مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی زیارتِ ہند

بھارتیوں کی تحریک عدم تشدد، عدم تعاون اور مقاطعہ کے ذریعہ حاصل کی گئی آزادی کے ٹھیک ۱۲ سال بعد افریقی ۔امریکی عوام، غیر منصفانہ قوانین کو بدلنے کے لیے انہیں طریقوں کا استعمال کر رہے تھے۔

تحریر:لورِنڈا کیز لونگ

Jan/Feb 2009

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی زیارتِ ہند

کنگ زن و شو کا دہلی آمد پر ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ تصویر ازآرستاکوپن ©اے پی امیجیز

 

۱۹۵۹ءکے اوائل تک، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، امریکہ کی جنوبی ریاست الباما میں بسوں اور کاروباروں کا کامیاب مونٹ گومری مقاطعہ کر چکے تھے۔  انہیں اور ان کے رفقاء اور پیروؤں کو گرفتار کیا گیا، قید کیا گیا، سزائیں دی گئیں، جرمانہ عائد کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور زدوکوب کیا گیا۔ لیکن وہ ۱۹۵۶ ءمیں امریکی سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر جشن منا رہے تھے کیوں کہ اس فیصلے کی رو سے وہ تمام قوانین غیر آئینی قرار دے دئے گئے تھے جو نسلی بنیادوں پر عوامی وسائل مقرر کرتے ہیں۔ نسلی تفریق پژمردہ ہو گئی لیکن مردہ نہیں ہوئی۔

افریقی امریکیوں نے نا انصافی پر مبنی قوانین کے خلاف تشدد سے پاک مزاحمت اور ان آمرانہ قواعد و ضوابط کے خلاف عدم تعاون کی پالیسی اپنائی جو انہیں دوسرے درجے کاشہری قرار دیے جانے پر مُصر تھی۔ اس تحریک کے بارے میں خبروں کی ریلیں، تصویریں اور اخباری مضامین بھارتیوں کے لیے بے حد کشش رکھتے تھے کیوں کہ بارہ سال قبل انہوں نے بھی ایسے ہی طریقہ کار کو اپنا کر آزادی حاصل کی تھی۔

کنگ بھی دونوں تحریکوں کے مابین قدر مشترک پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ جون ۱۹۵۶ ءمیں سیاہ فام لوگوں کی پیش رفت کے لیے بنائی گئی قومی تنظیم کے قومی اجلاس میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا’’ یہ روحانی قوت کا کمال تھا، جس کی بنیاد پر موہن داس کرم چند گاندھی نے برطانیہ کے سیاسی تسلط، اقتصادی استحصال اور تحقیر و تذلیل سے اپنی قوم کو نجات دلائی۔‘‘ تفریق پر مبنی مقاطعہ دراصل چرچ سے وابستہ و پیوستہ ایک وسیع، کثیر ریاستی اور غیر متشدد مہم تھی جس نے ان قوانین ، روایات اور تعصّبات کو تہ خاک کردیا جنہوں نے گذشتہ دو صدیوں سے افریقی امریکیوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔

جا بہ جا مقاطعے، جلوس، احتجاجی مظاہرے، چرچ ، میٹنگیں اور شب بیداریاں ہو رہی تھیں۔ کئی خاندان ایسے تھے جن کے گھر نذر آتش کر دیے گئے تھے اور جو اپنے مکانوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ کئی خاندان  خوف کی وجہ سے پوری رات بیٹھ کر گزار رہے تھے۔ مردوں ، عورتوں اور بچوں کو پیٹا جارہا تھااور ان کے منہ پر تھوکا جا رہا تھا۔ انہیں ملازمتوں ، حق رائے دہندگی ، ہر اس کے بغیر سڑکوں پر چلنے، اچھے اسکولوں میں داخلہ لینے، عوامی لائبریری سے استفادہ کرنے، کسی ریستوراں میں کھانے پینے، پارک کی بینچ پر بیٹھنے، عوامی بیت الخلاء میں جانے یا کسی عوامی جگہ پر پانی پی لینے سے محروم کر دیا گیا تھا۔

امریکی تحریک برائے مدنی حقوق کی بازگشت بھارت میں صاف اور واضح طور پر سنی جا رہی تھی کیوں  کہ یہاں دلت اور ’’ نیچ ذاتوں‘‘ میں پیدا ہونے والے افراد صدیوں اسی قسم کے ظلم و جبر کو برداشت کرتے چلے آرہے تھےجنہیں افریقی امریکی صدر ابراہم لنکن کے اعلامیہ برائے خاتمہ غلامی کے بعد جھیل رہے تھے۔ حالاں کہ اب انہیں امریکہ کے مکمل شہری ہونے کا درجہ مل چکا تھا لیکن نہ صرف جنوبی ریاستوں میں بلکہ دیگر مقامات پر بھی انہیں قتل و غارت کیا جارہا تھا، ان کی تحقیر و تذلیل کی جا رہی تھی، ان کے ساتھ نسلی منافرت برتی جا رہی تھی اور ان کے حقوق پامال کیے جا رہے تھے۔ لوگوں کی شکل و شباہت، نسل ، خاندان، نام یا قبیلے کی بنیاد پر پوری دنیا میں تفریق کے چلن اور ذات پات کے نظام کے خلاف اگر قوانین وضع کر دیے جائیں تو بھی ان کے مکمل نفاذ میں کئی دہائیاں صرف ہوں گی۔ کون جانتا ہے کہ ان پر صدیوں ، قرنوں سے ظلم و جبر کرنے والوں کے دل کب بدلیں گے؟ شاید صدیوں میں۔

کنگ اور ان کے رفقاء حقیقت پسند اور حقیقت آشنا تھے۔ انہیں خوب اندازہ تھا کہ یہ کس قدر دشوار ہے، اور اس کے لیے کس قدر مدت درکار ہے۔ اس کے باوجود وہ بہادر، صابر اور امن پسند تھے۔ حالاں کہ وہ خود ساختہ عدالتوں سے دی جانے والی سزائے موت، آتش زنی اور چرچوں پر بم پھینکے جانے کے خوف و خطرات سے دوچار تھے لیکن اس کے باوجود پرامید، رجائیت پسند، پر عزم اور عقیدت سے سرشار تھے۔ واشنگٹن ڈی سی  میں ۲۸ اگست ۱۹۶۳ء کو کنگ نے جو تقریر کی تھی وہ اسی عقیدے کی عکاس تھی: ’’ میرا ایک خواب ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب میرے چار چھوٹے بچے ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہوں گے جہاں انہیں ان کی جلد کی رنگت سے نہیں بلکہ ان کے کردار کی عظمت سے پہچانا جائے گا۔ ‘‘ اس خواب میں یہ امید پوشیدہ تھی کہ کبھی نہ کبھی ایک افریقی امریکی اس ملک کی کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوگا۔ کنگ کے ذہن میں اس وقت بارک اوباما کا تصور نہیں رہا ہوگا۔ ایک کینیائی باپ اور ایک سفید فام ماں کے چھ سالہ بیٹے اوباما اس وقت انڈونیشیا میں رہتے تھے جب کنگ نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ ۴۰ سال بعد کنگ کے بچوں کی زندگی میں ہی بارک اوباما امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔

۱۹۵۹ء میں ہی چند لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ خود کنگ پہلے افریقی امریکی صدر بن جائیں۔ ان کی خطیبانہ لیاقت ، قائدانہ صلاحیت ، حکمت عملی کی منصوبہ بندی ، شجاعت اور خوش مزاجی نے دنیا کے گوشے گوشے میں انہیں مرجع خاص و عام بنا دیا تھا۔ ان کے چاہنے والوں کی طویل ترین فہرست میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا نام بھی شامل تھا۔

۱۹۵۶ء میں امریکی کے ایک مختصر دورے کے دوران انہوں نے اپنی خواہش دیرینہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کاش وہ کنگ سے ملے ہوتے۔ بھارتی نمائندگان نے یہ روایت برقرار رکھی۔بھارت میں امریکی سفیر محترم چسٹر باؤلز نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا۔

کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی    کے کلے بورن کارسن کی تالیف کردہ’’ مارٹن لوتھر کنگ کی سوانح حیات‘‘ میں کنگ کے تاثرات مذکور ہیں۔ ’’ مونٹ گومری مقاطعے کے دوران بھارت کے گاندھی، غیر متشدد سماجی انقلاب کی ہماری تکنیک میں مشعل راہ تھے۔ چنانچہ بسوں میں نسلی تفریق کے خلاف ہماری مزاحمت جیسے ہی کامیاب ہوئی، میرے چند احباب نے کہا’’ آپ بھارت جاکر خود اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کی محبوب اور موقر شخصیت مہاتما نے وہاں کیا عظیم کارنامہ کر دکھایا ہے؟‘‘

بالآخر کنگ اپنی اہلیہ کوریٹا کے ساتھ بھارت تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ کنگ کے سوانح نگار، الباما اسٹیٹ کالج کے پروفیسر لارنس ریڈک بھی تھے۔ انہوں نے بھارت میں ایک ماہ سے کم مدت گزاری۔ پروازوں کی مشکلات کی وجہ سے وہ ۹ فروری ۱۹۵۹ء کو ممبئی تشریف لائے، رات تاج محل ہوٹل میں گزاری اور اگلے دن ہی نئی دہلی میں واقع پالم ہوائی اڈے پر دو دنوں کی تاخیر سے پہنچے۔

لیکن اس پیش منظر کا خاکہ سالوں پہلے اس وقت بن چکا تھا جب کنگ ریاست جارجیا کے اٹلانٹا کے مور ہاؤس کالج میں ایک طالب علم تھے۔ کالج کے پرنسپل بنجامن ایلیجاہ میزان کے اتالیق تھے۔ یہاں انہوں نے گاندھی کی تحریریں پہلی بار پڑھیں۔ میز ’’ گاندھی کے افریقی امریکی پیروؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ایک تھے اور حال ہی میں بھارت ہو کر آئے تھے۔ ‘‘ انہوں نے کنگ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔

دورہ ہند کے خاتمے کے بعد، کنگ کے بقول ریڈک نے ان سے کہا’’۔۔۔میرا حقیقی امتحان اس وقت ہوا جب گاندھی کے شناساؤں نے مجھے نظر انداز کیا، مجھ پر اور مونٹ گومری تحریک پر پھبتیاں کسیں۔‘‘ انہوں نے اپنے طوفانی دورے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہو ئے کہا’’ یہ دورہ ہماری زندگی کا سب سے گہرا اور چشم کشا تجربہ تھا۔‘‘

انہوں نے ہزاروں لوگوں سے گفتگو کی۔ سڑک پر چلتے ہوئے یا پھر ٹرینوں ، کاروں اور ہوائی جہازوں میں سفر کے دوران لوگوں نے نام لے کر انہیں مبارکباد دی، آٹو گراف لینے کے لیے ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔ گاؤں کے غریب ترین گھروں اور پرشکوہ محلوں دونوں جگہ لوگوں نے ان کا گرم جوش استقبال کیا۔ انہوں نے کہا ’’ جس قدر انہوں نے تقریریں کیں، ان کی بیوی نے اسی قدر گانے گائے۔‘‘

امریکن فرینڈس سروس کمیٹی( یا کویکرز ، ایک صلح جو اور امن پسند عیسائی فرقہ) نے گاندھی نیشنل میموریل فنڈ کے اشتراک سے اس دورےکی کفالت کی۔ نئی دہلی میں کویکر سینٹر کے ڈائرکٹر  جیمز ای برسٹل نے پورے سفر کے دوران گائڈ کے فرائض انجام دئے۔ حکومت ہند نے اس دورے کی میزبانی نہیں کی، تاہم نہرو نے انہیں ایک خیر مقدمی پیغام ارسال کیا اور بھارت میں کنگ کے قیام کی دوسری شب ایک عشایئے کا اہتمام کیا۔ وزیر اعظم نے ایک رات پہلے ہی کنگ زن وشو کے اعزاز میں اعشایئے کا نظم کیا تھا لیکن کہرے کی وجہ سے پرواز میں تاخیر ہوئی اور انہوں نے عشائیے کو دوسرے دن منتقل کر دیا۔ اس عجیب و غریب اقدام نے پروٹوکول نگرانوں کو نہ صرف حیرت زدہ کر دیا بلکہ شش وپنج میں بھی ڈال دیا۔

دس فروری کا دن خیر مقدموں ، گل پوشیوں اور کانفرنسوں کی نذر ہو گیا۔ کنگ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کہہ اٹھے’’ دوسرے ملکوں میں ایک سیاح کی طرح جاتا ہوں لیکن بھارت میں ایک زائر کی حیثیت سے آیا ہوں ۔‘‘ وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ چار گھنٹے انتہائی پر کشش تھے کیوں کہ کنگ اور نہرو اپنے زمانے کے کئی اہم مسئلوں پر بنیادی اختلاف رکھتے تھے۔ یہ وہ مسئلے تھے جن پر کاروانِ انسانی آج بھی اختلاف کا شکار ہے۔

بھارت  میں مفلسوں اور ناداروں کی ایک بڑی تعداد نے کنگ کو اسی طرح متاثر کیا جس طرح آج کے سیاح پہلی بار انہیں دیکھ کر ہوتے ہیں۔ کنگ نے اس دورے کے بارے میں ، بعد کے ایّام میں تحریر کیا ’’ جہاں جہاں ہم گئے ہم نے انسانوں کا ہجوم دیکھا ،زیادہ تر لوگ مفلوک الحال تھے اور بوسیدہ اور ناکافی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر ،ممبئی شہر میں کم و بیش پانچ لاکھ سے زیادہ بے روزگار یا جز وقتی ملازمین،بے کس اور بے بس افراد سڑکوں پر سوتے ہیں۔‘‘ جب انہیں ہوئی اڈے سے کسی لکژری ہوٹل میں لایا جارہا تھا تو کنگ اور مسز کنگ نے راستے میں غربت و افلاس کے جو مناظر دیکھے، ان سے وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ کوریٹا اسکاٹ کنگ نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا’’ نحیف و نزار انسان صرف ایک غلیظ دھوتی باندھے کوڑے دانوں کو کنگھال رہے تھے۔ ان منظروں نے میرے شوہر  کو نہ صرف غصہ دلایا بلکہ مایوس اور پژمردہ بھی کر دیا۔ ایسی زبوں حالی، ایسی مایوس کن بدحالی تو ہم نے افریقہ میں بھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘

ان چیزوں کے مشاہدے سے پہلے ، کنگ افریقہ کے دورے کے بعد ایسے متعدد مسئلوں کے بارے میں فکر مند تھے جو ما بعد نو آبادیاتی حکومتوں کو درپیش تھے۔ وسائل کو کس طرح استعمال کیا جائے، مغربی

سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت ، سوویت پروردہ نا وابستگی اگر قابل قبول ہوں تو انہیں کس طرح اپنایا جائے۔ طبعی دستکاریوں کو فروغ دیا جائے یا بڑی بڑی فیکٹریاں بنائی جائیں۔

ترقی پذیر ملکوں کے مسائل، خاص طور پر اپنی فوجیں بنانے اور اسلحوں کی خریداری میں بیش قیمت قومی وسائل کے صرفے نے انہیں فکر مند کر دیا تھا۔ دہلی میں ۹ مارچ کو اپنی آخری نیوز کانفرنس  میں انہوں نے بھارت سے درخواست کی کہ وہ ترکِ اسلحہ کے یکطرفہ اقدام کی نظیر قائم کرے۔ انہوں نے کہا ’’ جس طرح بھارت نے دنیا کو یہ دکھانے  میں پہل کی کہ قومی آزادی غیر متشدد طور پر بھی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی طرح بھارت کو عالمی ترک اسلحہ کا اعلان کر دینا چاہیے۔ یہ حوصلہ مندانہ اقدام، مہاتما گاندھی کے جذبہ صادق کی عظیم ترجمانی ہو گی اور باقی دنیا کے ملکوں کے لیے عظیم محرک ہوگا۔ ‘‘یہ مشورہ دراصل ونوبا بھاوے کی صدائے درمند کی بازگشت تھا اور گاندھی کے اس کھلے خط کے سیاق و سباق میں تھا جسے انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں برطانوی عوام ور یہودیوں کے لیے تحریر کیا تھا۔ انہوں نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر چہ وہ مفتوح ہو جائیں یا ملک بدر کر دیے جائیں یا ہلاک کر دیے جائیں تب بھی انہیں جنگ سے گریز کرنا چاہیے۔

اسٹینفورڈ کے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ریسرچ اینڈ ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر کارسن نے ٹائمس آف انڈیا کے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ ۱۰ فروری ۱۹۵۹ء کی شام کو وزیر اعظم سے گفتگو کے دوران کنگ کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ بھارت کا ولولہ انگیز نیوکلیائی پروگرام ( جس پر اس وقت کے تحقیقی بجٹ کا تہائی حصہ صرف ہو رہا تھا) ایک نہ ایک دن نیوکلیائی اسلحے پیدا کرنے لگے گا۔

بھارت جانے سے چند دن پہلے، کنگ نے نیو یارک میں ’’ وار ریزسٹر ز لیگ‘‘ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ سماجی انصاف قائم کرنے کا بالآخر کیا فائدہ ہوگا اگر تمام لوگوں کو، کیا نیگرواور کیا سیاہ فام، اسٹرونٹیم ۹۰(تابکاری) یا ایٹمی جنگ سے تباہ ہوجانے کا خطرہ درپیش ہو؟‘‘

کارسن نے ’ اسپَین‘ کو دئے جانے والے ایک انٹرویو   میں بتایا ’’ جب وہ نہرو کے ساتھ ڈنر کر رہے تھے تو شاید انہیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ نہرو کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ بھارت اپنا جوہری پروگرام پہلے ہی شروع کر چکا تھا۔ اسے چین سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ کئی عوامل میں سے یہ سب سے اہم تھا جس کے سبب وہ اپنے دورے کے آخری مرحلے میں گاندھی کے سابق رفقاء سے کہیں زیادہ گاندھیائی ہو گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ گاندھی کے نظریا ت سے مزید واقف ہونے کے لیے بھارت تشریف لائے اور جب وہ بھارت چھوڑ رہے تھے تو وہ ایک برتر و ممتاز گاندھیائی ہو چکے تھے۔‘‘

ریڈک نے اپنے سفر نامے ’’ وِد کنگ تھرو انڈیا‘‘ میں تحریر کیا کہ درحقیقت نہرو کو اعتراف تھا ’’ ایک فرد اور گاندھی کے پیرو کی حیثیت سے وہ زندگی کے ہر مرحلے میں افراد، گروہوں اور ملکوں کے مابین غیر متشدد مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں لیکن ایک سربراہ ملک کی حیثیت سے ان کا خیال ہے کہ ایسی دنیا میں جس میں عدم تشدد کے اصول کو تسلیم نہ کیا گیا ہو ، کسی ملک کا تن تنہا اس راہ پر گامزن ہونا ایک فاش غلطی ہوگی۔‘‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کارسن فوری طور پر صرف ایک ملک کے بارے میں سوچ سکتے تھے جس نے ایسا کر دکھایا تھا، اور وہ ملک تھا، کوسٹاریکا۔  کارسن کہتے  ہیں ’’ میرے خیال میں عدم تشدد  ان نظریات میں سے ایک ہے جس کی توقع ہر شخص دوسروں  سے کرتا ہے، لیکن  بذات خوداس کا  اس پر عمل پیرا ہونا دشوا ر ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جب ہم سمجھتے ہوں کہ ہمارے پاس ایسی بیش بہا شے ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں ، ’’ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بھارت کو نوبل انعام برائے امن کی راہ گامزن کر دیا تھا کیوں کہ اس وقت تک وہ نہ صرف ایک بین الاقوامی شخصیت بن گئے تھے بلکہ دنیا کی عظیم ترین اور فقید المثال جدوجہد کی آفاقی علامت بن چکے تھے۔ بیسویں صدی کی اس جدو جہد کا نصب العین دنیا کی اکثریت کو ان  کے بنیادی حقوق دلوانے تھے۔ ’’ کنگ  اور گاندھی اس نصب العین کی بنیادی علامتیں ہیں۔ گاندھی قتل کر دیے گئے اور کنگ ، ممتاز ترین عالمی علامت کی حیثیت  سے صدی کے مرکزی اور کلیدی مسئلے کے تعمیری حل کے لیے تن تنہا رہ گئے۔‘‘

کنگ کے مضامین اور تقاریر کے مجموے ’ آٹو بایو گرافی‘ کو کارسن نے مرتب کیا تھا۔ اس کے مطابق کنگ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت دو قسم کے افراد میں بٹا ہوا تھا۔  اولاََ وہ لوگ اسے’’ جلد از جلد جدید اور مغربی طرز کا بنانا چاہتے تھے تاکہ معیار زندگی کو بلند کیا جاسکے، اور دوئم وہ لوگ جو یہ محسوس کرتے تھے کہ مغرب زدگی ’’ مادّہ پرستی، ہلاکت خیز مسابقت اور غیر شائستہ خود پرستی کو جنم دے گی جس سے بھارت کی روح پژ مردہ ہو سکتی ہے۔‘‘

کنگ کا احساس تھا کہ نہرو’’ ان دونوں انتہائی طرز عمل کے درمیان ایک معتدل راہ اپنانے ‘‘ کی کوشش کر رہے تھے۔ کنگ کو یاد آیا کہ دوران گفتگو نہرو نے کہا تھا’’ کچھ چیزیں صرف بڑی انڈسٹریوں سے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں‘‘ اور یہ کہ ریاست کی چشم نگراں پوشیدہ خطرات کا ازالہ کرنے کے  لیے سینہ   سپر ہوں گی۔ ساتھ ہی  ساتھ نہرو نے کتائی، بنائی  اور دوسری گھریلو اور دیہی دستکاریوں کے فروغ کی بھی حمایت کی تاکہ ’’ مقامی کمیونٹی کو حتی الامکان مالی استحکام اور آزادی حاصل ہوسکے۔‘‘

پچاس سال قبل ہونے والی گفتگو آج بھی ایسی لگتی ہے جیسے گذشتہ جمعہ کی رات کو ہوئی ہو۔

دوران گفتگو ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی تفریق بھی زیر بحث آئی ۔ نہرو نے اس تفریق کی بیخ کنی کے لیے بھارت کی کوششوں کو بیان کرتے ہوئے یونیورسٹی داخلوں میں دلتوں کو ترجیح دئے جانے کی پالیسی کا ذکر کیا ۔ جب امریکہ میں افریقی امریکیوں کو اسی قسم کی ترجیح دی گئی تو صورت حال انتہائی متنازع ہو گئی تھی۔ اور بھارت میں اس پالیسی کے خلاف احتجاج ایک نوشتۂ دیوار تھا۔ نہرو نے وضاحت کی ’’ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ صدیوں تک جو انصافیاں روا رکھی ہیں ، اس کے کفارے کے لیے ہمیں یہ پالیسی اپنانی ہوگی۔‘‘

امریکہ میں جب یکساں طریقہ کار جسے ’’ مثبت اقدام ‘‘ کہتے ہیں اپنایا گیا تو یہی جواز فراہم کیا گیا تھا۔

کنگ اس بات سے خوش تھےکہ  بھارتی قائدین نے دلتوں کے ساتھ تفریق کے خلاف وضع کیے گئے قوانین کو اپنی اخلاقی قوت سے نوازا تھا۔ وہ جب وطن واپس لوٹے اور ان چیزوں کے بارے میں بتایا تو ان کے گوشہ خیال میں تصور گھر کر گیا تھا کہ یہ قوانین اور حکومت کی جانب سے ملنے والی حمایت جلد ہی ذات پات پر مبنی تفریق کا خاتمہ کر دیں گے۔ انہوں نے نچلی ذاتوں کو تعاون دینے والے دیہی پروجکٹوں کی بھی تعریف کی۔ ایک سال قبل گیان پبلشنگ ہاؤس سے شائع شدہ کتاب’’ دلتوں کے تناظر میں حقوق انسانی ‘‘ کے مصنف ہنری تیاگ راج نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کنگ با حیات ہوتے تو اس بات پر حیران و ششدر رہ جاتے کہ ۵۰ سالوں بعد فلاحی منصوبوں کا وہ خواب آج بھی تشنہ تعبیر ہے۔

تیاگ راج نے ’اسپَین‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ ہونے والے ہتک آمیز سلوک، ان پر تشدد اور ان کی مصیبتوں کا موازنہ بھارت میں اچھوتوں کے ساتھ روا سلوک سے کیا جاسکتا ہے۔ چھوا چھوت ، میرے خیال میں اور میرے مطالعہ کے مطابق ، نسلی تفریق سے عبارت ہے۔ بھارت میں اس تفریق کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ اسے مذہبی جواز و علت بھی حاصل ہے۔ یکسانیت کی ایک مثال دیتے ہوئے تیاگ راج نے بتایا کہ بھارتی گاؤں میں دلت اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی بستیاں الگ الگ ہوتی ہیں ۔ تیاگ راج کہتے ہیں کہ نسلی تفریق مخالف قوانین کے نفاذ سے قبل افریقی امریکیوں کو بھی بعینہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان قوانین نے افریقی امریکیوں کو مکان فروخت کرنے یا کرایہ پر دینے سے انکار کرنے پر پابندی عائد کردی۔ دوسری یکسانیتوں کو ذکر کرتے ہوئے وہ کچھ مثالیں دیتے ہیں ۔ جیسے ’’ دلت بچوں کو الگ بیٹھنے اور کھیلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور جس نل سے اعلیٰ ذات کے بچے پانی پیتے ہیں ، اس نل سے انہیں پانی پینے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ ‘‘

قوانین اور حفاظتی تدبیریں دیہی علاقوں میں نافذ العمل نہیں ہیں جہاں زمیندار اپنے صدیوں پرانے امتیازی سماجی رسم و رواج کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ ان رسم و رواج کی خلاف ورزی کی سزا ’’خود ساختہ عدالتوں سے دی جانے والی سزائے موت ہو ا کرتی ہے۔‘‘ کنگ اور ان کےافریقی امریکی ہم عصروں کو جنوبی ریاستوں میں اسی قسم کی تفریق کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۱۹۶۰ءکی دہائی میں جنوبی امریکہ اور بعض مقامات پر اس کے بعد بھی ، عوامی نلوں اور بیت الخلاء پر ’’ گوروں‘‘ اور ’’کالوں ‘‘ کے لیے لکھا ہوتا تھا۔

کنگ نے اپنے دورہ ہند کے بارے میں جو دردناک کہانیاں سنائیں ان میں  سے ایک کہانی نے بڑے موثر طور پر دونوں ملکوں میں امتیازی سلوک کی یکسانیت سے انہیں باخبر اور آشنا کر دیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ دلت بچوں کے لیے مختص ایک اسکول کے پرنسپل نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا’’ امریکہ سے آئے ہوئے ایک اچھوت ساتھی‘‘ سے ملئے۔چھ سالوں کے بعد انہوں نے امریکی چرچ کے ایک اجتماع میں اس تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا’’ ایک لمحے کے لیے میں حیران و ششدر رہ گیا۔ مجھے افسوس بھی ہوا کہ اچھوت کہہ کر میرا تعارف کرایا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پھر انہوں نے سوچا کہ حقیقت تو یہی ہے کہ ان کے دو کروڑ سیاہ فام ساتھی’’ بڑے شہروں میں ، ابھی بھی کم و بیش چوہوں سے بھری، عارضی جھگی بستیوں میں رہتے ہیں ، آج بھی کمتر اسکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں کھیل کود کی سہولتیں انتہائی نا کافی ہیں۔ انہوں نے خود سے کہا’’ ہاں ، میں بھی اچھوت ہوں ، اور میں ہی کیا امریکہ کا ہر نیگرو اچھوت ہے۔‘‘

کنگ کی آنکھیں بھر آئیں جب انہوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں کا دورہ کیا اور سینکڑوں لوگوں کو فرش پر سوتے دیکھایا ویسی ہی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں گایوں اور مرغیو ں کے ساتھ رہتے دیکھا جہاں نہانے دھونے کے لیے بھی پانی میسر نہ تھا۔ سوانح حیات کے مطابق، انہوں نے کہا’’  جلد ہی ہم نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ لوگ اچھوت تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سخت ترین محنت کرتے تھے اور اس کے باوجود پامال کیے جاتے تھے اور ان کو پامال کرنے والے کوئی اور نہیں بھارتی ہی تھے۔ گاندھی نے اس نظام کا مشاہدہ کیا اور اسے برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور پوری زندگی اس کے خاتمے کے لیے کوشاں رہیں گے۔‘‘ کنگ نے بتایا کہ گاندھی نے اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف ایک اچھوت کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طر ح گاندھی اس  وقت تک بھوک ہڑتال کرتے رہے جب تک کہ اچھوتوں کو ہندو مندروں میں داخلہ نہیں مل گیا۔ کنگ نے کہا ’’ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں یہ کرکے دکھا دیا کہ چھوا چھوت کا خاتمہ یقینی ہے۔‘‘

ریاست ایلی نوائے کے شہر شکاگو میں قائم انٹر فیتھ یوتھ کور کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر ایبو پٹیل کہتے ہیں ’’ ۵۰ سال بعد بھی ذات پات اور نسلی تفریق کے وجود سے ہمیں مایوس اور دلبرداشتہ ہونا نہیں چاہیے۔ یہ چیزیں ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ ابنائے آدم کی ان درخشاں مثالوں کی ضرورت کا احساس دلاتی ہیں جو ایک ہدف مشترک اور ایک آفاقی نیکی کے لیے ذات پات اور نسلی تفریق کی وسیع خلیج کو عبور کرتے ہیں ۔‘‘’اسپَین‘سے گفتگو کے دوران پٹیل کہتے ہیں ’’ بھلے ہی اس ہدف کو ہم اب تک حاصل نہیں کر سکے لیکن کنگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ ’’ کائنات اخلاق کی کمان گو کہ لمبی ہے لیکن اس کا فطری جھکاؤ عدل و انصاف کی جانب ہی ہے۔ انسانیت پر شہید ہوجانے والے دونوں افراد گاندھی اور کنگ اپنی محنت شاقہ کا ثمر نہ دیکھ سکے۔ لیکن ان کی حیات آج بھی جادہ حق و انصاف کو منور کیے ہوئے ہے۔‘‘

کنگ زن و شو نے بھارت کو بڑی حد تک دیکھا ۔ وہ لوگوں سے ملاقات کے لیے صبح سویرے اٹھنے کے عادی ہوگئے۔ کبھی کبھی انہوں نے کیلے کےپتوں پر کھانا کھایا ، فرش پر پالتی مار کر بیٹھے، دیہی علاقوں سے گزرتے ہوئے طلبہ، صاحبان علم و دانش سے ملاقاتیں کیں، کیرل میں تیراکی کی، تاج محل کا نظارہ کیا۔ گیا اور شانتی نکیتن کی بیش قیمت وراثتیں دیکھیں، اور بھارت کے جنوبی سرے پر واقع کیپ کورمورن سے بیک وقت غروب آفتاب اور طلوع ماہ مبیں کا منظر دیکھا۔ بیک وقت دو روشنیوں کی درخشانی کا یہ حسین منظر کنگ اور مسز کنگ کے دل و دماغ میں اس طرح  بس گیا کہ انہوں نے اسے اپنے ایک وعظ کا موضوع بنایا۔

ان کی زیارت ہند نا مکمل رہ جاتی اگر وہ سابرمتی آشرم میں وقت نہ گزارتے ۔ اس آشرم کو گاندھی نے جنوبی افریقہ سے واپس آنے کے بعد قائم کیا تھا۔ یہاں انہوں نے سوامی وشو آنند کے بقول ’’ ملک کی آزادی اور ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا کام انجام دیا۔ سوامی نے کنگ اور مسز کنگ کے ہمراہ اپنے اسفار کی تفصیلات اپنی ذاتی یادداشت میں درج کی ہیں جسے گاندھی نیشنل میموریل فنڈ نے شائع کرایا ہے۔ یہی آشرم تھا جہاں گاندھی کے قریب ترین رفقاء کار کو عدم تشدد کی تعلیم و تربیت دی گئی اور جہاں سے گاندھی نے سمندر کے لیے کوچ کیا تھا۔ وشو آنند نے لکھا’’ کنگ زن و شو کو آشرم جیسے مقدس مقام پر جانے کا موقع ملا جہاں ان کی ملاقات یہاں قیام پذیر ۶۰۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے ہوئی۔ ان میں سے بیشتر ہریجن تھے۔ ہم لوگ جب آشرم سے لوٹے تو ذہن تازگی سے معمور تھا اور ہم لوگ اس دورے کے متشکر و ممنون تھے جس نے ہمیں پاکیزگی اور قوت بخشی تھی۔‘‘

کنگ نے جو تجربہ حاصل کیا وہ جگ ظاہر ہوا۔ امریکہ لوٹ کر انہوں نے زندگی کے جو ماہ و سال گزارے وہ جلوسوں ، دعوت و تبلیغ، لوگوں کو بیدار کرنے، لوگوں کو سمجھانے بجھانے اور ترغیب دینے میں صرف ہوئے تاکہ نا انصافی اور نسلی تفریق پر مبنی بدی کا خاتمہ ہو جوان کےخیال میں ملک کی اس عظمت کے حصول میں سد راہ تھا جس کا وہ مستحق ہے۔

آزادی کے متوالوں کی حوصلہ افزائی کے لیے، کنگ نے اس یکم مارچ ۱۹۵۹ ءکا ذکر کیا جب وہ احمد آباد کے آشرم میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گاندھی نے کس طرح چند آدمیوں کے ساتھ ۳۲۲ کلومیٹر طویل ڈانڈی کا مارچ کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جلوس میں لاکھوں لوگ شامل ہوگئے جنہوں نے مٹھی بھر نمک بنا کر قانون شکنی کی۔ کنگ نے اسی لب و لہجے میں سامعین کو یہ کہانی سنائی جس انداز میں وہ مقدس صحیفے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ انداز سامعین کو جوش وولولے سے بھر دیتا ہےاور انہیں مسحور کر دیتا ہے:

’’ اور گاندھی نے اپنے لوگوں سے کہا :’ اگر تمہیں کوئی چوٹ لگے تو پلٹ کر وار مت کرو، اگر وہ تم پر گولیاں برسائیں تو بھی تم ان پر گولیاں مت چلاؤ۔ اگر وہ تم لعنت و ملامت کریں تو بھی تم ان پر لعن طعن مت کرو، بس آگے بڑھتے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہم میں سے کچھ مرجائیں۔ ہو سکتا ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہم میں سے کچھ گرفتار کر لیے جائیں، لیکن ہم کو آگے ہی بڑھتے رہنا ہے۔ اور وہ چلتے رہے، چلتے رہے، آگے بڑھتے رہے۔‘‘

 

اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل جنوری۔ فروری ۲۰۰۹ء میں ہوئی۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے