انسانی اسمگلنگ سے نبرد آزمائی

نئی دہلی میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم شکتی واہنی نے ہزاروں بچوں کو استحصال اور انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے بچانے میں مدد کی ہے۔

مائیکل گیلنٹ

December 2021

انسانی اسمگلنگ سے نبرد آزمائی

خواتین کو بااختیار بنانے،معاشرے میں ان کے حقوق اور حیثیت کے موضوع سے متعلق ایک قصہ گوئی پروگرام کا انعقاد پٹنہ میں مئی ۲۰۱۷ء میں ہوا۔ اس اجلاس میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق مسائل اور اس کی متعدد وجوہات پر تبادلہ خیال ہوا۔ تصویر بشکریہ شکتی واہینی

رشی کانت کہتے ہیں’’ہر سال ۳۵ ہزار سے ۴۵ ہزار بھارتی بچے لاپتہ ہو جاتے ہیں ۔ ان میں بعض کی بازیابی ہو پاتی ہے اورانہیں ان کے اہل خانہ کو لوٹا دیا جاتا ہے لیکن بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی ملتے ہی نہیں۔‘‘رشی کے ذریعہ بتائی گئی یہ تعداد ہمیں غلامی، اغوا اور اسمگلنگ کے جرائم کے بارے میں پتہ دیتی ہے ۔ یہ انسانی حقوق کی افسوسناک خلاف ورزیاں ہیں جو بھارت کے کچھ حصوں میں اپنے پاؤں پھیلا رہی ہیں۔ رشی کا کہنا ہے ’’یہ کسی بھی ملک کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہیں جہاں برسوں سے ہزاروں بچوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملتی رہتی ہیں۔‘‘

رشی اور ان کے بھائی نِشی کانت اور روی کانت نے ۲۰۰۱ء میں نئی دہلی میں بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ کے لیے وقف شکتی واہنی نام کی تنظیم کا قیام کیا۔ رشی مشرقی بھارت میں تنظیم کے پروجیکٹوں اور پروگراموں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ اور مواصلات کو رفتار دینے کا کام انجام دے رہے ہیں جبکہ نِشی کانت تنظیم کی تمام کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ روی کانت شکتی واہنی کے صدر کی حیثیت سے پالیسی اور قانون سے متعلق امور کی ذمہ داری بھی سنبھالتے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کے سماجی ناسور سے نمٹنے کے لیے اپنے کنبے کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے روی کہتے ہیں’’انسانی زندگیاں کوئی ایسی چیز نہیں ہیں جن کی خریدو فروخت کی جا سکے۔ یہ انسانی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسمگلنگ کا شکار ہونے والے شخص کا برسوں تک استحصال کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ انہیں انصاف تک رسائی نہیں ملتی اور استحصال کرنے والے قانونی شکنجے کی گرفت سے بچتے رہتے ہیں۔‘‘

روی کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ردعمل تاریخی طور پر غیر موثر ہیں کیونکہ استغاثہ دور دراز کے مجرمانہ نیٹ ورک کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے صرف انفرادی واقعات پر توجہ دیتاہے اوریہی بچوں کے استحصال کو ممکن بنانے کی وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس کے لیے تمام فریقوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو شاذ و نادر ہی ہوپاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرم میں مسلسل اضافہ ہو تاجارہا ہے۔‘‘

اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد کے لیے شکتی واہنی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹوں جیسے سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر تحقیقات میں معاونت کرتی ہے۔ اس تنظیم نے ۲۰۰۴ء سے اب تک اغوا کے ۶۰۰۰ سے زائد متاثرین کی بازیابی میں مدد کی ہے۔ یہ تنظیم ہر اس معاملے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی حمایت کرتی ہے جس معاملے کی وہ ذمہ داری لیتی ہے۔ شکتی واہنی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے محکمے کے اہلکاروں کو بچوں کی بازیابی اور معاملے کی نگرانی سمیت دیگر معاملات میں تربیت دینے میں بھی مدد کرتی ہے۔

رشی کا کہنا ہے ’’اسمگلر پیسوں کی طاقت، بدعنوانی اور جرائم کے گروہوں کے ذریعے اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بناتے رہتے ہیں۔ یہ ایک منظم جرم ہے اور پیسہ کمانے کا کاروبار۔ اس منظم جرم کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف فریقوں کے ساتھ ہمیں اکٹھا ہونے اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘

اس مقصد کی تکمیل کے لیے شکتی واہنی نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران متعدد اجلاس کی میزبانی کی ہے جس میں حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے، استغاثہ عہدیدار، سرکاری ادارے، نوجوانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں، طلبہ اور دیگر افراد اکٹھا ہوتے ہیں۔

روی کا کہنا ہے کہ ان جلسوں میں انسانی اسمگلنگ کے جرائم کی روک تھام کرنے اور قصورواروں کو سزا دلانے والے قوانین کو مضبوط بنانے کے طریقوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ان جلسوں نے ’’اس جرم سے نمٹنے کے لیے سیاسی ارادے کو یقینی بنایا ہے جس کے نتیجے میں عملی منصوبے وضع کیے گئے ہیں اور بجٹ میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

تنظیم کے مثبت نتائج میں جھارکھنڈ میں پلیسمنٹ ایجنسی سے متعلق قانون سازی کا مسودہ تیار کرنا، بہار میں تارکین وطن محنت کشوں کے لیے حفاظتی پالیسیاں اور مغربی بنگال میں بچوں کے استحصال کے خلاف ایکشن پلان شامل ہیں۔ ان جلسوں کے نتیجے میں مشرقی اور شمالی بھارت کی یونیورسٹیوں میں ۵۰ سے زائد انسانی اسمگلنگ مخالف کلبوں کا قیام بھی ہوا ہے جہاں مستقبل کے کارکن ملتے ہیں، سیکھتے ہیں اور منظم ہوتے ہیں۔

اپنی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے میں مدد کے لیے روی اور رشی نے امریکی محکمہ خارجہ کی زیرسرپرستی تربیتی پہل، انٹر نیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی۔ روی کہتے ہیں ’’آئی وی ایل پی کے حصے کے طور پر امریکہ میں انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے مجھے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مداخلت کے مختلف اقدامات کے بارے میں معلوم ہوا۔‘‘ روی اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ادارے ان تمام چیزوں کو سیکھ کر کس طرح غلامی کے جرائم کی روک تھام اور قانونی چارہ جوئی کے لیے خود کو نئے سرے سے تیار کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ان مہارتوں اور معلومات نے مجھے بھارت میں اسمگلنگ کے خلاف اقدامات میں مدد پہنچائی ہے۔‘‘

رشی اپنے بھائی کے جذبات کی تائید کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ آئی وی ایل پی نے انہیں بھارت کو درپیش اسمگلنگ کے مسائل کو مجموعی نقطہ نظر سے سمجھنے میں مدد کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں نے انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر روک تھام کے طریقہ کار اور ان جرائم کی تحقیقات اور ان معاملوں میں قانونی چارہ جوئی کے لیے قانون نافذ کرنے کی حکمت عملی بھی سیکھی ہے۔‘‘

اب جبکہ بدترین وبا کا اثر کم ہوتا جارہا ہے، شکتی واہنی طبقات کو مضبوط بنانے کی اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ لہذا مجرمین قدرتی آفات اور صحت عامہ سے متعلق پریشانیوں سے پیدا ہونے والے خراب حالات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کانت برادران قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشاورت برقرار رکھتے ہیں تاکہ انہیں مجرمانہ نیٹ ورک سے جنگ میں مزید موثر بنایا جا سکے۔ انہوں نے ایک ہیلپ لائن بھی شروع کی ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ کے استعمال کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کے معاملات کو روکنا ہے۔ رشی بتاتے ہیں ’’کووڈ کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے متاثرین کی بھرتی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

شکتی واہنی ملک بھر میں انسانی اسمگلنگ کو ناکام بنانے کی خاطر ڈیزائن کیے گئے جامع قانون کی تیاری اور اس کی منظوری کے لیے حکومت ہند کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہی ہے۔

کانت برادران کوگرچہ اپنی تنظیم کی ترقی پر فخر ہے لیکن اب بھی بہت سارا کام کرنا باقی ہے۔ روی کہتے ہیں ’’سِوِل سوسائٹی کے انتہائی مضبوط ردعمل کے باوجود یہ مسئلہ برقرار ہے۔ ہماری مداخلتوں کی وجہ سے ملک کے کچھ علاقوں میں اسمگلنگ میں کمی آئی ہے۔ اس جرم سے نمٹنے کے لیے ہم لوگ ملک بھر میں متحدہ ردعمل حاصل کرنا جاری رکھیں گے۔‘‘

روی مزید کہتے ہیں ’’ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ اس غیر انسانی تجارت اور استحصال کے مرتکب افراد کو قانون تک لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ان مجرموں کو قانون کے شکنجے میں ضرور لائیں گے۔‘‘

شکتی واہنی کے اہم کام کے بارے میں مزید معلومات کے لیےshaktivahini.org. پر جائیں۔ اور یہ جاننے کے لیے آپ آئی وی ایل پی میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں،eca.state.gov/ivlp. سے استفادہ کریں۔

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای اوہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے