کولکاتہ کے امریکی قونصل جنرل کی قیادت میں دو نسلی طرز کے خواتین کے ایک بوٹ کیمپ نے خواتین کاروباری پیشہ وروں کو ان کے کاروبار کو وسعت دینے میں مدد کی ہے۔
September 2021
پٹنہ میں ’بریکنگ دی سیلنگ‘ پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر ایک تقریب میں شرکت کرتی ہوئی خاتون کاروباری پیشہ ور۔ تصویر بشکریہ امریکی قونصل جنرل، کولکاتہ۔
حالیہ برسوں میں ترقی کے باوجود بھارت کی کاروباری برادری میں آگے بڑھنے کی خواہشمند خواتین کو اب بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔ عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۹ءمیں ملک کی افرادی قوت کا قریب ۲۱ فی صد خواتین پر مشتمل تھا جو مردوں کے قریب ۷۶ فی صد حصے کےمقابلے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ خواتین کاروباری پیشہ وروں کے لیے صورت حال اور بھی پریشان کن ہو سکتی ہے۔ روزگارکےمواقع کے ذریعے معیشت کو فروغ دینے اور خواتین کے لیے تبدیلی کے سماجی اور ذاتی نتائج کی فراہمی میں خواتین میں کاروباری پیشہ وری کوایک اہم جزوخیال کیا جاتا ہے۔ لیکن بین اینڈ کمپنی اور گوگل کی ۲۰۱۹ءکی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کی ملکیت والے کاروباری ادارے بھارت میں تمام کاروباری اداروں کا صرف ۲۰ فی صدحصہ تشکیل کرتے ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد کےلیے کولکاتہ کے امریکی قونصل جنرل نے آسٹِن میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی اور نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس اسٹارٹ اَپ ہب کے اشتراک سے مشرقی اور شمال مشرقی بھارت کی ۲۵ خواتین کاروباری پیشہ وروں کے لیے روبرو اور آن لائن دونوں طور پر بوٹ کیمپ (ایک مختصرمگر انتہائی سخت تربیتی کورس)انعقاد کیا۔ بوٹ کیمپ امریکی محکمہ خارجہ کے ’بریکنگ دی گلاس سیلنگ‘ پروجیکٹ کا حصہ تھا۔’ گلاس سیلنگ‘اصل میں نہیں نظر آنے والی ایسی رکاوٹ ہے جو تجارت اور دوسرے شعبوں میں عورتوں کو درپیش ہوتی ہے۔
پروجیکٹ کی پروگرام لیڈردِویا راجپوت بتاتی ہیں ’’اس پروگرام نے خواتین کاروباری پیشہ وروں کو اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے،مشکلات کا سامنا کرنے اورفنڈاکٹھا کرنے کی صلاحیت پیدا کرکے کاروباری پیشہ وری کی رکاوٹوں پرقابو پانے کے قابل بنایا ہے۔‘‘وہ کہتی ہیں’’بہت اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے جہاں بھی ضروری ہوا وہاں وسائل کا اشتراک کرنے کے لیے تعاون کیا اور نئی مصنوعات تیار کی۔ اس کےعلاوہ اس وبا کے دوران بھی انہوں نے اپنے منصوبوں کو ختم ہونے نہیں دیا بلکہ اسے پروان ہی چڑھایا۔‘‘
بوٹ کیمپ میں کاروباری پیشہ وروں کو درپیش حقیقی دنیا کے چیلنجوں جیسے اپنی کمپنی کی مخصوص بازار تک رسائی کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں سے فنڈزاکٹھا کرنےکی سبیل پیدا کی گئی۔ راجپوت کہتی ہیں کہ اس کےحقیقی نتائج بھی سامنے آئے ۔ان کے مطابق کم از کم نو شرکا کا تعلق ممکنہ سرمایہ کاروں سے تھا۔
اس پروگرام نے خود کو درپیش بعض چیلنجوں پر قابو پانے کا حل بھی تلاش کیا۔ اصل میں اپریل ۲۰۲۰ء میں منعقد کیے جانے والے لیکن وبا کی وجہ سے موخرکردیے جانے والے اس پروجیکٹ کو اس کی کفالت کرنےوالوں نے برقراررکھا اور پھر جزوی طورپرآن لائن اورجزوی طور پرشخصی موجودگی والے بوٹ کیمپ کا اہتمام کیا جس کا انعقاد اپریل ۲۰۲۱ء میں کولکاتہ میں سخت سماجی فاصلے کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کیاگیا ۔
راجپوت کہتی ہیں ’’اس رفتار کو جاری رکھنے کے لیے ہم نے صنعت کے ماہرین کے ساتھ ویبینارکے ایک سلسلے کا اہتمام کیا ۔ اس کے ساتھ ہی ہم لوگوں نے اپنے شرکا کے ساتھ آن لائن مشورے کے سیشن بھی منعقد کیے۔ہم نے انہیں ایک کے ساتھ ایک شخصی تربیتی اجلاس کے ذریعے بھی توجہ مرکوزرکھنے کی ترغیب دی ۔ چنانچہ ۲۰۲۰ء کے دوران ہم نے ان کی کوچنگ کی ضروریات کے مطابق اپنی خدمات مہیا کرائیں اور ان کے نیٹ ورک کو وسعت دینے میں ان کی مدد کی۔ نتیجے کے طور پر ان میں سے کم از کم ۵۰ فی صد نے اپنے منصوبوں کو برقرار رکھا یا نئی مصنوعات تیار کیں۔‘‘
مشرقی اور شمال مشرقی بھارت سے تعلق رکھنے والی اور مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والی خواتین کاروباری پیشہ وروں نے آن لائن بوٹ کیمپ میں شرکت کی۔ ان میں کولکاتہ کی ایک ٹیکنالوجی فرم ٹیک ویئر ڈو کی شریک بانی اور سی ای او سُدیشنا مکھوپادھیائے بھی شامل تھیں۔ یہ ٹیکنالوجی فرم مصنوعات سازی، صحت کی دیکھ ریکھ اور مالیات جیسی صنعتوں میں کاروبار کی خاطر کام کے لیے ڈیٹا تجزیات اوراطلاق شدہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی خدمات کا استعمال کرتی ہیں۔
مکھوپادھیائے کہتی ہیں ’’ٹیک ویئر ڈو ’مصنوعی ذہانت بطور خدمات‘پرمبنی ایک کمپنی ہے جو کاروباری اداروں کی خود کارضروریات کی نشاندہی کرنے اور ان کی آپریشنل کارکردگی اور ان کی اعلیٰ (ٹاپ لائن) ترقی کو فروغ دینے کے لیے پہلے سے تربیت یافتہ مصنوعی ذہانت کے نمونے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے میں اختراعی شراکت دار کے طور پر کام کرتی ہے۔مضبوط نجی اورعوامی شراکت داری نے عالمی گاہکوں کی ایک مضبوط بنیاد بنانے میں ہماری مدد کی ہے۔ ‘‘ ان کے مطابق ٹیک ویئرڈو کی آمدنی کا ۳۵ فی صدحصہ فی الحال امریکہ، کناڈا اور آسٹریلیا سے جب کہ ۶۵ فی صد حصہ بھارت سے حاصل ہوتا ہے۔
مکھوپادھیائے کا کہنا ہے’’آسٹن میں ٹیکساس یونیورسٹی کی جانب سے تعمیر کردہ آئی آر ایل فریم ورک اور کولکاتہ میں امریکی قونصل خانے کی جانب سے ہمارے پاس لائے گئے سرپرستوں نے ٹیک ویئرڈو کے لیے مجھے اپنی بازارکاری اور مالیاتی منصوبے کو شکل دینے میں مدد کی۔ آئی آر ایل، جس کا مطلب اِنورس ری انفورسمنٹ لرننگ ہے، کسی چیز کے طرز عمل کا مشاہدہ کرکے اس کے مقاصد، اقدار یا مکافات کے بارے میں جاننے کا میدان ہے۔بنیادی طور پراس کاتعلق انسانوں سے سیکھنے والے کمپیوٹروں سے ہے۔‘‘
مکھوپادھیائے نے بنڈل ہیلتھ کے نام سے ایک علاحدہ دوسری فرم قائم کی ہے۔ ان کے مطابق یہ فرم’’ صحت کی مجموعی دیکھ بھال کے حصول میں واضح فرق کا سامنا کرنے کے ذاتی تجربے‘‘ سے پروان چڑھی جس کا مقصد ’صحت کی دیکھ بھال کو قابل رسائی، حوصلہ افزا اور ہموار بنانا ہے‘۔ وہ کہتی ہیں’’بنڈل ہیلتھ ایک تحقیقی منصوبہ تھا جس پر ہم لوگ کافی عرصے سے کام کر رہے تھے اور آخر کار میں نے بوٹ کیمپ کے دوران اپنے پروڈکٹ کے ابتدائی مرحلے کے خیال کو پیش کیا۔‘‘
بنڈل ہیلتھ کا مصنوعی ذہانت سے لیس ٹیکنالوجی پلیٹ فارم ہیلتھ کیئر کمپنیوں کو ہنگامی صورتحال میں دیکھ ریکھ کرنے والی تنظیموں کے طور پر کام کرنے اور ترقی کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مکھوپادھیائے کا کہنا ہے ’’یہ پلیٹ فارم شروع کیے جانے سے پہلے کے مرحلے پر ہے اور اسے ایک منافع بخش کمپنی کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔‘‘ پانچ افراد پر مشتمل ایک ٹیم فی الحال اسپتالوں، تجربہ گاہوں اور کلینکوں کو اس پلیٹ فارم کے ملنے کے بعد منٹوں میں ایک مکمل ریموٹ کیئر وِنگ قائم کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے پروڈکٹ تیارکر رہی ہے۔
صحت کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنیوں کی مدد کے علاوہ بنڈل ہیلتھ نے مریضوں کے لیے ایک ویب ایپلی کیشن بھی تیار کی ہے۔ مکھوپادھیائے کہتی ہیں’’بنڈل ہیلتھ کی موبائل ایپ سرجری کے بعد گھر میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کے لیے اعلیٰ معیار کی دیکھ بھال کی خدمات تک آسان رسائی فراہم کرتی ہے۔یہ علاج کوسرانجام دیےجانے کے طریق کارکا خود بخود انتظام کرتی ہے تاکہ مریض کچھ بھی (دوا، جائزے کی رپورٹ، لیب ٹیسٹ) فراموش نہ کریں اور ان کے اہل خانہ اور نگہداشت کی خدمات فراہم کرنے والے ہمیشہ ان کی پیش رفت سے آگاہ رہیں۔ اس طرح انہیں اپنے علاج کے نتائج کو بہتر بنانے کا بہتر موقع ملتا ہے۔‘‘
اسٹیو فاکس کیلی فورنیا کے ونچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشراور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ