مساوات بہتر کاروبار کا ضامن

کاروباری قیادت میں صنفی تنوع کمپنیوں کے لیے بڑے فوائد کا باعث ہے جو نئے نقطہ نظر اور تنقیدی خیال و فکر سے پیدا ہوتا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

October 2021

مساوات بہتر کاروبار کا ضامن

تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے سے ہر کس و ناکس فیضیاب ہوتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں منظر عام پر آئی میکنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر ہر ملک کاروباری قیادت میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کرے تو دنیا میں کھربوں ڈالر زیادہ آمدنی پیدا کی جا سکتی ہے۔

ایک دہائی قبل تک بھارت میں خواتین کے زیر انتظام کارپوریشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہوا کرتا تھا لیکن اب دنیا کافی بدل گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی تعداد میں خواتین چیف ایکزیکٹو آفیسرس (سی ای اوز) کاروبار، مالیات، زراعت اور ٹیکنالوجی جیسے متنوع شعبوں میں اہم کاروباری اداروں کی قیادت کر رہی ہیں۔ باصلاحیت سی ای اوز بھارت کے مستقبل میں خواتین کے کردار کی پھر سے تشریح کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ اس میں شامل تمام لوگوں کے لیے یہ ایک بہت اچھی بات ہے۔

اختراعی مالیاتی پلیٹ فارم، ناردرن آرک کیپیٹل کی سی ای او چھما فرنانڈیس کہتی ہیں ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ متنوع قیادت سب کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے ۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ کارپوریٹ بورڈجن میں خواتین شامل ہیں، صرف مردوں پر مشتمل کارپوریٹ بورڈکے مقابلے اعلیٰ سطح کی مالی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا کاروباری قیادت میں صنفی تنوع بنیادی طور پر تخلیقی اختراعات کی بنیاد رکھتا ہے۔

تحقیق اس خیال کی تائید کرتی ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے سے ہر کسی کا فائدہ ہوتا ہے۔ میکنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی ۲۰۱۶ءکی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ہر ملک کاروباری قیادت میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کرے تو دنیا میں کھربوں ڈالر زیادہ آمدنی پیدا کی جا سکتی ہے۔

کارگذاردفاتر میں متنوع آوازیں، بہتر کاروباری حکمت عملی، انتظام اور فیصلوں کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ہَلٹ انٹرنیشنل بزنس اسکول کی پروفیسر ٹیسا میسیاسزیک نے کاروبار میں خواتین کے تعلق سے منعقد ایک ویبینار کے دوران کہا ’’بہترین ارادوں کے باوجود ہم ان لوگوں کی طرف راغب ہونے کا رجحان رکھتے ہیں جو ہمارے جیسے ہیں۔ ‘‘اس بات کو ایک حقیقی رہنما ہی کہہ سکتا ہے کہ’مجھے چیلنج کرنے کے لیے کسی شخص کی ضرورت ہے.‘ یہ چیلنج نئی تخلیقی صلاحیتوں، اختراع اور ترقی کو جنم دے سکتا ہے۔

جب خواتین کارپوریٹ قیادت کی ذمہ داری سنبھالتی ہیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کے تجربات، نقطہ نظر، نیٹ ورک اور تربیت سامنے لاتی ہیں بلکہ طاقتوں کا ایک منفرد مجموعہ پیش کرتی ہیں جو ہر طرح کے کاروبار کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ ہے گروپ کے ایک مطالعے میں موافقت، ٹیم ورک اور تنازعات کے انتظام کے انتہائی اہم شعبوں میں مردوں کے مقابلے خواتین مستقل طور پر بہتر مظاہرہ کرتی ہوئی پائی گئیں۔ مطالعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بورڈ رومز میں خواتین کی شمولیت( جس میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر وہ فائز ہوں) مسائل کو حل کرنے میں اور مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی بنانے میں کاروباری اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے۔

اتنی زبردست پیش رفت کے باوجود کاروبار کی دنیا میں ترقی کرنے میں خواتین کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کام کی جگہوں پر جب تقرری، اجرت، تنخواہ اور ترقی کی بات آتی ہے تو خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرنانڈیس کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اجتماعات میں خواتین سی ای اوزکو شریک حیات یا سیکرٹری سمجھنے کی غلطی کرنا آسان اور پریشان کن بھی ہوتا ہے۔ خواتین رہنماؤں کو باقاعدگی سے اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے زیادہ محنت کرنی چاہئے تاکہ وہ مردوں کے زیر اثر جلسوں میں اپنی بات پرزور طریقے سےکہہ سکیں۔

صنفی بنیاد پر درپیش چیلنجوں کے پیش نظر فرنانڈیس’’فخر کے ساتھ اپنے حصے کا دعویٰ کرنےکے لیے‘‘ خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ’’خود کی شناخت برقرار رکھنے، خواتین رہنما ہونے، انتظام و انصرام کے تعلق سے اپنے انداز اور مسائل اور بحرانوں سے نمٹنے کے ان کے نقطہ نظر پر فخر محسوس کرتے رہنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘‘ فرنانڈیس صنفی مساوات کو بحث و عمل کا مرکزی موضوع بنانے کے لیے کاروباری قیادت کے کردار میں مرد اور خواتین دونوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’تبدیلی اسی وقت آئے گی جب ہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری ضرورت اور ذمہ داری کا ذاتی احساس کریں گے۔‘‘

فرنانڈیس ان متعدد خواتین سی ای اوز میں سے ایک ہیں جو امریکی عالمی ترقیاتی معاشیاتی کارپوریشن (ڈی ایف سی) کی مدد سے سخت محنت، اختراع اور اپنی ذہانت کے ذریعے بھارتی صنعتوں میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں۔ امریکی حکومت کا ترقیاتی مالیاتی ادارہ، ڈی ایف سی ترقی پذیر دنیا کو درپیش انتہائی اہم چیلنجوں کے حل کی خاطر مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ شراکت کرتا ہے۔ فرنانڈیس کے علاوہ بھارت میں دو دیگر انتہائی کامیاب سی ای اوز( پورنیما کھنڈیلوال اور ہاردیکا شاہ، جن کے کاروباری اداروں کو ڈی ایف سی کی جانب سے مالی امداد ملی ہیں)کے بارے میں مزید پڑھیں۔ فرنانڈیس، کھنڈیلوال اور شاہ نے اپنی اختراعی کمپنیوں کو قومی یا بین الاقوامی درجے تک پہنچا دیا ہے اوراب وہ خواتین رہنماؤں کی آئندہ نسلوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے