شمسی توانائی کی سہولت سے فراہمی

بنگالورو میں واقع سِمپا نیٹ ورک انڈیا کے دیہی علاقوں میں توانائی سے محروم گھروں اورچھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو شمسی توانائی کے حصول کے آلات فروخت کرتا ہے ۔

پارومیتا پین

May 2019

شمسی توانائی کی سہولت سے فراہمی

 

سِمپا اپنے پری پیڈ میٹر سسٹم کا استعمال کرتی ہے۔ صارفین ابتدائی طور پر تھوڑے پیسے دے کر شمسی توانائی والا سسٹم لگوا سکتے ہیں۔ بشکریہ سِمپا نیٹ ورک۔ 

پیوش ماتھرلندن میں ایک کامیاب زندگی گزار رہے تھے ۔ وہ پرائیویٹ اِکویٹی (پرائیویٹ اِکویٹی سرمایہ کاری کی غرض سے بنائے گئے ایسے فنڈ کو کہتے ہیں جس میں اشتراک کا دائرہ محدود ہوتا ہے ۔ اس کے ذریعہ ان کمپنیوں کی خرید اور تنظیم عمل میں آتی ہے جن کی موجودگی شیئر بازار میں نہیں ہے)کے شعبے میں سرگرمِ عمل تھے ۔ ۲۰۱۳ ء میں جب وہ انڈیا واپس آئے تو ان کا ارادہ سماجی اور ترقیاتی میدانوں میں کام کرنے کا تھا ۔ وہ بتاتے ہیں ’’ مالیات کے شعبے میں میرا تجربہ وسیع ہے ۔ میں نے سوچا کہ اس پس منظر کے ساتھ میں ترقیاتی میدان میں بہت کچھ کر سکتا ہوں ۔ شاید کوئی ترقیاتی مالیاتی ادارہ ہی قائم کر لوں ۔‘‘

اسی زمانے میں ان کی واقفیت بنگالورو میں واقع ادارہ سِمپا نیٹ ورکس سے ہوئی ۔ اس کی بنیاد ۲۰۱۱ء میں متبادل توانائی میں کاروباری پیشہ وری کے تئیں پُر جوش تین افراد پَول نیدھم ، جیکَوب وِنی ایکی اور مائیکل میک ہارگ نے ڈالی تھی ۔

کمپنی شمسی توانائی سسٹم کو گھروں اور دوکانوں میں فروخت کرنے کے علاوہ اس کی خرید کے لیے درکار پونجی بھی فراہم کرتی ہے ۔ اس کمپنی نے ماتھر کا تجسس بیدار کیا ۔ انہیں محسوس ہوا کہ سستی توانائی تک رسائی کے لیے فراہمی کی توسیع ہی نہیں بلکہ مالیات بھی اہمیت کی حامل چیز ہے ۔ اس لیے وہ چیف مالیاتی افسر کے طور پر کمپنی سے وابستہ ہو گئے ۔ اب کمپنی میں سی ای او کے عہدے پر فائز ماتھر بتاتے ہیں ’’ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کمپنی کا کام شمسی توانائی کی تجارت ہے مگر یہ توانائی کی رسائی کے ساتھ مالیات کی فراہمی کے مسئلہ کو بھی بیک وقت حل کرتی ہے ۔ اگر لوگ شروع میں شمسی توانائی کے حصول کی زیادہ قیمت برداشت کر لیں تو وہ شمسی توانائی سے فیض حاصل کر سکتے ہیں ، خواہ انہیں رعایتی شرح والی سرکاری بجلی ملے یا نہ ملے ۔ مگر اصل مسئلہ تو شروعات کی زیادہ قیمت کا ہے ۔‘‘

سِمپا نام انگریزی کے سِمپُل پیمنٹ سے لیا گیا ہے ۔ کمپنی کا بنیادی مقصد شمسی توانائی کے حصول کو آسان بنانا اور صارفین سے متعلق بہتر خدمات فراہم کرنا ہے ۔ صارف کو اپنے یہاں شمسی نظام کی تنصیب کے لیے شروع میں تھوڑی سی رقم دینی پڑتی ہے ۔ بعد میں جتنا استعمال ، اتنی ادائیگی کے اصول کے تحت بجلی کا بل دینا پڑتا ہے ۔ توانائی خدمات کے لیے ادا کی جانے والی رقم کا شمار پوری قیمت کے لیے کیا جاتا ہے ۔ جب شمسی نظام کی تنصیب کی پوری قیمت ادا ہو جاتی ہے تو شمسی توانائی سے متعلق اکائی صارف کی ملکیت ہو جاتی ہے ۔ اصل میں سنہ ۲۰۱۶ ء میں کمپنی کو ملینیم الائنس سے مالی عطیہ ملا تاکہ دیہی علاقوں میں کم آمدنی والے گھروں اور چھوٹے پیمانے پر تجارت کرنے والوں کو شمسی توانائی بطور سہولت دی جا سکے ۔ ملینیم الائنس حکومتِ ہند اور امریکی حکومت کے مابین اختراع پردازوں کی امداد کے لیے قائم کیا گیا ایک اشتراکی منصوبہ ہے ۔

کمپنی کا ارادہ ملک میں ایسے گھروں اور اداروں کو شمسی توانائی بہم پہنچانے کا ہے جہاں سرکاری بجلی نہیں پہنچتی ۔ کمپنی نے پچھلے ۴ برسوں میں اتر پردیش ، بہار اور اڑیسہ میں ۶۰ ہزار شمسی توانائی سسٹم کی تنصیب کی ہے ۔ ماتھر کمپنی کے ہدف کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ہمارے شمسی توانائی سسٹم کے پیکج میں پوائنٹ آف سیلس فائنَینسِنگ (سسٹم ملنے کی جگہ پر اس کی خرید کے لیے پونجی کی دستیابی) کے علاوہ سسٹم سے متعلق خدمات کو صارفین کے گھر تک پہنچانا بھی شامل ہے ۔ اس طور پر یہ شمسی توانائی کے صارفین کے لیے سستا اور آسان حل ہے ۔ ہم نے سسٹم کی فراہمی کے مسئلہ کو قوتِ خرید پر توجہ مرکوز کرکے حل کیا تاکہ صارفین شمسی توانائی سسٹم خریدنے کی جانب راغب ہوں ۔ ہم نے راست طور پر فروخت کے طریقہ کار کو اپنایا تاکہ لوگوں کو نہ صرف ان کو فروخت کیا جاسکے بلکہ ان کی ضروریات اور ان کی ادائیگی کی صلاحیت کے متعلق معلومات بھی جمع کی جاسکیں ۔ اب صارفین قسطوں میں بھی رقم جمع کر سکتے ہیں ۔ انہیں ضرورت نہیں کہ پوری رقم شروع میں ہی یک مشت ادا کریں ۔‘‘

کمپنی شہروں میں قرب و جوار کے افراد کو سیلس ایجنٹ کے طور پر ملازم رکھتی ہے ۔ اور یہی لوگ اصل میں کمپنی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ ماتھر باخبر کرتے ہیں ’’ہم بہت احتیاط کے ساتھ لوگوں کو ملازمت پر رکھتے ہیں ۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جن کو ملازم رکھ رہے ہیں ان کا تعلق مقامی علاقوں سے ہو،ان کے اپنے طبقات میں سماجی تبدیلی کی حقیقی خواہش ہو اور ان کے اندر شمسی توانائی کو اختیار کرنے کو فروغ دینے کی بھوک بھی ہو ۔ یہ ایجنٹ یا سوریہ مِتر ایسی دکانوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کو شمسی توانائی کے استعمال سے فائدہ ہوسکتا ہے ۔ وہ متعلقہ افراد سے گفتگو کرتے ہیں اور اُن کی ضروریات کے بارے مزید معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پرایک آدمی مغرب کے فوراًبعد صرف اس لیے اپنی دوکان بند کر رہا ہے کیوں کہ بجلی کی صورت حال نہایت غیر یقینی ہے ۔ ایجنٹ اسے سمجھاتے ہیں کہ سِمپا کے شمسی پینل کس طرح کام کرتے ہیں اور اس کے کیا کیافائدے ہیں ۔ شمسی توانائی سسٹم کی ایک اکائی کی قیمت ۱۵ ہزار سے ۳۵ ہزار کے درمیان ہے ۔ صارفین شروعات میں صرف ۱۰ فی صد رقم ہی ادا کرتے ہیں اور اس کا استعمال شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ہماری کسٹمر کیئر ٹیم کے ارکان ہر اس گھر اور دکان پر جاتے ہیں جہاں ہمارے سسٹم استعما ل میں ہیں تاکہ کسی پریشانی کی صورت میں پریشانی کو وہیں رفع دفع کیا جا سکے ۔ ایجنٹ اپنے دوروں کے دوران قسط بھی جمع کر لیتے ہیں ۔‘‘

ماتھر کا دعویٰ ہے کہ سِمپا کا مالیاتی ماڈل کافی مضبوط اور قابلِ عمل ہے ۔ اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’ آج ہمارے تعلقات اووَرسیز پرائیویٹ اِنویسٹمینٹ کارپوریشن(او پی آئی سی )جیسے اداروں سے ہیں ۔ سِمپا کا شمار ان ابتدائی کمپنیوں میں ہوتا ہے جنہیں او پی آئی سی سے قرض ملا ۔ اس سے اسی قسم کی مستقبل کی مالیاتی شراکت داریوں کی راہ ہموار ہوئی ۔ پہلے سِمپا اے ڈی بی جیسے بینکوں سے قرض لے کر صارفین کو دیا کرتی تھی ۔ مگر آج کمپنی کی شراکت مقامی تجارتی بینکوں سے ہے جس سے شمسی آلہ جات کے لیے مالیات کا انتظام ہوتا ہے ۔‘‘

اپنی بات ختم کرتے ہوئے ماتھر کہتے ہیں ’’اگر آپ مجھ سے میری حصولیابی کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کہوں گا کہ میرا سب سے بڑا کار نامہ یہ ہے کہ میں نے اس سیکٹر کو کھڑا کیا ہے اوراسے مالیاتی طور پر قابلِ عمل بنایا ہے ۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیوادا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے