پریرنانامی تنظیم خواتین اور بچوں کے حقوق کا دفاع ، ان کی تعلیم اور صحت کی حمایت اور وکالت کی کوششوں کی قیادت کرکے انہیں انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے محفوظ کرتی ہے۔
December 2021
پریرنا کے ’نائٹ کیئر سینٹرس‘ کو ریڈ لائٹ علاقوں میں بچوں کے تحفظ اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یہ پہل جنسی تجارت میں ملوث ماؤں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے شروع کی گئی تاکہ ایسی خواتین کے بچے رات کے وقت محفوظ رہیں۔ اسکرین شاٹ بشکریہ پریرنااینٹی ٹریفکنگ ڈاٹ او آر جی۔
منگلا (جس نے اپنا اصل نام نہیں لکھنے کی گزارش کی ہے)کو اس کے ایک دوست نے ، جس سے اس کی ملاقات ممبئی میں ہوئی تھی، اسے ۱۵ برس کی عمر میں گھر سے بھاگنے کے بعد جنسی کاروبار میں ملوث کر دیا تھا بتایا’’میں ہمیشہ سے عزت اور وقار کی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر اب تک نہیں مل پائی تھی مگر اب یہ خواب حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میں اب جنسی کاروبار کا حصہ نہیں ہوں اور جہاں تک ممکن ہو اس سے دور رہ کر زندگی گزارنا چاہتی ہوں ۔ میں اب ایک نرس کے طور پر کام کرتی ہوں اور بوڑھی خواتین کی دیکھ بھال کرتی ہوں کیوں کہ یہ وہ کام ہے جس کا کرنا مجھے پسند ہے۔ ‘‘
آشا(جس نے بھی اپنا حقیقی نام نہیں لکھنے کی گزارش کی ہے )کو بھی دھوکہ دے کر گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ بتاتی ہے ’’مجھے تقریباً ۲۰ سال قبل کام کے مواقع کے وعدے کے ساتھ میرے گاؤں سے ممبئی لایا گیا تھا لیکن جنسی کاروبار میں ڈھکیل دیا گیا۔ میں نے اس وقت بھاگنے کی سوچی مگر ایسا نہیں کر سکی کیوں کہ میں کسی کی ملکیت تھی ۔ اور میرے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔‘‘
منگلا اور آشا کو سول سوسائٹی کی ایک تنظیم پریرنا نے اس سے نجات دلائی ۔ اس تنظیم نے ۱۹۸۶ء میں ممبئی کے ریڈ لائٹ علاقوں میں کام کرنا شروع کیا۔مگر کئی دیگرمنگلا اور آشا کی طرح خوش قسمت نہیں ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی’ ٹریفکنگ ان پرسنز‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے ’’ اسمگلر بھارت کے اندر لاکھوں لوگوں کا جنسی استحصال تجارت کے لیے کرتے ہیں ۔‘‘ یہ لوگ ملکوں کے اندر خواتین اور لڑکیوں کو تو نشانہ بناتے ہی ہیں ، سرحدوں پر بھی بڑی تعداد میں خواتین اور لڑکیوں کو دھوکے سے جنسی اسمگلنگ کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔
اسمگلنگ کے خطرے سے نہ صرف افراد بلکہ کنبے اور طبقات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ منگلا اور آشا دونوں بچے والیاں ہیں ۔ اپنے تجربات سے سبق سیکھ کر انہوں نے اپنے بچوں کو جنسی کاروبار سے بچانے کا تہیہ کر رکھا تھا جس کا شکار بچے رات کے وقت ہو جایا کرتے ہیں۔ دونوں اپنے بچوں کو چار میں سے ایک ’پریرنا نائٹ کیئر سینٹر‘ میں لے آئیں جہاں بچے صحت بخش کھانے ، محفوظ کھیل اور صفائی کے متبادل ، تعلیمی مدد، حفظان صحت اور دیگر خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے رات بھر قیام کر سکتے ہیں۔
اسمگلروں کا شکار بننے والے بچے کیسی عدم تحفظ کی زندگی گزارتے ہیں ، یہ ۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آئے ایک مطالعے سے واضح ہے جس نے ۱۰۹ لڑکیوں کا مجموعی سماجی پروفائل فراہم کیا ہے جنہیں تنظیم نے ممبئی میں جنسی کاروبار سے بچایا۔ مذکورہ لڑکیوں میں ۵۲ فی صد کی عمر۱۸۔۱۶ کے درمیان اور باقیوں کی ۱۶ برس سے کم تھی۔ ان میں سے کچھ کی عمر۱۲۔۶ سال کے درمیان بھی تھی ۔ ان میں سے ۲۶ فی صد بھی اسکول نہیں گئیں جب کہ ۷۱ فی صد نے چوتھی سے دسویں کلاس تک تعلیم حاصل کی۔
لفظ پریرنا ہندی اور سنسکرت زبانوں سے مشتق ہے ۔پریرنا تنظیم کو پروین پاٹکر اور ان کی اہلیہ پریتی نے مشترکہ طور پر قائم کیا ۔ پاٹکر ایک فلبرائٹ فیلو اور ماہر تعلیم ہیں جنہوں نے ممبئی یونیورسٹی سے عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی جب کہ ان کی اہلیہ پریتی نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس سے سوشل ورک میں ماسٹر ڈگری لی۔ دونوں نے مل جل کر پریرنا کی راہنمائی کی ہے ۔ انسانی اسمگلنگ کے دیرینہ مسئلے کے خلاف جنگ میں ایک راہنما بننے کے لیے تنظیم کی خدمات کا دائرہ کار ۳۰ سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔
پاٹکر کا کہنا ہے ’’ ہم نے اپنے فلیگ شپ پروگراموں سے،جو بین نسلی جنسی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لیے مقامی طور پر بنائے گئے تھے، اس کی توسیع بعض بھارتی طبقات میں موجود جنسی اسمگلنگ کے نقصاندہ سماجی رسومات سے نمٹنے تک کی۔امریکی محکمہ خارجہ کی حمایت اور حوصلہ افزائی سے ہم نے ’ نالج ہب اینٹی ٹریفکنگ سینٹر ‘ قائم کیا جس پر ماہرین اور متعلقہ فریقوں کو بہت زیادہ بھروسہ ہے۔‘‘
جنسی اسمگلنگ کے متاثرین کی براہ راست مدد کرنے کے علاوہ پریرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس مسئلے کے بارے میں معلومات میں اضافہ ، انسداد اسمگلنگ کی حسّاسیت کو منظم کرنے اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف موجودہ قوانین کے نفاذ کو موثر بنانے کے لیے بھی کرتی ہے۔پاٹکر بتاتے ہیں ’’ ہم ریاستی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں عدالت میں چیلنج کرتے ہیں۔ ہم نے مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کے خلاف عدالتی صف بندی کا بیڑا اٹھا یا ہے۔اس لیے اب قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ’ قانون کی حکمرانی‘ نسبتاً زیادہ ہے، متعلقہ قوانین کے تحت درکار ضوابط کا نفاذ کیا جا رہا ہے ، نظام بھی مضبوط ہو رہا ہے اور مداخلتوں کی پائیداری میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ان برسوں میں پریرنا نے جنسی کاروبار سے بچائے گئے لوگوں کی مدد کے لیے کئی پروگراموں کا آغاز بھی کیا ہے ۔ پاٹکر بتاتے ہیں’’جنسی اسمگلنگ کے متاثرین کی بازآبادکاری ناکامیوں سے بھری ہوئی ایک تاریک سرنگ تھی اور اسے کامیابی کی کہانیوں کی اشد ضرورت تھی۔ پریرنا نے متاثرین اور متاثر ہونے کی صورت حال کے بارے میں ایک مناسب نقطہ نظر پیدا کیا اور متاثرین کے بارے میں سماجی غلط فہمی کو دور کیا ۔ ہم نے ریاستی اور شہری معاشرے کی تنظیموں کے ساتھ مل کر وہ روشنی فراہم کی جو سرنگ کے اختتام کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘
اگرچہ انسانی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے، لیکن پاٹکر اس سے نمٹنے کی کوششوں کے ارتقا سے پرجوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اب انسانی اسمگلنگ کے بارے میں بہتر تصوراتی وضاحت آ گئی ہےاور ایک اجارہ دار پروگرام سے ہٹ کر ایک وسیع البنیاد سماجی تحریک میں مداخلت کا میل جیل ہوا ہے۔‘‘
بہت ساری سول سوسائٹی تنظیمیں انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام میں تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی قوانین، عالمی اور اقوام متحدہ اجلاس کے ساتھ بہتر مطابقت پیدا کر رہی ہیں ۔ ہمارا منتر ہے ’ تمام لوگ موزوں ہیں اور سب کو ایک کردار نبھانا ہے‘…عدالت عالیہ سے لے کر آٹو رکشہ ڈرائیور تک، عالمی کھلاڑیوں سے لے کر مقامی سطح پر کام کرنے والے افراد تک ۔
اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ