کلپنا چاؤلا اور خلائی جہاز

ہند۔امریکی خلانورد کلپنا چاؤلا خلائی گاڑی کولمبیا فلائٹ ایس ٹی ایس ۔۸۷ کےعالمی عملہ کا حصہ تھیں جس نے گذشتہ دسمبر میں کامیابی کے ساتھ خلائی مشن مکمل کیا۔

Jan/Feb 1998

کلپنا چاؤلا اور خلائی جہاز

خلانورد کلپنا چاؤلا ناسا کے کے سی ۱۳۵’’ صفر کششِ ثقل‘‘ جہاز میں تربیت کے دوران مائیکرو گریویٹی کو محسوس کرتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ ناسا۔

ہندنژاد امریکی کلپنا چاؤلا اس امریکی خلائی جہاز کولمبیا طیارہ ایس ٹی ایس۔۸۷ کے عملے میں شریک تھیں جس نے گذشتہ دسمبر میں ایک کامیاب مشن مکمل کیا۔ جب کرہ زمین پر بسنے والے بنی نوع انسان سیاسی ہنگامہ آرائیوں اور سورج سے تیسرے سیارہ پرکشت و خون میں مصروف تھے اس وقت۶ افراد پر مشتمل عملے نے خلائی چہل قدمی کی، ریموٹ کنٹرول آلوں کو اپنے اشاروں پر نچایا اور ملینوں میل کے چکرلگانے دوران تجربات کیے۔

کلپنا چاؤلا کا کہنا ہے کہ انہوں نےکرنال میں اپنے بچپن میں یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ خلا کی حدود عبور کرپائیں گی۔ یہ خود اتنی بڑی بات تھی کہ ان کے والدین انہیں ٹیگوراسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انجینئرنگ کرنے کی اجازت دیدی۔ پنجاب انجینئرنگ کالج سے ایرو ناٹکل انجینئرنگ میں گریجوشن کرنے کے بعد انہوں نے ٹیکساس یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۸ ءمیں انہوں یونیورسٹی آف کولورَیڈو سے ایرواسپیس انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔اور گذشتہ نومبر میں وہ پہلی ہند نژاد امریکی خاتون خلاباز بن گئیں جب انہوں نے فلوریڈا میں کیپ کارنیول کے لانچ پیڈ سے پرواز بھری اور کامیاب خلائی مشن میں شرکت کی۔ کینیڈی خلائی مرکز میں جب ان کے خلائی جہاز نے پرواز بھری تو اس وقت بھارت میں مقیم ان کے اہل خانہ اور خلائی مرکز کے ان کے ہمکاروں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

چاؤلا بھارت کے صوبہ ہریانہ میں واقع کرنال میں پیدا ہوئیں۔ بعد ازاں انہوں نے امریکی شہریت اختیار کرلی اور طیارہ معلم ژیں ۔ پیئر ہیریسن سے شادی کی۔ ایک خلا باز کے علاوہ ان کے پاس ایک انجن والے، کثیر انجن والے بری طیاروں، ایک انجن والے بحری طیاروں اورگلائڈرس اڑانے کے بھی لائسنس ہیں۔ وہ ایک تصدیق شدہ جہاز معلمہ بھی ہیں۔ ۱۹۸۷ ءمیں وہ پائلٹ بن گئی تھیں۔ اس کے معاً بعد ہی چاؤلا نےدیگر چیلنجوں پر غور کرنا شروع کردیا تھا جیسے کہ ناسا کے خلائی جہاز پروگرام کے لیے درخواست دینا۔ کیلیفورنیا میں واقع ناسا کے ایمس تحقیقی مرکز میں ۱۹۸۸ ءمیں ان کا انتخاب ایک ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت ہوا اور پھر ۱۹۹۳ ءمیں انہوں نے کیلیفو رنیا کے لاس الٹوس میں واقع اوورسیٹ میتھڈس انک میں بحیثیت نائب صدراور ریسرچ سائنٹسٹ کے شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۹۴ءمیں ناسا نے ان کا انتخاب خلا بازی تربیت کے لیے کیا۔ مارچ ۱۹۹۵ءمیں چاؤلا نے صوبہ ٹیکساس کے ہیوسٹن میں واقع جانسن خلائی مرکز میں اپنی خلا بازی کی تربیت کا آغاز کیا۔

انہوں نے اپنا پہلا خلائی سفر بحیثیت مشن ماہر کے چوتھے امرکی خورد ثقل کشش پے لوڈ خلائی جہاز طیارہ ایس ٹی ایس ۸۷ میں طے کیا۔ اس خلائی جہاز نے پندرہ دن ، سولہ گھنٹے اور چوتیس منٹ کا اپنا طویل سفر ۵دسمبر ۱۹۹۷ ءکو مکمل کیا۔ ان کو امید ہے کہ ایک بار پھر یہ کارنامہ انجام دیں گی۔ اس سفر کے دوران انہوں نے اور ان کی ٹیم کے ارکان نے۱۰اعشاریہ۴۵ ملین کلیومیٹرکی مسافت طے کی۔ یہ ایک بین لااقوامی عملہ تھا ۔ اس میں جاپان کے تاکاؤدوئ شامل تھے۔ یہ جاپان کے پہلے خلا باز ہیں جنہوں نے خلا میں چہل قدمی کی۔ یہ جاپان کی قومی خلائی ترقی ایجنسی میں بطور مشن ماہرکے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے خلا باز یوکرین کے لیونڈ کاڈنیوک۔ یہ یوکرین کی قومی خلائی ایجنسی میں پے لوڈ ماہرہیں۔ ان کے علاوہ اس میں امریکی خلا باز : مشن کمانڈر کیون آر کریگل، پائلٹ اسٹیون لنڈسے اور مشن ماہر ونسٹن اسکاٹ بھی شامل تھے۔ یوکرینی تعاونی تجربہ کے تحت اس مشن نے کئی سارے تجربات کیے۔

ان تجربات میں بعض کا تعلق پیڑوں کی زیرہ پوشی منتقلی سے تھا جس کا مقصد خلا میں غذا کی نشو و نما کا مشاہدہ کرنا تھا۔ علاوہ ازیں یہ تجربات مضبوط دھات اور سرعت رفتار والی کمپیوٹر چپ سے متعلق تھے۔ ان سب کے اخراجات کم و بیش ۵۶ ملین ڈالر تھے۔ ان کو ایک اڑیل سیٹلائٹ اسپارٹن سے بھی جوجھنا پڑا تھا جسے چاؤلا نے تعینات کیا تھا۔ ایک خرابی کے سبب خلائی واکر دوئی اور اسکاٹ کا کام بڑھ گیا اور آخر کارانہوں نے دس ملین ڈالر کے سیٹیلائٹ کو اپس کھینچ لیا۔

اب زمین پر کام ہورہا ہے جس میں سائنسداں ڈیٹا کے تجزیے میں مصروف ہیں۔ جب کبھی بھی چاؤلا کے سامنے ماڈلنگ کا موضوع چھڑتا ہے تو اس کا تعلق عددی ساخت اور فلو طبیعات کے تجزیہ سے ہوتا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو اپنے میدان میں بحیثیت ایک عورت کیسا محسوس ہوتا ہے تو ان کا جواب تھا، ’’میں نے اپنے تعلیمی سفر کے دوران یا پھر کچھ اور کرتے وقت کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میں ایک عورت ہوں، یا میرا تعلق کسی چھوٹے شہر سے ہے یا میں کسی دوسرے ملک سے آتی ہوں۔ میرے خواب دوسروں ہی کی طرح تھے اورمیں نے ان کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ اور جو لوگ میرے آس پاس تھے، خوش قسمتی سے انہوں نے ہمیشہ ہی میری حوصلہ افزائی اور کہا، ‘اگر یہ تمہارا خواب ہے تو اسے پورا کرو۔‘‘

اس مضمون کی پہلے پہل اشاعت جنوری۔ فروری ۱۹۹۸ء میں ہوئی۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے