عالمی وبا کے دوران تعلیم

جامعات اور طلبہ دونوں مشکل حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں جب کہ حفاظتی تدابیر ، سماجی فاصلوں اور سفری پابندیوں نے یونیورسٹیوں کے روایتی داخلہ نظام کو متاثر کیا ہے۔

ہلیری ہوپیک

April 2022

عالمی وبا کے دوران تعلیم

بائیں سے: سونل سوزین، کوسوما ناگراج اور شِونا سکسینہ۔ تصاویر بشکریہ سونل سوزین، ایرن لو/ یو سی ڈیوس اسکول آف لا اور شِونا سکسینہ۔

بیرون ممالک تعلیم حاصل کر رہے بین الاقوامی طلبہ کو کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کی وجہ سے۲۰۲۰ء کے اوائل میں مختلف النوع مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ۔ عالمی وباکی وجہ سے بیشتر یونیورسٹیوں نے باالمشافہ تدریس اور آپسی میل جول کو ترک کرکے مجازی تعلیم کا متبادل اختیار کیا۔ جیسے جیسے وبا نے شدت اختیار کی ویسے ویسے جامعات نے بھی اپنے داخلے کے نظام اور بین الاقوامی سفرکے تقاضوں میں تبدیلی کی۔مگر یونیورسٹیوں نے بہر کیف طلبہ کے ساتھ ملک کر کام کیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ داخلے بلا توقف جاری رہیں ، نصابی تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبہ کو ملازمت کی تلاش میں مدد بھی دستیاب رہے۔ عالمی وبا کے دوران طلبہ نے اپنی تعلیم کو کس طرح جاری رکھا ، اس سلسلے میں چار بھارتی طلبہ نے اسپَین کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے۔ ان میں حالات سے سمجھوتہ کرنے اور نا موافق حالات سے ابھرنے کے لیے لچیلے پن کا مظاہرہ کرنے کا بھی ذکر ہے۔

مجازی تعلیم سے مطابقت
کُسُما ناگراج نے بھارت میں کئی سال بحیثیت خاندانی وکیل کام کیا۔ انہوں نے عالمی وبا کے سبب آغاز میں اپنےاعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کو ملتوی کردیا تھا۔ ناگراج نے بالآخر ڈیوس میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ۲۰۲۱ ءمیں ماسٹر آف لا میں داخلہ لیا۔ انہوں نے مجازی کلاسیزکے سبب کچھ وقت بینگالورو میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں نے اپنی ماسٹرس کی پڑھائی کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا کیونکہ بھارت سے امریکہ جانے کے لیے سفری اور ویزا کی پابندیاں تھیں۔ گو کہ شروعاتی دور کی میری بعض کلاسیز چھوٹ گئیں لیکن چونکہ وہ ریکارڈ تھیں اس لیے میں ان کو دوبارہ دیکھ پائی۔‘‘

پرتھم جادھو نے ریان انٹرنیشنل اسکول اورممبئی کے سینٹ اینڈریوز کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۲۰۲۰ ءمیں آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی(آئی ایس یو) میں بزنس انالٹکس انڈرگریجویٹ پروگرام میں داخلہ لیا۔ ضرورت کے مطابق ان کی کلاسیز باالمشافہ اور مجازی دونوں ہی طرح ہوئیں۔مگر ان میں سماجی دوری اور ماسک کی سخت پابندیاں عائد تھیں۔وہ وضاحت کرتے ہیں’’ حالاں کہ یونیورسٹی نے کلاس روم میں حفاظتی تقاضوں کے تحت پچاس فی صد کا اصول بنا رکھا تھا ، لہٰذا جادھو اور بہت سے دیگر طلبہ کو نئے مجازی تعلیمی ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کافی دقت پیش آئی۔ مجھے ایک ہی کورس پڑھنے والے طلبہ سے دوستی کرنے میں کچھ وقت ضرور لگا مگر پروفیسر حضرات اور تدریسی معاونین سے گفتگو میں کوئی دقت پیش نہیں آئی کیوں کہ میں ان سےآن لائن یا لائبریری اسٹڈی روم میں اشتراک یا ملاقات کر سکتا تھا۔ ‘‘

عالمی وبا کےمخصوص حالات کے دوران اسکول اور جامعات نے لچیلے پن کی اہمیت کو ملحوظ رکھا۔ جادھو ہی کی طرح شِونا سکسینہ کو بھی مجازی کلاسیز میں شرکت کرنے میں شروعاتی دور میں کافی دقت پیش آئی۔ انہوں نے۲۰۲۱ ءمیں مرکزی واشنگٹن یونیورسٹی میں صحت عامہ کا پروگرام شروع کیا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ مجازی کلاس روم کا تجربہ نیا تھا۔ لیکن تمام تر تکنیکی ترقی اور زوم جیسے شاندار پلیٹ فارم کی بدولت پڑھائی میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میرے پروفیسر حضرات نے بحث اور پاور پوائنٹ کے لیے مخصوص بریک آؤٹ رومس کے ذریعہ اپنے اپنے لیکچر دیے۔ یہ میرے لیے واقعی بہت سود مند ثابت ہوئے۔ جب بھی مجھے اپنے کورس ورک کو لے کر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو میں جھٹ اپنے پروفیسروںکو ای میل کرتی اور مجھے بر وقت اس کا جواب موصول ہوجاتا۔ ایک اور اچھی بات یہ رہی کہ اساتذہ نے ہمیں اسائنمنٹ لکھنے کے لیے ’ورکنگ گروپ ‘میں تقسیم کردیا تھا۔ اس سے میرے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات قوی ہوئے اور ہم نے ایک دوسرے سے سیکھا بھی۔‘‘

ناموافق حالات میں لچیلے پن کا مظاہرہ
سونل سوزین ساؤتھ فلوریڈا یونیورسٹی میں سیل اینڈ مالیکیولر بایو لوجی میں بیچلر ڈگری کی تعلیم حاصل کررہی تھیں جب ۲۰۲۰ ءمیں امریکہ میں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ اس کے بار ے میں وہ بتاتی ہیں ’’ خوش قسمتی سے پروفیسر اور تدریسی معاونین کورس ورک اور ڈید لائن کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے رہے جو اس وبائی صورت حال میں موزوں بھی تھا۔‘‘

داخلوں میں خلل کے باوجود یونیورسٹیاں مسلسل اس امر کو یقینی بناتی رہیں کہ کلاسیز وقت مقررہ پر ہوتے رہیں اور نئے مجازی تعلیمی نظام کو لے کر طلبہ مطمئن رہیں۔ سوزین بتاتی ہیں ’’یونیورسٹی انتظامیہ مستقل اختراع پردازی کرتی رہی تاکہ ہمارے سیکھنے کے تجربے میں ہم برابر شریک ہوتے رہیں۔ مثال کے طور پر جینیاتی تجربہ گاہ میں ہم نے آن لائن نمونے تیار کیے اور ہماری آرگینک کیمسٹری کی کلاس میں ہم نے ایپ پر کھیل کھیلے جن میں ہم نے مختلف سالمات بنانے کےلیے بانڈ بنائے بھی اور توڑے بھی۔‘‘

طلبہ پر دوہرا اثر پڑا کیونکہ انہیں اپنی ذاتی حفاظت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ پردیس میں غیر یقینی صورت حال سے بھی نمٹنا تھا۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو انہیں خود کو مصروف رکھنے کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ ناگراج نے ازخود اقدام اٹھاتے ہوئے عالمی وبا کی پابندیوں پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ وہ بتاتے ہیں’’گھر پہ اپنی تخلیقی صلاحیت پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے میں نے خود کو یوگ جیسی چیزوں میں لگایا ۔ میں نے کھانا بھی پکایا اور بیکنگ بھی کی۔ میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہا کیوں کہ ہمارے پروگرام میں اس کا التزام تھا کہ مجازی پروگراموں میں طلبہ کھیل کھیلیں ، گانے گائیں اور ملاقاتوں کا سلسلہ دراز کریں۔ بعد میں جب میں امریکہ جا پایا تو ہم نے سماجی دوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ملاقاتیں کیں۔‘‘

سکسینہ کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ نفسیاتی، جسمانی اور ماحولیاتی عناصر زندگی کے معیار پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنی یونیورسٹی میں کلب اور تدریسی تقریبات میں شرکت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔وہ بتاتی ہیں ’’میں شکر گزار ہوں بین الاقوامی پروگرام مشیروں کی شاندار ٹیم اور ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کے اساتذہ کی جن کی بدولت میرا مجموعی تعلیمی تجربہ کافی مثبت رہا۔‘‘سوزین بھی کیمپس میں ہونے والی تقریبات میں کافی فعال تھیں۔ کبھی وہ کالج میں ہونے کھیلوں میں حکم کا کردار نبھاتیں تو کبھی اَیتھلیٹکس کے طلبہ کو سکھایا کرتیں۔ وہ یونیورسٹی آف فلوریڈا میں بھارتی طلبہ ایسو سی ایشن کی صدر بھی رہیں۔

کیمپس کی زندگی کے علاوہ بھی سوزین جیسے طلبہ نے فوڈ بینک قائم کیے جن کے ذریعہ پریشان حال بین الاقوامی طلبہ اور ان کے گھر والوں کی مدد کی گئی۔وہ بتاتی ہیں ’’ اکثر لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ان کے پاس کرایہ ادا کرنے اور کھانے پینے اور دیگر سامان خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔ ہم نے ۵ ہزار ڈالرس کے گفٹ کارڈ تقسیم کیے اور طلبہ کا غیر منفعت بخش تنظیموں کے نمائندوں سے رابطہ کروایا جنہوں نے ان کا کرایہ ادا کرنے میں مدد کی۔ ہم نے اپنی کاوشوں کی بدولت ۲۰۰ سے زائد طلبہ کی مدد کی۔ ‘‘

گو کہ بہت سارے طلبہ کو کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کے دوران خلل اور مسائل کا سامنا کرنا پڑامگر اس دشوار مرحلے کو یونیورسٹی کے وسائل، حساس اساتذہ اورمددگار ساتھیوں نے امریکہ میں تعلیمی حاصل کرنےکو ایک انمول موقع بنا دیا۔

ہلیری ہوپیک ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں رہتی ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے