امریکہ کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان کانگریس پر کنڑول کرنے میں شراکت داری انوکھی چیز نہیں ہے۔ اصل میں امریکی رائے دہندگان اسے پسند بھی کرتے ہیں۔
January 2023
لوگ ۹ جون ۲۰۲۲ کو واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت کے باہر پیدل چل رہے ہیں۔ کانگریس کے حالیہ انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین اپنا نیا اجلاس شروع کرنے کے لیے جمع ہوئے۔(© پیٹرک سیمانسکی / اے پی)
امریکی صدور اکثر انتظامی برانچ کے ساتھ ساتھ ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں پر کنٹرول کے ساتھ پہلی بار اقتدار میں آتے ہیں۔ مگر ۱۹۸۰ء کے بعد ہر صدر کو اپنی مدت صدارت کے کچھ حصے میں منقسم حکومت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں مخالف سیاسی پارٹی کو کم از کم کانگریس کے ایک ایوان میں اکثریت حاصل رہی۔
ایموری یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور انتخابی امور کے ماہر ایلن ابرامووٹز کہتے ہیں کہ بہت سے ممالک میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی مگر امریکہ میں یہ “عام سی بات ہے۔”
صدیوں پہلے امریکہ کے بانیوں نے ایک ایسے ایوان نمائندگان کا تصور پیش کیا تھا جو عوام اور سینیٹ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہو اور استحکام لانے والا ایک متوازن ادارہ ہو۔ ایوان نمائندگان کے اراکین کے لیے کم از کم عمر کی حد کم ہے اور رکنیت کی مدت دوسال ہے جبکہ سینیٹ کی رکنیت کی مدت چھ سال ہے۔ رٹگرز یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر راس کے بیکر کہتے ہیں ” جب ایوان دو مختلف پارٹیوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں تو اختلافات بڑی واضح شکل میں سامنے آتے ہیں۔”
نئی منقسم کانگریس نے اسی مہینے کام شروع کیا ہے اور اس کی ہیئت گذشتہ کانگریس سے کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں۔ تاہم پارٹیوں کی نمائندگی میں نو نشستوں کے فرق سے امریکی ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول ری پبلیکن پارٹی کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ری پبلکنوں نے ۲۲۲جبکہ ڈیموکریٹوں نے ۲۱۳ نشستیں جیتی ہیں۔ ایک منتخب ڈیموکریٹ رکن کی وفات سے ڈیموکریٹس کی نشستوں کی تعداد کم ہو کر ۲۱۲ رہ گئی ہے۔
سینیٹ کا کنٹرول ۵۱ ووٹوں کے ساتھ اب بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہے۔ گذشتہ مدت میں ڈیموکریٹوں کے ۵۰ ووٹ تھے اور ایک فیصلہ کن ووٹ نائب صدر کملا ہیرس کا تھا۔ ڈیموکریٹک کاکس یا ووٹنگ بلاک میں تین آزاد سینیٹروں کے ووٹ بھی شامل ہیں جو اپنا ووٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت میں ڈالتے ہیں۔
(اسٹیٹ ڈیپارٹمینٹ/ایم گریگوری)
صدر بائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ وہائٹ ہاؤس میں اس وقت تک رہیں گے جب تک وہ (دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں) یا کوئی اور منتخب صدارتی امیدوار جنوری ۲۰۲۵ء میں اپنی اگلی چار سالہ مدت کا آغاز نہ کر دے۔
تو پھر امریکی ووٹر حکومت کی مختلف برانچوں کو چلانے کے لیے مختلف سیاسی نقطہ ہائے نظر کے حامل لوگوں کو منتخب کیوں کرتے ہیں؟ ابرامووٹز کا کہنا ہے کہ یہ امریکیوں میں دونوں پارٹیوں کے درمیان پائی جانے والی چھوٹی سی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جہاں بعض ووٹروں نے اپنی پسند کی پارٹی کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کیا وہیں بہت سے آزاد (”پانسہ پلٹنے والے“) ووٹروں نے اپنے حلقے میں مخصوص امیدواروں کی بنیاد پر انتخاب کیا۔ وہ کہتے ہیں”پارٹیوں کے(درمیان)توازن بہت سے مختلف انتخابات کا نتیجہ ہے۔“
تقسیم کے نتیجے میں کیے جانے والے سمجھوتے
بیکرکے مطابق منقسم حکومت سیاست دانوں سے ایک گروپ کی حیثیت سے ووٹروں کی اکتاہٹ کو اجاگر کرتی ہے۔ حالانکہ وہ اپنے مقامی نمائندے کو پسند کرتے ہیں۔”وہ محسوس کرتے ہیں کہ تعطل ایک اچھی چیز ہے۔“
وہائٹ ہاؤس اور ایوان نمائندگان میں مختلف جماعتوں کے عملی اثرورسوخ کا مطلب یہ ہوگا کہ قانون سازی کے لیے سمجھوتوں کی ضرورت ہوگی۔
ابرامووٹز کا کہنا ہے کہ مسقبل قریب میں ”صدر کے لیے اپنے قانون سازی کے پروگرام کے کچھ حصوں پر عمل کرنا اگر ناممکن نہ بھی ہوا تو مشکل ضرور ہوگا۔“
اگر ری پبلکن پارٹی نے ایوان میں زیادہ نشستیں حاصل کی ہوتیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ پالیسیوں کے ایک بڑے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے متمنی ہوتے۔ بیکر کا کہنا ہے”ری پبلکن (پارٹی)کو قلیل اکثریت حاصل ہے مگر یہ مینڈیٹ نہیں ہے۔“
ابرامووٹز کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندر ری پبلکن پارٹی کے ہاتھوں میں ایوان نمائندگان کا کنٹرول آنے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ پارٹی قانون سازی کے بلوں پر ووٹنگ کرانے اور اُن چیزوں کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقاتی اختیارات استعمال کرنے کے بارے میں فیصلے کر سکتی ہے جنہیں دوسری پارٹی پسند نہیں کرتی۔ ری پبلکن اُن بہت سی کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کو کنٹرول کریں گے جو بجٹ اور پالیسیوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ ہر کمیٹی کا چیئرمین ری پبلکن ہوگا اور کمیٹیوں میں ری پبلکن پارٹی کےاراکین کی اکثریت ہوگی۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں ری پبلکن پارٹی عملے کے زیادہ افراد کو بھرتی کر سکے گی۔
امریکی ایوان نمائندگان نے اپنا نیا سپیکر منتخب کرنے کے لیے جنوری ۲۰۲۳ء کے اوائل میں کئی بار ووٹنگ کی جو ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔(© اینڈریو ہارنک /اے پی)
اس تبدیلی سے حاصل ہونے والے فوائد اہم ہیں۔ مثال کے طور پر اکثریتی پارٹی ایوان نمائندگان کی قواعد و ضوابط کی طاقتور کمیٹی کو کنٹرول کرتی ہے جس سے اسے اس بات کا فیصلہ کرنے میں فوقیت حاصل ہو جاتی ہے کہ کن تجاویز پر ووٹنگ کرائی جائے اور پیش کیے جانے والے بلوں کی کن ترمیمات پر ایوان میں بحث کی اجازت دی جائے۔
تاہم ایوان میں ری پبلکن پارٹی کو ڈیموکریٹک پارٹی پر ۱۰ نشستوں کی اکثریت حاصل ہے۔ ابراموٹز کہتے ہیں اس کے لیے ری پبلکنوں کو اپنی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے متحد رہنے کی ضرورت ہوگی۔ ایک طرف قدامت پسند شعلہ بیانوں اور دوسری طرف اعتدال پسندوں کی موجودگی میں سمجھوتہ کرنا ضروری ہوگا۔ ابراموٹز کے مطابق یہاں پر بنیادی چیز”۲۱۸ووٹ“ ہیں۔
اکثریتی پارٹی ایوان نمائندگان کے اسپیکر یا لیڈر کا انتخاب کرتی ہے۔ روایتی طور پر اسپیکر کا بہت اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ اُس وقت اس کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے جب اس کی پارٹی کسی متحدہ موقف کا مظاہرہ کرتی ہے۔ (اسپیکر کا جانیشینی کی صف میں نائب صدر کے بعد دوسرا نمبر ہوتا ہے۔)
۱۵مرتبہ ووٹنگ ہونے کے بعد ایوان کے اراکین کی اکثریت نے کیلیفورنیا کے ایک حلقے سے منتخب ہونے والے کیون مکارتھی کا اسپیکر کے طور پر انتخاب کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے چھوٹے گروپوں بلکہ انفرادی ری پبلکنوں کو بھی زیادہ اختیارات دینے پر اتفاق کیا۔ اس سمجھوتے کے تحت کوئی اکیلا ری پبلکن رکن بھی اسپیکر کو ہٹانے کے لیے ووٹ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ کانگریس کے ہر نئے اجلاس میں اس طرح کے قواعد اور کمیٹیوں میں کی گئیں تعیناتیوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
عدلیہ پر سینیٹ کا اختیار
سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر کمیٹیاں چلائیں گے۔ تاہم وہاں کے سخت قوانین کی موجودگی میں بہت سے اقدامات کو منظور کرنے کے لیے بڑی اکثریت یعنی ڈیموکریٹوں کے ۵۱ ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹوں کے محدود کنٹرول کے باوجود بائیڈن عدالتی اور انتظامی برانچ کی تقرریوں کی زیادہ آسانی سے توثیق کروا سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوان نمائندگان کے بغیر سینیٹ عدلیہ سے متعلق توثیقوں کے عمل کو کلی طور پر کنٹرول کرتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر امریکی سپریم کورٹ میں ججوں کی کوئی نشست خالی ہوتی ہے تو بائیڈن دیرپا طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے نامزد کردہ فرد، بشرطیکہ تصدیق ہو جائے، تاحیات جج کے طور پر کام کرتا رہے گا۔ ابرامووٹز کا کہنا ہے ”یہ انتہائی اہم ہے۔ “
تشکر برائے متن: شیئر امیریکہ
تبصرہ