یونیورسٹی آف آئیووا کا دی انٹرنیشنل رائٹنگ پروگرام فال ریزیڈینسی دراصل ہر برس خزاں کے مہینے میں شروع ہونے والا ایک ایسا رہائشی پروگرام ہے جوتخلیقی کاموں اور اشتراک کی غرض سے بھارت اور دیگر ممالک کے مصنفین کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کا کام کرتا ہے۔
January 2019
چندر موہن ستیہ ناتھن (مرکز میں) یونیورسٹی آف آئیووا میں ایک پینل مباحثہ کے دوران۔ (تصویر بشکریہ چندر موہن ستیہ ناتھن)
یونیورسٹی آ ف آئیووا کا دی انٹرنیشنل رائٹنگ پروگرام فال ریزیڈینسی دنیا بھر کے عظیم ترین کثیر ثقافتی اور تحریری رہائشی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر کے ابھرتے ہوئے اور خود کو مستحکم کر چکے مصنفین اس منفرد تحریری پروگرام میں حصہ لینے کے لیے ۱۹۶۷ ءہی سے یونیورسٹی کا رخ کرتے رہے ہیں۔ پروگرام کا مقصد مصنفین کو ثقافتی تبادلے کی ایک فضا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے، پڑھنے، ترجمہ کرنے اور مطالعہ کرنے کا وقت اور ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پروگرام شرکا ء کو یونیورسٹی کی ادبی اورتعلیمی برادری کا حصہ بننے کا موقع بھی فراہم کرتاہے ۔پروگرام کا انعقاد امریکی وزارتِ خارجہ کی ایما پر کیا جاتا ہے۔
ہر برس موسمِ خزاں میں ۲۵ سے ۴۰ مصنفین امریکی ریاست آئیووا کی جانسن کاؤنٹی کی آئیووا سٹی میں قریب قریب ۱۰ ہفتے کے اس پروگرام میں اپنے پروجیکٹ پر کام کرنے ، مقالے پڑھنے ،لکچر دینے اور امریکی ناظرین اور امریکہ کی ملک گیر پیمانے پر پھیلی ادبی برادری سے گفت و شنید کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔
کیرل کے ایک شاعر چندر موہن ستیہ ناتھن کو ۲۰۱۸ ءمیں اس پروگرام میں ہند کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ستیہ ناتھن کی نظموں میں اکثر محروم طبقوں ، مزدوروں کی جماعت اور دنیا بھر کے جلاوطن خانہ بدوشوں کی سماجی اور سیاسی جدوجہد کا ذکر ملتا ہے۔ پیش ہیںان سے لیے گئے انٹرویوکے اقتباسات۔
آپ کوکب محسوس ہواکہ شاعری میں کریئر بنانا چاہتے ہیں ؟ پہلے پہل کن لوگوں نے آپ کو متاثر کیا ؟
شاعری سے میرا سابقہ سب سے پہلے ایک کتب خانے میں اس وقت پڑاجب مجھے ٹامس ٹرانس ٹرومرکو پڑھنے کا موقع ملا۔ بعد میں بعض بڑے مقامی شعراء نے جب میری کچھ نظموں کی ستائش کی اور مزید نظمیں کہنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی تو مجھے محسوس ہوا کہ میری تحریروں میں کچھ تو ہے ، لہٰذا میں نے شاعری پر توجہ دینا شروع کی۔ مطالعے کی مشق کے تحت میرے ایک دوست نے مجھے رالف ایلی سَن کی تخلیق اِنوِیزیبُل مَین پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس کتاب کا میرے اوپر بہت گہرا اثر پڑا۔
میں ملیالم شاعر کے سچیدانندن سے بھی کافی متاثر ہوا۔ ان کے علاوہ میں عرصے سے ایمے سیزر اور ڈیریک والکاٹ کے کاموں کو بھی پسند کرتا ہوں۔ عصری شعراءمیں لیسیگو رام پولو کینگ، نتھانیئل مَیکے، ٹیرنس ہائس اور کماﺅ بریتھ ویٹ جیسے قلمکار بھی میرے پسندیدہ ادیب ہیں ۔
یونیورسٹی آف آئیووا کے انٹرنیشنل رائٹنگ پروگرام فال ریزیڈینسی کا حصہ کیوں کر بنے؟
انڈیا میں امریکی قونصل خانے اس پروگرام کے لیے مصنفین کو نامزد کرتے ہیں۔ چنئی میں واقع قونصل خانہ نے مجھے نامزد کیا اور میں نے اس نامزدگی کو بخوشی قبول کر لیا۔
ہند کے کسی تعلیمی ادارے کے مقابلے یونیورسٹی آف آئیووا میں تعلیمی اور ثقافتی طور پر وہ کون سا بعض نمایاں فرق تھا جو آپ نے محسوس کیا ؟
میرا پہلا مشاہدہ یہ رہا کہ ہمارے اپنے ملک کی بہ نسبت یہاں کا نظام کافی موثر طریقے سے کام کرتا ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی تعلیمی نظام میں ہر فرد کی قدر کی جاتی ہے ۔ ثقافتی طور پر مجھے یہاں ایک قسم کا انوکھا تجربہ ہوا ،حال آں کہ میں امریکی طرز زندگی کے بیش تر حصے سے واقف تھا ۔
وقت کی پابندی (جس کے مطابق ہر پروگرام شروع ہوا کرتا تھا) اور تدریسی عملے کے ہر فرد کا اپنے کام کے تئیں پابندِ عہد ہونا بھی حوصلہ افزا چیزیں تھیں ۔ قارئین کو معلوم ہوکہ امریکہ کسی بھی مخلص فنکار کو پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔
یونیورسٹی آ ف آئیووا میں قیام کے دوران ہونے والے تجربات کو براہ کرم مشترک کریں؟
یونیورسٹی آ ف آئیووا میں سیکھنے والی اہم چیزوں میں اپنے اوپر اعتماد کرنا اور ایسی آواز بننا جو دوسرے نہ بن سکیں،شامل ہیں۔ یعنی تربیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایسا مصنف بننے کی کوشش کریں جو ہماری زندگی کے ان تجربات کی معلومات فراہم کر سکے جو اپنے آپ میں منفرد ہونے کے ساتھ ہماری ثقافت کی نمائندگی بھی کرتے ہوں۔
شاعر یا مصنف بننے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
ایسے لوگوں کے لیے ایک ہی مشورہ ہے ،جتنا زیادہ ممکن ہو مطالعہ کریں۔ آپ کے ہاتھوں میں ادب کی جو بھی چیز آئے اس کی ہر شئے کو اشتیاق کے ساتھ پڑھیں۔ اس کے علاوہ مصوّری ، سنیما اور موسیقی جیسی فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف میں بھی دلچسپی لیں۔ ہر مصنف کو اپنی خصوصیات سے واقف ہونا چاہئے اوراپنے اطراف کے فنونِ لطیفہ سے استفادہ کرنا چاہئے۔
مستقبل کے اپنے وسیع اہداف پر روشنی ڈالیں۔
فی الحال میں ملیالم دلت شاعری کے مطالعے، اسے انگریزی میں ترجمہ کرنے اور دلتوں کے مسائل پر اپنی بات کہنے والے مصنفین اور افریقہ نژاد امریکی مصنفین کے درمیان بات چیت کے لیے ایک پلیٹ فارم فروغ دینے پر یکسوئی سے توجہ دے رہا ہوں ۔
میں نے حال ہی میں شین بُک، صفیہ سِنکلیئر، اَین وِنٹرس، ولادیمیرلیوسِن ، ایشیون ہچِنسن ، نتاشا ٹریتھوے اور کرِس ابانی کے کاموں کا جائز ہ لیا ہے ۔ان مصنفین کے طرز عمل پر ہی مجھے اپنی تحریر پر تجربہ کرنے کی تحریک ملی۔
جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ