صدر بش اور وزیر اعظم سنگھ نے ۲ مارچ ۲۰۰۶ء کو ایک دور آفریں معاہدے کی تکمیل کی جو بھارت کے شہری جوہری پروگرام کو عالمی تحفظ کے زیر نگرانی کردے گا۔
March/April 2006
ایمبسڈر ڈیوڈ ملفورڈ، انڈر سکریٹری آف اسٹیٹ برائے سیاسی امور آر نیکولاس برنس اور بھارتی خارجہ سکریٹری شیام سرن ۲۱ اکتوبر ۲۰۰۵ ء کو نئی دہلی میں ایک ملاقات کے دوران۔ امریکہ۔ ہند شہری نیوکلیائی معاہدے کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں میں سے یہ ایک اہم ملاقات تھی۔ تصویر بشکریہ وکاس نرولا
صدر جارج ڈبلیو بش اور وزیر اعظم سنگھ نے ۲ مارچ ۲۰۰۶ء کو ایک دور آفریں معاہدے کی تکمیل کرلی جو بھارت کے سول نیوکلیائی پروگرام کو بین الاقوامی تحفظ کے زیر نگراں کردے گا اور اسے امریکہ سے مکمل سول نیوکلیائی تعاون کے قابل بنا دے گا۔ یہ بھارت کے باشندوں کو معاشی طور پر فائدہ پہنچائے گا کیوں کہ یہ معاہدہ بھارت کو امریکہ اور دوسرے ملکوں سے نیوکلیائی ٹیکنالوجی خریدنے کا استحقاق بخشے گا جو توانائی کی روز افزوں ضروریات کی تکمیل میں معاون ہوگا۔
صدر بش نے وعدہ کیا ہے کہ وہ معاہدے کے نفاذ کے لیے امریکی کانگریس سے ایک امریکی قانون، نیوکلیائی توانائی ایکٹ ۱۹۵۴ کو تبدیل کیے جانے کا مطالبہ کریں گے۔ ایسی کسی ترمیم کے لیے امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ووٹوں کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس منظوری کو حاصل کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے بطور، وہائٹ ہاؤس نے ۸ مارچ کو زیر نظر وضاحتی دستاویز جاری کیا تاکہ معاہدے کے بارے میں چند غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔
ناقدین۔ ہند ۔امریکی سول نیوکلیائی تعاون معاہدہ، جنوبی ایشیا میں نیوکلیائی اسلحوں کی دوڑ کو تیز کردے گا۔
وضاحت۔ یہ ایک ایسا تاریخی معاہدہ ہے جو بھارت کو عدم تکاثر کے مخصوص دھارے میں لاتا ہےاور بین الاقوامی برادری کے تعاون سے، نیوکلیائی اسلحوں کے پروگرام میں تعاون دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ اپنی شہری اور فوجی نیوکلیائی سہولتوں اور پروگراموں کو جدا کرنے کا بھارتی منصوبہ، توانائی کی پیداوار کو وسیع کرنے کے لیے، دوسرے ملکوں کو بھارت کے شہری سہولیات سے تعاون کرنے کا راستہ ہموار کرے گا۔ یہ سہولتیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی تحفظات کے تحت ہوں گی تاکہ ٹیکنالوجی اور ساز و سامان کو بھارت کے فوجی پروگرام کی جانب موڑنے سے بچایا جا سکے۔ بھارتی عوام کی خاطر توانائی پیدا کرنے کے لیے نیوکلیائی ری ایکٹروں کا اور زیادہ استعمال ، علاقائی سلامتی یا استحکام کو متزلزل نہیں کرے گا۔
ناقدین۔ کیا یہ اقدام بھارت کو ایک نیوکلیائی اسلحہ رکھنےوالے ملک کی حیثیت سے موثر طور پر تسلیم کرنے میں معاون نہیں ہوگا؟
وضاحت۔ نہیں، امریکہ نے بھارت کو ایک نیوکلیائی عدم تکاثر عہد نامہ (این پی ٹی) ایک نیوکلیائی اسلحہ ملک کی تعریف متعین کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ جس ملک نے یکم جنوری ۱۹۶۷ء سے قبل کسی نیوکلیائی اسلحے یا دوسرے نیوکلیائی دھماکہ خیز آلے کو بنایا اور دھماکہ کیا ہو۔‘‘ (امریکہ، انگلینڈ، فرانس، روس اور چین نے اس تاریخ سے قبل نیوکلیائی آلات کا دھماکہ کر لیا تھا) بھارت پر یہ تعریف صادق نہیں آتی اور ہم اس عہد نامے میں کسی ترمیم کے خواہاں نہیں ہیں۔
ناقدین۔ بھارت کے ۲۲ نیوکلیائی توانائی ری ایکٹروں میں سے صرف ۱۴ کی ہی، اس کے تفریقی پلان کے تحت حفاظتی نگرانی ہوگی اور بھارت کے دو ترقی یافتہ فاسٹ بریڈ ری ایکٹر کسی حفاظتی نگرانی کے بغیر رہ جائیں گے۔ ان سہولیات سے فائدہ اٹھا کر بھارت کافی نیوکلیائی اسلحے بنا سکتا ہے اور اسلحے کے اپنے ذخیرے میں خاطر خواہ توسیع کر سکتا ہے۔
وضاحت۔ بھارت اور ہمارے مابین ہونے والی مفاہمت کے نتیجے میں بھارتی نیوکلیائی ری ایکٹروں کی مزید تعداد آئی اے ای اے کے زیر نگرانی آئے گی۔ ساتھ ہی ساتھ ہم رشتہ سہولتیں بھی حفاظتی نگرانی کے دائرے میں آئیں گی۔ سردست بھارت کے صرف ۴ نیوکلیائی توانائی ری ایکٹر حفاظتی نگرانی میں ہیں۔ اپنے شہری۔ فوجی تفریقی منصوبہ کے تحت بھارت نے اپنے موجودہ نیوکلیائی ری ایکٹروں کی اکثریت کو ،نیز زیر تعمیر ری ایکٹروں کو حفاظتی نگرانی میں لانے پر اقرار و اتفاق کیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ان دیگر ضمنی ترسیلی و موصولی سہولیات کو جو ان ری ایکٹروں میں معاون ہوتی ہیں، کو بھی حفاظتی نگرانی میں لانے پر اتفاق کیا ہے۔ مزید بر آں، بھارت نے مستقبل میں تعمیر ہونے والے تمام شہری توانائی اور فاسٹ بریڈ ری ایکٹروں کو حفاظتی نگرانی کے تحت لانے کا عہد کیا ہے۔
یہ معاہدہ امریکی سلامتی کے لیے اچھا ہے کیوں کہ یہ بھارت کے شہری نیوکلیائی پروگرام کو بین الاقوامی عدم تکاثر کے مخصوص دھارے میں لے آئے گا۔ یہ معاہدہ امریکی معیشت کے لیے بھی اچھا ہے کیوں کہ یہ بھارت کی روز افزوں توانائی کی حاجتوں کو پورا کرنے میں معاون ہوگاجس کے نتیجے میں دیگر توانائیوں کی فراہمی کے لیے بھارت کی بڑھتی ہوئی مانگ کم ہو جائے گی اور اس طرح یہ معاہدہ امریکی صارفین کے لیے توانائی کی قیمتوں کو استحکام بخشنے میں مدد گار ہوگا۔
ناقدین۔ کیا یہ اقدام ایک دوہرے معیار کو جنم نہیں دے گا اور کیا یہ شمالی کوریا اور ایران جیسے سرکش ملکوں کے اپنے نیوکلیائی اسلحہ جات پروگراموں کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا؟
وضاحت۔ شمالی کوریا اور ایران کی سرکش حکومتوں سے بھارت کا موازنہ کرنا قرین عقل نہیں ہے۔
ایران یا شمالی کوریا کے برعکس ، بھارت ایک پر امن او ر متحرک جمہوریت ہے جو نیوکلیائی عدم تکاثر کے ایک مضبوط ریکارڈ کا حامل ہے۔
اس اقدام کے تحت ، بھارت نے جو کبھی این پی ٹی کا فریق نہیں رہا ، متعدد اقدامات پر اتفاق کیا ہے جو اسے بین الاقوامی عدم تکاثر کے مخصوص دھارے میں لے آئیں گے۔
ایران اور شمالی کوریا کے معاملات دوسری نوعیت کے ہیں ۔ انہوں نے عدم تکاثر کے عہد نامے پر دستخط کرتے ہوئے اس کی توثیق کی لیکن اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے تعلق سے محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا۔ اپنی مخفی حرکات سے انہوں نے عدم تکاثر کے تئیں ان عہد و پیمان کو پارہ پارہ کیا جن کی پابندی کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا۔ مستزاد یہ کہ دونوں حکومتوں نے اپنے کو بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ کر لیا اور دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس ، بھارت نے ایسے درج ذیل اقدامات پر اتفاق کیا ہے جو اسے عدم تکاثر کے مخصوص دھارے میں لائیں گے:
اپنی سول نیوکلیائی سہولیات کو آئی اے ای اے کی حفاظت و نگرانی میں دینا،
اضافی پروٹوکول پر دستخط کرنا اور اسے نافذ کرنا جو آئی اے ای اے کو اور زیادہ شدید تفتیش کی اجازت دیتا ہے،
اس بات کو یقینی بنانا کہ اس کی نیوکلیائی اشیاء اور ٹیکنا لوجیاں محفوظ ہیں اور ان کے کسی اور جانب منعطف ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایک قومی ایکسپورٹ کنڑول سسٹم وضع کر نے کے لیے قانون بنانا بھی شامل ہے،
ان ملکوں کو افزودگی اور ری پروسسنگ کی ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے سے احتراز کرنا ہوگا جو اب تک ان سے محروم ہیں اور ان کے پھیلاؤ پر بندش لگانے کی کوششوں میں تعاون دینا،
ایک فزل میٹیریل کٹ آف ٹریٹی کی تیاری کے لیے کام کرنا،
نیو کلیائی تجربے کے باضابطہ التوا کو جاری رکھنا ، اور
میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول اور نیوکلیر سپلائزز گروپ کے رہنما خطوط کی پابندی کرنا۔
ناقدین۔یہ اقدام عالمی عدم تکاثر کے نظام کو کمزور کردے گا یا پھر اسے متاع عام بنا دے گا۔ بھارت کو کسی ضابطے سے مستثنیٰ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاہدہ عدم تکاثر سے باہر رہنے والے ملک پاکستان اور اسرائیل کو بھی یکساں حیثیت دینے کے معاملے پر اصرار کریں گے ۔ یا اس کی وجہ سے دوسرے ممالک معاہدے سے دست بردار ہو جائیں گے۔
وضاحت۔بھارت گذشتہ ۳۰ سالوں سے عالمی عدم تکاثر کے نظام سے باہر ہے۔ اس اقدام کے ذریعے ، بھارت بین الاقوامی عدم تکاثر کے مخصوص دھارے میں شامل ہو جائے گاجس سے اس نظام کو تقویت ملے گی جو بین الاقوامی سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
وہ تمام ملک جو این پی ٹی کے فریق ہیں انہیں پر امن مقاصد کے لیے نیوکلیائی ٹیکنالوجی تک مکمل رسائی کی اجازت ہے لیکن انہیں نیوکلیائی اسلحہ بنانے اور رکھنے کی ممانعت ہے (سوائے نیوکلیائی اسلحہ رکھنے والے پانچ تسلیم شدہ ملکوں کے)۔ ہمیں یہ توقع نہیں ہے کہ یہ ممالک این پی ٹی سے دست بردار ہوں گے۔ این پی ٹی سے کنارہ کشی اس بات کا واضح اشارہ ہوگی کہ وہ ملک نیوکلیائی اسلحہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسے پر امن مقاصد کے لیے نیوکلیائی ٹیکنالوجی تک رسائی سے محروم ہونا پڑے گا۔
پاکستان اور بھارت دو مختلف ملک ہیں جن کی ضرورتیں بھی مختلف ہیں اور جن کی تاریخ بھی مختلف ہے۔ پاکستا ن کو ایک اہم غیر ناٹو حلیف کی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان سے ہمارا رشتہ ایک دوسری نوعیت کا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بھی گہرے تعلقات اور تعاون کے لیے ہمارے ملکوں کے مضبوط عہد و پیمان کا عکاس ہے۔ تاہم پاکستان نہ تو بھارت کی طرح عدم تکاثر کے ریکارڈ کا حامل ہے اور نہ ہی اس کی توانائی ضروریات یکساں ہیں۔ ہم پاکستان سے سول نیوکلیائی تعاون کے لیے کوئی یکساں قدم اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اسرائیل کی حیثیت کا موازنہ بھارت سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اسرائیل نے نہ تو نیو کلیائی طاقت ہونے کا دعویٰ کیا ، نہ ہی توانائی کی ایسی غیر معمولی ضرورتوں کی خواہش کی۔ جہاں تک مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں کا تعلق ہے تو ہم، این پی ٹی کے تمام فریقوں سے معاہدے کے تقاضوں پر پورا اترنے کی توقع کرتے ہیں۔
امریکہ ہند مشترکہ بیان
باہمی اشتراک برائے توانائی کے تحفظ اور صاف ماحول
بھارت کے الگ الگ منصوبہ پر کامیاب گفتگو مکمل ہونے کا خیر مقدم کیا گیا اور نیوکلیائی تعاون پر ۱۸ جو لائی ۲۰۰۵ ء کے مشترکہ بیان میں کیے جانے والے وعدوں پر مکمل عمل در آمدکی امید ظاہر کی گئی۔ اس تاریخی کامیابی سے ہمارے دونوں ملکوں کو اس مشترکہ مقصد کی طرف آگے بڑھنے کا موقع ملے گا جو بھارت اور امریکہ کے درمیان اور بھارت اور بحیثیت مجموعی بین الاقوامی برادری کے درمیان مکمل سول نیوکلیر توانائی تعاون کے متعلق ہے۔
نیوکلیائی توانائی کے متعلق آئی ٹی ای آر اقدام میں بھارت کی شرکت کا خیر مقدم کیا گیا کہ یہ مکمل نیوکلیائی توانائی کے مشترکہ مقصد کی طرف ایک اہم پہل قدمی ہے۔
فیو چر جین میں بھارت کی شرکت پر اتفاق کیا گیا جو کہ ایک بین الاقوامی پبلک پرائیویٹ شراکت ہے اورجس کا مقصد نئی اور تجارتی اعتبار سے کفایتی ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنا ہےجو کہ صاف ، کوئلہ کی آلودگی صفر تک رکھنے والے، پاور پروجیکٹ ہوں۔ اس پروجیکٹ کے لیے بھارت سرمایہ فراہم کرتا رہے گا اور اس اقدام کے لیے گورنمنٹ اسٹیئرنگ کمیٹی میں شریک رہے گا۔
صاف ترقی اور آب و ہوا کے متعلق ایشیا بحرا لکاہل شراکت کی تشکیل کا خیر مقدم کیا گیا جس سے بھارت اور امریکہ اس خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر مسلسل ترقی کے لیے توانائی کی بڑھی ہوئی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ، توانائی کے تحفظ اور آب و ہوا کی تبدیلی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرتے رہیں گے ۔ یہ شراکت زیادہ صاف، کفایتی اور زیادہ بہتر کارکردگی والی ٹیکنالوی اور طریقہ کار کو ترقی اور فروغ دینے کے لیے جاری رہے گی۔
مربوط سمندری ڈریلنگ پروگرام میں بھارت کی دلچسپی کا خیر مقدم کیا گیا جو کہ ایک بین الاقوامی بحریاتی تحقیق کی کوشش ہے جس سے توانائی کے طویل مدتی حل جیسے کہ آبی گیس کی دریافت میں مدد ملے گی۔
ہند۔ امریکی توانائی مکالمت کے تحت مثبت تعاون کو دیکھتے ہوئے ایسے موضوعات پر مشترکہ کانفرنسوں کے منصوبوں کی نشاندہی کی گئی جیسے کہ توانائی کا بہتر استعمال اور قدرتی گیس ، قابل تجدید توانائی کے مطالعہ کے لیے مشنوں کی ماموری، کوئلے والے خطے اور میتھین یا کوئلہ کی کان اور میتھین کے متعلق بھارت میں ایک کلیئر نگ ہاؤس قائم کرنا اور توانائی کے بازار کے متعلق معلومات کا تبادلہ۔
اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل مارچ۔ اپریل ۲۰۰۶ء میں ہوئی۔
تبصرہ