انگریزی میں کاروباری مہارت کی تربیت

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری امریکی سفارت خانے کے زیر اہتمام منعقد پروگراموں کے ذریعے مؤثر کاروباری بات چیت سیکھتے ہیں۔

برٹن بولاگ

February 2023

انگریزی میں کاروباری مہارت کی تربیت

امریکی ٹرینر ڈیٹر برون نے ’ٹرین دی ٹرینر‘ ورک شاپ میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کے ساتھ کام کیا۔ (تصویر بشکریہ امریکی قونصل جنرل، کولکاتہ)

چھوٹے یا درمیانے درجے کی کمپنی قائم کرنے والے بھارتی  کاروباری  پیشہ ور عام طور پر اپنے کاروبار سے متعلق ہر چیز کو  جانتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے تعلق سے بات چیت کرنے کے لیے  انہیں جدوجہدبھی  کرنی پڑتی ہے۔  سرمایہ کاروں کو تجویز پیش کرنے سے لے کے سپلائروں یا کام کرنے والوں  کو ای میل کرنے تک، صحیح لہجے اور درست انداز کا استعمال کرنے اور گاہکوں کو تیار کرنے تک ہر چیزکے لیے مؤثر بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات چیلنج بڑا تب ہو جاتا  ہے جب انہیں ان تمام چیزوں کو انگریزی زبان کا استعمال کرکے کرنا ہوتا ہے۔

کاروبار کی دنیا میں انگریزی میں اچھی طرح سے بات چیت کرنے کی صلاحیت کو اکثر گاہکوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے اور بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہنر وسائل اور مواقع تک رسائی میں اضافہ کرنے میں مدد کرتا ہے اور آخر کار  کمپنی کی کامیابی کے امکانات کو وسعت دیتا ہے۔

امریکی سفارت خانے کے ریجنل انگلش لینگویج آفس (ریلو) کے زیر اہتمام دو پروگراموں نے کاروباری پیشہ وروں اور درمیانے درجے کے پیشہ ور وں  کو انگریزی زبان میں  کاروباری بات چیت کی تربیت کے ذریعے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کی۔

نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کی ریجنل انگلش لینگویج آفیسر روتھ گوڈ کہتی ہیں ’’ریلو کا بہت سا کام لوگوں کو پیشہ ورانہ سیاق و سباق میں کامیاب ہونے کے لیے انگریزی میں بات چیت  کی مہارت حاصل کرنے میں مدد کرنے پر مرکوز ہے تاکہ انہیں مواقع تک رسائی حاصل ہو سکے۔اس طرح خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو آئی پلس  کمیونٹی کی حمایت کرتے ہوئے، ہم شمولیت اور تنوع کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘

کولکاتہ، رانچی، پٹنہ، دیماپور اور امپھال میں امریکی محکمہ خارجہ کی اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینرس(اے ڈبلیو ای) کے اشتراک سے ’ٹرین دی ٹرینر‘ نامی پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام  کولکاتہ میں واقع  امریکی قونصل جنرل نے کیا ۔ ۲۰۱۹ءسے اب تک اے ڈبلیو ای نے  ۸۰ ممالک میں ۱۶ ہزار سے زائد خواتین کو کامیاب کاروبار شروع کرنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری علم، نیٹ ورکس اور رسائی کے ساتھ بااختیار بنایا ہے۔

ہر اجلاس میں ۱۸ خاتون کاروباری پیشہ وروں  نے امریکی ٹرینر ڈیٹر برون کے ساتھ مل کر نصاب تیار کیا۔ ورکشاپ سے حاصل ہونے والی معلومات کا اشتراک  کاروباری پیشہ وروں نے  اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیا ۔

’ٹرین دی ٹرینر‘ ورک شاپ کا اختتام ایک مسابقت پر ہوا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا شرکا کوئی کاروباری تجویز پیش کرسکتے ہیں یا نہیں۔ (تصویر بشکریہ امریکی قونصل جنرل، کولکاتہ)

’پِچ پرفیکٹ ‘کے نام سے دوسرا پروگرام  انڈو امیریکن  چیمبر آف کامرس (آئی اے سی سی) کے اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا۔ قریب قریب ۱۱۳  شرکا،  بنیادی طور پر کاروباری پیشہ ور  اور درمیانے درجے کے پیشہ ورافراد، کے علاوہ  تمل ناڈو اور کیرل سے تعلق رکھنے والے ۸۰ ٹرانس جینڈر اور خواتین کاروباری پیشہ وروں نے  امریکی ٹرینرنِک ریشس کی قیادت میں ۱۰ ہفتوں سے زیادہ کے  ۲۰گھنٹے طویل ورچوئل سیشن میں شرکت کی۔

مختصر بات چیت
گھر کی سجاوٹ اور تحائف تیار کرنے والے چھ فنکاروں پر مشتمل ناگالینڈ کے دیماپور کی کمپنی، ایکسپریشن لائف کی مالک، تسنگکلہ  امچن کہتی ہیں’’میں پہلی نسل کی کاروباری پیشہ ور ہوں۔جب میں نے اپنی کمپنی شروع کی تو میں نے سوچا کہ کاروبارکا مطلب صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے لیکن میں نے سیکھا کہ اس کا تعلق اس سے بھی ہے کہ  آپ لوگوں کے ساتھ کس طرح بات چیت کرتے ہیں۔ جب ہمیں اپنا تعارف کرانے کے لیے  کہا گیا توہمارا تعارف بہت طویل ہو گیا اور ہمارے لیے  اپنے کاروبار کی وضاحت کرنا بہت مشکل کام ہو گیا۔ ڈیٹر برون نے ہمیں سکھایا کہ کم وقت میں اپنا تعارف کیسے کرایا جاتا ہے۔ اس تربیت نے واقعی میری مدد کی۔‘‘

امچن کا کہنا ہے کہ برون نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے لیے کافی مشق کرائی جائے۔وہ بتاتی ہیں ’’وہ ہمیں روکتے اور کہتے، ’آپ کو اس طرح بات کرنےاور اپنا مدعا بیان کرنے کی  ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ۱۰ سطروں میں کہنے کے بجائے صرف ایک سطر میں کہیں۔‘‘

جب کاروباری پیشہ وروں کو اپنے کاروبار کی وضاحت کرنی ہوتی ہے تو یہ مہارت نہایت اہم ہو جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر جب کوئی بینک افسر کمپنی کےقرض کے سلسلے میں ہم سے پوچھتا ہے تو ’’ہم لوگ گھما پھرا کر بات کیا کرتے  اور اس سے سننے والے کی دلچسپی برقرار نہیں رہتی۔‘‘

دونوں پروگراموں میں انگریزی میں لکھنے کی تربیت فراہم کی گئی جس سے شرکا کو بھارت  اور بیرون ملک اپنے کاروبارکو وسعت دینے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر انہوں نے کاروباری ای میلز لکھنے کا طریقہ سیکھا ۔ آئی اے سی سی ورکشاپ میں حصہ لینے والے اور دیگر کمپنیوں کو آٹومیشن اور روبوٹکس فراہم کرنے والی چنئی میں قائم کمپنی، میل سسٹمز اینڈ سروسیز لمیٹڈ کے سینئر انجینئر، تیاگ راجا ستیہ مورتی کہتے ہیں ’’مجھے ای میلز لکھنے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتاتھامیں ایک سطر کی  ای میل لکھا کرتا تھا۔ بعض لوگ، خاص طور پر گاہک اسے بدتمیزی سمجھ سکتے ہیں۔ تربیت کے دوران ہمیں بہت سے ای میلز لکھنے پڑے۔  نِک نے  ان ای میلز پر اپنے رد عمل ظاہر کیے ۔‘‘  انہوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ’’زیادہ شائستہ الفاظ کا استعمال کرنے کا طریقہ‘‘بھی سیکھا۔

ریشس کا کہنا ہے کہ شرکا کو درپیش عام چیلنجز میں ’’بہت جلدی بولنا اور وقفہ نہ لینا شامل تھا۔ تحریری بات چیت میں  انہوں نے پنکچویشن (اوقاف و رموز) میں غلطیاں کیں اور شاید لہجے میں بھی۔ اس میں ثقافتی پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے ان سے ایک کاروباری ای میل میں کسی چیز کی درخواست کرنے کے بارے میں لکھنے کو کہا۔ انہوں نے اس کی حد سے زیادہ وضاحت کردی ۔ اس کا اصل مقصد صحیح توازن تلاش کرنا ہے۔‘‘

بات چیت کا انداز
تربیتی پروگراموں میں شامل ہونے والوں کو یہ بتایا گیا کہ وہ اپنے ممکنہ سرمایہ کاروں، شراکت داروں یا گاہکوں کو بھیجنے کے لیے طویل یا مختصر خط و کتابت کیسے کریں۔

برون کا کہنا ہے کہ ترقی پانے  کے لیے خاص طور پر یہ ایک مشکل ہنر ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے  چند منٹوں میں اپنے کاروبار کا تعارف کرانا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’وہ ہر چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے ’’کہنے کے انداز کا مقصد ناظرین کو دو سے تین منٹ میں ایسی معلومات دینا ہوتا ہے کہ وہ مزید جاننا چاہیں۔عام  طور پر آپ کسی مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور آپ اسے ایک منفرد طریقے سے کیسے حل کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی کمپنی میں ایک لمبی پریزنٹیشن کے لیے مدعو کیا جائے۔‘‘

ورکشاپس نے شرکا کو یہ جاننے میں مدد کی کہ پیغام میں چھوٹی چیزیں بھی کتنا فرق پیدا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ریشس کہتی ہیں کہ لوگ اکثر پریزنٹیشن میں بہت تیزی سے بات کرتے ہیں اور وقفہ نہیں لیتے۔ اس سے ناظرین کے لیے  جو کچھ کہا جا رہا ہے اس پر توجہ دینا مشکل ہوسکتا ہے اور اس طرح بولنے والا کلیدی نکات پر زور دینے کا موقع کھو دیتا ہے۔

ستیہ مورتی کا کہنا ہے کہ ریشس نے شرکا کو یہ بتایا کہ  کہاں رکنا ہے اور کہاں زور دینا  ہے۔ انہوں نے مزید کہا’’سپاٹ لہجے میں بات کرنے کے بجائے انہوں نے ہمیں بتایا کہ کس طرح مخصوص نکات پر زور دیا جاتا ہے۔‘‘

امچن کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے  چھوٹے کاروباری ساتھیوں نے جب اپنی تربیت ختم کی تو انہوں نے محسوس کیا کہ انہوں نے مختلف حالات کے لیے صحیح زبان کا استعمال کرنے اور اپنی کاروباری گفتگو اور لہجے کو زیادہ موثر بنانے کے بارے میں قیمتی بصیرت حاصل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’پروگرام کے شرکا میں سے ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ مجھے بس اسی چیز کی ضرورت تھی۔اب ہم بااثر بنیں گے اور دوسروں کو بہتر کاروبار کرنے میں مدد کریں گے۔‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد  پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے