چنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ اور ریلو کے ایک اہم پروگرام نے آئی آئی ایس ٹی کے مستقبل کے خلائی سائنس دانوں اور انجینئروں کو سائنسی تحریر اور بات چیت کے لیے انگریزی زبان کی اپنی مہارت کو بہتر بنانے میں مدد کی۔
June 2024
چنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ اور نئی دہلی کے ریجنل انگلش لرننگ آفس(ریلو) نے مشترکہ طور پر آئی آئی ایس ٹی میں علمی مقاصد کے حصول کی ترقی اور نفاذ کے لیے ایک قلیل مدتی پروگرام چلایا۔ (سیم کری ایٹو آرٹس/شٹر اسٹاک ڈاٹ کام)
کیرل کے ترواننت پورم میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (آئی آئی ایس ٹی) خلائی سائنس کے مطالعہ اور تحقیق کے لیے وقف ہے۔ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی جانب سے ۲۰۰۷ءمیں قائم کیا جانے والا آئی آئی ایس ٹی انڈر گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ پروگراموں کا ایک گلدستہ ہے ۔ ان پروگراموں کو خلائی سائنس، ٹیکنالوجی اور ان کے بے شمار اطلاق پر خصوصی توجہ کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اگلی نسل کے خلائی سائنسدانوں اور انجینئروں کو تیار کیا جا سکے۔
چنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ اور نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے علاقائی انگریزی زبان دفتر (ریلو ) نے آئی آئی ایس ٹی میں زیر تعلیم ۷۰۰ طلبہ کے لیے انگلش فار اکیڈمک پرپسز (تعلیمی مقاصد کے لیے انگریزی) کے فروغ اور نفاذ سے متعلق ایک قلیل مدتی پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ سائنسی تحریر یا بات چیت کی مہارت کے لیے انگریزی میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا۔ اس میں مستقبل کے سائنسدانوں کی خاطر اسی طرح کے کورسز کے لیے اساتذہ کو تربیت دینے کا ایک جزو بھی شامل تھا۔ اس پروگرام کا مقصد بنیادی ترسیلی صلاحیتوں، تکنیکی تحریر اور روزگار کے لیے بات چیت کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ انسٹی ٹیوٹ کے ۶۰ سے زیادہ انڈر گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ طلبہ کی تحقیق سے متعلق تحریری صلاحیت کو بہتر بنانا تھا۔ماہرین زبان میکنزی برسٹو اور وینڈی میک برائڈنے آن لائن اور شخصی طور پر اس پروگرام کو چلایا۔
نصاب تیار کرنا
اپلائیڈ لِنگوسٹِکس اور یوزر ایکسپیرینس (یو ایکس) تحقیق کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی برسٹو نے اس سے پہلے ایموری یونیورسٹی میں گریجویٹ طلبہ کے لیے ثانوی زبان کے طور پر انگریزی تدریس کے پروگرام کی سربراہی کی تھی۔ وہاں انہوں نے اسکالرس کے ساتھ مل کر ان کی تحقیق اور پیشکش کی ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔
برسٹو نے ۲۰۲۳ ءکے اوائل میں آئی آئی ایس ٹی کا دورہ کیا اور اپنے طلبہ کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی کہ تحریری طور پر ہو یا پیشکش کے ذریعے بات چیت کرتے وقت وہ لوگ مقصد اور سامعین کو سمجھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ای میل کی ہی بات کرتے ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جسے ہم ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ یہ سوچنے کے لیے ایک لمحے کا وقت نکالنا کہ میرا قاری (جس کو میں ای میل بھیج رہا ہوں) مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے یا یہ کہ میں یہ ای میل کیوں لکھ رہا ہوں، اہم ہے۔ سامعین اور مقصد کا تجزیہ کرنے کے لیے غوروفکر کا وہ لمحہ نکال لینے سے لکھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔‘‘
برسٹو کہتی ہیں کہ اپنے چھ ہفتوں کے کورس کے اختتام تک طلبہ نے بات چیت کی منصوبہ بندی میں مہارت حاصل کر لی۔ وہ کہتی ہیں ’’میں اسکالرس سے کچھ بھی کہتی اور وہ صرف اس کے قواعد کو جان کر اپنے خیالات کو منظم کر لیتے۔ وہ ایک ذہنی خاکہ تیار کر لیتے اور اس طرح ان کا لکھنا بہت آسان ہو جاتا۔ اور یہی قارئین اور سامعین اوران کے لیے لکھنے کے مقصد کے بارے میں غوروفکر کی اصل طاقت ہے۔‘‘
ترواننت پورم پہنچنے سے پہلے برسٹو نے کئی ورچوئل سیشن منعقد کیے، آئی آئی ایس ٹی کے کورسس کو دیکھا اور پروفیسروں اور گریجویٹ طلبہ کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کی۔ انہوں نے پروفیسروں کے شائع شدہ مضامین کا جائزہ لیا اور تحقیقی مطبوعات، خاص طور پر سائنسی تحقیق کا تجزیہ کیا تاکہ طلبہ کو اپنے تعلیمی سفر کو موثر طریقے سے جاری رکھنے میں مدد مل سکے۔
تربیت کے ایک حصے کے طور پر برسٹو نے انڈر گریجویٹ طلبہ کے لیے شخصی طور پر بولنے اور لکھنے کی کلاسیں منعقد کیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ان میں سے ہر ایک کا مقصد روانی اور مہارت میں اضافے کے لیے سیکھنا تھا۔‘‘ انہوں نے گریجویٹ طلبہ کے لیے زبان سے متعلق تحقیقی مضمون لکھنے کی کلاسوں کے بھی پروگرام تیار کیے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہفتے میں کم از کم ایک بار میں گریجویٹ طلبہ کے گروپ کے ساتھ دو گھنٹے کا ایک ایسا سیشن کرتی تھی جہاں ہم لوگ تحقیقی مضمون کے بعض حصوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ وہاں میری ذمہ داری کا ایک حصہ اساتذہ کے ساتھ اس بات کا اشتراک کرنا تھا کہ میں نصاب تیار کرنے کے لیے کس طرح کے طریقوں کا استعمال کرتی ہوں۔‘‘
وہ کہتی ہیں ’’ہماری بات چیت میں معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا۔ میں ان سے اس کے تعلق سے بہت کچھ سیکھ رہی تھی کہ وہ اپنے طلبہ سے کس طرح اپنے خیالات کا اظہار چاہ رہے ہیں اور میں انہیں لسانیاتی طور پر زبان کا تجزیہ کرنے کے طریقے بتا رہی تھی۔ ہم اپنے انداز کے اختلاط میں کامیاب رہے اور میرے خیال میں انہوں نے جو سیکھا وہ کچھ نئے اور دلچسپ اسباق تھے جنہیں ان کے نصاب میں شامل کیا جاسکتا تھا۔‘‘
آئی آئی ایس ٹی میں تدریس
میک برائڈ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ارکنساس یونیورسٹی میں انگریزی کو ثانوی زبان کے طورپر پڑھا رہی ہیں۔ ان کا کریئر انڈر گریجویٹ، گریجویٹ اور پی ایچ ڈی طلبہ کو انگریزی پڑھانے کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔
انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۳ ءمیں تین ہفتوں کے لیے آئی آئی ایس ٹی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے طلبہ کو تعلیمی اور رسمی تحریر میں تربیت دینے میں مدد کی۔ ان کی زیادہ تر کلاسیں آن لائن ہی منعقد کرائی گئیں اور چند ہی کلاسیں انسٹی ٹیوٹ میں دورے کے دوران شخصی طور پر ہوئیں۔ میک برائڈ کہتی ہیں ’’وہاں ہر کوئی اچھی انگریزی بولتا تھا لیکن جب بات اس کے لکھنے کی آئی تو میں نے لکھنے کا ان کا بہت ہی بات چیت والا انداز پایا۔‘‘
ان کی توجہ مضامین شائع کرنے اور دنیا بھر سے انگریزی بولنے والوں کے ساتھ مقابلے کے خواہش مند طلبہ پر تھی۔ میک برائڈ کہتی ہیں ’’ان میں سے ایک بڑی تعداد انگریزی بولنے والوں کی ہے جو لکھنے کی اچھی مہارت رکھتے ہیں اور ممکنہ طور پر تحقیقی تحریر کا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا میں آئی آئی ایس ٹی میں تحقیقی تحریر کے کچھ بنیادی اصولوں پر بات کرتی تھی۔‘‘
میک برائڈ کی اہم خدمات میں خیالات کو رسمی انداز میں پیش کرنا، علمی طبقات کے معیارات سے ہم آہنگ کرانا، عامیانہ بولی اور محاروں کی شناخت اور ان کے اخراج ،نیز الفاظ اور جملے سکھانا شامل تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے رسمی تحریر میں نمایاں پیش رفت دیکھی جس میں مضبوط قواعد شامل تھا اور محاورے، مخفف اور ذاتی جذباتی مواد جیسے گفتگو کے عناصر کم تھے۔‘‘
امریکی اور ہندوستانی طلبہ کے سیکھنے کے انداز کے درمیان فرق نے میک برائڈ کے تدریسی نقطہ نظر کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ اگرچہ امریکی تعلیم متعامل شرکت پر زور دیتی ہے اور طلبہ سے کلاس مباحثوں اور گروپ ورک میں فعال طور پر مشغول ہونے کی توقع کی جاتی ہے لیکن میک برائڈ نے ہندوستان میں جن طلبہ کے ساتھ کام کیا وہ توجہ سے سننے اور نوٹ بنانے کے زیادہ عادی تھے۔ ایک انتہائی متعامل استاد کی حیثیت سے میک برائڈ نے اپنے طلبہ میں شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے سخت محنت کی اور کلاس روم میں زیادہ دلچسپ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔
وہ کہتی ہیں’’ میرے لیے تعلیم ایک ذاتی معاملہ ہے ۔ مدرس اور طالب علم کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ یوں کہیں کہ یہ ایک مساوی رشتہ ہے جہاں دونوں ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ اور یہی وہ چیز نہیں تھی جس کی طلبہ امید کررہے تھے یا اس سے واقف تھے ۔ لہٰذا شخصی طور پر اور آن لائن مجھے سخت محنت کرنی پڑی۔‘‘
میک برائڈکو جس چیز نے متاثر کیا وہ ان کے طلبہ کی لگن اور سخت محنت تھی جس کا انہوں نے کلاسوں میں مظاہرہ کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’طلبہ نے میری کلاسوں میں شرکت کے لیے اپنے موجودہ کام کو نہیں چھوڑا بلکہ میری کلاسوں کو انہوں نے اپنے کام میں شامل کر لیا۔‘‘ سب سے زیادہ کلاسوں میں حاضر رہنے والی ایک طالب علم نے میک برائڈ کو کافی متاثر کیا۔
وہ کہتی ہیں ’’وہ طالبہ شادی شدہ تھیں اور ان کے دو بچے بھی تھے۔ میرے خیال میں یہ ناقابل یقین ہے کہ وہ اپنے گھریلو زندگی اور اسکول کی زندگی کے ساتھ میرے پروگرام کے لیے جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔‘‘
میک بتاتی ہیں ’’صرف اچھی سائنس ہی کافی نہیں ہے اگر آپ اسے تحریری شکل میں اچھی طرح سے بیان نہیں کر سکتے۔‘‘ خلائی سائنسدانوں میں زبان کی مہارت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’’ایسی حالت میں آپ کو اس کا نتیجہ نہیں ملنے والا اور پھر کوئی اور جو زیادہ موثر طریقے سے بات چیت کرتا ہو، وہ فنڈنگ حاصل کر لے گا اور اپنے تحقیقی مضامین شائع کرالے گا یا اپنے علم کو زیادہ آسانی سے وسعت دے گا۔‘‘
لکھنے کے مقصد کی جب بات آتی ہے تو وہ برسٹو سے اتفاق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ناظرین، سامعین اور قارئین کے بارے میں سوچنا اوراپنی تحریر کے ذریعہ ان کے مقاصد کی وہیں تکمیل کرنا جہاں وہ موجود ہوں اہمیت کی حامل چیز ہے۔‘‘
اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ