سائنس مصنف نندتا جیراج امریکی وزارت خارجہ کے آئی وی ایل پی میں شرکت کرنے کا تجربہ شیئر کرتی ہیں۔
March 2019
سائنس مصنف نندتا جیراج(بائیں) اور آئی وی ایل پی شرکا ریاست ایلی نوائے کی فرمی نیشنل ایکسیلریٹر لیباریٹری میں۔ تصویر از اننا فوکی کووا۔
سائنسی مضامین لکھنے والی نندتا جیہ راج اس مضمون میں اسٹیم شعبہ جات میں پیش قدمی کرتی ہوئی خواتین سے متعلق امریکی محکمہ ٔخارجہ کے آئی وی ایل پی پروجیکٹ میں شرکت کے اپنے تجربات کا اشتراک کرتی ہیں۔
نندتا جیہ راج کے لیے سائنس سے متعلق مضامین تحریر کرنا ایک اتفاقیہ دریافت تھی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ لکھنا تو میں نے بچپن ہی میں شروع کر دیا تھا مگر یہ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ لکھنے کو پیشہ بناؤں گی۔ صحافت میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے معروف انگریزی روزنامہ دی ہندو کے لیے کام کرنا شروع کیا اور بچوں اور سائنسی موضوعات پر لکھنے لگیں۔ لیکن اصل میں یہ بنگالورو سے شائع ہونے بچوں کا رسالہبرین ویو تھا جس نے انہیں احساس دلایا کہ سائنسی صحافت بھی ایک قابل عمل پیشہ ہے۔پھر جب انہیں احساس ہوگیا تو انہوں نے اسی شعبے میں اپنی دنیا قائم کر لی۔یہاں ان کی ملاقات ایڈیٹر آشیما ڈوگرا سے ہوئی اور پھر دونوں نے مل کردی لائف آف سائنس پروجیکٹ شروع کیا ۔ یہ ویب سائٹ انڈیا میں خاتون سائنسدانوں پر توجہ دیتی ہے اور ان کے کاموں کو اور ان کے گوناگوں تجربات کو درج کرتی ہے۔
سنہ ۲۰۱۸ ء میں جیہ راج اسٹیم شعبہ جات میں پیش رو خواتین کے عنوان سے امریکی محکمہ ٔخارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام کے کثیر علاقائی منصوبے کے لیے منتخب کی گئیں۔اس تبادلہ پروگرام نے انہیں اسٹیم شعبہ جات اور فنون لطیفہ میں خواتین کی دلچسپی پیداکرنے کے لیے وضع کی گئی تنظیمی اور تعلیمی پالیسیوں کی تحقیق کا موقع فراہم کیا۔ہِڈِن نو مور نامی اپنے طرح کے اس انوکھے تبادلہ پروگرام نے پوری دنیا کے۵۰ ممالک کے اسٹیم شعبہ جات میں کام کر رہی ۵۰ خواتین کو ایک ساتھ آنے کا موقع عطا کیا۔
جیہ راج کہتی ہیں امریکی حکومت اور وفاقیت کے ڈھانچے اور عمل پر مشتمل ان ابتدائی اجلا س نے اس پروگرام کے کچھ ہفتوں میں حاصل ان کے مختلف تجربات اور مذاکرات کو ایک سیاق و سباق میں پیش کرنے میں مدد کی۔
وہ بتاتی ہیں ’’پالیسیاں اور جنسی مساوات کے پروگرام( اسٹیم شعبہ جات سے متعلق )ریاست اور ادارے پر منحصر کرنے کی وجہ سے الگ الگ نوعیت کے تھے لیکن ان میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی خواتین کے مسائل اورجنسی تعصب کے اعتراف سے نمٹنے کا ایک حساس طریقہ۔میں چیف آفیسرڈاکٹر ہانا ویلنٹائن کی قیادت والے نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھس سائنٹیفک ورک فورس ڈائیورسٹی آفسسے خصوصی طور پر کافی متاثر تھی۔‘‘
ڈاکٹر ویلنٹائن تقرری اوربرقرار رکھنے کی شرح میں اضافہ کرکے اور شمولیت اور مساوات کو فروغ دے کے بایو میڈیکل ریسرچ ورک فورس میں تنوع پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں۔جب جیہ راج کو معلوم ہوا کہ نیشنل جیو گرافک سوسائٹی کے ذریعے فراہم کی جانے والی بہت ساری اقسام کی امداد میں خواتین کی حوصلہ افزائی اور خواتین کی شراکت کو حمایت دینے کی گنجائش موجود ہے تو ان کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔وہ کہتی ہیں ’’مثال کے طور پرکسی دوسرے پر منحصررہنے والوں کی دیکھ ریکھ کے لیے امدادکا پروگرام، جو مالی امداد حاصل کرنے والوں کو بچوں کی دیکھ بھال یا بڑوں کی دیکھ ریکھ کے لیے اخراجات کی سہولت فراہم کرتا ہے،یہ پروگرام ان میں سے ایک ہے۔یہ اہم ہے کیوں کہ اس کا تعلق براہ راست نتیجے سے ہے اور پھریہ صلاحیت سازی اور ذہانت سازی کے لیے بھی آگے بڑھ کر کام کرتا ہے ۔‘‘
یہ جیہ راج کے لیے تنوع اور مؤثر پالیسی سازی کے درمیان قریبی رابطے کی تحقیق کا ایک موقع بھی تھا ۔ وہ کہتی ہیں ’’جانس ہاپکنس یونیورسٹی اپلائڈ فزکس لیباریٹریمیںسیّاروں پر کام کرنے والی سائنسداں، ڈانا ہرلے نے ہمیں یہ یاد دہانی کرائی کہ متنوع بھیڑ میں لوگ مختلف نقطۂ نظر کا زیادہ لحاظ کرتے ہیں۔‘‘
اس پروگرام کے مختلف اجلاس نے سائنس میں عالمگیر طور پر موجود اضافی پالیسیوں او ر بنیادی ڈھانچوں کے اثرات کی تحقیق کا کام انجام دیا جس کے بارے میں قوی امکان ہے کہ یہ پالیسی سازوں کے غیر متنوع ادارے کا نتیجہ ہے۔جیہ راج کہتی ہیں ’’مر دپالیسی سازوں کے ذریعے وضع کی گئی کوتاہ بیں پالیسیاں روایتی طور پر حاشیہ پر پہنچ چکے طبقات کو اس میں شامل نہیں کرتیں۔اس طرح ہم لوگ خیال و فکر کے ایک ذخیرے کو کھو دیتے ہیں۔یہ مخصوص افراد یا خواتین کے نقصان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس رویے سے جس چیز کا نقصان ہو رہا ہے وہ سائنس کا شعبہ ہے۔‘‘
شرکا ء نے فلم اور تفریح کی صنعت سے وابستہ لوگوں سے بھی بات چیت کی اور واقفیت حاصل کی کہ وہ اپنے کام میں سائنس اور سائنسی مواد کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔جیہ راج کہتی ہیں ’’ چوں کہ یہ پروگرام آخرکار ہالی ووڈ کی فلم ہِڈِن فیگرس سے تحریک یافتہ تھا ، لہٰذا اس نے واضح انداز میں پیغام دیا۔
اس دورے کے زیادہ تر وقت میں گرچہ امریکی اداروں میں لوگوں سے ملاقاتیں شامل رہیں لیکن اسٹیم شعبہ جات سے وابستہ ۴۹ خواتین کے ساتھ ان کے نقطۂ نظر اور ان کے خیالات کے تبادلے کا بھی موقع ملا ۔ جیہ راج کہتی ہیں ’’ہمارے ترقی پذیر ممالک سے ہونے کی وجہ سے یہ کافی اہم تھا کیوں کہ ہم میں امریکی شرکا ء کی بہ نسبت اکثر زیادہ چیزیں مشترک تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ان لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر باتیں کرنا کہ کس چیز نے کام کر دکھایا ہے او ر کس چیز نے نہیں، اس نے مجھے یہ بات سمجھا دی کہ انڈیا میں کیا چیز کام کر سکتی ہے۔فی الحال اشتراک کے بہت سارے پروگرام زیر تکمیل ہیں۔ اس کا اہم خیال یہ ہے کہ ہمیں تب تک کوشش کرنے اور اسے رفتار دینے کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنی مطلوبہ چیز حاصل نہیں کرلیتے۔‘‘
دی لائف آف سائنس کے لیے کام کرنے والی بہت ساری خاتو ن سائنسدانوں کے ساتھ ان کے متعدد انٹرویو نے یہ دکھایا ہے کہ سائنس کے شعبے سے وابستہ خواتین کو کسی کام کو مکمل کرنے کے لیے مردوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے ۔جیہ راج کہتی ہیں ’’یہ پوری دنیا میں حاشیہ پر کھڑی تمام جماعتوں کے ارکان کے لیے بالکل درست چیز ہے۔‘‘
جیہ راج کو یقین ہے کہ اس صورت حال کے بارے میں ان کی سمجھ میں اس تبادلہ پروگرام کی وجہ سے زیادہ وسعت آئی ہے اور تبادلے کے اس پروگرام سے حاصل تجربات کو وہ انڈیا کی سائنسی برادری سے مشترک کرنے کی خواہاں ہیں۔
پارومیتا پین امریکی ریاست نیواڈا کے شہر رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
تبصرہ