بھارت کے بٹرفلائی مین کے نام سے معروف آئزک کیہیمکر اس مضمون میں فلبرائٹ فیلوشپ کے دوران امریکہ میں اپنی تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
January 2020
آئزک کیہیمکر ٹری پیپُل میں جو کیلیفورنیا میں واقع ایک گیر منافع بخش تنظیم ہے جس کے ساتھ انہوں نے فلبرائٹ فیلوشپ کا زیادہ تر وقت گزارا۔ تصویر بشکریہ آئزک کیہیمکر
ہند کے بٹر فلائی مَین کے نام سے معروف آئزک کیہیمکر اپنے کام اور ۲۰۰۶ میں ملی فل برائٹ فیلو شپ کے تحت امریکی غیر سرکاری تنظیموں کے مطالعے سے ہونے والے تجربات کے بارے میں بات کر تے ہیں۔
ہند کے بٹر فلائی مَین کے نام سے معروف آئزک کیہیمکر ماحولیاتی تحفظ کے ایک کبھی نہ تھکنے والے حامی ہیں جو حسنِ فطرت سے تحریک پاکر اپنا موقف رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’ تتلیاں اپنے شوخ رنگوں، خوبصورت اندازِ پرواز اور اپنی نزاکت سے ہمیشہ ہمیں راغب کرنے سے نہیں چوکتیں۔ وہ جمالِ فطرت کی جانب ہماری توجہ کھینچنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔‘‘
فطرت سے محبت کا جذبہ کیہیمکر کے دل میں بچپن سے ہی پیدا ہو گیا تھا۔ بچپن میں جب ممبئی میں ان کی پرورش ہورہی تھی تو ان کے والدین پالتو جانوروں کو رکھنے اور جانوروں کی تصویروں سے بھری کتابیں پڑھنے میں ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ اور جب وہ آٹھویں کلاس میں تھے تو والدین نے انہیں ایک کیمرہ لا کر دیا تھا۔اس کے بعد کیا ہوا، وہ خود بتاتے ہیں ’’ فطری عناصر کی تصویر کشی ‘‘کرتے کرتے مجھے اس کی لت پڑ گئی۔
انہوں نے یونیورسٹی آف ممبئی سے سیاسیات اور نفسیا ت میں گریجویشن کیا۔ وہ بتاتے ہیں ’’ تاہم فطرت سے میری وابستگی ہمیشہ مستحکم رہی ہے۔‘‘
پھر انہیں بومبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی (بی این ایچ ایس)میں رضاکار کے طور پر اپنی خدمات فراہم کرنے کا موقع ملا ۔ یہیں بعد میں انہوں نے لائبریری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ان کے لیے لائبریری جنت سے کم نہیں تھی۔ ان کی ملاقات وہاں خاص طوربرڈ مَین آف انڈیا کے نام سے مشہور سلیم علی سے ہوئی۔ اس ملاقات نے انہیں بہت مسرور کیا۔کیہیمکر جب علی کی تحریر کی ستائش کے لیے ان سے ملے تو علی نے انہیں جو کچھ کہا وہ تمام چیزیں کیہیمکر کے لیے رہنما ہدایات بن گئیں۔
وہ آگاہ کرتے ہیں ’’ اپنی تحریر میں اس طرز کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کافی محنت کی ۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دنیا کو اپنے کام کا بہترین پہلو دیکھنے کا موقع دوں۔ انہوں نے کہا کہ بعض مواقع زندگی میں صرف ایک بار آتے ہیں اور لوگوں کو اس کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
سوئے قسمت کیہیمکر اس وقت بالکل درست جگہ پر تھے جب اسی زمانے میں شروع کیے گئے رسالے سینکچری ایشیا میگزین کے ایڈیٹر بِٹّو سہگل نے انہیں تتلیوں پر ایک مضمون لکھنے کا موقع دیا ۔انہوں نے اس کے بعد تتلیوں کی تلاش میں ہند کے دور دراز علاقوں کا دورہ شروع کیا ۔ وہ بتاتے ہیں ’’ تب میں نے پنکھوں والی بیش قیمت تتلیوں کا تعاقب شروع کیا ۔مجھے معلوم ہوا کہ انڈیا کتنا خوبصورت اور کتنا متنوع ہے۔مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ اسے دیکھنے اور جاننے کے لیے صرف ایک زندگی کافی نہیں ہے۔‘‘
جب کیہیمکر کا مضمون شائع ہو گیا تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر انڈیا(ڈبلیو ڈبلیو ایف ۔ انڈیا )نے ان سے انڈیا میں پائی جانے والی تتلیوں پر شراکت میں ایک ابتدائی کتاب لکھنے کو کہا جووقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔اس کے بعد جو ہوا وہ ان کی ہی زبانی سنیے۔ وہ کہتے ہیں ’’ اور تب بی این ایچ ایس نے مجھے تتلیوں پر ایک کتاب لکھنے کو کہا ۔‘‘ جب کتاب منظر عام پر آئی تو اس نے بی این ایچ ایس کی کتابوں کی فروخت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور کیہیمکر کو انڈیا کا بٹر فلائی مَین قرار دینا یقینی بنایا۔
سنہ ۲۰۰۶ ء میں انہوں نے فل برائٹ فیلو کے طور پر امریکہ کا دورہ کیا تاکہ وہ اس چیز کا مطالعہ کرسکیں کہ وہاں غیر سرکاری تنظیمیں ماحولیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اور لوگوں کو ماحولیات کے تئیں زیادہ بیدار کرنے کے لیے کس طرح کام کرتی ہیں ۔ کیہیمکر اسے آنکھ کھول دینے والے ایک تجربے کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں انہیں ٹیم مینیجمنٹ، فنڈ اکٹھا کرنے کے عمل اور میڈیا تعلقات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔وہ باخبر کرتے ہیں ’’ فل برائٹ فیلو شپ نے مجھے جو کچھ دیا ہے ، اس کی مدد سے ہی یہ تمام چیزیں ممکن ہو پائی ہیں۔فیلوشپ کے دوران مجھے جو قیمتی تربیت ملی میں اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے ہمیشہ ممنون رہوں گا۔‘‘
کیہیمکر نے فیلو شپ کے زمانے میں امریکہ میں جو سیکھا وہ اس کے ساتھ انڈیا آئے اور اپنی ایک فیلو شپ ساتھی ڈاکٹر وی شُبھ لکشمی کے ساتھ مل کر ۲۰۱۴ ء میں اپنی تنظیم نیچر واچ فاؤنڈیشن کے قیام سے پہلے دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ان تجربات کا اشتراک کیا۔یہ تنظیم شہری حیاتیاتی تنوع اور شہری سائنس پر توجہ دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ورکشاپ،نیچر واک، کیمپ اور دیگر کورس کابھی اہتمام کرتی ہے۔ ممبئی میں واقع یہ تنظیم تتلیوں کی پھلواریاں (بٹر فلائی گارڈن)اور ان کے مسکن بھی قائم کرتی ہے جو مقبول سیاحتی مقامات کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔
ان کا مشاہدہ ہے کہ انڈیا میں تقریباََ ۱۵۰۰ اقسام کی تتلیاں پائی جاتی ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں ’’ بٹر فلائی پارک کا مطلب لوگوں کو قدرت سے مزید نزدیک لاناہوتا ہے۔ اور جب انہیں ایک بار قدرت سے محبت ہو جاتی ہے تب وہ پھر اس کی حفاظت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
وہ متشکر ہیں کہ نوجوان نسلوں نے فطرت کے مطالعہ اور تحفظ میں ایک نئی دلچسپی پیدا کی ہے۔ خدمت کے اپنے حصے کے طور پر آئی نیچر واچ نے اسکولوں اور کالجوں میں نجی زمرے کے زیر اہتمام اوپن ایئر بٹرفلائی گارڈن قائم کیے ہیں جوطلبہ کے لیے زندہ تجربہ گاہوں کا کام کرتے ہیں۔
تتلیوں سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ کوئی ماحول صحت مند ہے یا نہیں۔ تتلیاںآب و ہوا کی تبدیلی کے نمونوں کا بھی پتہ لگاسکتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ فصلوں کی تخم کاری بھی کر تی ہیں۔ کیہیمکر کہتے ہیں ’’ مذکورہ کام تتلیوں کو فطری دنیا کا بہترین سفیر اور آزادی ، محبت ، سکون اور خوبصورتی کی علامت بنا دیتے ہیں۔‘‘
کینڈس یاکونو جنوبی کیلی فورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔
تبصرہ