امریکی انتخابی عمل کا مشاہدہ

صحافی مریم صدیقی تبادلہ پروگرام کی بدولت اپنے دورہ امریکہ کے دوران امریکی انتخابی عمل کی باریکیوں سے واقف ہوئیں۔

ڈاکٹر سیّد سلیمان اختر

September 2024

امریکی انتخابی عمل کا مشاہدہ

ایک رائے دہندہ ریاست مسی سیپی کے شہر جیکسن میں پارٹی پرائمری میں اپنا امیدوار چنتے ہوئے۔ (تصویر از روجیلیو وی سولس © اے پی امیجز)

اردو ہندی کے ہفت روزہ جدید مرکز سے وابستہ صحافی مریم صدیقی نے اس سال کے اوائل میں امریکی انتخابی عمل پر مبنی انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے دوران امریکی جمہوریت سے واقفیت حاصل کی۔ آئی وی ایل پی موجودہ اور ابھرتے ہوئے غیر ملکی رہنماؤں کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کا اہم پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ پروگرام کے شرکاء امریکہ کے قلیل مدتی دوروں کے ذریعے اپنے امریکی ہم پیشہ افراد کے ساتھ دیرپا تعلقات استوار کرتے ہیں۔

صدیقی کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابی عمل کی تفصیل سے جمہوری حکمرانی کے بارے میں ان کے فہم کو وسعت ملنے کے علاوہ ان کی صحافت کو بھی نئی بصیرت ملی ہے۔ وہ اس کا برملا اظہار یوں کرتی ہیں’’ اس دورے سے مجھےیہ جاننے میں مدد ملی کہ جمہوریتیں کس طرح کام کرتی ہیں۔‘‘

صدیقی نے دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ سے تاریخ اور سوشل ورک میں ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ ۱۴برس سے لکھنؤ کے ہفتہ وار اخبار کے لیے اپنی خدمات دے رہی ہیں۔ صدیقی انڈین اسکول آف ڈیولپمنٹ مینجمنٹ کی اکیڈمک ٹیم میں سینئر ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔

پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

براہ کرم ہمیں اپنے آئی وی ایل پی تجربے اور اہم نکات کے بارے میں بتائیں۔

آئی وی ایل پی کا تجربہ میرے لیے نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ فکر انگیز بھی رہا۔ اس پروگرام کے ذریعے مجھے پیشہ وروں، رہنماؤں اور رائے دہندگان سے ملاقات کا موقع ملا۔ یہ مواقع امریکہ کا آزادانہ دورہ شاید مجھے فراہم نہیں کرپا تا۔ ملٹی میڈیا اور پرنٹ جرنلزم کے کردار پر توجہ مرکوز کرنے والے اجلاس نے اس بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کی کہ کوئی ملک جمہوریت کے سب سے اہم ستونوں میں سے ایک پر کس طرح انحصار کرتا ہے۔ متعامل اجلاس (انٹرایکٹو سیشن) نے یہ جاننے میں میرے فہم کووسعت دی کہ لوگ اپنے منتخب رہنماؤں سے کیا توقع رکھتے ہیں۔

مریم صدیقی نے اس سال کے اوائل میں امریکی انتخابی عمل کے عنوان والے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں شرکت کی۔ (تصویر بشکریہ مریم صدیقی)

امریکی انتخابی عمل کو آپ کس حد تک سمجھ سکیں؟

شروع میں تو یہ مجھے کافی پیچیدہ محسوس ہوا لیکن ہر سیشن اور بات چیت کے ساتھ مقامی، ریاستی اور وفاقی سطح پر انتخابی عمل کی تفہیم واضح ہوتی گئی ۔ پرائمری انتخابات کا تصور میرے لیے بالکل نیا تھا اور’ سُپرٹیوزڈے ‘نے تواس عمل کو براہ راست دیکھنے اور مقامی امیدواروں اور رائے دہندگان سے ملنے کا ایک دلچسپ موقع فراہم کیا۔

امریکی انتخابی منظر نامے میں تنوع اور انفرادیت کے کردار کے بارے میں پہلے آپ کے کیا خیالات ہیں ؟

میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس دورے میں امریکہ کے تعلق سے میرے بہت سے دقیانوسی تصورات کو چیلنج درپیش ہوا۔ مگر تنوع کے بارے میں میری تفہیم بہتر ہوئی۔ میں نے پایا کہ نسلی ، مذہبی اور سماجی گروہوں کی بنیاد پر وہاں لوگوں کے مسائل مختلف تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اپنی رائے کے اظہار میں امریکی بالکل نہیں ہچکچاتے ۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کس طرح وہاں دوسری نسل کے تارکین وطن کو نمائندے کے طور پر چنا گیا ہے۔ یہ دیکھنے کا بھی موقع ملا کہ امریکی تنازعات کو حل کرنے کے لیے کس طرح کام کرتے ہیں۔

امریکی سرزمین ایسا مقام ہے جہاں انفرادیت کو بھی اہمیت دی جاتی ہے ۔ وہا ں لوگ آزادانہ طور پر انتخاب کرتے ہیں جس کی عکّاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ وہاں کی ریاستوں میں ہرچند برس بعد کبھی ریپبلکن پارٹی تو کبھی ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت ملتی ہے۔


اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے