امریکی تعلیم کی قدروقیمت

رینو کھٹور نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک متاثر کن عملی زندگی شروع کی ۔ ایسا کرنا آپ کے لیے بھی ممکن ہے ۔

مائیکل گیلنٹ

October 2022

امریکی تعلیم کی قدروقیمت

رینو کھٹور نے یونیورسٹی آف ہیوسٹن سسٹم کی چانسلر کے بطور خدمات انجام دی ہیں اور یونیورسٹی کے پرچم بردار ہیوسٹن کیمپس کی صدر کے عہدے پر جنوری ۲۰۰۸ء سے ہی فائز ہیں۔ وہ امریکہ میں ایک جامع تحقیقی یونیورسٹی کی قیادت کرنے والی پہلی بھارتی امریکہ بھی ہیں۔ (تصویر بشکریہ یونیورسٹی آف ہیوسٹن)۔

جب رینو کھٹور ۱۸ سال کی تھیں تو انہیں  یہ بتایا گیا کہ دو ہفتے سے بھی کم وقت میں ان کی شادی ہونے والی ہے جس کے بعد انہیں تعلیم ادھوری چھوڑ کر  امریکہ جانا پڑے گا۔ اس وقت وہ انگریزی کا ایک جملہ بھی نہیں بول پاتی تھیں۔

اس طرح کی اچانک تبدیلی کے پیش نظر ، یہ اور بھی قابل  ذکر ہے کہ آج کھٹور ایک انتہائی کامیاب تعلیمی رہنما اور منتظم  ہیں۔ انہوں نے جنوری ۲۰۰۸ء سے یونیورسٹی آف ہیوسٹن سسٹم کی چانسلر اور اس کے پرچم بردار یونیورسٹی آف ہیوسٹن کیمپس کی صدر کے طور پر اپنی  خدمات انجام دی ہیں۔ کھٹور ریاست ٹیکساس کی پہلی خاتون چانسلر اور امریکہ میں ایک جامع تحقیقی یونیورسٹی کی قیادت کرنے والی پہلی بھارتی  امریکی ہیں۔

کھٹور اپنی کامیابی کو  ثابت قدمی،  سخت محنت اور اپنی تعلیم اور خوابوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک غیر متزلزل عزم  سے منسوب کرتی  ہیں ۔یہ تمام ایسے  اصول ہیں جو آج بھی  بھارتی طلبہ کو اپنا شاندار کریئر شروع کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

انڈیا سے انڈیانا تک

کھٹور کی پرورش وپرداخت  اتر پردیش میں آگرہ کے قریب واقع  ایک چھوٹے سے قصبے میں  ہوئی  جسے وہ  ایک’’انتہائی محفوظ ماحول‘‘قرار دیتی ہیں۔ وکلاء کی بیٹی اور پوتی کھٹور نےاپنی تعلیم نسوانی  اسکولوں میں ہی  حاصل کی اور گرمیوں میں اپنے کنبے  کے ساتھ بڑے پیمانے پر سفر کیا۔ وہ کہتی ہیں ’’میرا خواب اعلیٰ ترین ممکنہ  ڈگری حاصل کرنا تھا۔ مجھے تعلیم سے بہت زیادہ شغف تھا  اور میں  جانتی تھی  کہ میں علم سیاسیات پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘

۱۹۷۳ءمیں کانپور یونیورسٹی سے لبرل آرٹس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کھٹور ایک ماسٹر پروگرام جاری رکھنے کے لیے تیار ہو  ہی رہی تھیں کہ اسی دوران  انہیں پتہ چلا کہ ان  کی شادی ایک نوجوان بھارتی  انجینئر سے ہونے والی ہے جو امریکی ریاست  انڈیانا کی  پرڈیو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر  رہا ہے۔ ۱۰ دنوں کے اندر کھٹور  شکستہ دل امریکہ آ گئیں ۔ وہ بتاتی ہیں ’’میرے  شوہر نے مجھ سے پوچھا کہ میں اتنی غم زدہ  کیوں ہوں۔میں  نے انہیں  بتایا اس لیے کہ حصول تعلیم سے متعلق میرا جو خواب تھاوہ چکناچور ہو گیا ۔‘‘

کھٹور اور ان کے شوہر نے مل کر انہیں اس صورت حال سے باہر نکالا ۔ کھٹور پرڈیو یونیورسٹی میں گریجویٹ سطح کی کلاسوں میں شرکت کرنے لگیں۔حالانکہ وہ انگریزی بول نہیں پاتی  تھیں اور لیکچرس کی کوئی  بھی بات ان کے پلّے نہیں پڑتی تھی۔ کھٹور انگریزی پڑھ سکتی تھیں مگرزبان کا  فہم لفظی طور پر  صفر تھا۔‘‘

ان  کے شوہر نے مشورہ دیا کہ وہ ٹیلی ویژن دیکھ کر انگریزی کا فہم وادراک   حاصل کریں۔  اس لیے کھٹور نے  ’’ آئی لو لوسی ‘‘ جیسے شوز اور خبریں دیکھنا شروع کیا ۔ کھٹور ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’’ میں بہت ضدی تھی۔گرچہ میں رویا کرتی  کیونکہ یہ بہت مایوس کن اور مشکل تھا۔تاہم، میں آگے بڑھتی  رہی۔‘‘

یونیورسٹی میں ہر ہفتے تحریری اسائنمنٹ ملا کرتے ۔ وہ بتاتی  ہیں کہ ان  کے کاغذات سرخ سیاہی سے  بھرپور  واپس آیا کرتے ۔ وہ آگے کہتی ہیں ’’ ان میں بہت زیادہ غلطیاں ہوتی تھیں، لیکن میں نے سیکھنا شروع کر دیا تھا۔‘‘

کھٹور بتاتی ہیں کہ وہ لکھنے میں اچھی تھیں حالانکہ بھارت میں وہ ہمیشہ ہندی میں لکھتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں’’لہذا، سوچنے کے عمل کی تحریک وہاں سے مل رہی تھی۔‘‘

انہوں  نے اپنی کلاسوں کے لیے  یکے بعد دیگرے کئی مسودے لکھے۔ وہ بتاتی ہیں ’’میرے شوہر  مجھے باہر لے جاتے اور آئس کریم خریدواتے تاکہ مشکل دنوں میں میں بہتر محسوس کر سکوں۔ انہوں نے دوسری ملازمت کی تاکہ وہ ٹیوشن فیس ادا کرنے میں میری مدد کرسکیں۔‘‘

وقت گزرنے کے ساتھ وہ سمجھ گئیں  کہ ان کے پروفیسرس، اسکالرس اور ماہرین سے منسوب آراء پر مبنی کاغذات کی بجائے تفویض کردہ موضوعات پر ان کے  خیالات پڑھنا چاہتے ہیں ۔اور بھارت  میں حاصل شدہ تعلیم نے  نظریاتی تصورات کی مضبوط بنیاد رکھنے میں  ان کی مدد کی۔

کھٹور کی محنت رنگ لائی۔ انہوں نے  سمسٹر کے اختتام تک بولی جانے والی انگریزی میں مہارت حاصل کر لی اور ان دونوں کلاسوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے جس میں انہوں نے داخلہ لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’ایک بار جب مجھے پتہ چل گیا کہ وہ زیادہ نتائج پر مبنی  اور عملی علم کے متلاشی  ہیں ،تو  مجھے لگتا ہے کہ میں صرف اس  لیے  پروان چڑھ سکی  کیونکہ مجھے پتہ تھا  کہ  حقیقت میں مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘

رینو کھٹور(دائیں) سریش کھٹور (بائیں) سے شادی کے بعد بھارت سے امریکی ریاست انڈیانا منتقل ہوگئیں۔ جس وقت رینو کی شادی ہوئی اس وقت سریش پرڈیو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔(تصویر بشکریہ یونیورسٹی آف ہیوسٹن)

نئی شروعات

کھٹور نے پرڈیو میں اپنی ماسٹر س کی تعلیم مکمل کی، دو لڑکیوں کی ماں بنیں، بھارت اور امریکہ کے درمیان سفر کیا اور پرڈیو  یونیورسٹی ہی سے سیاسیات  اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی۔

ہیوسٹن یونیورسٹی میں اپنی تقرری سے قبل کھٹور یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں پروووسٹ اور سینئر نائب صدر تھیں۔اپنی شاندار قیادت کے اعتراف میں  وہ متعدد  اعزازات  سے سرفراز کی گئیں جس میں  ۲۰۱۴ء میں سمندر پاربھارتیوں  کو دیا جانے والا اعلیٰ ترین ایوارڈ پرواسی بھارتیہ سمّان  بھی شامل ہے ۔

کھٹورباخبر کرتی  ہیں کہ ان  کی کامیابی کے لیے ان کی اور ان کے شوہر دونوں کی قربانیاں درکار تھیں ۔اور ان کی ہمت اور ٹیم ورک نے  اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ اپنی یونیورسٹی کمیونٹی کے ساتھ اپنی محنت سے حاصل کردہ  تجربات شیئر کرتی ہیں۔ وہ  کہتی ہیں  ’’یہاں ہیوسٹن یونیورسٹی میں پہلی نسل کےطلبہ  کی ایک ایسی  بڑی آبادی ہے جس نے مشکلات کا سامنا کیا ہے۔میں  ان تمام طلبہ سے کہتی ہوں کہ ان میں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا جنون ہونا  چاہیے ۔انہیں خواب دیکھنا ترک نہیں کرنا چاہیے۔  امریکہ مواقع کی سرزمین ہے۔ حالات مشکل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر آپ میں ہمت اور عزم ہے تو آپ کے سامنے راستے یقینی طور پر  کھلیں گے۔‘‘

عقیدہ اور عمل

کھٹور کے مشکلات بھرے  سفر اور ناقابل یقین حصولیابیوں  سے خوف کھانا فطری امر ہے۔ لیکن وہ اس بات پر زور دیتی ہیں  کہ ہر نوجوان حیرت انگیز چیزیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہم سبھی  میں صلاحیت  ہے اور ہم سب خاص ہیں  ۔ اور یاد رکھیں کہ میں صرف ایک اوسط درجےکی  انسان ہوں۔ آپ کو اس کا یقین کرنا   ہوگا کہ زندگی مواقع فراہم کرے گی۔ آپ کے لیے دروازے کھلیں گے  اور اگر دروازے نہیں تو کھڑکیاں کھلیں گی ۔ آگے ایک طویل  زندگی ہے۔ آپ کو اپنا راستہ خود بنانے اور اطالیقوں سے متاثر ہونے کے مواقع ملیں گے۔‘‘

کھٹور نے امریکہ کو بھارتی طلبہ کے لیے ایک فراخدل اور قبول کرنے والی جگہ قرار دیا  اور کہا کہ امریکہ میں سیکھنے  کا بہترین موقع ہے۔ وہ مشورہ دیتی ہیں کہ طلبہ کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اپنا انتخاب نہ صرف پڑھنے، تحقیق اور اسکول کی ساکھ کی بنیاد پر کرنا چاہیے، بلکہ اس پر بھی کہ’’ آپ کے جذبات  واحساسات آپ سے کیا کہتے ہیں۔ اگر میں انگریزی بولنے کی صلاحیت کے بغیر امریکہ آ سکتی  ہوں اور  میں وہ سب حا صل کر سکتی ہوں جو کچھ میں نے ایک اوسط شخص کے طور پر حاصل کیا ہے تو  ذرا تصور کریں کہ آج آپ کے پاس موجود  جو امکانات اور تکنیکی آلات  ہیں، ان سے آپ کیاکچھ  حاصل کر سکتے ہیں۔ مجھے آپ پر یقین ہے اور میں آپ کے تئیں  نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ اگر میں کسی بھی طور پرآپ کی مدد کر سکتی  ہوں تو میں مدد کے لیے حاضر ہوں۔‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے