تحفظ اور ترقی میں توازن قائم کرنا

امریکی اور بھارتی محققین جنگلات کی زندگی سے متعلق راہداریوں کی حفاظت کے طریقوں کا مطالعہ کررہے ہیں تاکہ شیروں کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے نقل و حرکت کی سہولت فراہم کی جا سکے۔

اسٹیو فاکس

January 2023

تحفظ اور ترقی میں توازن  قائم کرنا

نیویارک میں واقع کولمبیا یونیورسٹی اور نیٹ ورک فار کنزروِنگ سینٹرل انڈیا(این سی سی آئی) کے محققین نے ایک مشترکہ مطالعہ کیا تاکہ بھارت میں شیروں کے تحفظ اور ترقی کے درمیان ایک توازن قائم کیا جا سکے۔ ایسا مطالعہ بے لگام شہر کاری کی وجہ سے خصوصیت کے ساتھ ضروری ہوگیا ہے۔(تصویر بشکریہ امرتا نیلا کنٹن)

بھارت کے قومی جانور کے طور پر شیر طویل عرصے سے ماحول کے تحفظ کے حامیوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ تیزرفتار شہر کاری، شکار اور انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم کے باوجودملک میں شیروں کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔۲۰۰۶ءمیں پہلی گنتی کے دوران شیروں کی تعداد جہاں ۱۴۱۱ سےزیادہ تھی وہ ۲۰۱۸ءمیں ۲۹۶۷  ہو گئی۔ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے گذشتہ برسوں میں شیروں کی آبادی میں قریب قریب۶ فی صد   سالانہ اضافہ درج کیا ہے۔

بھارت دنیا کے زیادہ تر شیروں کا مسکن ہے جن کی تعداد حکومت کے اندازے کے مطابق ان کی کُل عالمی تعداد کا ۷۵ فی صد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت شیروں کے تحفظ کی عالمی کوششوں کے حوالے سے ایک اہم ملک بن گیا ہے۔ یہاں ۵۳ ٹائیگر ریزرو ہیں جو جنگلاتی راہداری کے ذریعہ شیروں کے دیگر محفوظ ٹھکانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ راہداریاں محفوظ قدرتی راستے ہیں جو ان شیروں اور دیگر جانوروں کو ایک رہائش گاہ سے دوسری رہائش گاہ میں منتقل ہونے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔

اگرچہ یہ راہداریاں بھارت کی شیروں کی آبادی کی مسلسل بقا اور ترقی کے لیے اہم ہیں لیکن انہیں مقامی لوگوں کی زندگیوں اور ان کے ذریعہ معاش  سے مطابقت پیدا کرنے والا بھی ہونا چاہیے۔ نیز ان کے زیر قبضہ زمین میں پیش آنے والے دیگر مطالبات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ تحفظ اور ترقی کے درمیان مناسب توازن تلاش کرنا نیو یارک سٹی میں واقع کولمبیا یونیورسٹی اور نیٹ ورک فار کنزرونگ سینٹرل انڈیا (این سی سی آئی) کے محققین کی سربراہی میں امریکہ اور بھارت کے باہمی تعاون سے کیے گئے مطالعے کا مجموعی مقصد تھا ۔ اس مطالعے کا خیال این سی سی آئی میں ہی  پیدا ہوا تھا۔۲۰۲۲ء میں شائع ہونے والا یہ مطالعہ وسطی بھارت میں شیروں کے درمیان رابطے پر پہلے سے شائع ہونے والے پانچ مطالعات پر مبنی تھا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ماحولیات اور ارتقائی حیاتیات پروگرام میں پی ایچ ڈی کے امیدوار اور مطالعے کے شریک مصنف جے شوئن کا کہنا ہے ’’راہداریاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ شیر کی طرح کے دیگر جانور صحت مند اور جینیاتی طور پر متنوع آبادی کو برقرار رکھ سکیں۔‘‘وہ  مزید کہتے ہیں’’ اس سے پہلے کہ افزائش نہ ہونے کے منفی اثرات اور جینیاتی تنوع کے نقصان سے ان کا  طویل مدت تک جینا مشکل ہوجائے یہ نسلیں طویل مدت تک چھوٹے چھوٹے علاقوں  میں ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ آبادیوں کے درمیان قدرتی رابطے کو فروغ دینے اور بحال کرنے کے ذریعے،  جس طرح شیر لاکھوں سالوں سے رہ رہے ہیں، ہم لوگ انہیں بنیادی طور پرمحفوظ علاقوں کے درمیان جینیاتی تبادلہ جاری رکھنے کا موقع فراہم کرکے ان کی آبادی میں جینیاتی تنوع کی صحت مند سطح کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘‘

این سی سی آئی رابطہ کار امرتا نیلا کنٹن بینگالورو میں واقع  قومی  مرکز برائے  حیاتیاتی سائنسیز کی اوما کرشنن اور شوئن نے دیگر محققین کے ساتھ مل کر وسطی بھارت میں شیروں کے درمیان رابطے کے پانچ مطالعات کے نتائج کو ترتیب دینے کا کام انجام دیا جہاں انسان اور جنگلی جانورپاس پاس  رہتے ہیں۔ مقامی آبادیوں، تجارتی طور پر عمارت تیار کرنے والوں ،کسی زمین کے خطے کی دیکھ ریکھ کرنے والوں اور سرکاری عہدیداروں کو بہتر طور پر معلومات فراہم کرنے اور لوگوں اور فطرت کے مابین صحت مند بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے ان راہداریوں کو سمجھنا  نہایت ضروری ہے۔

بھارت میں شیروں کی اچھی خاصی آبادی وسطی علاقے میں رہتی ہے جو ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے جس میں محفوظ ٹھکانے، جنگلاتی خطے، کھیت، گاؤں اور شہر شامل ہیں۔ یہ شیروں کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ترجیحی خطہ بھی ہے۔علاقے میں آبادی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے، دونوں میں توسیع کے ساتھ، شیروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو مقامی باشندوں کی حمایت اور منظوری حاصل کرنی چاہیے جن کا ذریعہ معاش چھوٹے پیمانے کی زراعت، مویشی پالنے اور جنگلاتی مصنوعات کو جمع کرنے پر منحصر ہے۔

نیلا کنٹن   کہتی ہیں ’’دیہی وسطی بھارت بدل رہا ہے۔ جیسے جیسے ذریعہ معاش زیادہ تجارتی ہوتا جا رہا ہے، جنگلات کی زندگی کے ساتھ تعلقات اور جنگلات کی زندگی کو ہونے والے نقصانات کو برداشت کرنے میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں ’’مقامی لوگوں کو درپیش دشواریوں کو سمجھنے پر مبنی تحفظ کے جدید طریقے  آگے بڑھنے کا ایک دلچسپ راستہ ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بحالی، بہتر ذریعہ معاش کے متبادل اور دیگر مواقع کے لیے اجتماعی نقطہ نظر میں مدد ملے گی جہاں انسان اور جنگلی جانور متعلقہ تمام فریق کے لیے محفوظ طریقوں سے تعامل کریں۔‘‘

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جنگلات کی زندگی کی راہداریوں  سے متاثر ہونے والے گروہوں کی مختلف اور بعض اوقات متضاد ترجیحات ہوسکتی ہیں، محققین نے اس بات پر زور دیا کہ راہداریوں سے متعلق فیصلوں تک پہنچنے میں متعدد نقطہ نظر پر غور کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ شیروں پر مرکوز تحفظ کی کوششوں کے متعدد فوائد ہیں جن سے دیگر جانور بھی فیضیاب ہوتےہیں۔ شوئن کہتے ہیں ’’شیروں کو درکار بڑے علاقوں کو محفوظ رکھنے سے دوسرے پیڑ پودوں، جانوروں اور جرثوموں کے لیے بھی جگہ محفوظ ہوگی جو صحت مند قدرتی عمل کے لیے اہم ہیں جن پر لوگ اور جنگلات کی زندگی کا انحصار ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں ’’اس مطالعہ کا بنیادی مقصد تازہ ترین تحقیق سے ایک واضح پیغام کا پتہ لگانا تھا کہ وسطی بھارت میں بنیادی آبادی کے درمیان شیر کس طرح حرکت کر تے ہیں۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’یہ پیغام زمین کے استعمال سے متعلق فیصلہ کرنے  والوں کے ساتھ ساتھ ان فیصلوں سے متاثر ہونے والوں کے لیے بھی تھا تاکہ اس میں شامل بہت سارے فریق فطرت اور انسانوں کے لیے قابل عمل، سائنسی طور پر باخبر حل تلاش کر سکیں۔‘‘

راما کرشنن کہتی ہیں کہ شیروں کی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے اور فروغ دینے میں بھارت  کی کامیابی ہر علاقے کے تحفظ کے حامیوں کے لیے ایک مثال ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں ’’بھارت ایک دلچسپ مگر پیچیدہ خطہ ارض  ہے جہاں بڑے اور خطرناک گوشت خور جانور زندہ رہ رہے ہیں، پھل پھول رہے ہیں اور لوگوں کے ساتھ مانوس بھی ہیں۔یہ حیرت انگیز ہے۔ بھارت میں شیروں کے تحفظ کی کامیابی خطرے سے دوچار تمام انواع کے تحفظ اور ان کی بقا کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے