انعام برائے تحفظِ خوراک

’ورلڈ فوڈ پرائز ‘ دنیا میں غذا کے معیار، مقدار یا دستیابی میں اضافے کی خاطر اختراعات کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

July 2022

انعام برائے تحفظِ خوراک

(آئی پوپبا/آئی اسٹٓاک/گیٹی امیجیز)

بہت سی چیزوں کو غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غذا بقا  کی ضرورت، ایک قیمتی وسیلہ، مطالعہ اور تیاری کی  خوشی، خاندان اور برادری کے لیے ایک مرکزی نقطہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک ایسا شعبہ  بھی ہوسکتا ہے جہاں دنیا کو تبدیل کر دینے والی اختراعات انجام پاتی ہیں۔

ان میں سے بہت سی اختراعات کو’ ورلڈ فوڈ پرائز  ‘تسلیم کرتا  ہے۔ ۱۹۸۷ء سے اب تک نو بھارتی سائنسدانوں نے اس مقبول  اعزاز کو  جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایم ایس سوامی ناتھن پہلے سائنسداں تھے جو اس اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر میں بھارت کے سبز انقلاب میں ان کی گراں قدر  خدمات کے اعتراف میں انہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

بھارتی کونسل برائے زرعی تحقیق (آئی سی اے آر) کے سابق ڈائریکٹر جنرل راجندر سنگھ پروڈا اس اعزاز  کو زراعت کے شعبے میں نوبل امن انعام کے مساوی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یہ ان افراد کی خدمات کو تسلیم کرنے والا سب سے بڑا بین الاقوامی ایوارڈ ہے جنہوں نے دنیا میں غذا کے معیار، مقدار یا دستیابی میں اضافے کا کام انجام دیا ہے۔‘‘

’ورلڈ فوڈ پرائز‘ کو امریکی سائنسداں نارمن بورلاگ نے حقیقت کی شکل دی تھی جنہوں  نے عالمی زراعت میں اپنے کام کے لیے امن کا نوبل انعام جیتا تھا۔ یہ اعزاز  ہر سال امریکی ریاست  آئیووا کے شہر  ڈیس موئنز میں عطا کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مکالمے کے شعبے میں خدمات انجام دینے والے فاؤنڈیشن کی سینئر ڈائریکٹر وکٹوریہ چِیا کہتی ہیں ’’اختراعات  کو فروغ دینے  اور سب کے لیے غذا کے معیار، مقدار اور دستیابی میں پائیدار اضافے  کی خاطر عمل کی ترغیب کے لیے ہی ورلڈ فوڈ پرائز فاؤنڈیشن اپنا وجود رکھتا ہے۔ معیاری اورغذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی انسانی وجود کے لیے ایک بنیادی مسئلہ ہے اورہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے یہ کتنا ضروری بھی ہے۔‘‘

چِیا کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پرائز کے ذریعے فاؤنڈیشن کا مقصد نہ صرف اس اعزاز سے سرفراز ہونے والوں کو عزت و توقیر بخشنا ہے بلکہ غذا اور زراعت کی دنیا میں  ’’ذہین لوگوں اور ہونہار اختراع سازوں‘‘کو اکٹھا کرنا بھی  ہے۔اس کے ساتھ ساتھ  اس کا مقصد ان تنظیموں اور سرکاری عہدیداروں کی مدد کرنا ہے جو ہم خیال اہداف کے لیے پرعزم ہیں۔

۲۰۲۰ء میں رتن لعل ورلڈ فوڈ پرائز سے سرفراز کیے گئے تھے۔ رتن لعل مٹی پر تحقیق کرنے والے معروف سائنسداں  ہیں  اور فی الحال اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تحقیق کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کام سادہ لیکن طاقتور فلسفے پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب صحت کی بات آتی ہے تو مٹی، پودے، جانور، انسان اور مجموعی طور پر  ماحول، سب لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں۔

 

رتن لعل کہتے ہیں ’’میرا مقصد زراعت کی نوعیت کو تبدیل کرنا اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کے معیار، حیاتیاتی تنوع اور انسانی صحت کے لیے ایک حل کے طورپر استعمال کرنا ہے۔لوگ اس زمین کی آئینہ دکھانے والی تصاویر ہیں جس پر وہ رہتے ہیں۔ جب لوگ پریشان ہوتے ہیں تو وہ اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کو زمین کی جانب منتقل کر دیتے  ہیں اور پھر زمین بھی انہیں انسانوں کی جانب ہی منتقل کردیتی ہے۔ ہمیں اس موذی سلسلے کو توڑنا ہوگا۔‘‘

عملی طور پررتن  لعل کا کام مٹی کو صحت مند رکھنے کے طریقوں پر مرکوز ہے تاکہ کم وسائل کا استعمال کرکے زیادہ غذا پیدا کی جا سکے۔ وہ اسے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں شروع ہونے والے اہم سبز انقلاب کے دوران بھارت میں فصلیں اگانے کے طریقہ کار کو بنیادی طورپر رخصت کرنے کا ایک طریقہ خیال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سبز انقلاب چاول اور فصلوں کی دیگر اقسام کے استعمال سے کامیاب ہوا جس میں زیادہ کھاد اور زیادہ پانی کا استعمال کیا گیا۔ عالمی سطح کی بات کی جا ئے تو ’’سبز انقلاب سے پہلے کے مقابلے اب ۱۰ گنا زیادہ نائٹروجن، پانچ گنا زیادہ فاسفورس، پوٹاشیم اور کیڑے مار ادویات اور آبپاشی کے لیے پانچ گنا زیادہ پانی کا استعمال کیا جارہا ہے۔لیکن جب زراعت کی بات آتی ہے تو شرح کی جگہ کارکردگی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔‘‘

مٹی کی صحت کے بارے میں لعل کی تحقیق نے انہیں ’مٹی پر مرکوز انقلاب‘کی جانب بڑھنے میں مدد کی ہے جس کا مقصد غذا کی پیداوار  کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا لیکن اس کے لیے وسائل کا کم سے کم استعمال کرنا ہے۔

ایک پائیدار، غذا سے بھرپور مستقبل کی  تشکیل  دنیا کے مشہور سائنسدانوں کے کام سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ان لوگوں کو جو رتن لعل کی مثال کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، وکٹوریہ چیا تعلیم، استقامت اور عمل کرنے کا مشورہ دیتی  ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’آپ اسے مقامی طور پرشروع کریں اور اپنے اردگرد غذائی عدم تحفظ اور زرعی مسائل کے بنیادی ذرائع کی نشاندہی کریں۔ان مسائل کو حل کرنے کے بارے میں غوروفکر کے لیے تخلیقی صلاحیت اورعلم کا استعمال کریں۔‘‘

مثال کے طور پر غور کریں کہ کیا مقامی زرعی مسائل کے لیے سائنسی نقطہ نظر چیزوں کو بہتر بنائے گا یا اس کے لیے ضروری فنڈس میں اضافہ اسے حل کر پا ئے گا؟ کیا غذا کی تقسیم کا ایک بہتر نظام معاشرے کے مسائل کو حل کرے گا یا پھر کیا مقامی کسانوں کو مزید تربیت اور خصوصی علم کی ضرورت ہے؟ چیا کا مشورہ ہے ’’اس کا تجزیہ کریں، حل تجویز کریں اور زراعت یا غذائی تحفظ کو اپنا کرئیربنا لیں تاکہ آپ ان مسائل کی گہرائی تک جا سکیں۔‘‘

مقامی یا عالمی دونوں ہی سطحوں پر زراعت، پائیداری اور غذا تک رسائی کے مسائل وسیع اور غالب نظر آ  سکتے  ہیں۔ لیکن رتن لعل نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بلا تفریق اسے جاری رکھیں۔ وہ کہتے ہیں ’’زمین پر ہم انسانوں کی آبادی  آٹھ بلین ہے  اور ہم میں سے ہر ایک اس کا مجرم بھی ہے اور شکار بھی۔اگربھارت ہر باشندہ کاربن اور پانی (جسے وہ استعمال کرتا ہے) کی مقدار کو ۵ فی صد تک کم کرنے کا عہد کرے اوراسے  ایک اعشاریہ ۴ بلین  کی آبادی سے ضرب کیا جائے تو اس کا اثر بہت وسیع ہوگا۔‘‘

ماحولیاتی پائیداری ہزاروں برسوں سے انسانی زندگی کا بنیادی مرکز رہی ہے اور فطرت کا احترام تو بھارت میں ثقافتی اقدار میں شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ہم اسے بالکل فراموش کر چکے ہیں۔  اب  اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے اس کے بارے میں سکھانے کا اور اسے یاد رکھنے کا وقت آچکا ہے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اورسی ای او ہیں۔ وہ نیویارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے