ستاروں کے درمیان سکونت

بھارتی نژاد امریکی ناسا سائنسداں مدھولیکا گوہاٹھاکرتا اس مضمون میں سورج کے متعلق مطالعہ، زمین پر اس کے اثرات اور خلائی موسم کی تشکیل کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ۔

نتاشا مِلاس

January 2023

ستاروں کے درمیان سکونت

مدھولیکا گوہا ٹھاکرتا ناسا میں پروگرام سائنٹسٹ ہیں۔ انہوں نے ناسا کے ’لیونگ وتھ اے اسٹار‘ پروگرام کی ۱۶ برسوں تک قیادت کی ہے۔ 

مدھولیکا گوہاٹھاکرتاناسا کے صدر دفتر میں ایک پروگرام سائنسداں  ہیں۔ وہ ہیلیوفزکس ڈویژن میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے نئے اقدامات کے لیے بحیثیت سینئر مشیر بھی تعینات ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے گوہاٹھاکرتا ہیلیوفزکس کو ایک مربوط سائنسی شعبے کے طور پر فروغ دینے کے عمل کی قیادت کر رہی ہیں۔

 وہ ۱۶ سال تک ناسا میں لیونگ وتھ اے اسٹار (ایل ڈبلیو ایس) پروگرام، جو شمسی تابکاری کی سطح میں تبدیلی اور زمین پر اس کے اثرات کا مطالعہ کرتا ہے، کی کلیدی پروگرام سائنسداں رہی ہیں۔

ایل ڈبلیو ایس پروگرام کے قائد کی حیثیت سے گوہاٹھاکرتا نے کئی پرچم بردارمہمات  کی عمل آوری کی نگرانی کی۔ ان میں سولر ڈائنامکس آبزرویٹری جس نے ہمیں سورج کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا، سولر ٹیریسٹریل ریلیشنز آبزرویٹری (اسٹیریو) جس نے ہمیں سورج کی پہلی تھری ڈی تصویر فراہم کی اور حالیہ یوروپی اسپیس ایجنسی و ناسا کے مابین ایک بین الاقوامی تعاون پر مبنی ’سولر آربیٹر مشن‘ قابل ذکر ہیں۔ سورج نظام شمسی میں خلائی موسم کو کس طرح تشکیل دیتا ہے، کے متعلق یہ تمام مشن ہماری تفہیم میں انقلاب برپا کر رہے ہیں۔

گوہاٹھاکرتا نے دہلی یونیورسٹی سے فلکی طبیعیات میں ماسٹر ڈگری اور کولو راڈو میں واقع یونیورسٹی آف ڈینور سے شمسی طبیعیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

پیش ہیں ان سے لیے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات۔

کیا آپ ہمیں ناسا تک کے اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ سفر کے بارے میں بتائیں گی؟

یہ بالکل ایک سفر کی طرح رہا ہے۔ بھارت میں پرورش پانے والی ایک نوجوان لڑکی کے طور پر میں نے انسانوں کو چاند پر قدم رکھتے ہوئے دیکھا۔ اُن دنوں امریکہ، ناسا اور یہاں تک کہ سائنس بھی محض تصورات تھے جو میرے نوجوان ذہن میں مبہم اور بے ساختہ تھے۔ لیکن اب جب میں آپ سے بات کر رہی ہوں تو میں خود کو اس نظام کا ایک اٹوٹ حصہ پاتی ہوں۔ اور جس سائنس پر ہم لوگ روز یہاں کام کرتے ہیں، اس کے ذریعے میں خلا میں پہنچ گئی اور میری رسائی سورج تک ہوگئی۔

ایک نوجوان بھارتی اسکول لڑکی کو جو کبھی بہت مشکل اور ناقابل رسائی دکھائی دیتا تھا وہ اب میری روزمرہ کی زندگی کا معمول ہے۔ مجھے اپنے ہونہار ساتھیوں( جن کے رنگ اور اقسام جداگانہ ہیں)کی صحبت میں ایسا کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

آپ نے فلکی طبیعیات کا انتخاب کیوں کیا؟

بہت پہلے شاید جب میری دادی کا انتقال ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ آسمان میں ایک ستارے میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ میں رات کو آسمان دیکھنے لگی۔ میں مسلسل اپنے والد سے پوچھا کرتی تھی: ’’ہم کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ اور ’’جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میرے والد نے پوری کوشش کی کہ مجھے خاموش نہ کیا جائے۔ انہوں نے ایک چھ سالہ بچی کو سمجھانے کی سعی کی۔ انہوں نے ایک دائرہ کھینچا اور کہا ’’اچھا، کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ اس دائرے کا آغاز یا اختتام کہاں ہے؟‘‘ یہ وہ بات تھی جو میرے ذہن میں گھر کر گئی۔

پہیلیاں حل کرنا، گیمس کھیلنا، ڈائناسوروں کے بارے میں پڑھنا، سیارہ گاہوں کا دورہ کرنا اور رات کے وقت آسمان کو دیکھنا ان تمام چیزوں نے مجھے سائنسداں بننے کی ترغیب دی۔ بڑی ہونے کے بعد مجھے کاسمولوجی (علم ِ کائنات) سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ یعنی مجھے سائنس کو فلسفے اور روحانیت سے جوڑنا اچھا لگنے لگا۔  

ایل ڈبلیو ایس پروگرام کی قائد کے طور پر گوہا ٹھاکرتا نے سورج کو ’چھونے‘ سے متعلق ایک مہم ’پارکر سولر پروب‘ کی قیادت کی۔ ’پارکر سولر پروب‘ سورج کے ماحول کا سفر کرتا ہے۔ اس مہم کے ذریعہ انسان سورج کے اس قدر قریب پہلے کبھی نہیں گیا جس کے نتیجے کے طور پر انتہائی شدید گرمی اور تابکاری کے حالات کا تجربہ کیا گیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس مہم کا آغاز ۱۲ اگست ۲۰۱۸ء کو کیا گیا تھا۔ (تصویر بشکریہ ناسا)

کیا آپ ہمیں لیونگ وتھ  اے اسٹار انیشی ایٹو پر اپنے کام کے بارے میں بتائیں گی؟

گذشتہ دو دہائیوں سے میں نے ہیلیوفزکس کو ایک مربوط سائنسی شعبے کی حیثیت سے فروغ کے قابل بنایا ہے جس سے ہماری کائنات کے متعلق بنیادی دریافتیں سماج کو براہ راست فائدہ پہنچاتی ہیں۔ لیونگ وتھ اے اسٹار پروگرام کے قائد کی حیثیت سے میں نے متعدد پرچم بردار مہمات  کو ممکن بنانے میں مدد کی ہے جن میں ’وین ایلن پروبز‘ مشن نے زمین کی تابکاری پٹی میں پھنسے توانائی کے خطرناک ذرات کو دیکھنا ممکن بنایا۔ ’پارکر سولر پروب‘ کے ذریعے سورج کو ’’چھونے‘‘ کا مشن بھی ان میں شامل ہے۔

جدت طرازی اور سائنسی دریافت کو رفتار دینے کے لیے میں نے روایتی شعبے کے سائنس دانوں کو ان کے گوشہ عافیت سے باہر نکالنے کے لیے فنڈنگ کا طریقہ کار بنانے میں مدد کی۔ اب ہمارے پاس ایل ڈبلیو ایس سسٹم سائنس ہے، جسے ٹارگٹڈ ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی پروگرام اور فوکسڈ سائنس ٹیمس کہا جاتا ہے، جو مسابقتی لیکن باہمی تعاون کے ماحول کو فروغ دیتا ہے نیز اس کے نتیجے میں سائنسی خیالات اور ٹیکنالوجی کے امتزاج کو فروغ ملتا ہے۔

ہیلیوفزکس میں رہنماؤں کی اگلی نسل کی تربیت کے لیے میں نے جیک ایڈی فیلوشپ پروگرام تیار کرنے میں مدد کی ہے جو ہونہار محققین کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ایک اہم چینل بن چکا ہے اور بہت سی خواتین سائنسدانوں کے کریئر کو فروغ دینے میں کامیاب رہا ہے۔

کیا آپ کو ایس ٹی ای ایم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی)  شعبہ جات میں ایک خاتون کی حیثیت سے کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا؟

مجھے یہ کہنا اچھا نہیں لگتا کہ بطور خاتون میرے ساتھ امتیاز برتا گیا۔ میں نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں اس کے بارے میں سوچا، نہ ہی میرے پاس اس کا مشاہدہ کرنے کا وقت تھا۔ لیکن آپ کو یہ جاننے کے لیے ’دیکھنے، سننے  اور ٹھہرنے کی ضرورت ہے‘ کہ یہ ہو رہا ہے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ تبدیلی صرف ناسا میں نہیں بلکہ پورے ملک میں وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ امریکہ بدل رہا ہے۔ ہم ناسا میں بھی اس کی عکاسی دیکھ رہے ہیں اور یہی حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے میدان میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ بہت زیادہ لاشعوری طور پر تعصب پایا جاتا ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ خواتین کا ہمدردانہ پہلو انہیں ہر چیز کے بارے میں ایک بڑی اور وسیع تفہیم پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے خواہ اس کا تعلق سائنسی کاروبار، ایک خاندان یا دنیا میں اپنے امور چلانے سے ہو۔

ان خواتین اور مردوں کے لیے آپ کا کیا مشورہ ہے جو ایس ٹی ای ایم شعبہ جات  میں کریئر بنانا چاہتے ہیں؟

میرا ماننا ہے کہ ایس ٹی ای ایم کے شعبے منفرد ہیں جہاں ہر روز ناممکن حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  

پہیلیوں، کھیلوں، دستی سرگرمیوں، عجائب گھروں کے دوروں اور سیارہ گاہوں کے پروگراموں میں شرکت کے ذریعے سائنس اور ریاضی کی پڑھائی کو تفریحی بنائیں۔ اپنے آس پاس کی ہر چیز کے بارے میں متجسس رہیں۔ اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلیں۔ اس کا مشکل ترین حصہ پہلا قدم اٹھانا ہے جو آپ کو ان حدود سے باہر لے جاتا ہے جن میں آپ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں۔ اپنے آپ کو ایک نئے ماحول میں منتقل کریں، کچھ ایسا کریں جو آپ کو خوفزدہ کرے۔ کسی مختلف نقطہ نظر پر غور کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ’محفوظ‘ متبادل کا انتخاب نہ کریں۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے