کمیونٹی قائدین کی تربیت

اس مضمون میں مقامی انگریزی زبان دفتر (ریلو )کے ایکسسس پروگرام کے فیض یافتگان اپنے اپنے پراجیکٹس کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

ظہور حسین بٹ اور ثنا سیٹھی

September 2023

کمیونٹی قائدین کی تربیت

ریلو کے انگریزی ایکسس مائکرو اسکالرشپ پروگرام کے طلبہ غزالہ یوسف انصاری(بائیں سے)، نفیسہ نسیم، سنیشا کمبریکا، سُربھی کشیپ اور دیپیش کمار نے نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں اپنے پراجیکٹوں کی نمائش کی۔ (تصویر بشکریہ راکیش ملہوترا)

نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے مقامی انگریزی زبان دفتر (ریلو) بھارت کے باشندوں کےلیے انگریزی کا پروگرام چلاتا ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے کی شدید خواہش نے نفیسہ نسیم، دیپیش کمار، سانیش کمبریکا، سربھی کشیپ اور غزالہ یوسف انصاری کو ریلو میں داخلہ لینے کی ترغیب دی۔ یہ پانچوں ریلو کے انگلش ایکسس مائکرو اسکالرشپ پروگرام کے فیض یافتگان ہیں۔

ابھی حال ہی میں ان پانچوں نے ریلو کے پراجیکٹ ’’طبقاتی خدمات منصوبوں کو تیار اور نافذ کرنا‘‘میں شرکت کی۔تمام شرکاء میں یہ ’بہترین پانچ‘ کے طور پر منتخب ہوئے۔

اس پراجیکٹ کے تحت پورے بھارت سے ایکسس پروگرام کے۳۳فیض یافتگان نےطبقاتی خدمات پراجیکٹ میں تربیت حاصل کی۔ اس پراجیکٹ کا آغاز اکتوبر ۲۰۲۲ءمیں انگریزی زبان کےایک  ماہر کےچھ ہفتہ کے مجازی اجلاس سے ہوا۔ بعد ازاں فروری ۲۰۲۳ءمیں طلبہ کو سات دن کے اقامتی کیمپ کے لیے میسور میں مدعو کیا گیا۔

مالی امداد کےلیے  پیش کی گئی ہر تجویز پر بغور تجزیہ کے بعد ہر فیض یافتہ کو ۲۵۰ امریکی ڈالر دیے گئے تاکہ مارچ ۲۰۲۳ء سے مئی ۲۰۲۳ء کے درمیان وہ اپنے اپنے طبقے میں اس کو نافذ کریں۔ یہ پراجیکٹ چھ وسیع میدانوں جیسے انسانی حقوق اور صنفی با اختیاریت، تعلیم تک رسائی، ماحولیات، صحت، کاروباری پیشہ وری  اور منشیات پر مرکوز تھے۔

نسیم، کمار، کمبریکا، کشیپ اور انصاری نے نئی دہلی میں واقع ا میریکن سینٹر میں اپنے اپنے پراجیکٹ کی جون ۲۰۲۳ء میں نمائش کی۔

نفیسہ نسیم

نفیسہ کا پراجیکٹ حیض کے بارے میں تھا جس کے تحت انہوں نے اپنے وطن کولکاتا کے ٹکیا پاڑہ علاقہ میں کام کیا۔ وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جس میں حیض کو بہت برا تصور کیا جاتا تھا ۔ یہ بھی بتایا جاتا کہ دکانوں پر جاکربراہ راست  سینیٹری پیڈ نہیں خریدنا چاہیے۔

نسیم سائنس کی طالبہ ہیں اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ حیض کے بارے میں گفتگو کو معمول کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ لڑکیاں حیض کے متعلق اپنے مسائل کو  بلا جھجھک کھل کر بیان کر سکیں۔

تین ماہ کے اپنے پراجیکٹ کے دوران نسیم نے ۳۰۰ مرد اور خواتین کو حیض اور ایّامِ حیض کے دوران ذاتی صفائی ، حیضی غربت وغیرہ موضوعات کے بارے میں تعلیم دی۔ حیضی غربت سے مراد حیضی مصنوعات،ایّامِ حیض کے دوران صفائی  رکھنے سے متعلق سہولیات اور حیضی فضلہ کے انتظام تک عدم رسائی ہے۔

نسیم کی ورکشاپ کی اختتامی تقریب کا انعقاد مئی میں عالمی یوم حیض پر ہوا۔ اس موقع پر نسیم نے اپنے والد کو بھی مدعو کیا۔وہ جذباتی ہوکر بتاتی ہیں ’’

میں نے  اپنی ۱۹ سالہ زندگی میں ان کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے۔ وہ ایک بہت مضبوط دل والے شخص ہیں۔ مگر جب انہوں نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کو اس حسّاس موضوع پر کام کرتے اور کامیاب ہوتے دیکھا تو وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پائے۔‘‘

وہ مزید بتاتی ہیں ’’ ریلو نے نہ صرف مجھے ایک پلیٹ فارم عطا کیا بلکہ میرے ذہن کی بھی تشکیل کی، میری بہت حوصلہ افزائی کی اور ایک قائد اور ایک تبدیلی لانے والے کی صورت میں مجھے بنایا اور اب میں بجا طور پر فخریہ اعلان کرسکتی ہوں کہ ہاں، یقیناً اب میں ایک کامیاب تبدیلی لانے والی فردہوں۔‘‘

دیپیش کمار

دیپیش کا تعلق چنئی کے مضافاتی علاقہ تھنڈلم سے ہے۔ اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد ہی کمار میں سماجی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسی وجہ سے انہوں نے سوشل ورک میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی جس میں ان کا تخصص طبقاتی ترقی تھا۔

کمار کا پراجیکٹ تھا ’’اے ویڈ آؤٹ ویڈ ۲۰۲۳۔‘‘اس کا مقصد منشیات کے خلاف بیداری پیدا کرنا تھا۔ایسا اس لیے کیوں کہ خود ان کے علاقے میں  ، جیسا کہ وہ بتاتے ہیں ’’اسکولی طلبہ میں منشیات کا استعمال ایک خطرناک وباء کی  طرح پھیل رہا تھا ۔ نتیجتاً طلبہ کا دھیان تعلیم میں نہیں لگ رہا اور اسکول چھوڑنے کی شرح میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ‘‘

انہوں نے اپنی کمیونٹی میں اس پراجیکٹ کے نفاذ کے لیے تھنڈلم میں واقع آر سی اعلیٰ ثانوی اسکول کا انتخاب کیا۔ اس پراجیکٹ میں انہوں ایک تفریحی ماڈیول بھی شامل کیا۔ کمار بتاتے ہیں ’’ اس بیداری پروگرام کو سہ روزہ ورکشاپ کی صورت  میں بروئے کار لایا گیا جس میں ہر روز ایک نئی تھیم اور موضوع ہوتا تھا۔ طبقات کو  فیلڈ میں کام کرنے کی مہارت سے متعلق جانکاری دی جاتی تھی   اور طلبہ سے تفاعل بھی شامل ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں میں نے  مختلف  نشان زد گروپوں کے لیے کامیاب بیداری مہمات بھی منعقد کیں۔‘‘

کمار مزید بتاتے ہیں ’’ اس پراجیکٹ کے نتائج شاندار رہے۔ نہ صرف اسکول بلکہ میرے اوپر بھی اس کا بہت گہرا مثبت اثر ہوا۔ اس مہم سے اسکولوں کے  ۴۴۸ طلبہ،سو والدین اور کمیونٹی کے دوسرے افراد مستفید ہوئے۔‘‘

اس پراجیکٹ سے کمار کو اپنے نظریاتی علم میں اضافہ کرنے اور سماجی کام اور طبقاتی ترقی کے میدان میں اپنی قائدانہ صلاحیت کو ابھارنے کا موقع بھی ملا۔

سانیش کمبریکا

کمبریکا بھوونیشور میں واقع کلنگا انسٹی  ٹیوٹ برائے سماجی علوم میں علمِ حیوانات کی طالبہ ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے دیہی علاقہ سے ہے جہاں مالی بدحالی کے سبب کاشت کار اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے قاصر ہیں۔ کمبریکا کی دلچسپی زرعی کاروباری پیشہ وری میں ہوئی ’’ تاکہ کاشت کاروں کی غربت کا خاتمہ کیا جاسکے اور وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں۔‘‘

کمبریکا بتاتی ہیں ’’ اکثر دیہی کاشت کار پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں مگر اس کا کثیر حصہ خراب ہو جاتا تھا کیوں کہ کاشت کاروں کے پاس ان کو ڈھنگ سے فروخت کرنے یا  ان کی بازار کاری کی مہارت نہیں تھی ۔کمار نے اپنے پراجیکٹ  کے تحت کاشت کاروں کو تعلیم دی اور انہیں زرعی کاروباری پیشہ وری کے مختلف طریقوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں ،نیز تربیت بھی دی جس سے ان کاشت کاروں کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی اور وہ اپنی زرعی مصنوعات کو بہتر طر یقے پر بازار میں فروخت کرسکے۔

کمبریکا نے مشاہد ہ کیا کہ مشروم کی کاشت میں کاشت کاروں کو زیادہ منافع ہوتا ہے اس لیے کمار  اور ان کی ٹیم نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر کاشت کاروں کو مشروم کی کاشت میں تربیت فراہم کی۔ جب اس میں کامیابی حاصل ہوئی تو دیگر لوگ جو اس کے بارے میں مشکوک تھے وہ بھی اس میں شامل ہوگئے۔ کمار بتاتے ہیں ’’ ہمیں ان مسکراتے ہوئے چہروں کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی ۔ زرعی  کاروباری پیشہ وری سے جو آمدنی ہوئی اس سے ان کاشت کاروں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کیا۔

سُربھی کشیپ

کشیپ نے صحافت اور ترسیل عامہ میں گریجویشن کیاہے۔ فی الحال وہ تعلیم نسواں کے شعبہ میں کام کررہی غیر منافع بخش تنظیم اسٹڈی ہال فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں۔

ریلو کا کمیونٹی خدمت پراجیکٹ کشیپ کے لیے  لکھنؤ میں تعلیم نسواں کے لیے  آزادانہ طور پر کام کرنے کا بہترین موقع تھا۔ وہ بتاتی ہیں ’’  پورے بھارت میں اتر پردیش ایک ایسا صوبہ ہے جہاں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ بعض والدین کو تعلیم ِنسواں کی اہمیت کا بالکل اندازہ نہیں ہے۔‘‘

اپنے پراجیکٹ کے تحت کشیپ نے ۵۴ لڑکیوں کو طویل عرصے کے بعد واپس اسکول بھیجنے میں کامیابی حاصل کی جب کہ ۲۵ لڑکیاں اسکول میں داخلہ لینے کی تیاری کررہی ہیں ۔ مزید برآں ، ۳۲۴ والدین نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے کا عہد کیا ہے۔

کشیپ واضح کرتی ہیں کہ ریلو کا ان کا پراجیکٹ نہایت ہی اچھا تجربہ تھا کیوں کہ انہیں اساتذہ، طلبہ، والدین اور طبقات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سے ان کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوئی، مسائل کا قریب سے  تجزیہ کرنا آیااور ان کی تحریری صلاحیت بھی بہتر ہوئی۔

غزالہ یوسف انصاری

انصاری نے۲۰۲۰ء میں فارمیسی میں ماسٹر ڈگری لی اور فی الوقت وہ احمد آباد میں  بحیثیت  اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کے پراجیکٹ کا مطمح نظر جینرک میڈیسن(ایسی دوائیں جن میں یکساں کیمیاوی مادّے ہوں جو پیٹنٹ شدہ دواؤں میں ہوتے ہیں) کے استعمال کو فروغ دینا تھا تاکہ  صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں مساوات قائم ہو سکے۔

وہ بتاتی ہیں ’’ میں ایسے افراد کی زندگی میں تبدیلی لانےکی خواہاں تھی جن کو  صحت کی دیکھ بھال کے وہ مواقع میسر نہیں آئے ، جو مجھے ملے۔ جینرک میڈیسن کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے  میں نے ضرورت مندوں کو نہایت ہی کم قمیت پر معیاری ادویات مہیاکرائیں۔ مزیدبرآں ،میرے نزدیک جینرک میڈیسن کی بازارکاری  صحت کے میدان میں بہتر مساوات کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ‘‘

اپنی مہم کے ذریعہ سے انصاری نے جینرک میڈیسن کے بارے میں بیداری پیدا کی۔  وہ بتاتی ہیں ’’ ہم نے بہت سارے پروگرام منعقد کیے جن میں ہم نے ۲۵۰ سے زائد افراد کو جینرک میڈیسن اور ان کے فوائد کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔‘‘

انصاری اور ان کی ٹیم نے احمد آباد میں ایک سروے بھی کیا جس سے انکشاف ہوا کہ ۵۰میں سے ۴۴افراد جینرک میڈیسن استعمال کرر ہے ہیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں ’’ان کے پراجیکٹ کی بدولت لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے اور ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں کے خرچ میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘

انصاری نے اپنے ریلو پراجیکٹ کے دوران مختلف قسم کی پیشہ ورانہ ترقیاتی سرگرمیاں جیسے ویبی نار اورآن لائن کورسز میں بھی شرکت کی جن سے ان کی انگریزی کے علم اور صلاحیت میں بیش بہا اضافہ ہوا۔  وہ باخبر کرتی ہیں’’  مزید یہ کہ میں نے متعدد ورکشاپس اور سیمینار میں بھی شرکت کی جس سے مجھے انگریزی زبان پڑھانے کے تازہ ترین طریقہ کار کا علم ہوا۔‘‘


اسپَین نیوز لیٹر اپنے ای میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے