قحط سالی سے نجات

دہلی،چنئی، کراچی ، مَیڈرڈ اور استنبول جیسے بڑے بڑے شہر قحط سالی کے خطرے کا تجربہ کررہے ہیں ۔ آئندہ برسوں میں دنیا کے کئی دوسرے خطے بھی اسی صورت حال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

ٹریور ایل جوکِمس

October 2021

قحط سالی سے نجات

قحط سالی کا کسی ملک کی معیشت اور عوام کی روز مرہ کی ضرورتوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تصویر از رجنیش ککاڑے © اے پی امیجیز

سنیہا کُلکرنی لنکن میں واقع یونیورسٹی آف نیبراسکا میں ۲۰۱۹فلبرائٹ۔ کلام ڈوکٹورل ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز قحط سالی کے خطروں والے علاقوں کا اشاریہ تیار کرنا ہے تاکہ صورت حال کے دباؤ کو بہتر طریقہ سے سمجھا جا سکے اور پھر اس سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جاسکے۔یونیورسٹی آف نیبراسکا۔ لنکن میں فل برائٹ اسکالر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کلکرنی قحط سالی کے خطرے کوٹیکنالوجی کی اختراع پردازی سے عبور کررہی ہیں۔ ان کے کام کی وسیع تر توجہ امریکہ ۔ ہند اشتراک ہے جس کے ذریعہ سے قحط سالی کی زد میں آنے والے علاقوں میں آبی انصرام،زرعی پیداوار اورغذائی تحفظ کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ اس میں لنکن میں واقع یونیورسٹی آف نیبراسکاکے علاوہ نئی دہلی میں واقع بھارتی زرعی تحقیقی ادارہ شرکت کررہے ہیں۔

اپنے مضمون ’بھارت کے مراٹھواڑہ علاقہ میں زرعی قحط سالی نگرانی کے لیے ریموٹ سنسنگ والے مشترک قحط سالی اشاریہ کا لائحہ عمل تیار کرنا‘ میں کلکرنی بیان کرتی ہیں ’’پورے عالم کے لیے قحط سالی سب سے سنگین قدرتی خطرہ ہےجس سے لاکھوں لوگ الگ الگ طرح سے دو چار ہیں ۔ غذائی تحفظ کا مسئلہ، معاشی نقصان اور نقل وطن ان میں سے بعض ہیں۔ دہلی، چنئی، کراچی، مَیڈرِڈاور استنبول جیسے بڑے بڑے شہروں کے سامنے قحط سالی کا خطرہ منہ بائے کھڑا ہے جب کہ آئندہ برسوں میں دیگر بہت سے خطوں پر بھی خطرات منڈرا رہے ہیں۔‘‘

قحط سالی سےبہت سارے مضمرات جنم لیتے رہیں گے۔ ترقی پذیر ممالک اور ایشیا اور افریقہ کے ایسے علاقے جہاں غذائی تحفظ نہیں ہے ان میں با لخصوص قحط سالی کے قومی معیشت اور لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات پرسنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ چونکہ تقریباً ایک چوتھائی غذا کی پیداوار ان علاقوں میں ہوتی ہے جن میں قحط سالی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے،لہٰذا وہاں لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کا بڑے پیمانہ پر خطرہ لاحق ہے۔ بھارت اس معاملہ میں کافی کمزور ہے کیوں کہ یہاں کی آبادی کا تقریباً دوتہائی حصہ زرعی شعبہ پر منحصر ہے۔ کلکرنی کا ماننا ہے کہ یہ اشد ضروری ہے کہ قحط سالی کے حالات کی نگرانی کی جائے اورصحیح صحیح اندازہ لگایا جائےتاکہ اس پر قابو پانے کے لیے بروقت موثرلائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔

ان کا تجربہ کہتا ہے کہ بھارت اور دنیا کے دیگر علاقوں میں قحط سالی کی نگرانی سے متعلق مطالعات ابھی کافی پیچھے ہیں، حالانکہ ماہرین نے علاقہ کے متعلق مخصوص مطالعات کا استعمال پالیسی انصرام اور علاقے کے مخصوص قحط سالی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے کیا ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ بہت سارے محققین نے ابھی تک بھی وسیع پیمانہ یا گرڈ والا وزن اسائنمنٹ نہیں نافذ کیا ہے جس میں تبدیل ہونے والی کئی چیزیں بھی شامل ہوں تاکہ قحط سالی کی بہتر تفہیم میں مدد ملے۔

اس مسئلہ کی شدت اور عجلت میں اضافہ پر قابو پانے میں ریموٹ سنسنگ اورہائی ریزولیوشن ماڈل ڈیٹا پورے بھارت میں قحط سالی کے تعین میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جیسا کہ کلکرنی وضاحت کرتی ہیں’’ اس صدی کا پہلا عشرہ بھارت کے لیے بہت زیادہ گرم ثابت ہوا اور بحری ۔ فضائی نظاموں کے سبب اگلے تیس برسوں(۲۰۵۰ ۔ ۲۰۲۰ )کے دوران قحط سالی کی شدت میں خاصہ اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، لہٰذا درست اور پیشگی انتباہی نظام اور قحط سالی کے اندازہ لگانے والی تکنیکوں کو بھارت میں اوّلین ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ قحط سالی پر عبور حاصل کرنے کے واسطے ایک فعال لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔‘‘

کلکرنی کاموجودہ کام دراصل شبہہ کے تعین اور بہتر ٹیکنالوجیوں کے درمیان خلا پرکرنے کی جانب ایک کوشش ہےجس میں’ ہر عوامل کے وزن کو ماہرین نے فیصلہ کن طور پر پرکھا ہو اور اہم عنصر کے وزن والے تجزیہ کو بھی شامل کیا ہو۔‘

ایک مخصوص مطالعہ کے لیے ثانوی ڈیٹا کے مدد سے مراٹھواڑہ میں ۲۰۰۲ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۶ء میں تاریخی قحط سالی کے دوران متوسط سےشدید قحط سالی کے معاملات میں فصل کی پیداوارکے مطالعے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

کُلکرنی بتاتی ہیں ’’ اس مطالعے سے ہمیں معلوم ہوا کہ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان قحط سالی کی شدت اور اس کی تعداد میں خاص طور پر لاتور، جالنا اور پربھنی اضلاع میں کافی اضافہ ہوا۔‘‘

یہ انتہائی ضروری ہے کہ ’’اس مطالعے کا ایک بڑا مقصد اس مسئلہ کا حل زرعی اور فضا پر منحصر قحط سالی نگرانی لائحہ عمل تیار کرنا ہے مثلاً مراٹھواڑہ کے لیے مشترکہ قحط سالی اشاریہ تیار کرنا ہے (سی ڈی آئی۔ایم)، چونکہ بہتر ڈیٹا سے ایک بہتر لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہےجس سے بھارت میں اس سنگین مسئلہ سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘

نگرانی میں اس اختراع پردازی کی بدولت کلکرنی تاکید کرتی ہیں’’ اس مطالعے سے یہ واضح ہو گیا کہ بھارت میں سی ڈی آئی۔ایم ذرعی قحط سالی کی نگرانی کرنے میں موثر ہے جس سے ذرعی قحط سالی کے انصرام کے لیے بہتر معلومات حاصل ہوئیں۔‘‘

کلکرنی نے لنکن میں واقع یونیورسٹی آف نیبراسکا میں۲۰۱۹فلبرائٹ۔ کلام ڈوکٹورل ریسرچ فیلو کی حیثیت سے جو کام کیا ہے اس سے اس قسم کی اختراعات کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ کُلکرنی ابھی اس موضوع پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ کلکرنی اس میدان میں ترقی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ اپنی موجودہ تحقیق سے کلکرنی امریکہ اور بھارت کے وسیع تر تعلقات میں مزید وسعت پیدا کریں گی جس کے نتیجہ میں قحط سالی کی زد میں آئے علاقوں میں آبی انصرام، زرعی پیداوار اور غذائی تحفظ میں بہتری آئے گی۔

ٹریور ایل جوکمس نیو یارک یونیورسٹی میں تحریر،ادب، معاصر ثقافت کی تدریس کرتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے