جنگلات کے وسائل کا تحفظ

یوایس ایڈاور حکومت ہند نے’ فاریسٹ ۔ پلس ‘ نامی ایک پروگرام شروع کیا ہے ۔ اس کا مقصد جنگلات کا بہتر انتظام کرنا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی سے موثر طریقہ پر لڑا جا سکے ۔ علاوہ ازیں حیاتاتی تنوع کی حفاظت اور روزگار کے فوائد میں بھی اضافہ کیا جاسکے ۔

میگن میک ڈریو

July 2020

جنگلات کے وسائل کا تحفظ

سکم میں’’بایو بریکیٹ‘‘ بنائے گئے اور ان کی تشہیر کی گئی تاکہ جلانے کے قابل لکڑی کا استعمال بند ہو۔ تصویر بشکریہ یو ایس ایڈ

ایک تخمینے کے مطابق اس وقت بھارت کے قریب قریب  ۳۰۰ ملین افراد اپنی گزر بسر کے لیے جنگلات پر منحصر ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے یہاں اکثر جنگلات خستہ حال ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے ضروری اشیاء کی فراہمی میں خلل واقع ہوا ہے اور جامع معاشی ترقی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ ان دشواریوں کے حل کے لیے امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ )نے حکومت ہند کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے ۲۰۱۲ء میں ’فاریسٹ پلس پروگرام ‘ کی شروعات ممکن ہو سکی ۔

۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۷ء تک  فاریسٹ پلس کی ساری توجہ کرناٹک ، مدھیہ پردیش اورسکم ریاستوں میں کاربن اخراج کو کم کرنے پرتھی ۔ یو ایس ایڈ اور ہند کی وزارت برائے ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی (ایم اوای ایف سی سی) نے مشترکہ طور پر فاریسٹ پلس کا خاکہ تیار کیا ۔ اس کے تحت ہند ۔ امریکی تکنیکی مہارت ایک ساتھ اختراعات کا میدانی تجزیہ کرے گی ۔ اس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی پرقابو پانا، حیاتیاتی تنوع کی حفاظت اور روزگار کے فوائد میں اضافہ کرنا بھی ہے ۔

اس پروگرام کے کامیاب نتائج کی بہت ساری مثالیں ہیں ۔ یہ دراصل یو ایس ایڈ اور ایم اوای ایف سی سی کی اشتراکی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔

مثال کے طور پر سکم میں مصنوعی پتھر کا ڈلا بنانے پر زور دیا گیا ہے جو لکڑی کی جگہ حیاتیاتی ایندھن کے متبادل کے طور پر استعما ل کیا جاتاہے ۔ اس کے استعمال کو اس لیے فروغ دیا گیا تاکہ لکڑی پر انحصار کم کیا جاسکے ۔ اس کے علاوہ مونکس برائے ماحولیاتی تبدیلی مہم کے ذریعہ رومٹیک اور دیگر بد ھ خانقاہوں میں بدھ راہبوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق معلومات فراہم کی گئیں ۔ صوبہ کی دو جنگلاتی پناہ گاہوں کی حفاظت اور جنگلات کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اختراعی حل تلاش کیے گئے تاکہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان ٹکراوَ کے امکانات کو کم کیا جا سکے ۔

ہماچل پردیش کے رامپور میں شمسی توانائی سے گھروں کو گرم رکھنے اور پانی گرم کرنے کی شروعات کی گئی جس کے نتیجے میں لکڑی کے استعمال میں ۳۲ فی صد کی کمی درج کی گئی ۔ مزید برآں، اس سے خواتین پر کام کا بوجھ کم ہوا اور مویشیوں کے گھاس چرنے کے انتظام کی تکنیک میں بہتری ہوئی ۔ اس سے گھاس کی پیداوار ۷ گنا بڑھ گئی ، ساتھ ساتھ پیڑوں کی حفاظت بھی ہوئی ۔ ریاست کرناٹک کے شِو موگا میں جو کام ہوا ہے وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے ۔ اس پروجیکٹ کے تحت ۲۱ ہزار ۴۵۳ ہیکٹر پر مشتمل جنگلات میں کاربن اخراج کو کم کرنے کے لیے کام کیا گیا ۔ اس میں ۶ دیہی علاقوں کو ضروری اشیاء اور معلومات فراہم کی گئیں جس سے کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہوئی ۔ مقامی باشندوں میں ماحولیاتی تبدیلی اورپائیدار جنگلاتی انتظام کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ریڈیو اور نکڑ ناٹک کا سہارا لیا گیا ۔ مدھیہ پردیش کے ہوشنگا باد میں جنگلات موسمی طور پر سوکھ جاتے ہیں ۔ یہاں کارپوریٹ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگلات کے باہر پیڑوں کو لگایا گیا ۔ یہ قدرتی جنگلات کے تحفظ میں بہت کامیاب لائحہ عمل ثابت ہوا ۔

Man carrying basket of wood chips in a rural setting

فوریسٹ پلس کی جانب سے حمایت یافتہ پانی گرم کرنے کا سسٹم جسے ہماچل پردیش کے رامپور میں نصب کیا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ یو ایس ایڈ

فاریسٹ پلس کی شاندار کامیابی کے بعد(اس میں بعض اقدامات تو پہلی بار کیے گئے تھے) دسمبر ۲۰۱۸ ء میں ’فاریسٹ پلس ٹو پوائنٹ زیرو‘شروع گیا ۔ اس پانچ سالہ پروگرام کے اہداف میں ریاست بہار کے شہر گیا ، ریاست کیرل کے شہر ترو اننت پورم اور ریاست تلنگانہ کے شہر میڈک کو شامل کیا گیا تھا جس میں یہاں کے جنگلات کے انتظامات کو بہتر بنانا شامل تھا ۔ جب کہ ’فوریسٹ پلس ٹو زیرو‘  میں جنگلات میں موجود آبی ذخائر کی حفاظت کا بڑا ہدف رکھا گیا ۔ یو ایس ایڈ انڈیا میں جنگلات سے متعلق سینئر مشیر ورگیز پَول اسے ’’ جنگلات برائے آب اور خوشحالی ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔

پَول کہتے ہیں ’’ پانی جنگلاتی نظام سے حاصل ہونے والی ایک بہت اہم چیز ہے ۔ ایسے میں جب کہ انڈیا کے پاس دنیا میں موجود پانی کا صرف ۴ فی صد دستیاب ہے اور اسی سے دنیا کی ۱۶ فی صد انسانی آبادی اور ۱۸ فی صد مویشیوں کی آبادی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں تو اس کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔ ۲۰۱۶ ء میں ملک کی قریب قریب  ۴۰۰ ندیوں میں سے ۲۹۰ کے جائزے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ۷۰ فی صد سے زیادہ ندیوں کی حالت بہت نازک ہے ۔ اس کے اسباب میں کم ہوتا آبی بہاؤ،ناپائیدار استعمال اور آلودگی شامل ہیں ۔‘‘

یو ایس ایڈ انڈیا کی جنگلات سے متعلق ماہرہ سومتری داس کہتی ہیں ’’ تازہ پانی کی دستیابی میں تیزی سے ہورہی قلت کی وجہ جنگلات کی اہمیت میں بحیثیت’پانی کے ٹینک ‘کافی اضافہ ہوا ہے ۔ اس کی وجہ یہ کے جنگلات کی زمین سے ہی بہت سی ندیوں کو آغاز ہوتا ہے اور وہیں ان کی پرورش و پرداخت بھی ہوتی ہے ۔ ‘‘ پھلتے پھولتے جنگلات کے بنالاکھوں افراد ،جانور اور ارضی نظام نہ صرف اپنی معاشی بنیاد کھو دیں گے بلکہ ماحولیات میں استحکام پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت بھی ختم ہوجائے گی جو کہ صاف پانی اور ہوا کے لیے نہات ہی ضروری ہے ۔ جنگلات کی تفریحی اور مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کی صلاحیت بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گی جس پر انسانی آبادی انحصار کرتی ہے ۔

’فاریسٹ پلس ٹو زیرو‘ کے چیف آف پارٹی اُجّوَل پردھان کہتے ہیں ’’ فاریسٹ پلس ٹو زیرو کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج یہ کہ کس طرح انڈیا میں جنگلات کے مروجہ انتظام میں تبدیلی لائی جائے ۔ اورجنگلات کے انتظام کا رخ قدرتی ارضی نظام کی جانب موڑا جائے جس سے جنگلات سے ملنی والی تمام خدمات میں بہتری واقع ہو ۔ اسی سے منسلک چیلنج یہ بھی ہے کہ اس سے ان تمام لوگوں کے روزگار کو محض گزر بسر سے آگے بڑھایا جائے جو اس بہترین قدرتی وسائل پر منحصر ہیں ۔‘‘

پَول بتاتے ہیں ’’ خوش قسمتی سے ، جدیداوزاروں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ، بھارت اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورسرگرم افراد ایک ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ اچھی بات یہ بھی ہے کہ جولوگ ان طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ، اس معاملے میں ان کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ہمیں پُر جوش کرنے کے لیے یہاں بہت کچھ ہے ،ایسے میں جب کہ ہم ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور ہماری ایک آنکھ درپیش خطروں کا مشاہدہ کر رہی ہے تو دوسری آنکھ ان مواقع کو دیکھ بھی سکتی ہے جو جنگلات کے ساتھ ہم آہنگی کے نتیجے میں ہ میں مل سکتے ہیں ۔‘‘

 

ریاست کیلیفورنیا کے مونٹیرے میں مقیم میگن میک ڈریو سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور مرسیڈ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں عمرانیات کی پروفیسر ہیں ۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے