ماحول موافق طرز حیات

نیکسس سے تربیت یافتہ اسٹارٹ اَپ بایوکرافٹ اننوویشنس کے ذریعہ بنائی گئی بانس کی پائدار مصنوعات سے محض ایک ہی بار ہی استعما ل ہونے والی پلاسٹک کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔

جیسون چیانگ

May 2021

ماحول موافق طرز حیات

 بایو کرافٹ اننوویشنس کی آرگینِک بانس سے بنائی گئی ماحول موافق مصنوعات کے ذخیرے کو بایومائزبَرینڈ نیم سے بازار میں اتارا گیا۔ تصویر بشکریہ انوبھو مِتّل

نیکسس سے تربیت یافتہ اسٹارٹ اَپ بایوکرافٹ اننوویشنس کے ذریعہ بنائی گئی بانس کی پائدار مصنوعات سے محض ایک ہی بار ہی استعما ل ہونے والی پلاسٹک کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے اعداد وشمار کے مطابق ایک منٹ میں ایک ملین پانی کی پلاسٹک بوتلیں خریدی جاتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر ہر سال پانچ ٹریلین ایک بارہی استعمال ہونے والا پلاسٹک کام میں لایا جاتا ہے۔ مزید برآں، جتنا بھی پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے اس کے نصف کی تخلیق صرف ایک ہی بار استعمال کے لیے ہوتی ہے۔ ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی تکثیر زمین کی ماحولیات کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ اپنی دورا نیہ حیات کے ہر ایک مرحلہ پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے لیے ذمہ دار ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع مرکز برائے بین اقوامی ماحولیاتی قانون کی ”پلاسٹک اور ماحولیات :پلاسٹک کرہ ارض کا پوشیدہ خرچ“ نامی رپورٹ اس کا انکشاف کرتے ہوئے کہتی ہے”پلاسٹک سے اخراج نہ صرف یہ کہ پلاسٹک پیداوار اوراس کی تیاری کے دوران ہوتا ہے بلکہ اس کے دوارنیہ حیات کے ہر مرحلے پر یہی کیفیت ہوتی ہے – روایتی ایندھن جو کہ بنیادی طور پر پلاسٹک کے لیے خام مال کا کام کرتے ہیں ، ان کوحاصل کرنے اورلے جانے میں، ان کی صفائی ستھرائی میں اورتیار کرنے میں، ان کے فضلہ کے انتظام سے لے کر یہاں تک کہ پلاسٹک ماحول میں داخل ہونے تک میں اخراج ہوتا ہے۔‘‘

نیکسس سے تربیت یافتہ ایک اسٹارٹ اَپ نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر حل تلاش کیا ہے: بانس سے بنی پائدار مصنوعات۔۲۰١۹ء  سے ہی بایو کرافٹ اننوویشن نے پلاسٹک کے متبادل کے طور پر بانس سے بنائے گئے فائبر کے ساتھ تجربات کر رہی ہے۔ پہلے بانس اور دیگر زرعی فضلہ کو گودہ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس میں مزید کچھ اور چیزیں ملائی جاتی ہیں تاکہ اس میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہو۔اس کے نتیجہ میں حقوق ملکیت والا بانس کادانہ تیار ہوتا ہے۔ اس کو کمپنی کپڑوں اور زیب تن نہ کیے جا سکنے والے فائبر میں تبدیل کرتی ہے۔ بایو کرافٹ  نے اس اختراع کو آئی بی اے این ایس ایس گرینیولس نام دیا ہے۔

بایو کرافٹ اننوویشن کے بانی اور سی ای او انوبَھومِتَّل بتاتے ہیں” ہمارے آئی بی اے این ایس ایس گرینیولس کاغذ کے گودے ا ور دیگر بغیر لکڑی والے فضلہ جیسے بانس سے حاصل ہوتا ہے ۔ پھر اسے کاغذ کے گودے  کے فائبر میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ بعد ازاں اس فائبر کو نشاستہ اور دیگراضافی اشیا کی مدد سے مصنوعی گوند میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس مصنوعی گوند کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ گرم ہوجانے پر نرم ہوجاتا ہے اور ٹھنڈا ہونے پر سخت ہوجاتا ہے۔ اس مصنوعی گوند کو پلاسٹک بنانے والی معیاری مشینوں جیسے انجیکشن مولڈنگ یا فلم بلوئنگ مشین سے بہ آسانی پراسیس کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بایو کرافٹ اننوویشن نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹرکے نیکسَس اسٹارٹ اَپ ہب کے دسویں گروپ کا حصہ تھی۔ نیکسَس دراصل  نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ اور غیرمنفعت بخش تنظیم اتحاد برائے تجارت اور اختراعی تحقیق کے درمیان اشتراک ہے۔ اس کا مقصد بھارت میں اسٹارٹ اَپ اور کاروباری ماحول کو فروغ دینا ہے۔

بھارت کے جنگلات میں بایوماس کے وسیع وسائل ہیں۔ جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں بانس کے باغات افراط سے پائے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں ۵۱ملین ہکٹیرسے بھی زائد اراضی پر۱۳۶ اقسام کے بانسوں کی کھیتی ہوتی ہے۔ بایو کرافٹ اننوویشن کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں افراط سے پائے جانے بانس سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ علاقائی طبقات کی زندگیوں کو بھی خوش حال بنایا جائے۔ مِتَّل کہتے ہیں ”ہمارا منصوبہ ہے کہ ہم براہ راست کسان سے ہی خام مال خریدیں اور وہ بھی بازار کی قیمت سے زیادہ داموں پر۔ اس عمل کے دوران ہم دیہی نوجوانوں اور خواتین کو بھی مشغول کرتے ہیں اور سا تھ ہی ان کو تربیت بھی دیتے ہیں تاکہ وہ مقامی طور پرروزگار کے مواقع پیداکر سکیں۔‘‘

بایو کرافٹ اننویشن نے اپنی اہم دریافت آئی بی اے این ایس ایس بانس گرینیول سے بانس کی آرگانک مصنوعات کااپنا پہلاماحول دوست مجموعہ بایو مائیز برینڈ کے نام سے بازار میں اتارا ہے۔ اس مجموعہ میں پلیٹیں، ڈونگے، سامان رکھنے والے برتن کے علاوہ چاقو، کانٹا اور چمچ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے دورانیہ حیات ختم ہونے کے بعد پوری طرح سے گل جاتے ہیں۔ اس گلے ہوئے مادہ سے کم لاگت میں قدرتی کھاد بنائی جا سکتی ہے۔ ایک تکہ پروسنے والی تشت کی قیمت ۳۴۵ روپے ہے جبکہ مکمل ڈنر سیٹ کی قیمت ۲۲۹۰روپے ہے۔

کووِڈ۔۱۹عالمی وبا کے سبب سامانوں کو بنانے کے لیے ضروری خام مواد کی فراہمی میں خلل پڑا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے مِتَّل کی ٹیم نے خود کفیلی اور مقامی وسائل کو دانش مندانہ طور پر استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔ طبی ضرورت کے لیے حفاظتی اشیا بنانے میں پلاسٹک ٹیکسٹائل کے مطالبہ میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں بایو کرافٹ اننوویشن نے موقع ڈھونڈ نکالا اور اب وہ آئی بی اے این ایس ایس بانس گرینیول سے بایو پالیمر تیار کر رہی ہے۔ مِتّل کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی۹۰ سے ۹۵فی صد تحفظ فراہم کرنے والے بایو پالیمر سے بنے چہرے کے ماسک بھی بازار میں اتارے گی۔ مزید برآں کمپنی  جراثیم سے حفاظت کرنے والے چہرے کے ماسک کے لیے بانس کے چارکول والے فلٹر بھی تیار کرنے میں مصروف ہے۔

مستقبل کے لیے بایو کرافٹ اننوویش کے پاس کئی دلچسپ پروجیکٹس ہیں۔ انڈین نیشنل بیمبو مشن کی مدد سے مِتّل کے ٹیم اتراکھنڈ میں ایک پایلٹ پروجیکٹ شروع کر رہی ہے۔ کمپنی کاروباری پیشہ وری سے متعلق ایک چھوٹا ماڈل بھی تیار کر رہی ہے جس کے ذریعہ مقامی طبقات ایسے پالی بیگ، ڈسٹ بن لائنرس اور پلانٹر بیگس بنائے جائیں گے جو قدرتی طور پر کھاد میں تبدیل ہوسکتے ہوں۔ مِتّل بتاتے ہیں ”عالمی وبانے ہمیں بازار کی بدلتی صورت حال میں خود کو ڈھالنا سکھایا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا ہے کہ ہمیں ایسی مصنوعات تیار کرنی چاہئیں جن کی بازار کو ضرورت ہے۔ ہمالیہ کے دیہی علاقوں میں اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور پہاڑوں میں پلاسٹک فضلہ میں بھی کمی واقع ہوگی۔‘‘

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے