بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت

انٹرویو پر مبنی اس مضمون  میں امریکی مقرر جیکسن کَیتھس نے   خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے میں مردوں کے ممکنہ کردار کےبارے میں بات کی ہے۔

چاروی اروڑا

January 2024

بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت

 جیکسن کیتھس نے نئی دہلی کے سرکاری اسکولوں کے اطالیق اساتذہ کے لیے ’’ صنفی تشدد پر قابو پانے میں مردوں کا کردار‘‘ کے موضوع پر نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں ایک سیشن کی قیادت کی۔ (تصویر بشکریہ راکیش ملہوترا)

امریکی ماہرِ تعلیم، مصنف اور سماجی  نظریہ ساز جیکسن کَیتھس  کی حیثیت صنفی مساوات کو فروغ دینے اور صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے لیے وقف مردوں کی فروغ پاتی تحریک میں طویل عرصے سے ایک نمایاں شخصیت کی ہے۔تشدد کی روک تھام کرنے والے اطالیق(ایم وی پی) پروگرام  کے شریک بانی کے طور پر کَیتھس نے طویل عرصے تک جاری رہنے والے اور عالمی سطح پر بااثر صنفی تشدد کی روک تھام کے پروگراموں میں سے ایک  مذکورہ پروگرام کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے اثرات  کا مشاہدہ شمالی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک تک میں کیا جا سکتا ہے۔ایم وی پی پروگرام یونیورسٹی اور پیشہ ورانہ کھیلوں کی ثقافتوں کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کی تمام شاخوں میں نافذ کیا جانے والا بڑے پیمانے کا  پہلا پروگرام تھا۔

ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران کیتھس نے ممبئی، پونے، جے پور اور نئی دہلی میں لوگوں سے  بات کی تاکہ طبقات اور قائدین کو ، خاص کر مردوں کو، بااختیار بنایا جاسکے اوروہ تشدد اور امتیازی سلوک کو مسترد کرسکیں۔ وہ  ورکشاپ کے دوران پولس، طلبہ، اساتذہ، کارکنوں اور کمیونٹی رہنماؤں سے بھی ہم کلام ہوئے  ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے صنفی تشدد کی روک تھام کی تکنیک پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ تشدد کے خاتمے اور دنیا کو تمام  اصناف کے نمائندوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بنانے میں مردوں کے اہم کردار پر زور دیا۔ پیش ہے ان سے لیے گئے انٹرویو کے بعض اقتباسات۔

ہمیں بتائیں کہ کس چیز نے آپ کو صنفی بنیاد پر تشدد کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔

میں نے یہ کام اس وقت شروع کیا جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا کیوں کہ اسی وقت مجھے احسا س ہوگیا تھا کہ  صنفی عدم مساوات کس قدر بڑا مسئلہ ہے۔ بہت کم مرد اس کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔مگر  اس کے باوجود میرے لیے واضح طور پر یہ ایک مسئلہ تھا۔ میں نے ایک ۱۹ سال کے  لڑکے کے طور پر اس کی شروعات اس وقت کی جب میں نے دیکھا کہ میری خاتون  رفقا رات کے وقت  کیمپس میں پیدل چلنے میں بھی محفوظ محسوس نہیں کر رہی تھیں۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر میں ایک عورت ہوتی تو مجھے رات کو ایک پارٹی سے گھر جانے کے بارے میں کتنی فکر لاحق ہوتی۔ میں نے یہ بھی غور کیا  کہ میں اس کو اس لیے سنجیدگی سے نہیں لیتا کیوں کہ میں ایک مرد ہوں ۔ صنفی عدم مساوات دنیا بھرمیں  ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس شعبے میں سرگرمِ عمل ہوں ۔

کیوں صنفی بنیاد پر تشدد کو عام طور پر خواتین کے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور مردوں کو بات چیت میں نمایاں طور پر شامل نہیں کیا جاتا ؟

میرے خیال میں مردوں کے شامل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس مسئلے کو خواتین کا مسئلہ کہنے کا عمل ہی مردوں کو احتساب اور ذمہ داری سے دور کر دیتا ہے۔ لہٰذا بہت سے مرد سوچتے ہیں کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بظاہر کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں  کہ چوں کہ وہ خود بدسلوکی نہیں کرتے یا خواتین کی ہراسانی یا ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا سبب نہیں بنتے تو یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے اس کا بھی احساس ہے کہ گھریلو اور جنسی تشدد کے بارے میں بات کرنے کے لیے لوگ  جس زبان کا استعمال کرتے ہیں اس سے توجہ مردوں سے دور رہتی ہےاور خواتین پر  مرکوز رہتی ہے۔ لہٰذا ،لوگ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے مفعول زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس  طور پر بات کرتے ہیں کہ گذشتہ سال کتنی عورتوں کی عصمت دری کی گئی نہ کہ اس بارے میں کہ کتنے مردوں نے کتنی عورتوں کی عصمت دری کی۔ اس سے توجہ مردوں سے عورتوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ ایک مصنف، مقرر اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے طویل عرصے سے میرے کام کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ اس نظریے سے ہٹ کر غور و فکر کرنے میں لوگوں کی مدد کی جائے اور اس زبان کو چیلنج کیا جائے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر مرد اس میں شامل ہوں تو یہ اس طرح ہونا چاہیے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں۔

آپ کے خیال میں صنفی بنیاد پر تشدد کا مقابلہ کرنے میں مردوں کو شامل کیا جانا کیوں ضروری ہے اور انہیں کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے؟

مردوں کو اس میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ بدقسمتی سے زیادہ تر واقعات میں وہی بدسلوکی، ہراسانی اور تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں۔ میں ان مسائل کو قیادت کے مسائل کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایک رہنما ہیں تو آپ کو کم از کم تین چیزیں کرنی ہیں۔ اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں متاثرین اور تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرنے کا طریقہ معلوم کریں۔ دوسرے بدسلوکی کو روکیں اور مجرموں کو جوابدہ بنائیں اور تیسرے ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس میں بدسلوکی کے رویے کو معاشرتی طور سے مکمل طور پر ناقابل قبول سمجھا جائے۔

آپ ایک ایسے شخص کو کیا مشورہ دیں گے جو یہ دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد کا مسئلہ کتنا سنگین ہے لیکن اس کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں رکھتا ؟

اس کے لیے ایک خاص حد تک اعتماد اور کبھی کبھی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ویسے حوصلہ اکثر سماجی ہوتا ہے ، جسمانی نہیں۔ میرے خیال میں بہت سے مردوں کو جو خوف ہوتا ہے، وہ ایک سماجی خوف ہے۔ وہ اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ عجیب باتیں کرنے جا رہے ہیں یا یہ کہ پتہ نہیں ان کے ساتھی ان کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ بہت سے مردوں کو محسوس ہونے والی پریشانی اور شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ سے زیادہ  لوگ اس کے بارے میں بات کریں۔

اگر آپ فلم اور ٹیلی ویژن میں صنفی حسّاسیت کی تصویر کشی میں بہتر اطوار اختیار کرنے کے لیے منظر نامہ نویسوں کو ایک جملے میں کوئی مشورہ دینا چاہیں تو وہ کیا ہوگا؟

میں یہ کہوں گا کہ اس عمل سے وابستہ ہونا ہمیشہ وہ کرنے سے زیادہ اہم ہے جو کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب انسان ہیں، یہ جاننے کی کوشش ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کام کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایک چیز جو میں مردوں اور نوجوانوں سے کہوں گا وہ یہ ہے کہ اپنے آپ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔صالح فکر اور مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں۔


اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے