عوام سے رجوع کرنے کے بہترین طریقے ہو سکتے ہیں۔ ٹیفٹ خاکہ کشی کرتی ہوئی کہتی ہیں’’مواصلات پر کام کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ صحت سے متعلق مسائل کے حل پر توجہ سنگین موسمیاتی پیشین گوئیوں کے لیے زیادہ مثبت ردعمل کا مشورہ دیتی ہے۔ یہ موسمیاتی پیچیدگیوں کو زیادہ متعلقہ بناتی ہے اور یہ موسمیاتی مسائل پر سیاسی تقسیم سے اجتناب کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘
ٹیفٹ کا کام ایموری یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں سینئر لیکچرر کی حیثیت سے شروع ہوا اور پھر فلبرائٹ ۔ نہرو ایوارڈ کی بدولت اسے مزید رفتار ملی۔ اسکالرز اور سابق طلبہ کا فلبرائٹ ۔ نہرو نیٹ ورک ان کی مالی امداد کے اہداف کی تکمیل میں کارآمد ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے ٹیفٹ بھارت میں اپنی میزبان یونیورسٹی سے پرے بات چیت میں حصہ لینے کی اہل ہو پائیں اور ہمالِیَن جرنلسٹس کلیکٹِو اگینسٹ کلائمیٹ چینج جیسے پروجیکٹ میں شامل ہو پائیں۔ اگرچہ ٹیفٹ کو کووڈ۔۱۹ وبا کی وجہ سے امریکہ واپس جانا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ نوجوان صحافیوں کے لیے دی انرجی اینڈ ریسورسیز انسٹی ٹیوٹ (ٹی ای آر آئی) کے آن لائن کورس میں ڈیزائنر، ٹیچر اور ایک سرپرست کے طور پر تعاون کرنے کے قابل رہیں۔ شرکا کو ماحولیاتی سائنس اور پالیسی سے متعلق امور اور آب و ہوا کے مواصلات کے بارے میں بہتر تکنیکی تفہیم پیدا کرنے کی تربیت دی گئی۔ وبا کے دوران انہوں نے موبائل فون کے ذریعے موسمیاتی بیانیے ریکارڈ کرنے اور رہائشیوں کو اپنے طبقات میں مشغول کرنے کے طریقے تلاش کیے۔
مستقبل کے بارے میں ٹیفٹ کہتی ہیں ’’پیرس معاہدے کے ۱ اعشاریہ ۵ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ہدف کو پورا کرنے کی خاطر ہمارے پاس گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیزرفتار کمی لانے کے لیے محدود وقت ہے اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ یہ سنگین منظر نامہ موجودہ اور مستقبل کے آب و ہوا کے اثرات کے مطابق ڈھلنے پر زیادہ زور ڈالتا ہے۔‘‘ ٹیفٹ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ صحافیوں کو ان طریقوں پر رپورٹ کرنے کی ضرورت ہوگی جن سے برادریاں اور معیشتیں آب و ہوا سے متعلق مسائل اور تباہی کے پہلے سے خاطر خواہ شواہد سے ہم آہنگ ہو سکیں کیونکہ ’’عام لوگوں کو پراسرار آب و ہوا کے مسائل کے بارے میں بتانا مواصلات کے مشکل ترین اور اہم ترین امر میں سے ایک ہے۔
موسمیاتی اثرات میں جیسے جیسے شدت آئے گی، اس کے تعلق سے حل اور لوگوں کے اتفاق رائے کی تلاش ذرائع ابلاغ کے ذریعہ کہانی سنانے کے عمل میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ ٹیفٹ کہتی ہیں’’چند قومی اخبارات آب و ہوا سے متعلق خبروں کے احاطےکے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔ نوجوان بھارتی صحافی بتاتے ہیں کہ بھارت اور بیرون ملک اشاعت کے مواقع ان صحافیوں کے لیے بڑھ رہے ہیں جو آب و ہوا کی بنیادی باتیں سیکھنے، ملٹی میڈیا کی معلومات بڑھانے اور اس سے متعلق کسی خبر کو پیش کرنے کے عزم میں اپنا وقت لگا رہے ہیں۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں کہ دنیا میں ثمر دار اخبار منڈیوں میں سے ایک بھارت کی منڈی بھی ہے۔ موبائل فونز کی بہت تیز رفتار سے ہونے والی ترقی کے نتیجے میں موبائل آلات کے ذریعے بھارتی خبروں تک تیزرفتار رسائی حاصل کی جاتی ہے اور یہ ویڈیو، پوڈ کاسٹ اور دیگر ملٹی میڈیا رپورٹوں کے سبب آن لائن متنی رپورٹوں کی جانب راہ ہموار کر رہی ہے۔‘‘ اس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کی کہانی بیان کی جائے گی اور امید کی جاتی ہے کہ کافی تعداد میں لوگ اس پر توجہ دیں گے۔
ٹریور ایل جوکِمس نیو یارک یونیورسٹی میں تحریر، ادب اور معاصر ثقافت کی تدریس کرتے ہیں۔
تبصرہ