رقصاں رانیاں

اپنی فلبرائٹ فیلوشپ کا استعمال کرکے جیف رائے ممبئی کے ایل جی بی ٹی کیو طبقات کے فنی اظہار کی جستجو کرتے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

January 2020

رقصاں رانیاں

جیف رائے(دائیں)اپنے فلبرائٹ فیلو شپ پروجیکٹ کے لیے  ڈانسنگ کوئینس طائفے کے سربراہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے۔تصویر بشکریہ جیف رائے

جیف  رائے کے خیال میں ہندکے ہم جنس پرستوں، ملک کے ہم جنس پرست مردوں ، جسمانی طور پر دونوں جنسوں کی خصوصیات رکھنے والے افراد، مخنث وغیرہ کے لیے گذشتہ دس برسوں میں زندگی مختلف طریقوں سے ڈرامائی انداز میں بدل چکی ہے۔ان کے خیال میں یہ تبدیلی کا ایک دلچسپ مگر پیچیدہ دَور ہے، ایسا دور جس کے بارے میں بطور امریکی اسکالر وہ خود براہ راست مشاہدہ کرنا اور سمجھنا چاہتے تھے۔ رائے پومونا شہر میں واقع  کیلیفورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں شعبہ برائے  لبرل اسٹڈیز میں معاون پروفیسر ہیں۔

ایم ٹی وی یو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رائے نے کہا ’’ پچھلی دہائی کے دوران مذکورہ افراد سے متعلق تحریک نے رفتار پکڑی ہے ۔ اور تحریک میں شامل افراد کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ‘‘

رائے کا کام جنوبی ایشیاء میں نسل،طبقات، ذات پات اور مذہب کے بین طبقات میں ہم جنس پسند اشخاص، مخنث اور ہجڑوں کی شناختی شکلوں کی سیاست اور کارکردگی پر مرکوز ہے۔ایک اسکالر اور محقق کی حیثیت سے رائے کسی غیر قوم کی موسیقی کے مطالعہ، فلم اور میڈیا ریسرچ، صنف اور جنسیت کی تعلیم اور بہت کچھ میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ مغربی اور ہندوستانی دونوں روایتوں میں ایک ماہر کلاسیکی وایلن نواز اور ایک فلمساز بھی ہیں۔خیال رہے کہ ان کی تحریریں  اِتھنو میوز یکولوجی ، میوزی کلچرس، کیو ای ڈی، ایشین میوزک ، ٹرانس جینڈر اسٹڈیز کواٹرلی ، ورلڈ پالیسی جرنل جیسے علمی جرائد کے ساتھ ساتھ  ری میپنگ ساؤنڈ اسٹڈیزان دی گلوبل ساؤتھ کے علاوہ  کیرنگ دی فیلڈ : ساؤنڈنگ آؤٹ اِتھنومیوز یکولوجیجیسی کتابوں میں بھی نظر آتی ہیں۔انہوں نے طبقات کی مدد کرنے والوں اور  فل برائٹ۔ ایم ٹی وی یو اور  فل برائٹ ۔ہیز ،فلم انڈیپینڈینٹ ،کِری ایٹو کیپیٹل، گودریج انڈیا کلچرل لیب، سولارِس پکچرس اور  ایچ آئی وی /ایڈس الائنسکے پروڈکشن تعاون سے سات دستاویزی فلمی پروجیکٹوں کی تخلیق، ہدایت کاری اور تدوین کی ہے۔۲۰۱۲ ء میں رائے کو فل برائٹ ۔ایم ٹی وی یو فیلو شپ  ملی جس سے انہیں ایک برس ممبئی میں بسر کرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے جو ثقافتی اظہار، سرگرمی، سیکھنے اور اس سے آگے کی ایک طاقت کے طور پر بین الاقوامی معاصر یا مقبول موسیقی کے ایک پہلو پر منصوبوں کی حمایت کرتا ہے۔

رائے کو جس پروجیکٹ کی وجہ سے یہ فیلو شپ ملی اس میں ایک دستاویزی فلم کا ذکر تھا جس کا موضوع ممبئی کے ایل جی بی ٹی کیو طبقات میں موسیقی اور رقص کی انفرادی اور اجتماعی آوازوں کو بااختیار اور مضبوط بنانے سے متعلق تھا۔اس بات کا ذکر رائے نے  گودریج انڈیا کلچر لیب کے لیے لکھے گئے ایک  بلاگ پوسٹ میںکیا ہے۔ رائے نے ان طبقات سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے جورقص اور موسیقی کے شعبے میں سرگرم ہیں۔ ملک کے بہت سے حصوں میں خواجہ سراؤں کو عام طور پر تیسری جنس کہا جاتا ہے۔

رائے نے اپنے بلاگ میں یہ بھی لکھا ’’ مذکورہ طبقات ذرائع ابلاغ اور عوامی گفتگو میں منفی دقیانوسی تصورات کا ابھرتی ہوئی موسیقی اور رقص کی مشق کے ذریعہ قلع قمع کررہے ہیں ۔ یہ لوگ اب روایتی فنی شکلوں کو نئی کارکردگی کے تناظر میں بھی پیش کر رہے ہیں۔‘‘عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ طبقات کے ذریعہ پیش کی جانے والی موسیقی اور رقص میں نمایاں ہونے والی تبدیلیاں اصل میں موجودہ بالی ووڈ ، مغربی پَوپ اور راک میوزک اور کلاسیکی اور لوک ہندوستانی روایات کا امتزاج ہیں۔انہوں نے یہ بھی رائے زنی کی ’’ان کے یہ پرفارمنس محفلِ موسیقی، اجتماعات ، مظاہروں اور مذہبی رسومات کے دوران مشترکہ طور پر شیئر کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان میں مذکورہ طبقات کے افراد کا معاشرے کے اصل دھارے میں کنارے پر لگا دیے جانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ‘‘

فل برائٹ اسکالر شپ کے دوران رائے نے مذکورہ طبقات اور تیسری صنف کے ا داکاروں کے ساتھ مل کر کام کیا ، ان کے فن کو دستاویزی بنایا اور اس عمل کو فلمایا ہے۔ ایک نتیجہ خیز ویڈیو میں ہارمونیم نواز اور کارکن شہزادہ مانویندر سنگھ گوہل کو دکھایا گیا ہے جو ایک جامع کنسرٹ تیار کر رہا ہے اور اسے پیش کر رہا ہے جس میں ایچ آئی وی/ایڈز اور روایتی ہندوستانی موسیقی کی شکلوں کی گمشدگی دونوں ہی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایک دوسرے ویڈیو میں  ڈانسنگ کوئنز ڈانس ٹولے کی نمائش کی گئی ہے جس میں بہت سارے خواجہ سرا اور ہم جنس پرست مرد شامل ہیں کیوں کہ وہ ایک بڑی عوای کارکردگی کی تیاری میں فن اور سرگرمی کو یکجا کرتے ہیں۔

مذکورہ طبقات میں رائے کی دلچسپی ان کے فل برائٹ ۔ ایم ٹی وی یو پروگرام کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔۲۰۱۴ ء میں انہیں ممبئی میں گودریج انڈیا کلچر لیب  میں واپس آنے اور اپنی تحقیق جاری رکھنے کے لیے دوسرا فل برائٹ گرانٹ، فل برائٹ ہیز ڈوکٹورل ڈیزرٹیشن ایبروڈ ایوارڈ ملا۔۲۰۱۵ ء میں ان کے کام کا اختتام  میوزیکل پرفارمینس اور ان کی دستاویزی فلم  دی ڈانسنگ کوئیز: اے سلیبریشن آف انڈیاز ٹرانسجینڈر کمیونٹیز کی نمائش کے ساتھ ہوا۔ اس پروگرام کو وسیع پیمانے پر توجہ ملی اورایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ملک کے ایک بڑے  کارپوریٹ کیمپس میںپرفارمینس کے لیے ایک جوڑے نے ان طبقات کی نمائندگی کی۔

رائے شکرگزار ہیں کہ فل برائٹ فیلو شپ نے انہیں ایسے مواقع دیے۔ ساتھ ساتھ وہ اظہارِ انکساری بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے طلبہ، اسکالر ، فنکاروں اور شہریوں کی جانب سے متحرک اور با صلاحیت برادری سے ان کا تعلق اُستوار ہوا۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’فیلو شپ کے دوران جو روابط بنے ان سے ان کی حوصلہ افزائی تو ہوتی ہی ہے ،انہیں اپنے کام کی جانکاری بھی ملتی ہے۔ میں اور میرے ساتھی بہت سے معنی خیز کام انجام دینے میں کامیاب رہے تھے۔ ہم مواقع ، تعاون اور امداد کے لیے بے حد شکر گزار ہیں۔ ‘‘

 

مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے