روشن مستقبل کو تفویضِ اختیار

یو ایس ایڈ انڈیا کے گریننگ دی گرڈ پروگرام کا مقصد بڑے پیمانے پر متغیر قابل تجدید توانائی کو ہند کے موجودہ پاورگرڈ میں ضم کرنا ہے۔

پارومیتا پین

September 2020

روشن مستقبل کو تفویضِ اختیار

یو ایس ایڈ انڈیا کے تعاون سے گجرات اسٹیٹ الیکٹریسٹی کارپوریشن لمیٹیڈ نے حال ہی میں ہونے والے کم بوجھ والے ٹیسٹ رَن کے دوران اپنی ۵۰۰ میگاواٹ کی یوکائی یونٹ کو اپنی صلاحیت کے صرف ۴۰فیصد پر کامیابی سے چلایا۔ یہ کم بوجھ والے ٹیسٹ رنز جی ایس ای سی ایل کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ سسٹم آپریٹر کے کہنے پر پیداوار کم کرنے کی اپنی صلاحیت اور مُطابقت پذیری کی شناخت کرسکیں تاکہ قابل تجدید توانائی کو مزید مربوط کرسکیں اورپاور گرڈ کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔ تصاویر بہ شکریہ بی اے گاندھی

۲۰۱۸ ءمیں بی پی کی عالمی توانائی رپورٹ کے شماریاتی جائزے میں ہند کی توانائی کھپت کو۸۰۹اعشاریہ ۲ ملین ٹن تیل کے برابر بتایا گیا ہے۔ ملک توانائی کھپت کے معاملے میں صرف امریکہ اور چین سے پیچھے ہے۔ انڈیا اپنی ضرورت کی قریب ۹ فی صد بجلی قابل تجدید وسائل سے پیدا کر تا ہےاور اپنے پاورگرِڈ (بجلی کے ہائی ٹینشن تاروں کا نظام جس کے ذریعہ کسی علاقے میں بجلی فراہم کی جاتی ہے) پر قابل تجدید توانائی کی بے مثال سطحوں کو تعینات کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جس سے معیشت کو رواں رکھنے کے ساتھ کاربن کے اخراج کوبھی بڑی حد تک کم کیا جا سکے اور توانائی سلامتی کو مضبوط بنایا جا سکے۔

گریننگ دی گرڈ۔ رینوویبُل انٹیگریشن اینڈ سسٹینیبُل انرجی (جی ٹی جی۔آر آئی ایس ای)پروگرام موجودہ پاور گرڈ میں بڑے پیمانے پر تغیرپذیر قابل تجدید توانائی (وی آر ای) کو ضم کر کے ہند کو اپنے قابل تجدید توانائی کے اہداف کی تکمیل میں مدد کرنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔جی ٹی جی۔آر آئی ایس ای اصل میں امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ ۔انڈیا ) کا ایک پانچ سالہ پروگرام ہے جو  امریکی حکومت کے ایشیا ای ڈی جی ای یاایشیا ایج(انہینسِنگ ڈیولپمنٹ اینڈ گروتھ تھرو انرجی )پہل کے تحت حکومت ہند کی وزارت بجلی کے ساتھ شراکت داری کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔

توانائی کے اہداف کی تکمیل

یو ایس ایڈ۔ انڈیا کی ریجنل پروگرام منیجر مونالی ضیاء ہازرا کہتی ہیں ۔’’انڈیا نے ۲۰۲۲ءتک اپنے توانائی اہداف میں قابل تجدید توانائی کے۱۷۵گیگا واٹ کو شامل کرنے کاہدف رکھا ہے۔ جی ٹی جی قابل تجدید توانائی کو (جو ملک کو بجلی فراہم کرتی ہے)مرکزی پاور گرڈ میں ضم کرنے سے متعلق حل اور تکنیک کی جانچ ہے۔ اس لیے،قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی متغیر فطرت کی وجہ سے یکساں بجلی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے گرڈ کے استحکام اورسرعت کو یقینی بنانے میں مستقبل میں اہم دشواریاں درپیش ہیں۔“

جی ٹی جی۔ آر آئی ایس ای پروگرام گرڈ کے رکھ رکھاؤ سے متعلق اہم امور کو تفصیلی تجزیہ کے ذریعہ (کہ گرڈ مختلف تکنیکی متبادل کو کس طرح انجام دے سکتے ہیں)، ہندوستانی حالات کے لیے مخصوص بعض ٹیکنالوجیز کے مظاہرے کے ذریعہ اور بہترین طریقوں سے متعلق علم کے اشتراک کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مطالعات اور پائلٹ پروجیکٹس

پہلی تفصیلی نمونہ سازی ۲۰۱۷ء میں وزارت بجلی کے تحت آنے والی حکومت ہند کی ایک کاروباری کمپنی پاور سسٹم آپریشن کارپوریشن لمیٹڈ اور قومی قابل تجدید توانائی لیبارٹری(امریکہ میں واقع شعبہ توانائی کی تجربہ گاہ) کے ساتھ مل کر کی گئی تھی۔ اس کے بارے میں ہازرابتاتی ہیں ’’ اس رپورٹ میں مختلف امور پر توجہ مرکوز کی گئی جیسے کہ ہند میں کس طرح سے مناسب مقدار میں گیس سے بننے والی سستی بجلی دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح کوئلہ سے چلنے والے بجلی بنانے والے کارخانوں کو زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے اور ضرورت پڑنے پر بجلی کی پیداوار کو کم کرنے کے معاملے میں زیادہ لچکدار بنانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیوں کے نفاذ کے لیے جدید تکنیکی انضباط کی بھی ضرورت ہے۔“

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ قابل تجدید توانائی کا انضمام مجوزہ بجلی نظام کے منصوبوں اور ضوابط کی بنیاد پر قابلِ حصول ہے اور اس طرح قابل تجدید توانائی کی یہ سطح ایندھن کی بچت اور اخراج کو کم کرنے کے فوائد کی پیشکش کے ساتھ ساتھ بجلی کی مجوزہ مانگ کو پورا کرتی ہے۔ ہازرا اس کے بارے میں بتاتی ہیں ’’یہ ایک انتہائی مشاورتی مطالعہ تھا اوراس کا مقصد اس منصوبے میں شامل شرکا ء کی استعداد کو بڑھانا تھا۔“

اس کا اگلا مرحلہ پائلٹ اسٹڈی (کسی تحقیقی پروجیکٹ کا ایک اہم مرحلہ جس کا مقصد ممکنہ مسئلہ والےگوشوں کا پتہ لگانا ہوتا ہے)کا تھاتاکہ نتائج کی توثیق کی جا سکےاور ساتھ ہی ساتھ توانائی کے ذخیرے کے لیے موزوں بیٹری اور دیگر امور کے مسئلوں کا حل تلاش کیا جا سکے۔اس کے بعد ٹیکنالوجیز کو منتقل کرنے اور اس کی توسیع کے لیے معلومات کے اشتراک سے متعلق ورکشاپس منعقد کی گئیں اور ۶ پائلٹ پروجیکٹس نافذ کیے گئے۔

ان میں سے ایک پائلٹ پروجیکٹ گجرات اسٹیٹ الیکٹریسٹی کارپوریشن لمیٹڈ (جی ایس ای سی ایل) کے پاس تھا۔ جی ایس ای سی ایل کےایکزیکٹو انجینئر (کاکردگی) بی اے گاندھی کہتے ہیں ’’پچھلے چار سالوں میں یو ایس ایڈ۔ انڈیا کے جی ٹی جی – آر آئی ا یس ای کے اقدام نے روایتی کوئلہ پر مبنی یونٹوں کی تکنیکی تجارتی افادیت کا پتہ لگانے میں جی ا یس ای سی ایل کی بہت مدد کی ہے تاکہ کام کاج میں تیزی سے اضافہ کیا جا سکے،کمی کے مسئلہ سے نمٹا جا سکے اور موجودہ طریقۂ کار، ساز وسامان، عمل اور عملیاتی طریقوں کی روشنی میں تکنیکی دشواریوں کو کم سے کم کیا جائے۔“

پائلٹ پروجیکٹ نے جی ایس ای سی ایل کو قابل عمل تکنیکی۔معاشی موزونیت، خصوصی بجلی پلانٹ، لچک کی مطلوبہ سطحوں کے حصول کے لیے متبادل طریقوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنے کے قابل بنایا جو ایندھن کےمجموعۂ نظم، پانی اور بھاپ کے مجموعۂ نظم سے وابستہ پہلوؤں سے متعلق ہیں اور جو دیگر شعبوں میں بجلی پلانٹ کے اندر نظاموں اور کام کرنے والی اور رکھ رکھاؤ کی ٹیموں کی صلاحیت سازی کو کنٹرول کرتا ہے۔

علاقائی توانائی کا تحفظ

ایک دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اشتراکِ عمل جنوبی ایشیا میں علاقائی توانائی کی حفاظت سے متعلق امور کو حل کرتا ہے۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ مربوط ایک بڑا گرڈ زیادہ لچکدار وسائل کے متبادل فراہم کرنے کا مادّہ رکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ممالک ہند کے ذریعہ تیار کردہ کم لاگت والی زیادہ قابل تجدید توانائی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ہند، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال نے ٹرانسمیشن لنک قائم کیے ہیں جن کے ذریعے بجلی کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔ ہازرا بتاتی ہیں ’’یو ایس ایڈکے پاس ایس اے آر آئی / ای آئی(جنوب ایشیائی علاقائی اقدام برائے توانائی انضمام)پروگرام ہے جو علاقائی انضمام کی حمایت کرتا ہے۔مجموعی خیال ٹرانسمیشن سسٹم کو مضبوط بنانا ہے جو بجلی کی آسان فراہمی کوممکن بنائے گا۔ اگر وسیع تر گرڈ نیپال اور بھوٹان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے مربوط ہوسکتاہے تو مشترکہ وسائل کو بروئے کار لاکرہند کے پڑوسی ملکوں کے پاس موجود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے پن بجلی مسئلوں کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔“

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈامیں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے