خاتون کاروباری پیشہ وروں کو بااختیار بنانے کی پہل

امریکی محکمۂ خارجہ کی اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینز پروگرام نے شمال مشرقی بھارت میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کواپنے کاروبار کو فروغ دینے، سرمائے میں اضافہ کرنے اور ساتھی کاروباریوں کے ساتھ نیٹ ورک قائم کرنے کی تربیت فراہم کی ہے۔

اسٹیو فاکس

August 2021

خاتون کاروباری پیشہ وروں کو بااختیار بنانے کی پہل

آسام کی ڈفینس اینڈ روبوٹِکس لیباریٹری سے وابستہ پنکھی کشیپ۔ یہ تنظیم روبوٹِکس اور آٹومیشن کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ تصویر بشکریہ پنکھی کشیپ۔

مقامی مصنفین کی کتابیں شائع کرنے والی ناگالینڈ کی کمپنی پینتھرل پبلی کیشن ہاؤس کی بانی اور مالک وِشو ریتا کروچا کہتی ہیں ’’اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینررس(اے ڈبلیو ای) پروگرام کا حصہ بننے سے میری کاروبار ی دنیا کے تمام خلا پر ہوگئے ہیں۔حالا ں کہ یہ چیز ہمیشہ آسان نہیں رہی ہے۔کئی بار ایسا ہوا ہے جب میرے پاس اگلی کتاب چھاپنے کے لیےبھی پیسے نہیں تھے۔ لیکن ان تمام چیلنجوں کے باوجود میں کسی اورکام کے لیے اپنے اس کاروبار کو قربان کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔‘‘

کروچا اس اے ڈبلیو ای پروگرام میں درج شدہ ۱۵۰ کاروباری پیشہ وروں میں شامل ہیں جو ۵۰ سے زائد ممالک میں خواتین کاروباری پیشہ وروں اور ابتدائی مرحلے کے کاروباریوں کو اپنا کاروبار قائم کرنے، اسے فروغ دینے، سرمائے میں اضافہ کرنے اور دیگر کامیاب کاروباریوں کے ساتھ نیٹ ورک بنانے کی خاطر درکار آلات فراہم کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے تعلیمی اور ثقافتی امور کے بیورو کی مالی معاونت سے بھارتی اے ڈبلیو ای پروگرام کا انتظام کولکاتہ میں امریکی قونصل خانے اور میگھالیہ میں واقع تھنک ٹینک، ایشین کانفلوئنس کے درمیان شراکت داری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ منصوبہ بندی، بازارکاری، قیمتوں کا تعین، انتظام و انصرام، حساب کتاب رکھنا، جوکھم سے نمٹنے کے طریقے، مالی معاونت، اہداف کا تعین اور دیگر امور کا احاطہ کرنے والے ۱۳ ہفتوں کے آن لائن کاروباری کورس، ڈریم بلڈر پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے اے ڈبلیو ای خواتین کاروباری پیشہ وروں کو سکھاتا ہے کہ ان کے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔

آسام میں واقع تنظیم لیٹ اس لرن ٹوگیدر (جس کا مقصد ان طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے جو اپنی پڑھائی میں زبان کی رکاوٹ کا سامنا کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ طلبہ شامل ہیں جو نیم شہری اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں) کی دیدیپ چیتیا کہتی ہیں’’میں نے وہاں ایک تفصیلی کاروباری منصوبہ لکھنے کا عمل سیکھا۔میں نے یہ جانا کہ منصوبے میں کیا شامل کیا جانا چاہئے اوروہ کون سے عوامل ہیں جو کاروبار کو متاثر کرسکتے ہیں۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ کاروبار میں حریفوں کے بارے میں کیسے جانیں ،بازار کا سروے کیسے کریں اور کاروبار کو کیسے فروغ دیں۔‘‘

اے ڈبلیو ای پروگرام میں شامل دیگرتنظیموں کی طرح چیتیا کی تنظیم بھی ان مشکلات سے دوچارتھی جن کا انہیں ذاتی طور پر سامنا کرنا پڑا۔ چیتیا بتاتی ہیں’’مقامی زبان میں درس و تدریس والے اسکول کی طالبہ ہونے اور دیہی علاقے میں رہنے کی وجہ سے جہاں کوچنگ کی سہولت دستیاب نہیں ہے، مجھے مسابقتی امتحانات کی تیاری کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے مشمولات انگریزی یا ہندی زبان میں ہی دستیاب ہوتے ہیں ،علاقائی زبانوں میں نہیں۔بعد میں مجھے احساس ہوا کہ مجھ جیسے بہت سے خواہشمند طلبہ ہیں جنہیں اس پریشانی کا سامنا ہے۔ اس سے مجھے ایک پلیٹ فارم شروع کرنے کی ترغیب ملی تاکہ مجھ جیسے طلبہ کو کسی جغرافیائی حد اور زبان کی رکاوٹ کے بغیر مسابقتی امتحانات کی تیاری میں مدد ملے۔‘‘

ناگالینڈ، میگھالیہ، آسام، منی پور اور اروناچل پردیش میں کام کرنے والا اے ڈبلیو ای کئی مختلف اقسام کے کاروباروں میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کی مدد کرتا ہے۔ ایشین کانفلوئنس کےسینئر فیلو اور بھارت میں اے ڈبلیو ای پروگرام کے اہم رابطہ کار پرتھوی راج کہتے ہیں’’کاروبارسے متعلق خیالات جو اے ڈبلیو ای پروگرام کا حصہ ہیں، وہ صحت کی دیکھ بھال، ذہنی صحت، مہمان نوازی، تعلیم، زرعی باغبانی، کھانے اور مشروبات، خوبصورتی اور تندرستی، سفر اور سیاحت، ٹیکسٹائل، فضلہ کا انتظام، ٹیکنالوجی سے متعلق نووارد کمپنیوں اور دستکاری سمیت متعدد شعبوں اور موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

ناتھ بتاتے ہیں کہ پروگرام میں دو افراد پر مشتمل فرموں سے لے کرایسے کاروباری اداروں تک کی کمپنیاں شامل ہیں جو موسمی طور پر کئی سو افراد کو ملازمت فراہم کرتی ہیں۔وہ کہتے ہیں’’اے ڈبلیو ای انڈیا پروگرام کے امیدواروں کا انتخاب اپنےخیالات پیش کرنے کے لیے کھلی دعوت پر کیا گیا جہاں پانچ ریاستوں کی خواتین کاروباری پیشہ وروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے اختراعی کاروباری خیالات اور مستقبل کے منصوبوں کا اشتراک کریں۔امیدواروں کو کئی معیارات پر نمبر دیے گئے جن میں کاروباری خیال کی جدت طرازی، معاشی طور پر بااختیاربنانے اور ذریعۂ معاش پیدا کرنے میں کاروبارکے اثرات اوردیگر امور میں یہ بھی شامل رہا کہ آیا اس خیال کے حصے کے طور پر اس میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کی کوئی طے شدہ گنجائش موجود ہے یا نہیں۔ اس کے بعد امیدواروں کی ان کے اسکور کی بنیاد پر درجہ بندی کی گئی اور ۲۵۰ سے زیادہ امیدواروں میں سے ۱۵۰ کا انتخاب کیا گیا۔‘‘

آسام میں ڈیفنس اینڈ اسپیس روبوٹکس لیبارٹری کی پنکھی کشیپ کا کہنا ہے کہ اے ڈبلیو ای پروگرام میں شامل ایک کمپنی کی تیار کردہ ٹیکنالوجی کورونا کی وبا پر کام کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ابتدائی طور پرہم لوگ کورونا سے جنگ اور اس وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ یرغمال کی صورتحال میں یا پھر قدرتی آفات میں سب سے آگے بڑھ کر کام کرنے والوں کی مدد کے لیے چار پاﺅں والے روبوٹ بنا رہے تھے۔جب کووِڈ وبا کا معاملہ سامنے آیا تو ہم نے اپنی تحقیق کو انسانوں کو جرثومی دشمنوں سے بچانے کے اقدامات کے لیے کام کرنے پر لگا دیا۔ اس کے لیے ہم لوگ تین مصنوعات لے کر آئے جو اچھی طرح آزمائے ہوئے تھے اور کسی بھی سطح سے ۳۰ سیکنڈ کے اندر کورونا وائرس کو غیر فعال بنانے میں کامیاب تھے۔ اے ڈبلیو ای پروگرام نے حیرت انگیز رہنمائی فراہم کی اورکسی بھی خاتون کی ذمہ داری کو سمجھنے میں مدد کی اور اس کے ساتھ ہی نیٹ ورک بنانے میں بہترین سہولت فراہم کی۔‘‘

منی پور میں خوشبو دار مصنوعات تیار کرنے والی ایک چھوٹی سی فرم اکتوبر پمپکن کمپنی کی مالک ریچون کاشُنگ کہتی ہیں’’یہ سفر آنکھیں کھولنے والا اور زندگی تبدیل کرنے والا رہا ہے۔اے ڈبلیوای اور ڈریم بلڈر پروگرام نے مجھے وہ چیزیں سکھائی ہیں جو میری کالج کی تعلیم میں مجھے نہیں ملیں۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے معاشرے کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہوں۔‘‘

ایشین کانفلوئنس کی ایکزیکٹو ڈائرکٹرسبیہ ساچی دتہ کہتی ہیں’’گذشتہ برسوں میں ان میں سے کچھ کاروباری پیشہ وروں کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور انہیں اپنے تجربات کے حساب سے ڈریم بلڈر کی تربیت سے فائدہ اٹھاتے دیکھنا بہت ہی اطمینان بخش رہا ہے۔بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیوں(ایم ایس ایم ای) میں صنفی مساوی ترقی شمال مشرقی خطے کی ترقی کی کلید ہے۔‘‘ بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کو بھارتی معیشت کی نمو کو رفتار دینے والا خیال کیا جاتا ہے۔

ناتھ بتاتے ہیں ’’ اے ڈبلیو ای پروگرام میں شرکا کے درمیان قائم ہونے والے تعلقات کے نتیجے میں ایک ایسا نیٹ ورک سامنے آیا ہے جو کاروباری پیشہ وروں کی ہمیشہ مدد جاری رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ہم واقعی اس بات سے متاثر ہیں کہ کس طرح خواتین نے مضبوط روابط قائم کیے ہیں اور پہلے سے ہی کس طرح ایک دوسرے کے خیالات اور کاروبار کو آسان بنانا شروع کر دیا ہے۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ اس مشغولیت کی سب سے بڑی چیز یہ دیکھنا ہے کہ اس پروگرام کے دوران خواتین نے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کیے ۔ میرا اس بات پر کامل یقین ہے کہ یہ نیٹ ورک اور اے ڈبلیو ای پروجیکٹ کے ذریعے جس دوستی کو ہم لوگ آسان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اس منصوبے سے بھی بہت آگے جائے گی اور اے ڈبلیو ای کی ان بااختیار خواتین کے لیے خیالات، طاقت اور یکجہتی کا ذریعہ بنے گی۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے