ایک تابناک مستقبل

تین فلبرائٹ۔ نہرو وظیفہ یافتگان اس مضمون میں بھارت میں اپنی تحقیق اورتبادلہ پروگرام کےاپنے بے مثال تجربے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

کریتیکا شرما

January 2023

ایک تابناک مستقبل

فلبرائٹ۔نہرو فیلوشپ امریکی کالجوں کے سینئرس، گریجویٹس اور ہر سطح پر کام کرنے والے معلّموں کو بھارت میں تحقیق کے لیے دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وظائف مربوط برادریوں میں اہم تعلقات قائم کرنے کا موقع ثابت ہوتے ہیں۔ تصویر میں امریکی فلبرائٹ طالب علم محقق امیلیا کولیور(بائیں) ایس ای سی ایم او ایل(لدّاخ کے طلبہ کی تعلیمی اور ثقافتی تحریک)کے سالانہ اَیپریکوٹ جَیم پکنک میں۔(تصویر بشکریہ تاشی چوٹک لدّاخ کے ہمالیائی انسٹی ٹیوٹ آف ٓالٹیرنیٹِوس میں)۔

امریکہ۔ ہند تعلیمی فاؤنڈیشن (یو ایس آئی ای ایف) نے نومبر ۲۰۲۲ءمیں سالانہ فلبرائٹ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جو کووِڈ۔۱۹ کی وبا کے بعد بھارت میں فلبرائٹ ۔ نہرو ایوارڈ یافتگان  کا پہلا اجتماع تھا۔ نئی دہلی میں منعقد اس سہ روزہ کانفرنس میں ۱۱۰ امریکی فلبرائٹ اسکالرس نے شرکت کی۔ اس دوران انہوں نے اپنی تحقیق پیش کی اور دیگر ماہرین تعلیم کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔

فلبرائٹ کمیشن کو عملی شکل دینے کے لیے ۱۹۵۰ءمیں وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور امریکی سفیر لوئی  ہینڈرسن نے دستخط کیے تھے۔ ۵۸ سال بعد ۲۰۰۸ء میں بھارت تبادلہ پروگرام کے منصوبے کی کفالت میں ایک مکمل شراکت دار بن گیا جسے اب فلبرائٹ ۔نہرو پروگرام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

امریکی فیلو شپ ہر سطح پر امریکی کالج کے سینئرس ، گریجویٹس اور ماہرین تعلیم کو بھارت کے کسی میزبان ادارے میں تحقیق کرنے اور بھارت کے علمی نگراں کی سرپرستی میں پیشہ ورانہ پروجیکٹوں کو انجام دینے کے لیے مالی اعانت فراہم کرتی  ہے۔ اپنی مدت کار کے دوران فلبرائٹ اسکالرس کسی شعبے کے بارے میں اپنی ماہرانہ معلومات کو بھارتی سیاق و سباق میں استعمال کرتے ہیں، حقیقی مسائل کا مطالعہ کرتے ہیں اور متعلقہ شعبوں میں اپنے ہم منصبوں سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ مدت انمول تجربہ فراہم کرتی ہے کیوں کہ وہ قریبی طور پر  مربوط طبقات کے ساتھ کام کرتے ہیں جس سے انہیں اہم تعلقات قائم کرنے کا موقع ملتا ہے۔

مریم الکتن

کیا آپ عام نزلہ زکام یا ہلکے بخارمیں خود سے  جراثیم کُش  ادویات کا استعمال شروع  دیتے ہیں؟  کیا ایسی ادویات اب مؤثر نہیں رہ گئی ہیں؟ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بھارت میں  جرثوموں کے خلاف مزاحمت(اے ایم آر ) کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیمار پڑنے پر زیادہ سے زیادہ لوگ جراثیم کُش ادویات کے تئیں کسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔  اس کے علاوہ دوسری پریشانی یہ ہے کہ دواؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشن کے علاج کے لیے کوئی نئی جرثومہ مخالف دوا بھی تیار نہیں کی جارہی ہے۔

فلبرائٹ  ۔ نہرو طالب علم محقق مریم الکتن کے لیے یہ بھارت میں اے ایم آر کا مطالعہ کرنے اور اگلے نو ماہ میں بالکل شروع سے ایک تحقیقی تجربہ گاہ  قائم کرنے کا موقع تھا۔ الکتن نےایمہرسٹ میں واقع   یونیورسٹی آف مساچیوسٹس  سے ماحولیاتی انجینئرنگ میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کی میزبانی گاندھی نگر کی نیشنل فارنسِک سائنس یونیورسٹی نے انجام دی جہاں انہوں نے اپریل ۲۰۲۲ء میں فلبرائٹ۔ نہرو کے دور کا  آغاز کیا تھا۔

الکتن کی تحقیق احمد آباد اور اس کے آس پاس کے آبی ذخائر کے نمونے لینے پر مشتمل تھی تاکہ حیاتیاتی آلودگی اور ادویات کی مزاحمت کی جانچ کی جاسکے۔ تصویر بشکریہ مریم الکتن۔

الکتن کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ کئی مہینوں تک احمد آباد اور اس کے آس پاس کے آبی ذخائر کے نمونے لینے پر مشتمل تھا تاکہ حیاتیاتی آلودگی اور ادویات کی مزاحمت کی جانچ کی جاسکے۔ ٹیم نے پایا کہ ان کے ذریعہ اکٹھا کئے گئے پانی کے تقریباً ۱۰۰ نمونوں میں سے ہر نمونے میں ان پر آزمائی گئی ادویات میں سے کم از کم ایک دوا کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے نمونے متعدد ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتے تھے جو ایک اہم دریافت ہے جس کا مطلب ایسے  انفیکشن  کی موجودگی ہےجس کا علاج زیادہ مشکل ہے۔

انسانوں اور جانوروں کے فضلہ، فصلوں کے لیے حشرات کُش اور دواسازی کے فضلہ سے آبی ذخائر کی آلودگی ان لوگوں  پر وسیع تر اثرات مرتب کرتی ہے جو ان آبی ذخائر کا استعمال پانی پینے، کھانا پکانے یا نہانے دھونے کے ذرائع کے طور پر  کرتے ہیں۔ یہ اے ایم آر کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں اور اینٹی بایوٹک مزاحمت پیدا کرتے ہیں۔

 اگرچہ اے ایم آر کے مطالعہ کو بھارت میں ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے لیکن الکتن کے مطابق ان کی تحقیق کا مقصد اے ایم آر کے لیے معیاری جانچ کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارے پاس ( اے ایم آر کی پیمائش کا) کوئی معیاری طریقہ بھی نہیں ہے۔ ہماری تحقیق کے ساتھ امید ہے کہ  ہم درستگی اور جانچ کے استعمال میں آسانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘‘

الکتن  نے اپنی فیلو شپ کے ابتدائی چند مہینے ایسی چیزیں سیکھنے میں گزارے جو انہیں پہلے کبھی نہیں سکھائی گئیں۔ وہ کہتی ہیں’’مجھے دستیاب ادب کو پڑھ کر سیکھنا پڑا تھا  اور بالکل شروع سے ایک تحقیقی پروگرام تیار کرنا پڑا تھا۔یہ ناقابل یقین حد تک مشکل تھا، لیکن یہ کچھ ایسا تھا جو میں صرف فلبرائٹ میں ہی کر سکتی تھی کیونکہ یہاں مجھے ایسا کرنے کے لیے وقت اور آزادی دونوں دستیاب تھی۔‘‘

الکتن کو امید تھی کہ وہ بھارت چھوڑنے سے پہلے اے ایم آر پر کچھ ٹھوس کام کر جا ئیں گی۔ وہ کہتی ہیں ’’اس قدر پیچیدہ کام کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے پاس اے ایم آر  تحقیق جاری رکھنے کی خاطر اسکالرس کے لیے اعداد و شمار اور طریقوں کی بنیاد اب موجود ہے۔‘‘ الکتن اپنے پیچھے اب اس تجربہ گاہ  کو چھوڑ جا ئیں گی جو ان کے آنےسے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔

 اس دوران انہوں نے کچھ  مزیداراور تفریحی چیزیں بھی انجام دی ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں’’احمد آباد میں نمونے جمع کرنے کی ایک جگہ واقعی آئس کریم کی دکان کے قریب تھی۔ لہذا ہم لوگ وہاں آئس کریم کا بھی ’نمونہ‘لینے جایا کرتے تھے۔‘‘

الکتن کو امید ہے کہ وہ اپنے کام کے ذریعے ’’بہترین طریقوں کے بارے میں معلومات کا اشتراک کریں گی اور ماحولیاتی اے ایم آر سے متعلق پالیسی کے بارے میں آگاہ کریں گی۔‘‘

لیڈیا فشر

لیڈیا فشر ۲۱ برس کی تھیں اور برائن ماور کالج میں جونیئر تھیں جب وہ بیرون ملک اپنے مطالعاتی پروگرام ایس آئی ٹی: انڈیا (اسکول فار انٹرنیشنل ٹریننگ) کی رکن کے طور پر بھارت کی راجدھانی نئی دہلی آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فلاڈیلفیا سے باہر ۶۰۰افراد کی آبادی پر مشتمل ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے یونین وِل میں پرورش پانے کے بعد دہلی کی فضائی اور صوتی آلودگی ایک دھچکے کے طور پر ان کے سامنے آئی۔ لیکن وہ لوگوں اور ان کے ماحول کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھیں۔ ان کی اسی خواہش نے انہیں تین سال بعد بھارت آنے پر مجبور کیا اور اس بار انہیں فلبرائٹ     ۔ نہرو طالب علم محقق کے طور پربھارت آنے کا موقع ملا۔  

برائن ماور میں، فشر نے ماحولیاتی اور عوامی صحت کے مسائل پر توجہ  کے ساتھ بین الاقوامی مطالعات میں میجر کیا ہے۔ وہ مارچ ۲۰۲۲ءسے بھارت میں ہیں اور انسانی جسم اور معاشرے پر فضائی اور صوتی آلودگی کے اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس) سے وابستہ ہیں اور ڈاکٹر امیتا بھڑے کی رہنمائی میں کام کر رہی ہیں۔ ان کا فضائی آلودگی کا کام  دس لاکھ لوگوں کی آبادی پر مشتمل ممبئی کے میونسپل علاقے ایم۔ایسٹ وارڈ کے رہائشیوں پر مرکوز ہے۔  یہ علاقہ فضائی آلودگی کے کئی بڑے اسباب کا مسکن بھی ہے جن میں ایشیا کا سب سے بڑا کوڑاپھینکنے کا میدان اور سب سے بڑا بایو میڈیکل ویسٹ پلانٹ شامل ہے۔

فشر کہتی ہیں کہ ان کا کام ہوا کے معیار، نگرانی اور نظم و نسق کا مطالعہ کرنے اور قواعد و ضوابط کو دیکھنے سے متعلق ہے۔ فشر کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق فضائی آلودگی سے متعلق تعلیم اور فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کے علاج کے بارے میں پالیسی سے آگاہ کرے گی۔ وہ کہتی ہیں ’’انسانی جسم ہر روز ۱۱ہزار لیٹر ہوا سانس کے ذریعہ لیتا ہے۔ ہماری تحقیق یہ معلوم کرنے کے لیے  ہے کہ جس ہوا میں لوگ سانس لے رہے ہیں اس میں اصل میں کیا ہے۔‘‘

لیڈیا فشر(بائیں) بتاتی ہیں کہ ان کا کام ہوا کے معیار کی جانچ، ان کی نگرانی اور حکومتی ضوابط کی پڑتال کے ارد گرد گھومتا ہے۔ تصویر بشکریہ لیڈیا فشر

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی کا تصور تجربے سے متعلق فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور عام طور پر اس کا مطالعہ سماجی اور اقتصادی تناظر میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے  طور پر ایک شخص جو عام طور سے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتا ہے اس کے لیے باہر کی آلودگی میں پانچ منٹ کا وقت گزارنا  سڑک کے کنارے سامان فروخت کرنے والے کے مقابلے میں زیادہ تکلیف دہ ہوسکتا ہے ، حالاں کہ جسم پر آلودگی کے اثرات دونوں صورتوں میں یکساں ہیں۔

 ان کی تحقیق کا دوسرا جزو صوتی آلودگی ہے جو ممبئی میں رہنے والوں اور ٹریفک پولس پر سڑکوں پر شور کے اثرات پر مرکوز ہے۔ ممبئی دنیا کے بہت زیادہ شور شرابے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ فِشر کا کہنا ہے کہ گلیوں کا شور اوسطاً ۷۰ سے ۸۰ ڈیسیبل کا ہوتا ہے۔اس کا خمیازہ ٹریفک پولس والے ہارن کی زور دار آواز اور ہر سمت سے آنے والی گاڑیوں کے شور کی صورت میں برداشت کرتے ہیں۔  فِشر کہتی ہیں کہ ان کا کام ان کے روز مرہ کے کام میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے شور کی وجہ سے صحت کے نتائج  کی تحقیق کرتا ہے جو اس مسئلے کے بارے میں ان کی تفہیم اور علاج  تک ان کی رسائی سے مطابقت رکھتا ہے۔

فشر کا کہنا ہے کہ زیادہ شور کی سطح کے رابطے میں طویل عرصے تک رہنے سے سماعت کی کمی اور تناؤ کے ساتھ ساتھ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ فشر کہتی ہیں کہ اس پر بہت تحقیق کی گئی ہے لیکن اس میں سے زیادہ تر تحقیق یورپ اور امریکہ میں کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شور اور لوگوں پر اس کے اثرات کا مطالعہ سماجی اور ثقافتی سیاق و سباق میں کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر وہ کہتی ہیں کہ سماعت کی کمی کا تعلق جینیات، ماحول اور رابطے سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’اور بھارت میں سماعت سے محرومی کی شرح بہت زیادہ ہے۔‘‘

 فشر فی الحال ایم ایسٹ وارڈ کے شمال میں واقع چھ بستیوں میں ۴۰۰ رہائشیوں کے سروے پر کام کر رہی ہیں۔ یہ جائزہ  اندرونی اورباہری فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات، علاج کے متبادل اور مقامی سطح پر رجحانات کی تحقیق کرتا ہے ۔

وانی دیوان

ممبئی میں مقیم وانی دیوان فلبرائٹ۔ نہرو طالب علم محقق ہیں جو ابتدائی زندگی کے تناؤ اور زندگی بھر ذہنی اور جسمانی صحت پر اس کے اثرات کے درمیان اعصابی روابط کا مطالعہ کررہی ہیں۔ جب وہ تجربہ گاہ میں نہیں ہوتی ہیں تو وہ اپنا وقت ممبئی کے کلبوں میں بطور ڈی جے کام کرنے اورمکتانگن اسکول میں طلبہ کو گانے کی تعلیم دینے میں گزارتی ہیں جس میں سانس لینے کے عمل، انداز، لہجہ، جذبات، کہانی سنانے سے متعلق سبق کے ساتھ اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔

 دیوان نے ۲۰۲۱ءمیں کیلیفورنیا کے اسکریپس کالج سے نیورو سائنس میں ڈگری حاصل کی۔ ان کی میزبانی ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کرتی ہے جہاں وہ نیورو سائنٹسٹ ویدیتا ویدیا کی نیورو بایولوجی آف ایموشن لیب میں کام کرتی ہیں۔

یہ تجربہ گاہ چوہوں پر تحقیق کررہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ابتدائی زندگی کا تناؤ چوہوں میں جسمانی تبدیلیاں کیسے پیدا کرسکتا ہے۔تجربہ گاہ  اس بات کا بھی پتہ لگاتی ہے کہ  اس طرح کے معاملات میں دواؤں سے علاج اور نفسیاتی علاج کے ممکنہ اثرات کیا ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ نفسیاتی اور جسمانی واقعات کے درمیان اس تعلق کو سمجھ کرمیں متحیر ہوں۔‘‘  دیوان بتاتی ہیں کہ چوہوں کی تحقیق ایک قسم کے پائپ لائن کے کام کا آغاز ہے جس کے نتائج کئی سالوں کی تحقیق کے بعد انسانوں پر اخذ کیے جاتے ہیں۔

وہ تجربہ گاہ، جہاں وانی دیوان (دائیں کونے میں) کام کرتی ہیں، اس میں چوہوں پر تحقیق کی جارہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ابتدائی زندگی کا تناؤ چوہوں میں جسمانی تبدیلیاں کیسے پیدا کرسکتا ہے۔یہاں تصویر میں وہ مُکتنگن اسکول کے طلبہ کے ساتھ نظر آرہی ہیں جہاں وہ بچوں کو گائیکی کی تربیت دیتی ہیں۔

دیوان فلبرائٹ ۔نہرو پروگرام کے تجربے اوراس کے ذریعہ فراہم کی گئی آزادی کے لیے شکر گزار ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’گریجویشن کے بعد پہلے سال میں مالی طور پر خود کفیل ہونا میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔میں  اس پورے سال میں مکمل طور پر خود کفیل ہونے میں کامیاب رہی ہوں۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ فلبرائٹ ۔نہرو پروگرام نے انہیں دماغی صحت اور نیورو سائنس کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کیا جہاں تک وہ خود رسائی حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔

ذاتی محاذ پرانہیں ڈِسک جوکی کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ کہتی ہیں ’’یہاں بطور  ڈی جے کام کرنا ایک خوشی کی بات ہے۔ میں نے ممبئی میں اپنی تمام پسندیدہ موسیقی کی صنفوں کی بہت اچھی طرح نمائندگی کی ہے۔‘‘

حالانکہ بھارت میں ان کی میعاد صرف نو ماہ کی ہے لیکن دیوان اپنے ساتھ انمول تجربے اور یادوں کے ساتھ واپس لوٹیں گی۔   سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک بھارت نژاد امریکی کی حیثیت سے دیوان کہتی ہیں کہ ممبئی میں گزارے گئے وقت نے ان کی شناخت کو مزید وسعت فراہم کی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’بھارت میں وقت گزارنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی امریکی ہوں۔‘‘وہ مسکراتی ہوئی اپنی  بات جاری رکھتی ہیں’’میں پہلے سے کہیں زیادہ بھارتی بن  کر امریکہ واپس لوٹوں گی۔‘‘



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے