رشتوں میں ذائقوں کی آمیزش

معروف خانساماں امریکی اجزا سے روایتی بھارتی پکوان تیار کرنے کا تجربہ کر رہے ہیں۔

نتاشا مِلاس

June 2022

رشتوں میں ذائقوں کی آمیزش

بھارت میں امریکی مصنوعات کی بہتر دستیابی نے صارفین کو اس کے مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ امریکی اجزا کو اپنے روزمرہ کے کھانوں میں استعمال کریں۔ تصویر بشکریہ نیچر باسکیٹ۔

کیا آپ نے کبھی بطخ کے سموسے یا تندوری فیل مرغ کھایا ہے؟ واشنگٹن کے سیب، کیلیفورنیا کے بادام، آلو بخارا، نیلے بیر، بطخ اور فیل مرغ جیسی امریکی اشیا سے تجربات کرکے بھارتی خانساماں نئے نئے پکوان تیار کر رہے ہیں جن میں بیک وقت بھارتی اور امریکی دونوں ذائقہ موجود ہے۔

روایتی بھارتی بازاروں اورآن لائن منڈیوں میں امریکی مصنوعات کی افراط کے سبب بھارتی صارفین کو امریکی مصنوعات کو اپنے روز مرہ کے پکوانوں میں استعمال کر نے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ امریکی مصنوعات کا اعلیٰ معیار ، ان کی ہمہ گیریت اور کھانے کے شوقین حضرات کی تخلیقی صلاحیتوں کے سبب امریکہ اور بھارت کے درمیان فن طبّاخی کا عمیق تبادلہ ممکن ہورہا ہے۔

امریکی ذائقے

دی ٹیسٹ آف امریکہ فوڈ فیسٹول (امریکی پکوان کا تہوار) ۲۸ تا ۳۱ اکتوبر ۲۰۲۱ کو بھارت کے مختلف شہروں میں منعقد ہوا۔ امریکی شعبہ زراعت کی خارجہ زراعتی خدمات کے نئی دہلی میں واقع دفتر اور ’بھارتی ریٹیلر نیچرس باسکیٹ‘ کے اشتراک سے اس فیسٹول کا انعقاد نیچرس باسکیٹ کے ممبئی، نئی دہلی، کولکاتہ، بینگالورو اور پونے میں واقع اسٹورس میں کیا گیا۔ نیچرس باسکیٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او دیوندرچاؤلا بتاتے ہیں’’نیچر باسکیٹ میں ہم نے ہمیشہ سے ہی اپنے صارفین کو اعلیٰ معیارکے بین الاقوامی پکوان اور مصنوعات فراہم کیے ہیں۔ یو ایس ڈی اے اوردی ٹیسٹ آف امریکہ فیسٹول کے اشتراک کی بدولت ہم انواع و اقسام کی امریکی مصنوعات کو پیش کرسکے جن سے ہمارے صارفین بے حد محظوظ ہوئے۔‘‘

شیف نتاشا گاندھی نے اپنے فن طبّاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی اور بھارتی مخلوط پکوان بنائے۔ دراصل اس میلے میں کُل پانچ طبّاخوں نے حصہ لیا۔ شیف نتاشا ان پانچ میں سے ایک تھیں۔انہوں نے اپنے فن طبّاخی سے یہ باور کرایا کہ امریکی اجزا سے روایتی بھارتی پکوانوں میں ایک منفرد ذائقہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے فن کی توجہ کا تمام ترمرکز وہ تہوار تھا جسے ’تھینکس گیونگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

A woman holding a dish with a roasted turkey

شیف نتاشا گاندھی نے مقامی بھارتی پکوانوں میں امریکی اجزا کو شامل کرکے بطخ کروندہ قیمہ سمومہ، مالوانی بطخ کی چاشنی والی میٹھی پوری اور تندوری بھنا ہوا فیل مرغ پکایا۔تصویر بشکریہ نتاشا گاندھی۔

نتاشا نے بتایا ’’ میں ٹیسٹ آف انڈیا تھینکس گیونگ مہم کا حصہ تھی۔ مجھے امریکہ سے فیل مرغ، بطخ اورکروندہ جیسی اجزا دستیاب تھیں جن کی مدد سے میں نے مخلوط پکوان تیار کیے۔ دراصل یہ پکوان بھارتی ذائقے سے لبریز امریکی مصنوعات کے تئیں میرے حد درجہ شوق کا مظہر ہیں۔ جن نئی پکوان کا میں نے تجربہ کیا ان میں بطخ کروندہ قیمہ سموسہ، مالوانی بطخ کی چاشنی والی میٹھی پوری اور تندوری بھنا ہوا فیل مرغ شامل ہیں۔ ان پکوانوں کو تیار کرتے وقت مجھے احساس ہوا کہ میں طبّاخی کے اپنے ہنر کا بہترین طور پر مظاہرہ کر سکتی ہوں۔ حالانکہ پکوانوں کے ساتھ اس طرح کے تجربات کرنے کا میرے لیے یہ پہلا موقع تھا۔‘‘

یو ایس ڈی اے میں خارجہ خدمات افسر مارک روزمین کہتے ہیں کہ اس پروگرام سے بھارتی خانساماؤں کو ناقابل بیان فوائد حاصل ہوئے جس میں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا’’ اس کی بدولت بعض عمدہ قسم کی امریکی مصنوعات مثلاً کیلیفورنیا اخروٹ، پستہ، کروندا، نیلی بیر، فُندق، اخروٹ، آلو بخارہ کو بھارت میں فروغ ملا۔‘‘

اس پروگرام سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ امریکی پکوان اور مشروبات کا بھارت میں کافی وسیع بازارموجود ہے۔ یو ایس ڈی اے نےاس پروگرام کے معاشی اثرات پر ایک اہم رپورٹ تیارکی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آن لائن منڈیوں اور دکانوں سے سامانوں کے فروخت کے معاملے میں جنوبی بھارتی صوبہ مہاراشٹر اوّل نمبر پر ہے جہاں ۲لاکھ ۵۷ ہزار امریکی ڈالر کی فروخت درج ہوئی۔ مہاراشٹر کے بعد کرناٹک کا نمبر ہے جہاں ایک لاکھ امریکی ڈالر کی فروخت درج ہوئی۔ روزمین بتاتے ہیں ’’۸ ہفتوں کے عرصے میں ۱۲۷۲ امریکی نژاد اسٹاک کیپنگ اکائیوں (ایس کے یو) کے امریکی کھانے کی مصنوعات اور مشروبات کی مجموعی فروخت قریب قریب ۴ لاکھ امریکی ڈالر کی ہوئی۔ مصنوعات کی اقسام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صارفین مرکوز کھانے کی ڈبہ بند اشیا کا تناسب ۶۵ فی صد رہا ، جب کہ تازہ پھلوں کا تناسب ۲۰ فی صد ، میوہ جات کا تناسب ۱۲ فی صد اور مشروبات کا تناسب ایک فی صد رہا۔‘‘

روزمین مزید بتاتے ہیں ’’ دی ٹیسٹ آف امریکہ فیسٹول مہم سے بھارتی بازار میں کھانے پینے کی امریکی مصنوعات کے مطالبہ کےمتعلق اہم معلومات فراہم ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس فیسٹول کے دوران اہم کھانے پینے کی امریکی مشروبات کو بھارتی صارفین کو تھینکس گیونگ اور کرسمس سے عین قبل متعارف کرانے کا بھی موقع مل گیا۔ نتیجے کے طور پر امریکی بطخ اور فیل مرغ بھی ’ نیچرس باسکیٹ‘ کی ایس کےیو فہرست میں شامل ہوگئے۔ حالاں کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘

ٹیسٹ آف امریکہ فوڈ فیسٹول کا ایک خاص فائدہ یہ بھی ہوا کہ بھارتی صارفین کو اس امر کا بھی علم ہوگیا کہ بازار میں کھانے پینے کے کن کن اقسام کی امریکی مصنوعات دستیاب ہیں۔ مزید برآں، صارفین کو اس با ت کا بھی علم ہوا کہ

یہ پکوان لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت افزا تغذیہ سے بھی بھر پور ہیں۔روزمین وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ٹیسٹ آف امریکہ مہم اپنے اندر کافی وسعت لیے ہوئے ہے۔ ہم بھارت میں اپنی مصنوعات کو فروغ دیتے ہیں۔ ان دونوں اقدامات کا مشترکہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی کھانے کی صنعت کو امریکی اجزا(بشمول معیار اور تحفظ، جو کہ بھارت میں امریکی کھانے پینے کی اشیا کی دو سب سے بڑی خصوصیات ہیں) کے صحت سے متعلق فوائد اور ہمہ گیریت کے متعلق بیداری پیدا ہوئی ہے ۔ بھارتی عوام ان امریکی اجزا کو اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں شامل کر سکتے ہیں جس سے پکوانوں کی لذت میں بیش بہا اضافہ ہوگا۔‘‘

عوامی تعلق

دی ٹیسٹ آف امریکہ مہم سے بھارتی کھانے کی صنعت اور امریکی برآمدکنندگان کے درمیان باہمی تعلق قائم ہواجیسا کہ روزمین تصریح کرتے ہیں’’دی ٹیسٹ آف امریکہ مہم کے ذریعہ بھارتی کھانے کی صنعت اور امریکی کمپنیوں اور نمائندگان کے درمیان مستقبل کی تجارت کے لیے ایک مضبوط رشتہ قائم ہوا۔‘‘

روزمین تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیسٹ آف امریکہ فوڈ فیسٹول کے دوران ’’بھارتی صارفین کو روزانہ نئے نئے پکوان بنانا سیکھنے کو ملا۔ وہ ان پکوانوں کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں بآسانی اپنا سکتے ہیں۔ ان پکوانوں کو تیار کرنے کی ترکیب ٹیسٹ آف امریکہ کے ٹوئیٹر ہینڈل اور انسٹا گرام اکاؤنٹ کےسوشل میڈیا صفحات پر پابندی سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘

مزید برآں ،بھارتی صارفین میں بھی امریکہ کے اعلیٰ معیاری، لذیذ اور صحت افزا تغذیہ والی مصنوعات اور اجزا کے متعلق بیداری پیدا ہوئی ہے۔ یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ یو ایس ڈی اے بھارت میں اپنے دفاتر اور نیچرس باسکیٹ جیسے شراکت دارصارفین کو امریکی مصنوعات کے اعلیٰ معیار اور ان میں موجود صحت افزا تغذیہ کے سلسلے میں مستقل معلومات فراہم کرتے رہیں تاکہ وہ ایک بہتر طرز حیات قائم کرسکیں ۔ ساتھ ساتھ ان کی قوت مدافعت بھی مزید مضبوط ہو۔

فن طبّاخی کے اس تہذیبی سنگم سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو تقویت ملے گی۔ کھانے پینے کی اشیا کو بھارت میں برآمد کرنا اور پھر ان کو بھارتی کھانوں میں ملا کر کھانے کی ایک نئی قسم تیار کرنا واقعی اس رشتے کی بہترین مثال ہے۔ گاندھی کہتی ہیں ’’ میرے لیے یہ واقعی بہت فخر کی بات ہے کہ مجھے ٹیسٹ آف امریکہ مہم کے ساتھ جڑنے کا موقع ملا جس میں مَیں نے امریکی اجزا سے لذیذ پکوان بنائے۔‘‘

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس میلے کی بدولت امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات میں مزید لطافت پیدا ہو گئی ہے۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزادپیشہ قلمکار ہیں ۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے