یو ایس ایڈ کا اینجینڈرنگ یوٹیلٹیز پروگرام مردوں کی اکثریت والی صنعتوں میں موجود تنظیموں کے ساتھ کام کرتا ہے تاکہ خواتین کے لیے روزگارکے مواقع میں اضافہ ہونے کے ساتھ کام کرنے کی جگہ پر جنسی مساوات میں بہتری آئے۔
March 2021
یو ایس ایڈ اینجینڈرنگ یوٹیلیٹیز پروگرام نے بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ (بی آر پی ایل) میں والدیاتی تعطیل کے منصوبے کے قیام کی حمایت کی ، جو کمپنی کے لیے اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ ہے۔ تصویر بشکریہ بی آر پی ایل
افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کوشمولیت اور پائیدار ترقی کے عمل میں ایک اہم عنصر سمجھا جا تا ہے۔ اور گو کہ مختلف شعبوں میں خواتین کو مختلف النوع رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر پھر بھی کام کرنے کی جگہوں پر جنسی مساوات کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
امریکی ایجنسی برائے بین اقوامی ترقی کا اِنجینڈرنگ یو ٹیلٹیز پروگرام اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ اس کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کا مطمح نظر توانائی کا شعبہ ہے جس میں وہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ کی کاوشیں کررہاہے۔اس کی کوشش یہ بھی ہے کہ اس میدان کے دروازے کھولے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جنسی شمولیت، مالی مساوات اور تجارتی ترقی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ بھارت میں ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے یوایس ایڈ نے ٹاٹا پاور دہلی ڈسٹریبیوشن لمیٹیڈ (ٹی پی ڈی ڈی ایل)اور بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ (بی آر پی ایل) کے ساتھ ۲۰۱۹ ء سے اشتراک شروع کیا۔
انوراگ مشرا یو ایس ایڈ انڈیا میں صاف و شفاف توانائی کے ماہر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ امریکی حکومت کے آزاداور کھلے ہند۔بحرالکاہل خطے کے اہداف کی سربراہی بھی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”یہ یو ایس ایڈ کا ۲۰۱۵ء سے اُردن، جارجیا، مقدونیہ، نائجیریا اور کینیا میں جاری عالمی پہل کا حصہ ہے۔۲۰۱۸ء میں بھارت میں قومی طور پر رسائی کے عمل کے ایک حصے کے طور پر ٹی پی ڈی ڈی ایل اور بی پی آر ایل کی نشاندہی کی گئی۔ مذکورہ پروگرام کے تحت دونوں کمپنیاں اپنے یہاں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں۔“
مشرابتاتے ہیں کہ جب۲۰۱۹ء میں پروگرام نافذ کیا گیا تو اس وقت ٹی پی ڈی ڈی ایل میں خواتین عملہ ۴۱ فی صد تھا جسے کمپنی ۵۰فی صد کرنے کی خواہاں تھی۔ جب کہ بی آرپی ایل کے عملہ میں خواتین کا تناسب ساڑھے بارہ فی صد تھا۔ کمپنی کے پاس گرچہ کوئی ہدف نہیں تھامگرکمپنی جنسی مساوات میں اضا فے کی واقعی خواہاں تھی۔“
پروگرام کے آغاز میں ان بنیادی دشواریوں کا پتہ لگایا جاتا ہے جن کے سبب خواتین میدان میں کام نہیں کرپاتیں۔خواتین روایتی طور پر کالجوں میں تکنیکی مضامین میں داخلہ نہیں لیتی ہیں۔ خواتین کے سلسلے میں بعض تصورات آج بھی پائے جاتے ہیں جیسے کہ وہ لائن مین کا عہدہ نہیں سنبھال سکتیں یا گھر گھر جاکر میٹر ریڈنگ نہیں لے سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان نوکریوں کو اختیار کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ ٹی پی ڈی ڈی ایل اور بی آر پی ایل دونوں ہی نے اسکولوں سے کہا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں ملازمت کرنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔ بلکہ ان کمپنیوں نے تو تعلیمی اداروں میں جاکر نوکری کے لیے امیدواروں کو چننے کے دوران خواتین امیدواروں کو ترجیح دینا شروع بھی کر دیاہے۔
کام کرنے کی جگہ پر جنس
ہمیشہ ہی کمپنیوں کو جنسی انصاف کی اہمیت کے تئیں قائل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے لیکن جیسا کہ مشرا بتاتے ہیں کہ ٹی پی ڈی ڈی ایل اور بی آر پی ایل دونوں ہی کمپنیاں خواتین کے انضمام کی خواہش مند تھیں۔مشرا وضاحت کرتے ہیں ”اِنجینڈرنگ یوٹیلٹیز پروگرام کا ایک اہم جزو یہ باور کرانا ہے کہ خواتین کا انضمام سب کے لیے اچھا ہے۔ بلکہ یہ تجارت کے لیے بھی سود مند ہے۔“
اس پروگرام کے دو اہم اجزاء ہیں۔ایک ہے بہترین پریکٹس فریم ورک جس کا مقصد ملازم کے دورانیہ حیات میں جنسی انصاف میں اضافہ کرنا۔اس کے ذریعہ سے تنظیموں کووہ عملی وسائل حاصل ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے کاموں اور کارپوریٹ ڈھانچہ میں جنسی مساوات میں اضافہ کرسکتی ہیں۔دوسرا جزو ہے جینڈر اکیوٹی ایکزیکٹو لیڈر شپ پروگرام جس کا مقصد تنظیمی قائدین کی صلاحیتیں تشکیل دینا ہے تاکہ جنسی مساوات کے نازک خلاء کی نشان دہی کرکے ایسی مداخلتیں کی جائیں جن کے نتیجہ میں کمپنیوں کے اندر ہی خواتین کے لیے مواقع میں اضافہ ممکن ہو سکے۔
یو ایس ایڈاورجارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مِک ڈونو اسکول آف بزنس نے مشترکہ طور پر جینڈر اکیوٹی ایکزیکٹو لیڈرشپ پروگرام کے لیے ایک نصاب تشکیل دیا ہے جس کی مدد سے منتظم حضرات کارپوریٹ ڈھانچوں میں جنسی مساوات کے اقدامات کا بہتر طریقہ پر انضمام کر سکیں گے۔
مشرا بتاتے ہیں ”ہم شرکاء سے ایک خاص قسم کے عزم کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس پہل کے واسطے وہ اپنے عملہ سے بعض افراد اور بعض اوقات مختص کریں۔ پروگرام کے شرکا ء جب واپس آئیں تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی لائحہ عمل ضرور ہونا چاہئے۔مزید برآں،فیصلہ سازافراد ان منصوبوں کی حمایت کریں اور ان کے نفاذ میں معین و مددگار ثابت ہوں۔“
اہم پیش قدمیاں
ٹی پی ڈی ڈی ایل اور بی آر پی ایل کے ساتھ کام تو ۲۰۱۹ء میں ہی شروع ہو گیا تھا مگر کووِڈ۔۱۹ کی وجہ سے اِنجینڈرنگ یوٹیلٹیز پروگرام کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جیسا کہ مشرا بیان کرتے ہیں، دونوں شرکاء نے لاک ڈاؤن کے باوجود جنسی مساوات کی جانب اہم پیش قدمیاں کیں۔دونوں ہی شرکاء نے گھر سے کام کرنے کی پالیسی اپنائی جس سے خواتین کو اپنے گھروالوں اور خاص طور بچوں کی دیکھ بھا ل کا موقع ملاجبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ کمپنی کے لیے بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔مشرا کہتے ہیں ”یہ اہم تھا کیوں کہ توانائی کا شعبہ ہمیشہ سے میدانی کام سے منسلک رہا ہے۔انہوں نے بعض امور جیسے میدانی کام سے جڑے حفاظتی معاملات کا بھی خیال رکھا جس سے زیادہ خواتین کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔“
عالمی وبا کی وجہ سے کووِڈ۔۱۹ایک غیر معمولی سال رہا مگر مذکورہ پروگرام اس کے باوجود کامیاب رہا۔ مشرا انکشاف کرتے ہیں کہ بی آر پی ایل میں خواتین پر مبنی تکنیکی عملہ کی نشاندہی کرکے اسے ترقی دی گئی۔ٹی پی ڈی ڈی ایل میں ان ہی میں سے ایک کا انتخاب ٹا ٹا پاور کی سی ای او کی حیثیت ہو گیا۔ ٹا ٹا پاور ٹی پی ڈی ڈی ایل کی معاون کمپنی ہے۔
مشرا کہتے ہیں ”مستقبل میں بھی پروگرام وسیع بنیادوں پر جنسی شمولیت کی طرفداری کرتا رہے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پہل میں مرد ملازمین نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا اور اس کی پُر زور وکالت کی۔ چونکہ پروگرام کا ایک جامع فریم ورک ہے، لہٰذا اس کے نتیجے میں تبدیلی یکلخت واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ متواتر اقدامات کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔“
پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔
تبصرہ