سائنسی رابطے 

این ایس ایف ڈائریکٹر سیتو رمن پنچناتھن نے امریکی اور بھارتی اداروں کے درمیان ۳۰ سے زائد نئی شراکت داریوں کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد دو طرفہ تحقیق کے ذریعہ آپسی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

January 2023

سائنسی رابطے 

نیشنل سائنس فاؤنڈیشن(این ایس ایف)کے ڈائریکٹر سیتو رمن پنچناتھن (دائیں) نے اگست ۲۰۲۲ میں بھارت کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران انہوں نے سرکاری حکام، نجی شعبے کے لیڈران، اساتذہ اور طلبہ سے نئی دہلی، بینگالورو، ویلور اور چنئی میں ملاقات کی۔ 

امریکی قومی سائنس فاؤنڈیشن (این ایس ایف) ۸ اعشاریہ ۸ بلین امریکی ڈالر مالیت کا ایک خود مختار وفاقی ادارہ ہے جس کا قیام ۱۹۵۰ء میں امریکی کانگریس کے ذریعہ عمل میں آیا تھا۔ یہ فاؤنڈیشن بجزطبّی علوم، سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر تمام میدانوں میں عطیات کے ذریعے تحقیق و تعلیم کی حمایت کرتا ہے۔

این ایس ایف کے موجودہ ڈائریکٹر سیتو رمن گذشتہ  تین دہائیوں سے زیادہ عرصےسے اعلیٰ تعلیم اور حکومت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ’ نالج انٹرپرائزیز‘ کی نہ صرف خاکہ کشی کی بلکہ انہیں بنایا بھی تاکہ تحقیق جدت، کاروباری پیشہ وری ، عالمی ترقی اور معاشی نمو کو فروغ حاصل ہو۔ اس سے پہلے پنچناتھن ایریزونا اسٹیٹ نالج انٹر پرائز یز کے ایکزیکٹو وائس پریزیڈینٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ اس  عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے چیف ریسرچ اینڈ اننوویشن افسر کی ذمہ داری بھی نبھائی۔

پنچناتھن نے ۱۹۸۴ ءمیں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس سے الیکٹرانکس اینڈ کمیونیکیشن انجینئرنگ میں بیچلرس ڈگری  لینے کے بعد ۱۹۸۶ءمیں آئی آئی ٹی مدراس سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹرس ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ۱۹۸۹ ءمیں یونیورسٹی آف اوٹاوا سے الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔

اگست ۲۰۲۲ میں پنچناتھن نے بھارت کا دورہ کیا جہاں انہوں نے دہلی، بینگالورو، ویلور اور چنئی میں سرکاری افسران، صنعتی شخصیات، اساتذہ اور طلبہ سے ملاقاتیں کیں۔پیش ہیں سہ ماہی اسپَین میگزین سے ان سے انٹرویو کے اقتباسات ۔

گذشتہ برس اگست میں آپ نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس دورے کے مقصد و مدعا اور اس کی حصولیابیوں کے بارے میں ہمیں بتائیں۔

میرا بھارت دورہ ہمارے رہنماؤں صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم نریندر مودی  کی گفت و شنید کی فطری توسیع ہے۔ دونوں رہنما تحقیق اور تعلیم پر مبنی شراکت داریوں کے طویل مدتی قدر پر زور دیتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے شہریوں کو فائدہ پہنچے۔

اپنے اس دورے کے دوران مجھے ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا جو سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں ان لوگوں سے مل کر کافی متاثر ہوا۔ نیز بھارت کی سائنسی برادری کی ناقابل یقین ہنر مندی اور دانش مندی کے متعلق میری سوچ کی تجدید ہوئی۔

امریکہ اور بھارت کے محققین کے درمیان ماضی اور موجودہ اشتراکات کے دونوں ممالک کے لیے نہایت ہی عمدہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اپنے اس دورے کے دوران ہم نے این ایس ایف اور بھارت کے مختلف اداروں کے درمیان زائد از ۳۰ نئے اشتراکات کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کے ان سائنسی و تحقیقی اداروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، انڈین اسٹیٹسکل انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ دہلی، ممبئی، چنئی اور جودھپور میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ میں مستقبل کے بارے میں پُر امید ہوں  کیوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض طلبہ اور محققین امریکہ میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کیا حصولیابیاں کر سکتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے  وہ کون سے کلیدی شعبے ہیں جن میں ہند اور امریکہ اشتراک کر سکتے ہیں؟

اشتراک کرنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے مواقع ان شعبوں میں ہیں جن کے بارے میں دونوں ممالک کے متنوع شہری گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور ان سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ مل کر کام کرنے سے ہم بہت سے اہم شعبوں جیسے ماحولیاتی پائیداری، ذراعت، عالمی صحت اور قومی سلامتی میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجیوں کے ذریعے وسیع تر فوائد کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

اس طرح کے اشتراک کی ایک مثال بھارت کے ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اننوویشن ہب کے ساتھ دو طرفہ تحقیق میں تعاون کرنے کا ہمارا عزم ہے۔ امریکہ اور بھارت کے محققین کے درمیان ان سائنسی و تحقیقی اشتراکات سے مصنوعی ذہانت و جدید وائرلیس مواصلات جیسی ابھرتی ہوئی اہم ٹیکنالوجیوں پر کام کو وسعت دینے، تعلیمی تبادلے کی حوصلہ افزائی کرنے اور منفرد وسائل جیسے ’ٹیسٹ بیڈس ‘اور ’ڈیٹاسیٹس‘  سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔

عمومی طور پر یہ کہنا بجا ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں باہمی اشتراک کے نتیجے میں دونوں ممالک عالمی مسائل بشمول وبائی امراض اور ماحولیاتی تبدیلی کے لیے بہتر حل پیش کر سکیں گے۔

آپ کے خیال میں امریکہ اور بھارت کی شراکت داری سائنسی خیالات کے تبادلے کو آگے بڑھانے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

میں امریکہ اور بھارت کو شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہوں۔ سائنسی علوم کے حصول میں دونوں ممالک کے اقدار مشترک ہیں جن میں تحقیقی دیانتداری، شفافیت اور باہمی تعاون شامل ہیں۔ لہٰذا اس مضبوط بنیاد کے ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے تمام شعبوں میں ہمارے درمیان باہمی اشتراک کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں۔

حالانکہ ہمارے سائنس دانوں اور انجینئروں کا بنیادی مقصد دریافت اور اختراع کے ذریعے تحقیق کے امکانات  کو دراز کرنا ہے لیکن اصل میں یہ ہماری شراکت اور تعاون کی طاقت اور جیت ہے کہ یہ سائنسی دریافتیں مثبت سماجی اثرات پیدا کرتی ہیں۔

معیاری سائنسی تحقیق کے لیے اکثر کئی ذرائع سےسرمایے کی ضرورت پڑتی  ہے۔ امریکہ کس طرح  بھارت میں اس طرح کی تحقیق کی مالی اعانت کر سکتا ہے؟

بھارت جنوبی ایشیا میں سائنسی تحقیق اور ترقی کے میدان میں  ایک تسلیم شدہ رہنما کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر چکا ہے۔ معلومات اور مواصلات کی ٹیکنالوجی، زراعت، سستی طبی خدمات، توانائی اور پانی کی ٹیکنالوجیوں جیسے شعبوں میں تو بھارت عالمی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مہارت اور قیادت امریکہ میں متعلقہ شعبوں کے ساتھ اچھی طرح میل کھاتی ہے اور مستقبل میں اشتراک کے بہت سے امکانات پیدا کرتی ہے۔

بھارت کے ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے شراکت میں این ایس ایف امریکی اداروں اور بھارت کے ٹیکنالوجی اننوویشن ہبس میں کی جانے والی باہمی تحقیق کی حمایت کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں بھارت میں سائنس، ٹیکنالوجی اور تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنے والے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مختلف النوع تحقیقی سرگرمیوں میں مشترکہ سرمایہ کار ہونے پر بھی فخر ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں این ایس ایف نے ۲۰۰ سے زیادہ بھارتی اداروں اور سائنسدانوں کے تحقیقی پروجیکٹوں  کو سرمایہ فراہم کیا ہے جن کی تحقیقی سرمایہ کاری میں مجموعی  لاگت ۱۴۵ ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔

دو سال بعد این ایس ایف کے قیام کو ۷۵ سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس خاص موقع پر شراکت داری کے ذریعے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے این ایس ایف کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟

این ایس ایف کا قیام ۱۹۵۰ ءمیں امریکی کانگریس  کے ذریعہ  عمل میں آیا۔قیام کا مقصد بنیادی سائنسی تحقیق کو فروغ دینا تھا تاکہ نہ صرف قدرت کے اسرار و رموز کا گہرائی سے ادراک ہو بلکہ صحت، خوشحالی، بہبود اور سلامتی کو بھی فروغ دیا جا سکے۔ گو کہ گذشتہ سات دہائیوں میں دنیا میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن این ایس ایف کا مشن آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اس  وقت تھا۔

مشترکہ جمہوری اقدار پر مبنی عالمی شراکت کے ایک حصے کے طور پر ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایک مساوی و خوشحال دنیا کو فروغ دینے کا اہم ستون سمجھتے ہیں۔ بھارت جیسے ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ خیالات، وسائل اور بہترین طریقہ کار ساجھا کرنا این ایس ایف کا نصب العین رہا ہے۔

آج کل ہمیں جن  بڑے  مسائل کا سامنا ہے  وہ کسی ایک ملک کی جغرافیائی حدود، سائنسی مضامین یا تحقیقی ٹائم لائن تک ہی حدود نہیں ہیں۔ مثلاً شدید موسمی کیفیات جیسے جھلسا دینے والی گرمی کی لہریں یا قحط سالی ہی  کولے لیجیے۔ ان کا ہم پر اس قدر خطرناک اثرمرتب ہو رہا ہے جو چند دہائیوں قبل فہم سے پرے تھے۔ یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کو سائنس کا صرف ایک شعبہ  یا محض ایک ملک حل نہیں کر سکتا۔ بلکہ ضرورت ہے کہ ہم سب آپس میں مل کر کام کریں اور ان مسائل کا حل تلاش کریں۔

اس سال یعنی ۲۰۲۲ ءمیں امریکہ اور بھارت کے سفارتی تعلقات کے ۷۵ سال مکمل ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سائنسی تحقیق اور تعلیم کے شعبوں میں باہمی اشتراک اور تعاون کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ایسے میں جب کہ ہم  باصلاحیت نوجوان سائنسدانوں کے سہارے مستقبل میں قدم رکھ رہے ہیں،مجھے اس پر ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت سائنسی دریافت اور اختراع کے میدانوں میں کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔

کووِڈ۔ ۱۹ عالمی وبا نے عالمی معیشت اور زندگی کے ہر شعبہ پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس نے این ایس ایف کے اہداف اور لائحہ عمل کو کس طرح متاثر کیا ہے؟

کووِڈ۔ ۱۹ کے دوران سائنس اور انجینئرنگ کمیونٹی کو اس وبائی بیماری کے بہت سے نامعلوم پہلوؤں اور اثرات سے نمٹنے کا چیلنج ملا تھا۔ اس نے محققین کو اپنی مہارت و تربیت کا استعمال کرتے ہوئے بیماری کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے، نیز معاشرے کے وسیع معاشی و معاشرتی پہلوؤں سے نمٹنے کی خاطر راحت رسانی کے وسیلے تلاش کرنے کے مواقع فراہم کیے۔

مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ریسرچ کمیونٹی نے اس چیلنج کو بخوبی قبول کیا اور ہم نے قلیل مدت کے دوران  ۱۲۰۰ سے زیادہ ریپڈ ریسپانس ریسرچ پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کی۔ این ایس ایف کے کفالت شدہ ان تحقیقی منصوبوں نے کووِڈ کی نوعیت، تشخیص، علاج اور اثرات کے بارے میں اہم چیزیں دریافت کیں، جیسے  کہ یہ وبا کیسے پھیلتی ہے؟ اور اس کی تشخیص کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ معیشت اور سپلائی چینس پر اس کے مضمرات کیا ہیں ؟ بچوں کی تعلیم پر اس کے اثرات  کیا ہیں ؟ وغیرہ ۔

ان اقدامات سے معاشرہ کو درپیش ہنگامی مسائل سے نمٹنے کی این ایس ایف کی پھرتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں اسے این ایس ایف کی بنیادی اقدار اور بطور تنظیم سائنسی اداروں کی حمایت کرنے اور لوگوں کے لیے دیرپا وسائل پیدا کرنے کے ہمارے اہداف کی توثیق کے طور پر دیکھتا ہوں۔

ماحولیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خاص طور پر بھارت میں تو یہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہے۔ ایسے میں اختراعات اور ٹیکنالوجی کس طرح مدد گار ثابت ہو سکتی ہے؟

مجھے پختہ یقین ہے کہ سائنسی اختراعات اور تعاون ہمیں ایسی راہ دکھا سکتے ہیں  جس کے ہم خواہاں ہیں۔ اس میں ہر ایک کے لیے خوشحال اور صحت مند مستقبل کی تعمیر بھی شامل ہے ۔ مثال کے طور پر بھارت نے قابل تجدید توانائی کو پیدا کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی قوت میں اضافے کے واسطے کافی بلند اہداف مقرر کیے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اختراع ان اہداف کی تکمیل میں ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو گا۔

این ایس ایف اور بھارت کے درمیان شراکت انسانی صحت، آب و ہوا، زراعت اور نقل و حمل جیسے شعبوں میں لچک کو یقینی بنانے کی دونوں ملکوں کی مشترکہ صلاحیت  کو دوام بخشے گی۔ مثال کے طور پر این ایس ایف فزیکل سائنسز، انجینئرنگ اور سوشل سائنسز میں باہمی تعاون پر مبنی تحقیق کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی، موافقت اور لچک کے چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ ان باہمی تعاون کے منصوبوں میں شمسی ٹیکنالوجی پر کام، سمندری ہوا، میتھین کے اخراج کو کم کرنا، کاربن کی گرفت، پاور گرڈ اسٹیبلائزیشن اور کئی دوسری چیزیں  شامل ہیں۔

اس طرح کی مشترکہ کوششوں  میں اضافے کے طویل مدتی فوائد اور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تعاون کے عمل اور یکساں اختراع پردازی کو قوی سے قوی تر کرنا ہو گا تاکہ امریکہ اور بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ان کے فوائد سے مستفیدہو سکے۔

آئی آئی ٹی دہلی میں آپ نے نئے راستے بنانے کی بات کی تاکہ ہر علاقے اور کمیونٹی سے ہنر اسٹیم کمیونٹی میں شامل ہو سکے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کون سا ایک اہم عنصر ہے جو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اسٹیم شعبوں میں طویل مدتی شراکت کی ترغیب دے گا؟

ایک اہم طریقہ کار جس کے ذریعے ہم طلبہ کو اسٹیم  شعبہ جات میں کریئر بنانے کی ترغیب دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ طلبہ اپنے  اندر موجود اختراعی ذہن کو فروغ دیں۔ ابتدائی عمر ہی میں اسٹیم کا جذبہ پیدا کرنا اور ہر فرد میں تجسس پر مبنی سوچ وجود میں لانا بہت ضروری ہے۔ جس لمحہ ہم پیدا ہوتے ہیں اسی لمحہ سے ہم اپنے ارد گرد کی چیزوں پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں ہر روز اپنی پوتی کی نظر سے یہ سب کچھ دیکھتا ہوں۔ وہ ہر چیز کو لے کر بہت متجسس ہے اور اپنی اطراف کی دنیا کے بارے جاننے کے لیے کافی بے چین رہتی ہے۔

ہمارے اندر پیدائشی طور پر تجسس کا مادّہ ہوتا ہے۔ غالباً یہی ایک وجہ ہے جو مجھے سائنس میں لے آئی۔ جب میں آٹھ برس کا تھا تو میرے والد مجھے اپنے آبائی شہر چنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ لے کر گئے جہاں اپالو ۱۱ کے خلابازوں کی طرف سے لائے گئے چاند  پر موجود چٹانوں کی نمائش ہو رہی تھی۔میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا کہ انسان چاند پر جانے کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں، وہاں سے یہ چٹانیں لے کر آ سکتے ہیں اور ان کو بھارت کے چھوٹے بچوں میں سائنس کی طرف رجحان پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

اسی ابتدائی تجربے نے میرے اندر سائنس کی دلچسپی کی لو جلائی۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ہر کوئی تجربہ کر سکتا ہے۔ تجسس ایک ایسی چیز ہے جس کی ہمیں نوجوانوں میں دلچسپی پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں نوجوانوں کو قابل عمل جذبے کے ساتھ بااختیار بنانے کے علاوہ انہیں یہ پہچاننے میں بھی مدد کرنی چاہیے کہ وہ واقعی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

آپ اسٹیم تعلیم کو جامع اور سب کی دست رس میں ہونے  کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ آپ کے نزدیک یہ اس قدر اہم کیوں ہے؟

دریافت اور اختراع پردازی میں عروج کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور بھارت جیسے عالمی سائنسی رہنما بنیادی دریافتوں، نئی اختراعات اور انقلابی ٹیکنالوجیوں کی تعمیر میں مشغول ہونے کے لیے ہر موجود صلاحیت سے استفادہ کریں۔ میرا ماننا ہے کہ اس کی کلید وہ ہنر ہے  جو بڑے شہروں سے لے کر دیہی قصبوں تک ہر طرح کی آبادیوں میں موجود ہے۔

این ایس ایف سے قبل میں ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ وہاں ہم نے اعلیٰ تعلیم کے دروازے ہر طرح کے طلبہ کے لیے کھول دیے تھے۔ ان میں مختلف النوع معاشرتی اور معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ تھے جن کے تجربات بھی ایک دوسرے سے الگ تھے۔ اس تجربے نے ہمارے کلاس رومس اورتجربہ گاہوں  کو ناقابلِ بیان فائدہ پہنچایا۔

آپ کا امریکہ میں تحقیق اور تدریس کا ایک طویل تجربہ ہے۔ آپ کا اُن بھارتی طلبہ کے لیے کیا مشورہ ہے جو امریکہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر تحقیق میں اپنا کریئر بنانا چاہتے ہیں؟

بھارت اور دنیا بھر کے طلبہ کے لیے میرا مشورہ یہی ہو گا کہ جب آپ اپنے تعلیمی سفر پر گامزن ہوں تو اپنے دماغ کو بالکل کھلا رکھیں اور اپنے اندر اطراف کی دنیا کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا کریں۔ آپ تجربات کرنے کے ساتھ تجربہ بھی حاصل کریں۔ آپ ہمیشہ متحرک اور فعال رہنے کی کوشش کریں، خطرات اٹھاتے رہیں، تعلقات قائم کرتے رہیں اور اتالیق کی تلاش جاری رکھیں۔

میں تہہ دل سے بھارت اور امریکہ کا شکر گزار ہوں جہاں مجھے تعلیم حاصل کرنے کے اتنے اعلیٰ مواقع حاصل ہوئے۔ اسی وجہ سے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ جس کسی کے بھی اندر اختراع پردازی کا جذبہ موجود ہے اسے ہر قسم کی سہولت میسر ہو۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے