صحت کا بنیادی ڈھانچہ

حیدرآباد اور امپھال میں امریکی حکومت کے تعاون سے چلائے جانے والے مطب بد نامی سے پاک ماحول میں مخنثوں کو طبی اور نفسیاتی خدمات تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔

ہلیری ہوپیک

June 2021

صحت کا بنیادی ڈھانچہ

جنوری ۲۰۲١ء میں بھارت کا پہلا ٹرانسجینڈر کلینک یوایس ایڈ انڈیا کے تعاون سے حیدرآباد میں شروع کیا گیا۔ تصویر بشکریہ اَیکسیلریٹ

امریکہ ہم جنس پرست افراد کے لیے مزید جامع معاشرے کی تشکیل اور ان کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر ، امریکی حکومت نے حال ہی میں خواجہ سراؤں کے لیے دو کلینک کے قیام میں مدد کی ہے جنہیں طبی طور پر کم خدمات حاصل ہیں اور انہیں اکثر تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۲۹ جنوری ۲۰۲١ء کو بھارت کا پہلا ایسا مطب حیدرآباد میں شروع کیا گیا۔ صدر کے ہنگامی منصوبہ برائے ایڈز راحت(پی ای پی ایف اے آر) کے تحت ایکسیلریٹ پروگرام کے مالی تعاون سے اس کلینک کوامریکہ کی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) ،تلنگانہ اسٹیٹ ایڈز کنٹرول اورحکومت ہند کی قومی ایڈز کنٹرول تنظیم (ناکو) مل کر تعاون فراہم کرتی ہے۔

ایکسیلریٹ ٹرانسجینڈر ہیلتھ کی ڈائریکٹرسمرن بھروچہ نے  کلینک کو ون اسٹاپ سینٹر قرار دیا جو بدنامی سے پاک ماحول میں  خواجہ سرا طبقہ کو جامع خدمات مہیا کرتا ہے۔ بھروچہ کے مطابق ’’کلینک عام صحت کی خدمات ، ہارمون تھیراپی اور صنفی شناخت کے طریقہ کارکے سلسلہ میں رہنمائی اور دوائیں، ذہنی صحت سے متعلق مشاورت،ایچ آئی وی اور ایس ٹی آئی سے متعلق مشاورت؛ روک تھام اور علاج کی خدمات؛قانونی امداد اور سماجی تحفظ کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ا س کے ساتھ صنفی شناخت کے لیے رعایتی قیمت پر جراحت کے لیے نجی کلینک کے ساتھ ریفرل کے روابط تلاش کیے جارہے ہیں۔‘‘

کلینک کی خدمات کی فراہمی کے ماڈل  کو ڈیزائن اور قائم کرنے کے عمل میں مختلف شراکت داروں کو شامل کیا گیا۔ خواجہ سرا طبقہ کے اراکین  اور کارکنان کو ٹرانسجینڈر کمیونٹی پروگرام میں موجودہ فرق ، ان کے توقعات اور سفارشات کاجائزہ لینے کے لیے اس میں شامل کیا گیا  جس کی بنیاد پر کلینک کا ڈھانچہ اور خدمات تیار کی گئیں۔ خواجہ سرا طبقہ کی آرا کی بنیاد پر ، کلینک کے اوقات میں تبدیلی کی گئی تاکہ یہ نشان زد  آبادی کے لیے یہ دستیاب ہو۔

 لوگوں تک رسائی کے لیے سرگرمیوں ، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں ، ایپس اور کمیونٹی کے تعاون سے کلینک کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ بھروچہ نے مزید کہا ’’حیدرآباد کلینک مکمل طور پر ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے نمائندوں کی سربراہی میں ہے ، جو دوستانہ ماحول ، عملے اور خدمات کے بارے میں ایک مثبت پیغام پھیلانے میں مدد کرتا ہے۔‘‘

مارچ ۲۰۲١ء میں ، پی ای پی ایف اے آر کے تحت امریکی مراکز برائے امراض کنٹرول اور روک تھام (سی ڈی سی) نے امپھال کے جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ٹرانسجینڈر ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر شروع کرنے میں مدد کی۔ یہ مرکز شمال مشرقی بھارت میں ٹرانسجینڈرکمیونٹی کے لیے صحت کی دیکھ بھال اور خاص طور پر ایچ آئی وی۔ایڈز کی طبی نگہداشت تک بہتر رسائی فراہم کرتاہے۔

کولکاتہ میں امریکی قونصل خانے کے تعاون کےساتھ سی ڈی سی نے کلینک شروع کرنے کے لیےپروگرام کے نفاذ کے شراکت دار انٹر نیشنل ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن سینٹر فار ہیلتھ انڈیا، مقامی کمیو نٹیز ، منی پور اسٹیٹ ایڈز کنٹرول سوسائٹی اور این اے سی او کے ساتھ مل کر کام کیا۔ امریکی قونصل جنرل پٹی ہافمین نے کلینک کے افتتاح کے موقع پر کہا ’’ایل جی بی ٹی کیوآئی پلس افراد کے انسانی حقوق کی حمایت اورفروغ کے لیے امریکہ ہم خیال حکومتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا پابند ہے۔ یہ کامیاب افتتاح امریکہ اور بھارت کے مابین مضبوط شراکت داری اور صحت کے تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

آئی ٹیک انڈیا، جس کی جڑیں واشنگٹن کے شعبہ عالمی صحت کے اندر موجود ہیں ، نے ٹرانسجینڈر کمیونٹی سے متعلق ماروپلوئی فاؤنڈیشن اور قومی و ریاستی ایڈز کنٹرول سوسائٹیوں کے ساتھ مل کر منی پور کی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی خدمات کے لیے دو جہتی نقطۂ نظر تیار کیا ہے۔ آئی ٹیک انڈیا کےبچاؤ سے متعلق ڈائریکٹر جی ایس شری نواس کہتے ہیں کہ ٹرانسجینڈر ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر کےنزدیک ہی جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سروسز میں ایک ہیلتھ ڈیسک موجود ہےجو یہاں آنے والوں کوایچ آئی وی ؍ایس ٹی آئی کی تشخیص اور جانچ کے ساتھ اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی کے لیے سرکاری اور جنرل اسپتال کی خدمات کے لیے ریفرل خدمات کی پیشکش کرتا ہے۔  

آئی ٹیک انڈیا کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر انور پرویز سید کہتے ہیں کہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ، سی ڈی سی کے ذریعہ امریکی حکومت کی جانب سے حاصل کردہ امدادایسے لوگوں پر مرکوز کی گئیں جنہیں منشیات کا انجکشن لگوانے کی لت تھی۔ ڈاکٹر پرویز کا کہنا ہے’’منشیات کےانجیکشن لگوانے والے افراد میں کامیابی کے ساتھ ایچ آئی وی سے بچاؤ کے لیے مختلف ایجادات کا مظاہرہ کرنے کے بعد ، سی ڈی سی نے پروگرام کے نفاذ کے لیے اپنے پارٹنر آئی ٹیک انڈیاکے ذریعہ ، ٹرانسجینڈر افراد سمیت دیگرخطرے سے دوچار آبادیوں کے لیے ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج کی خدمات فراہم کرنے کی سمت قدم بڑھا یا۔‘‘  اس اقدام کوسامنے آنے والے شواہد اورمنی پور میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی جانب سے ان کی وسیع تر صحت اور معاشرتی ضروریات کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطۂ نظرکے مطالبہ سے مزید حوصلہ افزائی ملی۔ اس سے کلینک کو طبی خدمات سے مزید آگے بڑھ کر تندرستی ، صنفی شناخت کی حمایت اور فلاحی خدمات کے ساتھ ساتھ منی پور کی ٹرانسجینڈرکمیونٹی کو بااختیار بنانے کے لیے صلاحیت اور مہارت سازی  کا بھی حوصلہ ملا۔

آئی ٹیک انڈیا میں آبادی سے متعلق تکنیکی ماہر ابھینو آہر کا کہنا ہے کہ  ٹرانسجینڈرہیلتھ اینڈ ویلنیس مرکز صرف خواتین پر ہی نہیں بلکہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے مردوں پر بھی توجہ مرکوز کررہا ہے تاکہ تمام کمزور اورحاشیہ پر موجودصنف کو نجی  اورسرکاری نظام میں  شامل کیا جاسکے۔ اس سے مستقبل میں ٹرانسجینڈر مراکز کے لیے صنفی شناخت سرجری کو مختلف نظام میں ضم کرنے کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔ اس جامع انداز سے سیکھنے سے ٹیم کو دیگر خطرے سے دوچار آبادی کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

دونوں کلینک کے لیے ، ٹرانسجینڈر عملے کی بھرتی کرنا اس کمیونٹی کا اعتماد اوربھروسہ حاصل کرنے کے لیے ایک اہم قدم رہا ہے۔ گنگا بھوانی جنہوں نے مرد کے طور پرنرس بننے کی ٹریننگ مکمل کی اور اب ایک ٹرانسجینڈر خاتون کی حیثیت سے شناخت رکھتی ہیں،ان کاکہنا ہے’’اہل ہونے کے باوجود ، میں اپنی زندگی کے گزارے کے لیے بھیک مانگتی تھی کیونکہ میری مطلوبہ صنف کے ساتھ ملازمتیں دستیاب نہیں تھیں۔ تلنگانہ میں ایکسیلریٹ ٹرانسجینڈر کلینک کھولے جانے  کے بارے میں جاننے پر انہوں نے ایک پیشہ ور نرس کی حیثیت سے درخواست دی ۔ حیدرآباد کلینک کے ذریعہ پہلے ٹرانس اسٹاف کے طور پر میری  تقرری کے بعد ، مجھے باقی عملے کے بارے میں شبہ تھا۔ میرے تمام شکوک و شبہات اس وقت دور ہوگئے جب کلینک نے لوگوں کو خدمات مہیا کرنے کے لیے صرف ٹرانسجینڈر شناخت کے حامل عملے کی خدمات حاصل کرنے کا عہد کیا۔‘‘

ڈاکٹر پرویز نے سور (نام تبدیل ) کے تجربے کو شیئر کیا ، جو ایک ایسی ٹرانس خاتون ہیں جنہوں نے ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگوں کے بارے میں قصے کہانیاں اوربدنامی کی وجہ سے دس سال سے زیادہ عرصے سے ادویات لینا چھوڑ دیا تھا۔ وہ ٹرانسجینڈر ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر کا دورہ کرنے کے بعد بہت متاثر ہوئیں ،جہاں انہوں نے پایا کہ ٹرانسنجینڈر کمیونٹی کے افرادایچ آئی وی سے متاثر ٹرانسجینڈر افراد کے ساتھ ایک ہی احاطے میں کام کررہے ہیں۔  اس سے سور کو اپنی کمیونٹی کے لوگوں سےمشاورت کے ساتھ اپنا علاج شروع کرنے کی تحریک ملی۔

حیدرآباد اور امپھال میں کلینک کی کامیابی پہلے ہی پورے بھارت میں اسی طرح کے اقدامات کے لیے تحریک کا باعث بن رہی  ہے۔ بھروچہ کہتی ہیں ’’ایکسیلریٹ پروجیکٹ کے تحت ، مہاراشٹر کے پونے اور تھانہ اضلاع میں ٹرانسجینڈر کلینک شروع کرنے کا کام جاری ہے۔ حیدرآباد ماڈل کی بنیاد پر ، دیگر ریاستوں جیسے گجرات ، آندھرا پردیش ، دہلی ، پنجاب اور اڈیشہ کے بہت سے کمیونٹی رہنما اپنے اپنے شہروں میں کلینک شروع کرنے کےکوششیں کررہے ہیں۔‘‘

ہلیری ہوپیک کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے